• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • رائٹ سائزنگ اور غیرفعال وزارتیں /قادر خان یوسفزئی

رائٹ سائزنگ اور غیرفعال وزارتیں /قادر خان یوسفزئی

پاکستان کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ ، وزارتوں اور محکموں کی بھرمار حکومتی کارکردگی اور اخراجات کے حوالے سے ایک سنگین چیلنج ہے۔ بیشتر وزارتوں اور محکموں کی غیر فعال حیثیت نے نہ صرف حکومتی کاروائیوں میں غیر ضروری اخراجات میں اضافہ کیاہے بلکہ انتظامیہ کے اس وسیع پھیلا کے پیچھے زیادہ تر وجہ سیاسی بھرتیوں کا عمل اور بیوروکریسی کے اندرونی ڈھانچے کی پیچیدگیاں ہیں۔پاکستان کو اس وقت 87ارب ڈالر کے قرضوں کا سامنا ہے، جو ملک کی معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ ایک اور اہم مسئلہ پنشنوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ہے۔ پاکستان میں سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی بھر کے لیے پنشن دی جاتی ہے، اور ان کی وفات کی صورت میں یہ پنشن ان کی بیوہ کو منتقل ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، پاکستان کے سالانہ بجٹ کا ایک چوتھائی حصہ پنشن کی ادائیگیوں پر خرچ ہوتا ہے۔ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں پنشن کے لیے ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ مختص کیے گئے ہیں، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 122 ارب روپے کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔یہ صورتحال ملک کی معیشت پر ایک بھاری بوجھ ہے اور مالی منصوبہ بندی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، خاص طور پر جب قرضوں کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کے لیے وسائل پہلے سے ہی محدود ہیں۔
غیر فعال وزارتوں کی وجہ سے عوام کا حکومت پر اعتماد پہلے ہی کمزور ہے۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی، بے روزگاری، اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ جب حکومت ایسی وزارتوں پر بے معنی اخراجات کرتی ہے، تو اسے قرض لینے کی ضرورت پڑتی ہے، جو کہ معیشت کے لیے مزید مشکلات کا سبب بنتاہے۔ اگرچہ کچھ وزارتوں کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیا ہے، لیکن اس سلسلے میں مزید جامع اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ زیادہ مستحکم اور موثر ہو۔غیر موثر وزارتیں اکثر اہم پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد میں ناکام رہی ہیں، جس کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے عوامی خدمات، جیسے تعلیم، صحت، اور روزگار کی تربیت فراہم کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔معاشی عدم استحکام اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث لوگ بہتر مواقع کی تلاش میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں، جس سے مقامی معیشت متاثر ہورہی ہے۔ نتیجے کے طور پر معاشی مسائل مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ان حالات میں منظم اور جامع فیصلہ سازی کا عمل ناگزیر ہوجاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے اصلاحات کا عندیہ سنجیدگی کا متقاضی ہے۔
رائٹ سائزنگ منصوبے کے تحت سول سرونٹس ایکٹ 1973میں مجوزہ ترامیم کا فیصلہ کیاگیاہے ، اسے حکومت کی جانب سے سرکاری محکموں میں اضافی ملازمین کو کم کرنے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے حکومت ایک متوازن پیکیج فراہم کرنے کا عندیہ دے رہی ہے، جو متاثرہ ملازمین کو مالی معاونت فراہم کرے گا، جبکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ سرکاری ملازمین کے حقوق اور حکومت کی ذمہ داریاں برقرار رہیں۔یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت اپنے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات کر رہی ہے۔ اس ترمیم کی خاص بات یہ ہے کہ اگر ملازمین مالی پیکیج قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، تو انہیں برطرف کیا جا سکے گا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت اپنے فیصلوں میں سختی لا رہی ہے۔ ترمیم کے تحت ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو ملازمین کو دادرسی کا حق دے گی اور 30 دن کے اندر فیصلہ سنائے گی۔ اس سے ملازمین کو ایک فورم مہیا کیا جائے گا جہاں وہ اپنے مسائل پیش کر سکتے ہیں۔ یہ کمیٹی ایک توازن برقرار رکھنے کی کوشش ہے تاکہ ملازمین کے حقوق کو مکمل طور پر نظرانداز نہ کیا جائے اور انہیں مناسب قانونی چارہ جوئی کا موقع دیا جائے۔ رپورٹس کے مطابق، تنظیم نو کے نتیجے میں تقریباً 150000خالی اسامیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے، جو کہ ان وزارتوں کے غیر ضروری ملازمین کی تعداد میں نمایاں کمی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ان وزارتوں کا خاتمہ یا انضمام پاکستان میں اصلاحات کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ بیوروکریسی میں اصلاحات اور غیر فعال وزارتوں کو ختم کرنے کے اقدامات حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے اور غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ لیکن اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے ملازمین کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کرے جو ان کی ملازمتوں کو تحفظ فراہم کریں اور انہیں دیگر وزارتوں میں ضم کریں۔
پاکستان میں انتظامی اصلاحات ایک اہم ضرورت بن چکا ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف حکومتی اخراجات میں کمی آئے گی بلکہ سرکاری نظام کی فعالیت بھی بہتر ہو گی۔ تاہم، اس عمل کو موثر بنانے کے لیے حکومت کو ملازمین کے مستقبل کے حوالے سے واضح پالیسی اپنانا ہوگی تاکہ کوئی بحران پیدا نہ ہو۔ملک کے اندرونی مسائل اور عوامی مطالبات کے پیش نظر یہ اصلاحات ضروری ہیں، لیکن ان کا نفاذ اور عمل درآمد حکومتی عزم اور درست پالیسی سازی پر منحصر ہوگا۔ پاکستان کا انتظامی نظام اس وقت بیوروکریٹک پھیلائو کا شکار ہے، جو کارکردگی کو متاثر کرتا ہے اور عوام کے مفادات کے برعکس ہے۔ اگر حکومت اپنی فعالیت کو بہتر بنانے اور عوامی فلاح کو ترجیح دینے کے لیے موثر اصلاحات متعارف نہیں کرتی تو یہ صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنی انتخابی مہم میں اپنے پلان سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق کی17 وزارتیں ختم ہونا چاہئیں، ہم یہ وزارتیں ختم کرینگے،ان پر خرچ ہونے والے 300 سو ارب روپے عوام پر خرچ کریں گے،واپڈا اور کے الیکٹرک کی ضرورت نہیں، ہم سبز توانائی اور سولر انرجی پر سرمایہ کاری کریں گے ۔ اب وہ حکومت کے ساتھ شریک اقتدار ہیں او ر حکمراں جماعت بھی چاہتی ہے کہ وہ مالی خزانے پر بوجھ بننے والے اداروں کو دوسرے اداروں کے ساتھ ضم کریں ، لیکن سیاسی بھرتیوں سمیت بیورو کریسی سمیت کئی ایسے ایشوز ان کے اس عمل میں رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ اس طرح کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنے کارکنان کو سرکاری نوکریاں دینے کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ اگر میرٹ کا نظام پوری طر ح کام کررہا ہوتا تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہ ہوتی لیکن یہ امر افسوس ناک حد تک ہمارے کلچر میںہے کہ سیاسی سیڑھیوں کاسہارا لیکر اقربا پروری کو فروغ دیا جاتا ہے۔حکومت سرکاری اخراجات میں کمی کا وعدہ پورا کرسکتی ہے اگر وہ ان بھاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی کے لئے اصلاحات کا فیصلہ کرے جن کی وجہ سے مالی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply