جرمن زبان کا ایک مقولہ ہے کہ “دانت کا درد اور اندوہ دل دونوں ہی یک دم اور انتہائی نامناسب وقت میں لاحق ہوتے ہیں”—اس مقولے کی سچائی گویا میرے حال پر ایک حقیقت بن کر نازل ہوئی ہے۔
مسلسل کئی روز سے دانتوں کی وہ کیفیت ہے کہ جیسے ساری کائنات کے درد کا مرکز بن گئے ہوں، ان کی حالت غریب کی کٹیا کے کچے چھت جیسی ہوئی پڑی ہے کہ جس کی ایک درز کو ابھی بند نہیں کیا ہوتا کہ دوسرا سوراخ ٹپکنے لگتا ہے یا پھر جون ایلیا کی روح سے معذرت کے ساتھ،
کون اس منہ کی دیکھ بھال کرے
روز اک دانت ٹوٹ جاتا ہے”.
شاید ہی کوئی دن جاتا ہو کہ جس روز دندان ساز کے ہاں وقت مقرر نہ ہو۔ یکے بعد دیگرے تین جراحیاں ہو چکی ہیں اور درجن بھر ٹانکے منہ میں خیمہ زن ہیں. جون نے جب شرارت میں خون تھوکا تو وجہ اندوہ دل تھی لیکن میرا معاملہ مختلف ہے مجھے درد دندان نے لگاتار خون تھوکنے جیسی مکروہ حرکت پر مجبور کر رکھا ہے.
درد کش ادویات کی زیادہ سے زیادہ جس مقدار کی اجازت ہے وہ بھی لے رہا ہوں لیکن درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کہ مصداق تکلیف ہے کہ بس بڑھتی ہی جا رہی ہے، اور بقول معالج کچھ دن مزید اس تکلیف کو یوں ہی برداشت کرنا ہو گا.
ہمارے یہاں اس ہفتے کی ابتداء میں اختتام پزیر ہونے والی گرمیوں کی چھٹیوں کے اختتام کے ساتھ ہی معمولاتِ زندگی اپنی پرانی روش پر آ چکے ہیں۔ تعلیمی ادارے واپس کھل چکے اور ملازم پیشہ افراد بھی واپس اپنے کاموں کو لوٹ چکے ہیں، یہ ابتدائی ہفتے کام کے لحاظ سے غیرمعمولی اہمیت اور توجہ کے حامل ہوتے ہیں اور میرے لیے تو اس لحاظ سے بھی کہ ماضی قریب میں ہی جن تنظیموں یا اداروں کی زمہ داریاں مجھ پر پڑی ہیں (جیسے “این او این جرمنی”، “فرابی”، الکیمی میگزین، المورد انسٹیٹیوٹ جرمنی، وغیرہ) ان کے حوالے سے ان ہی ایام میں اہم میٹینگز پہلے سے ہی طے تھیں، مزید ہماری سیاسی جماعت “جسٹس پارٹی” جرمنی، اور اس سے متعلقہ کچھ سرگرمیوں کے لیے بھی یہ ہی ایام بہت اہم تھے جن میں، میں بلکل ناکارہ و نیم مدہوشی کی حالت میں پڑا ہوں.
گو کہ گزشتہ ہفتے، باوجودِ علالت کے، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کا ضروری سفر نپٹایا، اسی سے متصل کچھ نشستوں میں شرکت بھی کی مگر اس کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئندہ دو دن دوگنی تکیلف و نقاہت میں گزر گئے۔ یوں گویا ہر کوشش کے بعد جسم کی بغاوت کا سامنا ہے۔
ہر منظر ایک دھندلی تصویر کی طرح نظر آ رہا ہے۔ درد کش ادویات کے زیرِ اثر گویا ہوش و خرد سے بیگانگی کی سی کیفیت طاری ہے۔ فراغت کے ایسے دنوں میں تو کتابیں ہی دوست بنتی تھیں، مگر اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں بوجھل ہیں، اور چاہ کر بھی کچھ سطور سے زیادہ نہیں پڑھی جاتیں.
منظر لکھنوی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے غم میں کچھ غم کا مشغلہ کرنے کو دل کی شکستگی اور اندوہِ دل کے وہ سب واقعات اور حادثات یاد کیے جنہوں نے برس ہا برس بے چین رکھا تھا کہ شاید انہیں خیال میں لا کر اس درد سے ذہن کو کچھ لمحے خلاصی دلوائی جا سکے مگر اس درد کی کسی اور درد سے دوا کرنے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہوئی اور “الم السنان” ہنوز درجہ امامت پر فائز ہے.
رات گئے بستر پر کروٹیں لیتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ واقعی جان ہے تو جہان ہے. کہنے کو تو صرف ایک دانت کا درد ہی لاحق ہے لیکن اس نے کیسے ایک تندرست و توانا آدمی کو کچھ ہی لمحوں میں بستر پر پٹخ دیا ہے، کرنے کو تو اگلے کئی ماہ پلان کیے جا چکے تھے لیکن جسم کے ایک چھوٹے سے پرزے میں گڑبڑ کیا ہوئی سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا. جب سب ٹھیک چل رہا ہو تو واقعتا انسان کو اس نعمت کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا جو اسے بطور “صحت” بارگاہ حق سے ودیعت کی گئی ہے، لیکن کمزوری یا بیماری لاحق ہو تو معلوم پڑتا ہیکہ تندرستی کتنی بڑی نعمت و انعام ہے.
دعا ہیکہ خدا میرے سمیت سب کو صحت و تندرستی میں ہی رکھے کہ تندرستی واقعی ہزار نعمت ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں