ساٹھ کی دہائی میں جب فروخت ہونیوالی کتابوں کے اعداد و شمار جمع کیے گئے تو اک سنسنی خیز نتیجہ سامنے آیا تھا۔ڈی ایچ لارنس کا ناول ”Leady cheterly lovers“ بائیبل سے زیادہ خریدا گیا تھا۔جس طرح مذہبی،سماجی،خاندانی اور طرح طرح کی قیود لگانے کے باجود بھی جنس کے بے مہار اونٹ کو دیواریں پھلانگنے اور بند کمروں میں ہانپنے سے نہیں روکا جا سکتا،بالکل ویسے ہی کئی پابندیوں اور تنقیدبھرے تبصروں کے باوجود بھی اس ناول کو اس زور و شور کے ساتھ پڑھا گیا کہ یہ عالمی ادب کے افق پر اک ستارے کی طرح چمکنے لگا۔ایسا ستارہ جس کی روشنی کے سامنے کئی نوآموز پگھل جاتے ہیں۔
2021 ، دسمبر کی اک شام جب ڈاکیا میرے گھر پہنچا تو میرے لئے یہ بالکل بھی حیران کن نہ تھا۔کیونکہ میں دو دن پہلے آرڈر کی گئی کتابوں کے انتظار میں تھا۔لیکن یہ وہ کتابیں نہ تھیں، ڈی ایچ لارنس کا یہی ناول تھا جس نے مجھے زیادہ حیران اس لئے کیا کہ یہ کسی دوست کی طرف سے تحفہ تھا اور بھیجنے والے کا نام نہیں لکھا ہوا تھا۔
دنیا کی تمام تہذیبی روایات میں جنس کا آرٹ کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔عیسائیت میں جب چرچ کا تسلط قائم ہوا تو عورت کو ناپاکی کا مجسم اور جنس کو شجر ممنوعہ مان لیا گیا۔پادری اور راہبائیں جو خود کو چرچ کے لئے وقف کر دیتے تھے،ان کے گلے میں صلیب کے ساتھ ساتھ کنوارگی کو ہمیشہ قائم رکھنے کا بھی طوق ہوتا تھا۔وقت نے ثابت کیا کہ وہ طوق ریت کا گھروندا ثابت ہوا۔اور جنس اتنی منہ زور ہو کر بہتی تھی کہ ہر رات اس خدائی معبد کا تقدس پامال ہوتا تھا۔کنوارگی کا جامہ پہنے پادری، اور فادر ، نیک اور پارسا تو ہوتے ہوں گے لیکن کنوارے نہیں ہوتے تھے۔اور نہ ننز کو کنوارا رہنے دیتے تھے۔
انسان طبعا ًاس طرف زیادہ راغب ہوتا ہے جہاں سے اُسے روکا جائے۔
سامی مذاہب میں آدم بو حوّا کی شجر ممنوعہ کو کھانے کی متھ اس انسانی مزاج کی عکاسی کرتی ہے،اور جنس کے منہ زور ہونے کا بھی ثبوت دیتی ہے۔نشاط ثانیہ اور ریفارمیشن کے طوفان کے آگے جب کلیسا کا تسلط منہدم ہو گیا تو جنس بھی عقوبت کدوں سے نکل کر کھلی ہواؤں میں اُڑنے لگی۔اِک ایسا وقت بھی آیا تھا جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ جس طرح کسی بھوکے کو کھانا کھلانا یا پیاسے کو پانی پلانا غیر مناسب ہے بعینٰی اسی طرح کسی عورت کا مرد کو فیضیاب کرنے سے انکار بھی اتنا ہی غیر مناسب ہے۔
لارنس کا یہ ناول اک آزاد خیال اور خوبصورت لڑکی ”کونی“ کی کہانی تھی۔جو اپنی بہن کے ساتھ مختلف فکری نشستوں میں شامل ہوتی ہے،جہاں بہت بار جنسیات ہی زیر بحث رہتی تھی۔دو مخالف جینڈر جب سیکس پر بات کرتے ہیں تو بات کو دور تک نکلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
شباب کا شور اور جذبات کا ہنگامہ بہت بار کونی کو بھی بہا کر لے گیا۔
اس ناول میں جنس اپنی پیچیدگی اور لطافت کے ساتھ موجود ہے اور یہی اسکی شہرت کا سبب بنا۔
بیس سو بائیس میں اس پر ایک ڈرامہ فلم بنی جس کے ڈائریکٹر Laure de Clermont تھیں، جو خود ایکٹر بھی ہیں اور پروڈیوسر بھی۔فلم میں لیڈی چیٹر لی کا کردار Emma-Louise Corrin نے نبھایا اور کیا ہی خوب نبھایا۔
فلم ناول کی مکمل کہانی کا تو نہیں لیکن ضروری حصّے کا احاطہ ضرور کرتی ہے۔کہانی کی باریکیوں کا خوب احاطہ کیا گیا ہے،جزیات نگاری اور منظر نگاری جسے لارنس نے اپنے صفحوں پر تراشا تھا اسے بڑی خوبصورتی کے ساتھ سکرین پر دکھایا گیا۔
کلفورڈ جو اک نواب زادہ اور مردانہ وجاہت کا پیکر کردار ہے اسکے ساتھ کونی کا معاشقہ شادی میں بدل جاتا ہے۔وہ دونوں چیٹرلی اسٹیٹ میں چلے جاتے ہیں جہاں کونی ”لیڈی چیٹرلی“ کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔شادی کی اگلی صبح کلفورڈ پہلی جنگ عظیم میں لڑنے کے لئے واپس چلا جاتا ہے۔اور جب وہ واپس آتا ہے تو وہ نا صرف معزور ہو گیا ہوتا ہے بلکہ جنسی اہلیت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔
کونی، کلفورڈ سے بندھن نبھانے کی کوشش ضرور کرتی ہے لیکن من کی چاہتوں اور بدن کی ضرورتوں کے سامنے کب کوئی بندھ ٹک سکا ہے۔
جنس کے شجر نازک کی پینگھ پر جھول جانے کے بعد عورت کی جنسی لطافت سے محرومی اسے جھگڑے، چڑ چڑا پن، آشفته طبعی ، زودرنجی ، جسمانی امراض اور نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ایسی ہی الجھنیں اور عارضے کونی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
یونانی حکیم بقراط یہ سمجھتا تھا کہ عورت کے جسم کا سب سے نفیس عضو رحم ہے۔۔
رحم اگر مرد کے عضو تناسل سے محروم رہے اور عورت جنسی فاقہ زدگی کا شکار ہو جائے تو اس کے اندر بہت سے دماغی خلل پیدا ہو جاتے ہیں۔جنسی تسکین نہ ملنے پر بہت سی عورتیں ہیسٹریا کی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔
کونی جن انگاروں پر دہک رہی تھی انہیں سرد کرنے کے لئے خود لذتی کا سہارا لیتی ہے۔لیکن خود لذتی میں وہ لطافتیں کہاں میسر ہوتی ہیں جو کسی مرد کا لمس کسی عورت کو دے سکتا ہے۔
خود لذتی ، اضطرابی حالت میں سب سے محفوظ راستہ ضرور ہے لیکن اسکی نفسیات بڑی تخریبی ہے جو نرگسیت اور آدم بیزاری میں مبتلا کر دیتی ہے۔
کونی کلفورڈ کے اک دوست کے ساتھ جنسی رواسم بڑھاتی ہے لیکن وہ جنسی کج ہمتی کا شکار ہوتا ہے۔
مرد کی جنسی کمزوری اک وبا کی طرح شرق و غرب میں پھیل گئی ہے۔اسکی بڑی وجہ مرد کی کم ہمتی کی بجائے جنس کے معارف سے عدم آگہی اور تجربہ کا فقدان ہے۔عورت کے بدن کا جنسی پہلو بہت حساس، نفیس اور گنجلک ہے۔یہ سمندر کی موجوں کی طرح بے باک بھی ہے، چرخے پر گھومتے دھاگے کی طرح نازک بھی اور جاڑے کی طرح خنک بھی ہے۔فرائڈ عورت کو تاریک براعظم سمجھتا تھا اور اسے معمہ قرار دیتا تھا۔اس معمہ کو حل کرنے کی بصیرت رکھنے والا مرد کج ہمت ہی ہو اور جنسی طوالت کی اہلیت نہ بھی رکھتا ہو تب بھی اپنے لمس کی طاقت سے عورت کی شریانوں میں شہد گھولنے کی سکت رکھتا ہوتا ہے۔
کلفورڈ اپنا اک وارث چاہتا ہے جو چیٹرلی ریاست کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے،وہ کونی کو کسی سے جنسی تعلق قائم کرنے کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ راغب بھی کرتا ہے۔کونی انکے جنگل کی حفاظت کرنے والے اولیور میلرز کی طرف قلبی رجحان ضرور رکھتی ہے،جو کہ پھر اک بھرپور جنسی تعلق میں بدل جاتا ہے۔اولیور ایک جنسی صلاحیت سے بھرپور اور وجیہ نوجوان ہے۔بالزاک کہتا تھا کہ عورت ایک ایسا بربط ہے جس کے تاروں سے کوئی ماہر فن ہی دلکش سُر نکال سکتا ہے۔
اولیور ایسا ہی فنکار مرد تھا جو کونی کے جسم سے سُرنکالنے اور لذت کشیدکرنے کی کمال مہارت رکھتا تھا۔
فلم میں انکی جنسی قربتوں کا بڑی خوبصورتی سے احاطہ کیا گیا ہے۔
پردہ سکرین پر ایمل کورین کا بدن اور سراپا جنسی ہیجان اور جمالیاتی رگوں کر برابر چھیڑتا ہے۔اور جب وہ جیک کونسل سے ہم آغوش ہوتی ہے تو اسکے جذبات کی شدت،والہانہ سپردگی اور سیکس کرلینے کی سرشاری دیکھنے والے کے پورے وجود کو ہمہ تن گوش کر دیتی ہے۔
ناول میں ایسا کچھ نہیں ہے جو اسے کتابوں کی الماری میں سب سے اوپر رکھا جائے،لیکن اس کے موضوع کی انفرادیت اور اظہار کی قوت ہے جو اسکا سر بلند کر دیتی ہے۔اس پر ہونے والی تمام تنقیدیں بجا ہیں لیکن اس کے تحفظ میں اک سطر ان تمام اعتراضات کا گلہ گھونٹ دیتی ہے۔
”کوئی بھی آزاد خیال عورت کو جب اچانک جنسی فاقہ زدگی میں مبتلا کر دیا جائے اور اسے محکوم سمجھا جائے یہاں تک کہ جنسی طور پر اور جسمانی طور پر معزور اس کا شوہر جس کے پاس اسے دینے کے لئے صرف محبت بچی ہو اور وہ بھی نہ دے سکے۔۔۔خود غرضی یہاں تک کہ اپنے خاندانی مفاد کے پیش نظر اسے کسی اور کا بچہ اپنی کوکھ میں پالنے کی اجازت بھی دے دے، تو زمینی حقائق کے مطابق ایسی عورت کا انتخاب مختلف ہو سکتا تھا لیکن قدم کونی(لیڈی چیٹرلی) سے مختلف نہ ہوتا“۔
یہ کہانی جنسیت، سماج اور طبقاتی تقسیم سے جڑے بہت سے حقائق کا احاطہ کرتی ہے۔جس کے ساتھ اس فلم کی سکرین پر بڑی حد تک انصاف کیا گیا ہے۔میں جانتا ہوں کہ یہ ڈرامہ فلم اب آپ کے دیکھے جانے سے محروم نہیں رہنے والی لیکن ناول بھی ضرور پڑھیے، انگلش اُردو دونوں میں pdf فائل بآسانی میسر ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں