خلا کو گھورتے ہو ؟خلا کے کئی چہرے ہیں، ایک اندرونی خلا ہے جہاں شعور کی روشنی ایک خاص حد سے آگے نہیں جا پاتی، دوسرا سماجی خلا ہے جس میں فرد زندگی کے جھمیلوں میں گم ہو جاتا ہے، تیسرا بیرونی یعنی کائنات کا خلا ہے جہاں کھربوں دنیائیں انسان کو ہمیشہ سے دعوتِ تسخیر دیتی آئی ہیں۔
اندرونی خلا ایک استعاری پرتگاہ ہے جہاں شعور کی روشنی ایک بیکراں اندھیرے سے ٹکراتی ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں عقلی فکر کا خاتمہ اور کسی اساطیری راز کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ خلا روزٍاوّل سے انسانی عقل کو للکارتا آیا ہے، کہیں یہ فلسفیوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو کہیں عارف کو لبھاتا ہے۔
نفسیات میں اسے لاشعور سے تعبیر کیا جاتا ہے اور عام طور پر اس کی توجیہہ کا تکّلف کم ہی برتا جاتا ہے کہ اس کی اندھیری گہرائیوں کو ناپنا آسان نہیں، وجودیت میں اسے لایعنیت کے ساتھ حتمی تصادم سے تعبیر کیا جاتا ہے، جبکہ اسطورہ شناس کیلئے یہ نفس و اَنا کی گھاٹی ہے جسے عبور کرنے سے ہی خالقٍ کائنات تک پہنچا جا سکتا ہے ۔
خلا اس خالی پن کا نام ہے جسے ہم وجود اور عدم کی تفریق کیلئے استعمال کرتے ہیں، یہی خالی پن فلسفی ، شاعر، ادیب، سائنسدان ، نفسیات دان اور عارف کیلئے نکتۂ تحریک ہے جسے بنیاد بنا کر نت نئی فکر، ادب، اساطیر اور تخلیق پروان چڑھتی ہے ۔
معروف فلاسفر کرکیگار نے اس خلا کے مقام کو پار کرنے کیلئے ، یقین کی چھلانگ، جیسی اصطلاح استعمال کی ہے، ان کے نزدیک فرد جب اندرونی خلا سے ٹکراتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے پرانے ایقان و روایات سے آگے کی طرف چھلانگ لگانے کی ضرورت ہے، یہاں خوف، مایوسی اور اضطراب کی کیفیت جنم لے سکتی ہے لیکن اپنی فطرت اور اپنی انفرادیت کو جاننے کیلئے یہ چھلانگ ضروری ہے اور یہی چھلانگ کسی بھی بڑی تخلیق کی بنیادی کنجی ہے ۔
” اگر تم خلا کو مسلسل گھورتے رہو تو جواباً خلا بھی تمہیں گھورنا شروع کر دے گا “۔
نطشے کا یہ معروف جملہ خلا کی دوطرفہ فطرت کا عندیہ دیتا ہے، اس جملے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ فرد اگر مسلسل کسی شر سے برسرِ پیکار رہے تو ایک مقام پر وہ اس شر کو اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی صلاحیت پا لیتا ہے، گویا کہ شرانگیزی کے خلاف استعمال ہونے والا شعور خود شر انگیزی کا باعث بن سکتا ہے۔
مشاہدہ بذاتِ خود ایک فعل ہے، فرد کو اگر شر میں دلچسپی ہے اور وہ اس کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے تو بعید نہیں کہ شر بھی فرد میں دلچسپی لینا شروع کر دے۔
یونانی اساطیر میں پاتال ایک اصطلاح ہے جو کہ زیر زمین قید خانہ ہے ، یہ زمین کے اتنا ہی نیچے ہے جتنا آسمان زمین سے بلند ہے، یہ قید خانہ ایک خلا ہے، جہاں تخلیق اور بربادی، دونوں کے عناصر موجود ہیں، پاتال کا تصور سمیری اور بابلی تہذیب میں بھی موجود ہے۔
ادب میں اس خلا کا استعمال سب سے زیادہ ہوا ہے ، یہ خلا اندرونی بھی ہے یا بیرونی بھی ، اسی خلا میں چُھپے خوف اور تجسس نے ادیبوں کو لکھنے اور قاری کو پڑھنے پر مجبور کیا، دانتے کی ڈیوائن کامیڈی جہنم ہی کے پاتال بارے ہے جو روحانی اور اخلاقی خلا کا استعارہ ہے، جہاں گناہ کی کشش کے باعث سزا اور عذاب کی کہانی رقم ہے۔ یہاں فلپ لوکرافٹ جیسے عظیم لکھاری کا ذکر کرنا لازم ہے کہ انسان کے اندرونی اور بیرونی خلا میں چھپے خوف اور تجسس کو ایسے خوبصورت ادبی رنگ میں وہ سامنے لائے ہیں کہ ادب میں ہارر جیسے جانرا کی داغ بیل ڈالی۔ انہوں نے اپنے ادب میں تاریک اور نامعلوم حقیقتوں کی جو تصویر کشی کی ہے وہ عام انسانی شعور سے باہر کی بات ہے۔ قاری شکوک اور جنون جیسی کیفیات میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
بدھ مت میں اسی خلا کو ہی سکون کی جگہ بتایا گیا ہے، دماغ کی سوچ مثبت ہو یا منفی، بدھ مت کے مطابق اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، دونوں کیفیتیں ادھوری اور ناکافی ہیں، اصل منزل وہ ہے جسے انگریزی میں mindlessness کہا جائے گا، یہی وہ مقام ہے جہاں انسان غم اور خوف سے آزاد ہو جاتا ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں محبت جنم لیتی ہے۔
نفسیات کے میدان میں اندرونی خلا پر بڑی دقیق بحثیں سامنے آئیں، اس موضوع پر شاید سب سے زیادہ گہرائی میں کارل یونگ اُترے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ وہ انسانی نفسیات کیلئے منطقی وضاحتوں کو ناکافی سمجھتے تھے اور باقی نفسیات دانوں کی نسبت فطری طور پر باطنی اسرار کا بہتر احساس رکھتے تھے۔ اجتماعی لاشعور کا تصور انہی کی اختراع ہے جہاں انسان کی ارتقائی نفسیات اور ایسی جبلتیں پوشیدہ ہیں جنہیں فرد شعوری سطح پر پرکھنے سے قاصر رہتا ہے، اجتماعی لاشعور صرف نفسیاتی توانائی اور یادداشت کا سمندر نہیں بلکہ آفاقی علامتوں اور تحرک کا موجب بھی ہے، آرکیٹائپس کا فلسفہ انہوں نے یہیں سے اخذ کیا کہ صرف شعور کی روشنی ہی فرد کی پوری شخصیت نہیں، بلکہ یہ روشنی صرف ٹٍپ آف آئس برگ ہے، اصل وجود وہ تاریک خلا ہے جو اجتماعی لاشعور سے جڑا ہے۔ اس تاریک خلا کے سفر میں اپنے سائے سے تصادم پہلا خطرناک مرحلہ ہے جو کمزور اعصاب کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ اور بات کہ اندرونی خلا کے اس سفر سے پرہیز فرد کی نفسیات کو سطحی سے آگے نہیں بڑھنے دیتا ۔ عظیم ذہانت اور وسعتٍ قلبی کیلئے یہ سفر شرطٍ اوّل ہے جہاں نا صرف فرد کے عقل و شعور اور اعصاب بلکہ ایمان و یقین کو بھی کڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں