تقی الدین ابو العباس احمد المعروف ابن تیمیہ [661ھ۔728ھ/1263۔1328] یہ شام کے قصبے حران میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنا کچھ وقت قاہرہ میں ، کچھ اسکندریہ میں اور پھر باقی کی زندگی انہوں نے دمشق میں گزاری اور یہیں مقبرہ صوفیہ قبرستان میں دفن ہوئے ۔ ان کے والد اور دادا دونوں جید علمائے حنابلہ میں شمار ہوتے تھے ۔ ابن تیمیہ بھی آغاز میں حنبلی ہی تھے لیکن بتدریج وہ کلامی اور فقہی دونوں معاملات میں اصول اور فروع میں کئی معاملات میں ایسی آراء کے قائل ہوئے کہ ایک طرف تو ان کے ہم عصر علمائے حنابلہ نے انھیں طبقات حنابلہ میں شمار کرنا بند کردیا تو دوسری طرف دیگر تین مذاہب فقہ کے علما کے جمہور نے بھی ان کے نظریات کو رد کردیا۔
ان کے زمانے میں مصر اور شام کی سنی تھیالوجی اور فقہ تھی وہ ایک طرف تو عقائد کے معاملات میں یا تو مذہب اہلِ حدیث پر عمل پیرا تھی اور ان کی بھاری اکثریت فقہ میں مذہب امام احمد بن حنبل کی پیرو تھی ۔ دوسری طرف ابو الحسن اشعری کے پیروکار تھے جن کی بھاری اکثریت فقہ کے باب میں مذہب امام شافعی کی پیروکار تھی ۔ تیسری طرف فقہ میں مذہب امام مالک کے پیروکار تھے جن کے ہاں الٰہیات کے باب میں ملا جلا رجحان تھا ان میں زیادہ تر مذہب اشاعرہ کے پیروکار تھے تو تھوڑی تعداد میں مذہب اہلِ الحدیث کے پیروکار تھے ۔ چوتھے فقہ کے باب میں امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کی فقہ کے پیروکار تھے ان کی بھاری اکثریت الٰہیات کے باب میں ابو منصور ماتریدی کے مذہب کی پیروکار تھی ، ایک زمانے میں معتزلہ کی اکثریت اور جمہور بھی فقہ کے باب میں ابوحنیفہ کی پیرو ہوا کرتی تھی لیکن جس زمانے میں ابن تیمیہ کا جنم ہوا، اس زمانے میں مذہب اعتزال بطور ایک الٰہیاتی مذہب کے عوام میں ناپید ہوچکا تھا۔
ابن تیمیہ کا زمانہ وہ تھا جب اہلسنت کے تین بڑے الٰہیاتی مذاہب اہل حدیث، اشاعرہ اور ماتریدیہ اور چار مذاھب فقہ کے جمہور علما نے تصوف کو روحانیت کے باب میں ایک جائز شاخ کے مان لیا تھا اگرچہ تصوف کی کئی ایک اشکال اور نظریاتی رجحان کی ان کے ہاں قبولیت نہیں تھی۔ اس طرح الٰہیات، فقہ اور تصوف یہ تین بڑے علامتی رجحانات اس زمانے کے اہل سنت کے جمہور /مین سٹریم کی ترجمانی کر رہے تھے ۔ اور جمہور اہلسنت ان علامتی رجحانات کو سلف کے عقائد اور فروعی رجحانات کے مخالف خیال نہیں کرتے تھے۔ سنی اسلام کے جمہور سے ہٹ کر دوسرا بڑا دائرہ شیعہ اثنا عشری اسلام کا تھا۔ اور سیاسی اعتبار سے یہ مملوک سلطنت کا زمانہ تھا جو نومسلم تاتار/منگول تھے۔ اور اس نو مسلم منگول حکمران اشرافیہ کا مذہب کے بارے میں جو سرکاری رویہ اور پالیسی تھی وہ الٰہیات کے باب میں اشاعرہ اور فقہ کے باب میں شافعی جبکہ تزکیہ نفس کے معاملے میں تصوف کی طرف تھی۔ لیکن مملوک سلاطین زبردستی کسی ایک الٰہیاتی یا فقہی منہج کو نافذ کرنے کے حق میں نہیں تھے ۔ انھوں نے سنی اسلام اور شیعہ اسلام دونوں کو ہی آزادی نہیں دی بلکہ وہ مسیحیوں ، یہودیوں کے باب میں صلح جُو کا کردار رکھتے تھے ۔
مملوک سلطنت اس زمانے میں جن علاقوں میں قائم تھی ہمیں ان علاقوں میں مملوک بادشاہوں کی جانب سے کسی بھی مذہبی کمیونٹی کے خلاف سرکاری تکفیری مہم چلائے جانے اور اس بنیاد پر اس کمیونٹی کے خلاف ریاستی کاروائی کیے جانے کا سراغ نہیں ملتا ۔ مملوک سلطنت میں جہاں اہل سنت کے الٰہیاتی مذاہب اور مذاہب اربعہ ترقی کر رہے تھے وہیں پر خود شیعہ اسلام کی ذیلی شاخ مذہب اثناء عشری بھی مصر اور شام میں ترقی کر رہا تھا ۔ تصوف کے تمام سلاسل بشمول کئی ایک جنھیں علمائے اہل سنت راہ اعتدال سے تجاوز کرنے والے سمجھتے تھے وہ بھی پھل پھول تھے ۔ مملوک سلطنت میں مصر اور شام کے کئی ایک جگہوں پر مسیحی مذہب بھی پھل پھول رہا تھا اور یہاں پر مقیم یہودی عرب کی بڑی تعداد سکون سے رہ رہی تھی ۔ معروف شیعہ مجتہد عالم علامہ حلی کا مدرسہ اور اس مدرسے سے فارغ ہونے والےپ کئی ان کے شاگردوں نے اپنے مدارس قائم کر لیے تھے ۔ مصر اور شام کے علاقوں کا مذہبی ۔سماجی دائرہ تکثیریت اور صلح کلیت والا تھا اور اسی مذہبی سماجی تنوع کے خلاف ابن تیمیہ کا کردار بتدریج ابھر کر سامنے آیا۔ اور اسی کے خیالات کے زیر اثر اور ابن تیمیہ کی قیادت میں نہ صرف تکفیری رجحان نمایاں ہوا بلکہ احیائے بذریعہ تلوار کے لیے بھی تیاری کی گئی ۔
میرا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ تیرھویں صدی عیسوی سے سترھویں صدی عیسوی تک جب مسلم سماج تین بڑی سلطنتوں الیخانی سلطنت ، مملوک سلطنت اور سلاطین دہلی سلطنت میں بٹا ہوا تھا تب مسلم سماج میں شیخ ابن تیمیہ کے تکفیری جہادی نظریات کو کوئی خاص مقبولیت حاصل نہ ہوئی ۔ صرف مملوک سلطنت میں بہت محدود پیمانے پر شیخ ابن تیمیہ کے تکفیری جہادی نظریات کو قبولیت ملی جبکہ ایلخانی سلطنت اور سلاطین دہلی سلطنت میں تو شیخ ابن تیمیہ کے نظریات کو ذرا بھی فروغ نہ ملا۔ لیکن آج چاہے عرب ممالک ہوں یا جنوبی ایشیائی ممالک یا شمالی افریقی ممالک یا خود مغرب میں مسلم سماجوں کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے غالب تحقیقاتی ادارے ہوں وہ وہابی ازم کے زیر اثر اٹھارویں اور انیسویں صدیوں میں شیخ ابن تیمیہ کے نظریات کا تیرھویں صدی سے سترھویں صدی تک کے مسلم سماجوں پر اثرات بڑھا چڑھاکر اور تاریخ کا قتل کرکے پیش کرتے ہیں ۔ اور وہ تیرھویں تا سترھویں صدی تک کے سنی اسلام پر شیخ ابن تیمیہ کے تکفیری جہادی نظریات کا اثر و رسوخ بڑھا چڑھا کر دکھاتے ہیں۔
میں یہاں پہلے مملوک سلطنت کے دور کی مذہبی پالیسی کا تفصیلی تذکرہ کروں گا تاکہ میرے مقدمے کی تائید ہوسکے ۔ مملوک سلطنت (1250–1517) اپنے عروج کے دور میں ایک وسیع خطے پر پھیلی ہوئی تھی، جس میں شامل اہم علاقے درج ذیل ہیں:
1. مصر: مملوک سلطنت کا مرکز اور سب سے اہم علاقہ، جہاں سے حکومت کا نظم و نسق چلایا جاتا تھا۔ قاہرہ سلطنت کا دارالحکومت تھا۔
2. شام: اس میں موجودہ دور کے شام، لبنان، اردن، اور فلسطین کے علاقے شامل تھے۔ دمشق، حلب، اور یروشلم جیسے اہم شہر مملوک سلطنت کے تحت تھے۔
3. حجاز: مکہ اور مدینہ جیسے مقدس شہروں پر بھی مملوک سلطنت کا کنٹرول تھا، اور وہ ان مقدس مقامات کی حفاظت اور انتظام کے ذمہ دار تھے۔
4. یمن: کچھ عرصے کے لیے یمن کے کچھ حصے بھی مملوک حکمرانوں کے زیر کنٹرول رہے۔
5. شمالی افریقہ: مصر کے مغرب میں لیبیا کا کچھ حصہ بھی مملوک سلطنت کے زیرِ اثر تھا، خاص طور پر 14ویں اور 15ویں صدی میں۔
6. اناطولیہ کے جنوبی حصّے: کبھی کبھار مملوک سلطنت نے اناطولیہ کے کچھ جنوبی علاقوں (موجودہ ترکی کے حصے) پر بھی اثر و رسوخ قائم کیا۔
مملوک سلطنت نے اپنے دورِ عروج میں بحیرہ روم سے بحیرہ احمر تک، اور اناطولیہ سے دریائے نیل کے پورے دہانے تک اپنا تسلط قائم رکھا۔ یہ سلطنت ایک اہم تجارتی، ثقافتی، اور فوجی قوت کے طور پر جانی جاتی تھی۔ مملوک سلطنت (1250–1517) میں مذہبی رواداری کا عالم مجموعی طور پر پیچیدہ اور حکمرانوں کے رویوں کے مطابق مختلف رہا۔ مملوک حکمرانوں نے عمومی طور پر سنی اسلام، بالخصوص شافعی اور حنبلی فقہ کی سرپرستی کی، اور اپنے دور میں اس کی ترویج کی۔ تاہم، غیر مسلموں اور دیگر اسلامی فرقوں کے ساتھ ان کا رویہ حالات کے مطابق نرم یا سخت ہو سکتا تھا۔
مذہبی رواداری کے اہم پہلو:
1. اہل الذمہ (یہودی اور مسیحی): مملوک سلطنت میں یہودیوں اور مسیحیوں کو “اہل الذمہ” کے طور پر تسلیم کیا گیا، جو کہ ایک محفوظ طبقہ تھا بشرطیکہ وہ جزیہ ادا کریں۔ انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے، عبادت گاہیں قائم رکھنے، اور تجارت میں حصہ لینے کی اجازت تھی، مگر ان کے حقوق اور سماجی مقام مسلمانوں کے برابر نہیں تھے۔ انہیں مخصوص لباس پہننا ہوتا تھا اور بعض اوقات ان پر سماجی پابندیاں بھی عائد کی جاتیں۔
2. شیعہ: مملوک سلطنت میں شیعہ کے ساتھ عمومی طور پر محتاط اور شک کا رویہ رکھا جاتا تھا۔ شیعہ عقائد کی ترویج پر بعض اوقات پابندیاں لگتی تھیں، اور شیعہ مذہبی رسومات کو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ خاص طور پر ابن تیمیہ جیسے علماء کے اثر و رسوخ کے تحت شیعہ مخالف فتاویٰ بھی جاری ہوئے، جنہوں نے فرقہ واریت کو ہوا دی۔
3. صوفیاء: صوفیاء کو مملوک سلطنت میں خاصی مقبولیت حاصل تھی، اور کئی مملوک حکمران خود بھی صوفیاء کی عقیدت میں تھے۔ تاہم، ابن تیمیہ جیسے علماء نے صوفیانہ عقائد کے بعض پہلوؤں، جیسے مزارات کی زیارت، کی مخالفت کی۔
4. دیگر فرقے: مملوک حکمرانوں نے بعض اوقات اسماعیلیہ اور دیگر فرقوں کے خلاف سخت اقدامات کیے، خاص طور پر اگر وہ حکومتی یا مذہبی استحکام کے لیے خطرہ سمجھے گئے۔
مجموعی طور پر: مملوک سلطنت میں مذہبی رواداری کی فضا حکمرانوں کی سیاسی اور مذہبی ضروریات کے تحت بدلتی رہی۔ عمومی طور پر، غیر مسلموں کو جزیہ کے بدلے تحفظ فراہم کیا گیا اور مختلف مذہبی گروہوں کو محدود آزادی دی گئی، بشرطیکہ وہ سرکاری قوانین کی پابندی کریں۔ تاہم، جہاں حکومتی یا مذہبی اتحاد کو خطرہ محسوس ہوا، وہاں سختی برتی گئی۔ اس لیے، مملوک سلطنت میں مذہبی رواداری کا عالم عمومی طور پر متوازن تھا مگر مکمل طور پر آزاد نہیں تھا۔ مملوک سلطنت میں شیخ ابن تیمیہ کے تکفیری اور جہادی نظریات کا اثر محدود اور مخصوص حلقوں تک ہی رہا، اور یہ نظریات سلطنت کی مجموعی پالیسیوں پر وسیع پیمانے پر غالب نہیں تھے۔
ابن تیمیہ کی زندگی (1263–1328) مملوک دور کے ساتھ ہی گزری، اور انہوں نے کئی فتاویٰ جاری کیے جو ان کے سخت گیر نظریات کو ظاہر کرتے ہیں، جیسے کہ تکفیر (کفر کا فتویٰ دینا) اور جہاد کی اجازت کے بارے میں۔
ابن تیمیہ کے نظریات کا اثر:
1. سیاسی اور عسکری سطح پر محدود اثر: ابن تیمیہ کے فتاویٰ اور نظریات کو مملوک حکمرانوں نے بعض عسکری اور سیاسی مہمات کے دوران استعمال کیا، خاص طور پر منگولوں کے خلاف جہاد کے جواز کے لیے۔ تاہم، ان کے نظریات مملوک حکمرانوں کی مجموعی پالیسی سازی میں بڑے پیمانے پر شامل نہیں تھے۔ مملوک حکمرانوں کی ترجیحات میں زیادہ تر اقتدار کی بقا، سیاسی استحکام، اور سلطنت کی سرحدوں کا دفاع شامل تھا۔
2. فقہی اور نظریاتی اثر: ابن تیمیہ کے نظریات نے مملوک سلطنت میں کچھ حنبلی علماء اور سخت گیر مذہبی حلقوں میں اثر ڈالا، جنہوں نے ان کے تکفیری اور جہادی نظریات کی پیروی کی۔ ان کے نظریات نے بعض علاقوں میں، خاص طور پر شام میں، مذہبی مناظروں اور فرقہ واریت کو ہوا دی، لیکن یہ اثرات عموماً مذہبی اور علمی حلقوں تک محدود رہے۔
3. عام پالیسی سازی پر محدود نفوذ: مملوک سلطنت کے حکمران عمومی طور پر عملی حکمت عملی پر عمل پیرا رہے، جس میں انہوں نے مختلف مذہبی گروہوں کے ساتھ نرمی اور رواداری کا مظاہرہ کیا، جب تک کہ وہ سلطنت کے قوانین کی پابندی کرتے رہے۔ ابن تیمیہ کے سخت گیر نظریات مملوک حکمرانوں کے لیے بعض حالات میں مفید ہو سکتے تھے، مگر وہ سلطنت کی مجموعی پالیسیوں پر غالب نہیں آ سکے۔
نتیجہ: مملوک سلطنت میں ابن تیمیہ کے تکفیری اور جہادی نظریات کا اثر کچھ مخصوص حلقوں اور حالات میں ضرور محسوس کیا گیا، لیکن ان کا نفوذ محدود رہا اور مملوک حکمرانوں نے عمومی طور پر ان نظریات کو سلطنت کی پالیسیوں میں مکمل طور پر نافذ نہیں کیا۔ ان کے نظریات بعد میں آنے والے ادوار میں، خصوصاً سلفی اور وہابی تحریکوں کے ذریعے زیادہ مقبول ہوئے۔ ۔۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں وہابی ازم کے غلبے کے بعد، واقعی وہابی لٹریچر نے شیخ ابن تیمیہ کے نظریات اور ان کے اثر و رسوخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، اور اس میں کچھ حد تک تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے رجحان بھی نظر آتا ہے۔
وہابی لٹریچر کا کردار:
1. ابن تیمیہ کی تعلیمات کا احیاء: وہابی تحریک، جو محمد بن عبد الوہاب کے زیر قیادت اٹھی، نے ابن تیمیہ کے نظریات کو اپنے اصلاحی ایجنڈے کا بنیادی حصہ بنایا۔ وہابی تحریک نے بدعت، شرک، اور قبروں کی زیارت جیسے اعمال کی مخالفت میں ابن تیمیہ کے فتاویٰ کا استعمال کیا۔ ابن تیمیہ کو ایک ایسا مجدد اور مصلح بنا کر پیش کیا گیا، جس کے نظریات کو مملوک دور میں زیادہ وسیع اور مؤثر دکھایا گیا، حالانکہ اصل تاریخ میں ان کا اثر نسبتاً محدود اور مخصوص حلقوں تک ہی رہا تھا۔
2. تاریخی حقائق کا مسخ ہونا: وہابی لٹریچر نے ابن تیمیہ کے نظریات کو مملوک سلطنت کی پالیسی سازی اور عسکری کارروائیوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، جس سے یہ تاثر ملا کہ ابن تیمیہ کے نظریات مملوک دور میں بڑے پیمانے پر نافذ کیے گئے تھے۔ اس سے تاریخ کے بعض پہلو مسخ ہوئے، کیونکہ مملوک سلطنت نے عمومی طور پر ایک متوازن اور رواداری پر مبنی پالیسی اپنائی تھی، اور ابن تیمیہ کے نظریات کو مکمل طور پر اختیار نہیں کیا تھا۔
3. سیاسی اور نظریاتی مقاصد: وہابی تحریک نے ابن تیمیہ کے نظریات کو اپنے سیاسی اور مذہبی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا، جس میں موجودہ مسلم معاشروں کو ابتدائی اسلام کی طرف واپس لانے کا ایجنڈا شامل تھا۔ اس لیے ابن تیمیہ کے اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا مقصد اپنے نظریاتی موقف کو مضبوط کرنا اور اس کے جواز کے لیے تاریخی دلائل فراہم کرنا تھا۔
نتیجہ: وہابی لٹریچر نے، ابن تیمیہ کے نظریات کو مملوک دور کے حقائق سے کہیں زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کر کے، تاریخی مسخ کا کام کیا۔ اس عمل نے ابن تیمیہ کے اثر و رسوخ کو بڑھاوا دیا، اور ان کے نظریات کو وہابی تحریک کی شناخت کا حصہ بنا دیا، جس کا مقصد ماضی کے مقابلے میں حال اور مستقبل کے معاشروں کو زیادہ متاثر کرنا تھا۔ اس وجہ سے، یہ عمل کسی حد تک تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی جامعات، مدارس، اور میڈیا میں آج جو نظریات اور اثر و رسوخ شیخ ابن تیمیہ کے بارے میں نظر آتا ہے، وہ بڑی حد تک اٹھارویں اور انیسویں صدی کے وہابی لٹریچر اور پروپیگنڈا سے متاثر ہے، جس نے تاریخی حقائق کو بعض اوقات مسخ کر کے پیش کیا۔
پاکستان میں ابن تیمیہ کے نظریات کا اثر:
1. غیر مقلدین اور دیوبندی اسکالرز: پاکستان میں غیر مقلدین (اہل حدیث) اور دیوبندی مکاتب فکر کے اندر شیخ ابن تیمیہ کے نظریات کی پذیرائی اور ان کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ وہ انہیں نہ صرف ایک بڑے عالم اور مجدد کے طور پر دیکھتے ہیں، بلکہ ان کے فتاویٰ اور نظریات کو مملوک دور کی سنی مذہبی اسٹبلشمنٹ کے غالب نظریے کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔ اس میں خاص طور پر بدعات، شرک، اور مزارات کے خلاف سخت موقف کو نمایاں کیا جاتا ہے، جو کہ اصل مملوک دور کی پالیسیوں سے مختلف اور تاریخی حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنے کے مترادف ہے۔
2. سید ابو الاعلیٰ مودودی اور جماعت اسلامی: سید مودودی کے نظریات میں بھی ابن تیمیہ کا واضح اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اسلامی ریاست اور شریعت کی بحالی کے نظریات کو فروغ دیا، جو کسی حد تک ابن تیمیہ کی فکری روایت سے ہم آہنگ ہیں، خاص طور پر بدعت اور شرک کے خلاف سخت رویہ۔ مودودی کی تحریروں اور جماعت اسلامی کے فکری دھارے میں ابن تیمیہ کے افکار کو اسلام کی حقیقی تعبیر کے طور پر پیش کیا گیا، جو کہ مملوک دور کی جامع مذہبی پالیسیوں کا صحیح نمائندہ نہیں بلکہ وہابی اثرات کے تحت کی گئی ایک مخصوص تعبیر ہے۔
3. تاریخی مسخ شدگی اور پروپیگنڈا: وہابی لٹریچر کے زیر اثر، پاکستان میں ابن تیمیہ کو ایک ایسے مصلح اور مجدد کے طور پر پیش کیا گیا جو مملوک دور میں مذہبی امور پر غلبہ رکھتا تھا۔ حالانکہ تاریخی طور پر ان کے نظریات کا اثر مخصوص حلقوں تک محدود تھا اور پوری سنی اسٹبلشمنٹ پر غالب نہیں تھا۔ اس مسخ شدہ تاریخ نے پاکستان میں اسلامی تعلیمات اور فکری رجحانات میں شدت پسندی اور عدم رواداری کی سوچ کو فروغ دیا، جو حقیقی مملوک پالیسیوں کے برعکس ہے۔
نتیجہ: پاکستان کی جامعات، مدارس، اور میڈیا میں ابن تیمیہ کے نظریات کا غلبہ، خاص طور پر غیر مقلدین، دیوبندی اسکالرز، اور جماعت اسلامی کے نظریات میں، اٹھارویں اور انیسویں صدی کے وہابی لٹریچر کے زیر اثر ہے۔ اس نے تاریخی حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا اور مملوک سلطنت کی سنی مذہبی اسٹبلشمنٹ کو غلط طور پر ابن تیمیہ کے سخت گیر نظریات کا نمائندہ بنا دیا، جس سے موجودہ دور کی فکری اور مذہبی سمت بھی متاثر ہوئی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں