سیلون کے ساحل ۔ہند کے میدان( باب نمبر5 -الف)اپنے حصّے کا دیا جلائیں/سلمیٰ اعوان

پل کے ہزارویں حصے میں بھی لاریف ہادی اس بات کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا کہ اس کا بیٹا لبریشن ٹائیگرزاف تامل جیسی جنگ جُو اور دہشت گرد تنظیم کے اجلاسوں میں شرکت کرتا ہے۔ تنظیم کے بانی ویلو پلائی پر بھاکرن سے عقیدت اس کے مقاصد سے ہمدردی اور تاملوں پر سہنالیوں کی زیادتیوں کے خلاف جافنا کے مضافات میں ہونے والے چھوٹے موٹے جلسے جلوسوں میں کچی پکی تقریریں جھاڑتا ہے۔حالیہ خودکش حملوں میں مرنے والے چند نوجوانوں سے بھی اُس کا یارانہ تھا۔

اُس کی آنکھوں میں حیرت ہی نہیں تھی وہ شدید کرب سے بھی خوفناک حد تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس کا دل وسوسوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ اتنا بے خبر تھا۔ کیا وہ اس پر یقین کرے یا نہ کرے؟ اس کا بیس سالہ پانچ فٹ گیارہ انچ لمبی قامت والا بیٹا کب اور کیسے اس جال میں پھنسا۔اور کیوں پھنسا؟ یہ سارے سوال جواب وہ خود سے کئے چلا جاتا تھا۔

ڈاکٹر حسب اللہ نے آہستگی سے اُس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ وہ اس کے اندر کے اُتار چڑھاؤ سے بخوبی واقف تھے۔ سمجھ رہے تھے کہ وہ کس اذیت ناک کیفیات سے گزر رہا ہے؟

یہ سری لنکا کے خوبصورت شمالی ساحلی شہر جافناJaffna کی خوبصورت سی صبح تھی۔ پیرا ڈینیا ParadenIiya یونیورسٹی سے ڈاکٹر حسب اللہ کل یہاں آئے تھے۔وہ کاروبار کے سلسلے میں رتنا پور گیا ہوا تھا۔ رات کو واپس آیا تو انور سُبحانی نے بتایا کہ صُبح مسجد میں نماز کے بعد ڈاکٹر صاحب کا لیکچر ہے۔ لاریف ہادی کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ ڈاکٹر حسب اللہ مسلمانوں کی سری لنکن تنظیم کے بانی اراکین میں سے ایک تھے۔ پارے کی طرح متحرک یہ شخصیت سری لنکا کے مسلمانوں کے لئے اُمید اور حوصلے کاپیغام تھی۔
جافنا کی پچاس فیصد مسلمان آبادی کاروباری لحاظ سے خاصی مضبوط تھی۔ ڈاکٹر حسب اللہ کا دو تین ماہ بعد یہاں کا چکرضرور لگتا تھا۔ مقامی مسلمان اُن کی آمد کے منتظر رہتے۔ سری لنکا کے شمالی علاقوں میں تامل ٹائیگرز کی سرگرمیاں بُہت بڑھ چکی تھیں۔ مسلمان کیمونٹی ان سرگرمیوں سے خاصی پریشان بھی تھی۔
‘‘ڈاکٹر صاحب!’’ لاریف ہادی کی آواز جیسے غم سے بوجھل تھی۔
‘‘کہیں کوئی غلط فہمی تو نہیں ہوئی۔ میرا بیٹا۔۔یقین نہیں آتا۔ ’’ آواز جیسے ٹوٹ پھوٹ رہی تھی۔
‘‘گھبراؤ نہیں! حوصلے سے کام لو۔ صورت حال کو بُردباری سے سنبھالو۔ میری معلومات غلط نہیں اور ہاں دیکھوسختی کی ضرورت نہیں۔ جوان خون ہے بپھر جائے گا۔آرام اور دلداری سے باز پرُس کرو۔’’
اس وقت ان دونوں کے ساتھ مسلم رائٹس آرگنائزیشن کے انیس احمد بھی تھے۔

ہادی جب گھر جانے کے لئے کھڑا ہوا تو اسے محسوس ہوا تھا جیسے اس کی ریڑھ کی ہڈی تڑاقہ کھا گئی ہو۔ پتا نہیں کیسے وہ مسجد سے باہر نکلا اور گھر آیا۔ بیوی نے اُڑی اُڑی رنگت دیکھ کر پوچھا۔
‘‘خیریت تو ہے؟’’
‘‘ہاں بس ایسے ہی ذرا دل گھبرا رہا ہے۔’’
آنگن کے کونے میں پڑے کچے گولڈن ناریل کا ڈھیرلگا پڑا تھا۔ اس نے تیز دھار کے گنڈاسے سے اس کا اوپر والا حصہ کاٹااور کمرے میں آئی جہاں ہادی لیٹا ہوا تھا۔
بیوی کے ہاتھوں میں پکڑا گولڈن ناریل اور اُس کے چہرے پر چھائے تفکر نے اُسے اُٹھا کر بٹھا دیا۔ دھیرے دھیرے گھونٹ گھونٹ ڈاب پیتے ہوئے اُس نے اپنے اندر کی تلخی کو کم کرنا چاہا پر اسے محسوس ہورہا تھا جیسے کہیں آگ لگی ہے پھر دفعتاً اُس نے بیوی کا ہاتھ پکڑ کر اُسے پاس بٹھا لیا اور بولا۔
‘‘لاطف کہاں ہے؟’’
‘‘گھر میں تو نہیں، کہیں باہر گیا ہے۔’’
‘‘ابھی نو بجے ہیں اور باہر بھی چلا گیا ہے۔ تمہیں بتا کر نہیں گیا۔’’
بیوی کو ہادی کے یوں بات کرنے پر قدرے حیرت سی ہوئی۔ یہ کوئی نئی بات تو تھی نہیں، وہ تو ہمیشہ سے صبح سویرے باہر نکل جاتا تھا۔ کبھی رات گئے گھر آتا۔ ابھی گریجوایشن سائنس فائنل کا تو اسٹوڈنٹ تھا۔
ایک لمحے کے لئے ہادی کا جی چاہا کہ وہ بیوی کو اپنی پریشانی اور تفکر سے آگاہ کر دے ۔ اپنا دُکھ اور کر ب اس سے شیئر کرے، مگروہ رُک گیا۔ اُس نے دل میں اپنے آپ سے کہا۔
‘‘اِس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ عورت ذات یونہی خوف زدہ ہو جائے گی۔’’

ہادی کا فشنگ کا کاروبار تھا۔ جافنا میں اس کی اچھی ساکھ تھی۔ اپنی دولانچیں اور دو فیریاں تھی۔ اس کے کارندے مچھلی Kankesantura سے آگے ہندوستان کے ساحلی شہروں تک لے جاتے تھے۔

سائیکل رکشا پر بیٹھ کر وہ اپنے دفتر آگیا۔ جو مورروڈ پر تھا۔ جونہی وہ سائیکل رکشا سے اُترا، دفتر کے چھوٹے سے دروازے کے سامنے لاطف کھڑا تھا۔ بیٹے کو دیکھتے ہی اس پر غصہ، رنج اور یاسیت کے ملے جلے جذبات کا حملہ سا ہوا، پر خود کو سنبھالتے ہوئے اُ س نے بیٹے کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔ لاطف باپ کے پیچھے پیچھے کمرے میں آگیا۔ بید کی کُرسی پر بیٹھتے ہوئے کر اُس نے کسی قدر حیرت سے باپ کو دیکھا جو پریشان نظر آرہا تھا۔
ہادی نے گہری نظروں سے بیٹے کو دیکھا اور مدھم آواز میں کہا۔
‘‘لاطف میں نے زندگی اور کاروباری معاملات میں ہمیشہ سچ بولنے اور سچ برتنے کو ترجیح دی۔ جھوٹ ، غلط بیانی اور منافقت کبھی میرے کسی معاملے کی بنیاد نہیں رہے۔ وہ اصول جو میرے رہے اور ہیں انہی پر میں تمہیں بھی گامزن دیکھنا چاہتا ہوں۔ آج میں جو تم سے پوچھوں گا تم مجھے سچ سچ بتاؤ گے۔’’
لاطف حیران تھا، اُ س کے باپ نے کبھی لمبی چوڑی باتیں تمہید ی انداز میں نہیں کی تھیں، وہ ہمیشہ سے مختصر بات کرنے کا عادی تھا۔ اُ سکا دل دھڑکا اور اُ س نے خودسے کہا ‘‘یہ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟’’پھر وہ حوصلے سے بولا۔
‘‘آپ جو پوچھنا چاہتے ہیں پوچھیں۔ آپ کو بھی پتاہے کہ میں صاف اور کھری بات کرنے کا عادی ہوں۔’’
‘‘تامل ٹائیگرز سے تمہارا کیا تعلق ہے؟’’
ہادی نے اپنی آنکھیں اس کے چہرے پر گاڑ دیں۔
لاطف کا رنگ بدلا۔ شاید وہ ذ ہنی طور پر اس سوال کے لئے تیار نہیں تھا۔
‘‘تعلق’’ اُس نے زیر لب کہا اور پھر کسی قدر جُرات مندانہ انداز میں بولا۔
‘‘میں بس ان کے اجلاسوں میں کبھی کبھار شریک ہو جاتا ہوں۔ جس کاز کے لئے وہ جدوجہد کر رہے ہیں میں اُسے درست سمجھتا ہوں۔’’
ہادی کا چہرہ بیٹے کی بات پر تپ اُٹھا۔ وہ غصے سے چیخا۔
‘‘شرم آنی چاہیے تمہیں ان کے کاز سے ہمدردی کرتے ہوئے۔ بے گناہ معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں، بھرے مجموں میں بم پھینکتے اور انسانوں کا قتل وغارت کرتے ہیں۔ انسانی جانیں اُ ن کے نزدیک کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہم نہیں۔۔۔پل بھر کے لئے وہ رُکا۔اُس کی آواز بھرا رہی تھی جب اُس نے بات دوبارہ شروع کی۔

ہمارے جافنا کے میئر ایلفر ڈدور پایہ کا کیا قصور تھا صرف یہ کہ وہ سہنالیوں تاملوں مسلمانوں اور عیسائیوں سبھوں کا ہمدرد اُنہیں مل جل کر امن و آتشی سے رہنے کی تلقین کرنے والا ایک مہذب اور شریف النفس انسان تھاجوانہیں ہضم نہیں ہورہاتھا۔
‘‘مگر وہ آزادی چاہتے ہیں۔ ’’ لاطف نے باپ کی بات کاٹ دی۔
بھونچکا سا ہوکر اُ س نے بیٹے کی اس بات کو سُنا۔ اُس کا جی چاہا اپنا سر پیٹ لے۔ یہ اُس کا بیٹا کیسی لا یعنی بات کر رہا تھا۔
‘‘دیکھو اگر کہیں زیادتیاں ہوئی ہیں تو جو طریقہ اِن لوگوں نے اپنایا ہے وہ صریحاً غلط ہے۔احتجاج کرو۔اپنی آواز اوپر پہنچاؤ۔مگر یہ سب تو نہ کرو جو کررہے ہو۔دراصل شر پسندوں کی یہ قوم انڈیا کے ہاتھوں کھلونا بن گئی ہے۔انڈیا جس کا بڑا مقصد سری لنکا کے شمالی حصے کو اپنے جنوبی حصے سے ملانا ہے۔یاد رکھنا میری بات آج تم جن کے ہاتھوں ناچ رہے ہو کل یہ تم مسلمانوں کا سب سے پہلے صفایا کریں گے۔’’

‘‘آپ طیش میں مت آیئے ۔جذباتی ہونے کی بھی ضرورت نہیں ۔دلیل سے بات کریں۔احتجاج اور ہتھیار کبھی بھی بغیرو جہ کے نہیں اٹھائے جاتے۔ان کے پس منظر میں معاشروں کے اندر پلنے والی محرومیاں ، ناانصافیاں ، ایک طبقے کا دوسرے طبقے پر فوقیت ،غلبہ اور احساس برتری جیسے جذبات واحساسات کا کار فر ہونا ہوتا ہے۔ زیادتی اور برتری کی پہلی اینٹ 1954ء میں اس دن رکھ دی گئی تھی جب پارلیمنٹ میں سہنالیوں کی اکثریت نے سنہالی زبان کو سرکاری زبان قراردے دیا تھا۔

تامل لوگ کتنے غریب تھے اور ہیں۔کتنے دھتکارے ہوئے ہیں۔سری لنکا کی کسی ایک حکومت کا نام لے دیں جس نے انہیں اُنکے حقوق دیئے ہوں۔اقتدار کوتو سہنالیوں نے اپنی جدی جاگیر بنالیا ہے۔اب وہ کھڑے ہوگئے ہیں۔انہوں نے ہتھیاراٹھالئے ہیں۔علیحدگی اور خودمختاری کی باتیں کرنے لگے ہیں تو انہیں مصیبت پڑگئی ہے۔اب بھگتیں۔
ہادی کا جی تو چاہا تھا ایک زناٹے کا تھپڑ اس کے رخسار پر مارے اور کہے ‘‘حرامزادے تاملوں اور اُن کے حقوق کیلئے جذبات کی اتنی اُگل اُچھل ۔کبھی اپنی کیمونٹی کا بھی سوچتے ہو۔’’
پر کمال ضبط سے خود پر قابو پاتے ہوئے دھیمی اور رسان بھری آواز میں بولا۔
‘‘لاطف تم ابھی ناسمجھ ہو۔ اُن کی چالوں اور ریشہ دوانیوں کونہیں جانتے۔’’
وہ کھڑا ہوگیا اور باہر کی طرف جانے کے لئے دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے اِک ذرا رُکااور بولا۔
‘‘اب میں اتنا بھی بچہ اور نا سمجھ نہیں ۔’’

کمرہ خالی تھا اور ہادی کو یوں محسوس ہوا تھاجیسے اُس کے وجود میں سے کِسی نے زندگی کی ساری حرارت کشید کر لی ہے۔ جیسے وہ پتھر کا ہوگیا ہو، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے سامنے بظاہر پر کہیں خلاؤں میں گھُورتا ہوا۔ دیر تک وہ اس کیفیت میں رہا پھر اپنے بیٹے کے بے شمار رُوپ اُس کی آنکھوں کے سامنے اُبھرے ۔ اُس کابڑا بیٹاجس کے وجو د سے اُس کی بے شمار توقعات وابستہ تھیں ۔ بُہت سارے خواب جن کی تعبیریں اُ س کی زندگی کا ماحصل تھیں۔

بازی کیسے اُلٹ گئی؟بیٹے نے ریل کی پٹڑی کے کانٹے کی طرح راستہ کیسے بدل لیا؟ اُس کی تربیت میں کہاں کمی رہی؟

جے جے ویر اسنگھ اُس کے سامنے آکھڑا ہوا۔ویرا سنگھ گو تامل تھا مگر بڑا صلح پسند اور امن وآشتی سے محبت کرنے والا انسان ۔ اُس کا بیٹا بھی تحریک کارکن بن گیا تھا۔ بڑا جوشیلا جوان تھا۔ مرکزی حکومت کے وزیر صنعت کا ‘‘مینار’’ میں بڑا اہم دورہ تھا۔ بم دھماکے کے لئے اُس کو چنا گیا۔ سازش بروقت ناکام ہوگئی۔ ویرا سنگھ کا بیٹا پکڑا گیا۔ سائنائیڈ کاکیپسول جو اُس کے گلے میں بندھا ہواتھا اُس نے فی الفور وہ کھا کر زندگی کا رشتہ اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیا۔

ایک لمبی آہ اُس کے سینے سے نکلی۔ جذبات سے لبریز یہ بالی عمر جس میں ہوش کے بجائے جوش غالب ہوتا ہے، اُسے جس طرف چاہے موڑ لیاجائے۔
پھر وہ اُٹھا ،اپنے بے دم سے وجودکوگھسیٹا اور دفتر سے ملحقہ چھوٹے سے کمرے میں جہاں وہ بالعموم دوپہر کا کھانا کھا کر تھوڑی دیر لیٹتا تھا داخل ہوا۔ جونہی وہ چٹائی پر بیٹھا۔ اُس کا ضبط جواب دے گیا۔ اُس کے اندر کا دُکھ آنسوؤں کی صورت باہر آنے لگا۔ وہ روتا رہا۔ اپنے چہرے کو اس پانی میں نہلاتا رہا پھر لیٹ گیا ۔ پتا نہیں کب اُسے اونگھ سی آگئی۔

جب وہ اس کیفیت سے نکلا،ظہر کا وقت تھا۔اُس نے نماز پڑھی۔ آج اُس کے سجدوں میں جو تڑپ تھی اُس نے اُس کی آنکھوں کو بار بار بھگویا۔ دُعاکے لئے جب ہاتھ اُٹھائے تو اَشک بار آنکھیں بند تھیں اور وہ خُداسے مخاطب تھا۔ بُہت دیر تک وہ ہتھیلیاں پھیلائے جامدوساکت حالت میں بیٹھا رہا۔

پھر جیسے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی ایک ننھی منی سی کرن جھلملائی۔ مایوسی کی وہ انتہاجس پر وہ اس وقت پہنچا ہوا تھا۔۔۔دل گرفتگی جس میں وہ اُلجھا ہوا تھا قدرے کم ہو ئیں۔ جیسے کسی گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا میسرآ جائے کچھ ایسی ہی اُس کی کیفیت تھی۔ وہ اُٹھا اور گھر آیا۔ بیوی نے اُس کا اُترا ہوا چہرہ دیکھ کر پُوچھا؟
‘‘کچھ بتاؤ تو سہی، میں صبح سے دیکھ رہی ہوں پریشان نظر آرہے ہو۔’’
بغیر کچھ کہے وہ چٹائی پر بیٹھا پھر بولا۔ ‘‘تم کھانا لاؤ۔’’

اُس نے اُبلے چاولوں کی قاب رکھی۔ مٹی کی چھوٹی سی ہنڈیا میں پول سمبل (کوکونٹ کی بجھیا) تھی۔ دوسری ہنڈیا میں ناریل کے دودھ میں پکائی گئی مچھلی اور سبزی کی کڑھی تھی۔ دونوں ڈشیں اُ س نے ہادی کے سامنے سجا دیں۔ پانی کا جگ اور گلاس رکھا اور خود بھی پاس بیٹھ گئی۔
ہادی چپ چاپ کھانا کھاتا رہا۔ جب کھا چکا اورشُکر الحمدُللہ کے الفاظ اداکئے تو بیوی نے ایک بار پھر کہا۔
‘‘کوئی کام کاج کی پریشانی ہے کیا؟ تمہاری کیا بُری عادت ہے کہ تم کچھ کہتے نہیں۔’’
ہادی نے خاموش نظروں سے اُسے دیکھا اور چند لمحے دیکھتے رہنے کے بعد کہا۔
‘‘تمہیں اگر کسی بات کی سمجھ نہیں تو بحث مت کیا کرو۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں۔’’
بیوی نے برتن سمیٹے اور خاموشی سے اُٹھ گئی۔

ہادی کا چھوٹا بھائی پندرہ سال سے امریکا کی ریاست نیویارک میں مقیم تھا۔ سات آٹھ سالوں سے اُس کے مالی حالات بُہت اچھے ہوگئے تھے۔ پہلے چندسال تو دھکے ہی کھاتا رہا تھا۔ پر اب چند پیٹرول پمپوں اور ایک بڑے سٹور کا مالک ہوگیا تھا۔ ہادی کی اُمید کی کرن اُس کا یہ چھوٹا بھائی ہی تھا جس کے پاس وہ بیٹے کو فی الفور بھیج دینا چاہتا تھا۔
لیٹنے کے بجائے اُس نے اُسی وقت بھائی کو تفصیلی خط لکھ کر اپنی پریشانی سے آگا ہ کیا۔ اپنا سارا درد کاغذ کے صفحوں پر اُتار دینے سے وہ ہلکا ہوگیا تھا۔
خط بند کرنے کے بعد اُس نے لباس تبدیل کیا۔ بیوی سے کہا کہ وہ پونرین جا رہا ہے۔ کل واپسی ہوگی۔

بیوی صبح سے ہی اُس کی متغیر صورت پر پریشان سی ضرور تھی پر وہ کچھ بھید کھول نہیں رہا تھا۔ دوسرے شہروں میں جانا تو یوں بھی اُس کا معمول تھا۔ جافنا کی نسبت پونرین بڑا شہر تھا۔ ڈاک کا انتظا م یہاں زیادہ بہتر تھا۔ یوں تو اُس کا دل اِس خط کو کولمبو جا کر پوسٹ کرنے کا چاہ رہا تھا تاکہ جتنی جلدی ہوسکے اُسے پتہ چلے کہ اُس کا بھائی اُسے اِس مشکل سے نکالنے کے لئے فی الفور کون سا قدم اُٹھانے کو ترجیح دے گا۔

بس میں کیا بیٹھاجیسے خیالوں کے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ وہ وقت جب اُس کا بھائی ماہ روف بیس سال کی عمر میں امریکا گیا، اُس وقت اُن کے مالی حالات بہت اَبتر تھے۔ ترکی سے جرمنی وہاں سے انگلینڈ وہاں سے امریکہ ڈیڑھ سال کے عرصے نے اُس کے پیروں میں جیسے پہیے لگادیئے تھے۔ جگہ جگہ کا پانی پیتے اور محنت مزدوریاں کرتے کرتے وہ ایک ایسے ملک میں داخل ہوا جس نے شروع میں اُسے رگیدا اور پھر آسائشوں کے دروازے اُس پر کھول دئیے۔ ماہ روف بُہت سعادت مند لڑکا ثابت ہوا۔ جب وہ دھکے کھاتا تھا تب بھی وہ بھائی کو کچھ نہ کچھ بھیجتا رہتا۔اُس کی اِس مدد نے لاریف ہادی کو بُہت سہارادیا۔ اُس کا کاروبار دھیر ے دھیرے بہتر ہوتا چلا گیا۔

ماروف نے شادی بھی سر ی لنکن لڑکی سے کی جو کولمبو میں کھاتی پیتی مسلم کمیونٹی سے تھی۔ خُدا نے بچے بھی دئیے، ایک لڑکی اور دولڑکے۔ چند سال قبل وہ مع بیوی بچوں کے آیا تھا۔ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی وہ سب اپنے مذہبی طورطریقوں کی پابندی کرنے میں پیش پیش تھے۔ دس سالہ زہرت نماز کی پابند تھی۔ لڑکے بھی اسی انداز میں تربیت یافتہ تھے اور یہ چیزیں ہادی کے لئے بہُت طمانیت بخش تھیں۔

شام ڈھل رہی تھی جب وہ پونرین پہنچا۔ خط پوسٹ کیا۔ ما ہ روف کی طرف سے جب تک اُس کے خط کا جواب نہ آگیا اُس وقت تک ہادی نے کسی سے اس بابت کوئی بات نہ کی۔جونہی خط اُسے ملا جس میں ماہ روف نے لاطف کو فی الفور بجھوانے کا لکھا تھا۔ ساری ہدایات درج تھیں۔ کولمبو جاؤ، فلاں فلاں سے ملو.فلاں کو میرا حوالہ دو. کون کون سے کاغذات درکار ہیں۔کہاں کہاں سے ملیں گے؟وغیرہ وغیرہ۔

اُس دن ہادی نے پہلی بار بیوی کے سامنے زبان کھولی پر صرف اس حد تک کہ وہ لاطف کو امریکہ بھیج رہا ہے۔

‘‘پر کیوں؟’’ بیوی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ جیسے پھٹ پڑی۔ امریکہ تو وہ جائے جس کے پاس یہاں کام نہ ہو۔ تمہارا تو اپنے کاروبارکو بیٹے کی شرکت اور ساتھ کا ضرورت ہے۔ تم کیوں اپنے ہاتھ کاٹ کر ٹُنڈا ہونا چاہتے ہو۔ لاکھ تمہارے ملازم وفادر اور ایمان دار ہیں پر اپنے خون کی بات ہی اور ہے۔ جو نگرانی وہ کرسکتا ہے کوئی دوسراکیسے اس معیار پر اُترے گا۔

ہادی اُسے کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ سب معاملات راز دارانہ انداز میں آگے بڑھانا چاہتا تھا۔ یہ تنظیم اتنی خطرناک تھی کہ کسی بھی ساتھی کے اِدھر اُدھر ہونے کی صورت میں انتہا پر جا سکتی تھی۔ تنظیم میں اُس کی حیثیت کیا تھی یہ وہ نہیں جانتا تھا۔

بیوی لاکھ سر پٹختی رہی، اُس نے منہ پر قفل لگائے رکھا۔ لاطف سے جب بات ہوئی۔ پہلے تو اُ س نے مخالفت کی۔ جوان خون میں جو سرکشی اور جوشیلا پن تھا اُس کی تسکین تنظیم میں شمولیت سے بُہت عمدہ طریق سے ہونے لگی تھی۔ ہادی نے سمجھ داری سے صورت حال کو سنبھالا۔ امریکہ کے بارے میں ممکنہ حد تک سبز باغ اُسے دکھائے پھر اُسے ساتھ لے کر کولمبو جانے کے لئے گاڑی میں سوار ہوگیا۔نوےّ کی دہائی میں سری لنکا کے مقامی باشندوں کا امریکہ جانے کا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔

کولمبو کی مسلم کمیونٹی نے بھی ہادی کی پوری مدد کی اور یوں پندرہ دن کی بھاگ دوڑ کے بعد جس شام اُس نے بیٹے کو جہاز میں سوار کرایا اُس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ رہے تھے۔
جہاز میں بیٹھے لاطف کے احساسات عجیب سے تھے۔ بیک وقت وہ دومتضاد کیفیات کا شکار ہو رہا تھا۔ اُس کی زندگی کے گزشتہ دو سال جس سنسنی خیزی، ہنگامہ پروری اور تھرل سے دوچار ہوئے تھے اُس نے اُسے زندگی گزارنے کا ایک نیا مفہوم دیا تھا۔

پہلی بار اُس کا کلا س فیلو اور گہرا دوست اجیت جو نسلاً تامل تھا اُسے کینڈی روڈپر ایک بڑی عمارت کے تہ خانے میں ہونے والے اجلاس میں لے کر گیا۔ جتنی بھی تقریریں ہوئیں وہ سب ظلم واستبداد کے خلا ف تھیں۔سرمایہ داروں اوروزیروں امیروں کے خلاف تھیں جو غریب کو زندگی گزارنے نہیں دیتے اور اُسے کیڑے مکوڑے کی طرح پیس کر رکھ دیتے ہیں۔ بظاہر تو کچھ ایسا نہیں تھا۔ اُسے وہاں جانا اچھا لگا پھر وہ اکثراُن کی میٹنگوں میں شریک ہونے لگا۔ ان کے کاز اور سرگرمیوں کو سراہنے لگا مگر کسی کے سامنے نہیں اپنے دل میں، اپنے اندر۔

تنظیم کے بارے میں سنہالی بدھ اور مسلمان اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ آغاز میں تنظیم تاملوں کے حقوق کی بات کرتی تھی۔مقبولیت کے ساتھ ساتھ تشدد کے راستے اپنانے لگی۔تامل ریاست کا مطالبہ ہونے لگا۔ـ‘‘را’’ سے تعلق جوڑ لیا۔اورمدر اس کے تامل ناڈوں سے مل کر ایک دہشت پسند تنظیم بن بیٹھی۔

پہلی بار جب وہ اُن کے ہیڈ کواٹر ‘‘مولائی ٹیوو’’Mullaitvu اُجیت کے ساتھ گیا۔ گھر میں تو اُس نے دوستوں کے ساتھ مولائی ٹیوو جانے کا کہاتھا۔ کسی کو شک بھی نہ ہوا۔ ہادی تو یوں بھی اِن دنوں انورادھا پور گیا ہوا تھا۔

سری لنکا کے شمال اور شمال مشرقی ساحلوں کے ساتھ ساتھ جافنا سے لے کر Killinochchi, Nallur اور ٹرانکومالی Trincomalee تک گھنے جنگلوں میں اُن کی زیرزمین پناہ گاہیں ، اسلحہ خانے اور تربیت گاہیں تھیں۔ اُجیت نے اُسے بتایا تھا۔کہ یہاں ایئرپورٹ بھی ہیں۔حددرجہ پُراسرارکسی جاسوسی کہانی کیطرح پھیلا ہوا اسکا لمبا چوڑا نیٹ ورک۔اُجیت کے ساتھ وہ عام جگہوں پر ہی گیا۔تاہم فضا میں ایک دہشت کا احساس پایا جاتا تھا۔

کلنو چی چی میں نوجوانوں کو خودکش حملوں کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔ مولائی ٹیوو میں سیر کرتے ہوئے اجیت اُسے ایک خاص کمرے میں لے گیا۔ یہاں عورتیں بھی تھیں۔ یہیں لا طف نے اُس خوبصورت اور پُر کشش لڑکی کی تصویریں دیکھیں جس نے ابھی چند دن پہلے مدراس میں وزیراعلیٰ کی آمد پر بم دھماکا کیا تھا۔ لاطف کی میل ملاقات صرف سطحی لوگوں سے ہی ہوئی تھی۔ پارٹی کے خاص لوگوں کے بارے میں اُجیت بھی نہیں جانتا تھا۔

لاطف کچھ خوف زدہ بھی تھا مگراند ر سے وہ ایسی زندگی کو سراہ بھی رہا تھا۔ ہر جنگ جُو کے گلے میں سائنائیڈ کا کیپسول بندھا ہوتا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں یہ کیپسول اس کی حفاظت کا آخری سہارا ہے۔ جسے فی الفور کھا کر وہ مر سکتا تھا۔گرفتار ہونے کے بجائے موت ان جوانوں کی ترجیح ہوتی۔یہ سب اجیت نے اُسے بتایا تھا۔

اس پُر اسرار اور خوفناک دُنیا سے واپسی پر لاطف چند دن گُم صُم رہا پھر وہ ان کے اجلاسوں میں جانے لگا۔ پر ابھی باقاعدہ رکن بننے میں اُس کی آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہونے ہی والا تھا جب قسمت نے اُسے جہاز میں بٹھا دیا اور اب وہ ایک ایسی دُنیا کی طرف رواں دواں تھا جس کے قصے اور داستانیں وہ ہر دوسرے روز سنتا تھا۔

جہاز نیویارک کے جان ایف کینیڈی ائر پورٹ پر لینڈنگ کے لئے پر تول رہا تھا۔ کھڑکی کے شیشے سے چپکی اُ س کی آنکھیں نیچے رنگ اور روشنیوں کا ایک سیلاب دیکھ رہی تھیں۔ بُہت سے مرحلوں سے گزر کر وہ باہر آیا جہاں اُس کے چچا اور چچی اُسے لینے اور اُس کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ چچا نے اُسے اپنے سینے سے لگایا اور اپنی سنہالی زبان میں اُس کے سفر کے خیریت سے گزرنے کے بارے میں پوچھا۔ ہراساں سے لاطف نے مادری زبان کے ساتھ ہی اپنی بشاشت لوٹتی محسوس کی۔ چچی نے پیار کیا اور اُس کے والدین اور بہن بھائیوں کا پوچھا۔

چند لمحوں بعد گاڑی گھر کی طرف بھاگی جا رہی تھی۔ رات دن کی طرح جوان اور روشن تھی۔ اُس کے چچا کا گھر ‘‘برانکس’’ میں تھا۔ یہ ایک پندرہ منزلہ بلڈنگ کا چوتھا فلو ر تھا۔ بڑا خوبصورت اور سجا ہوا۔ چچا کے بچے سو رہے تھے۔ چچی نے کھانے پینے کا پوچھا پر اُس نے بتایا کہ جہاز میں اتنی ٹھونسا ٹھونسی ہوتی رہی کہ اب قطعاً گنجائش نہیں اور جب وہ سونے کے لئے اپنے کمرے میں گیا تو تھوڑی دیر تک وہ قدرت کے اِس عجیب وغریب فیصلے پر حیران ہوتا رہا پھر نیند کی وادیوں میں اُتر گیا۔

چچا کے بچوں سے ناشتے پر ملاقات ہوئی۔ اتوار تھا سبھی گھر میں تھے۔ لڑکے تو خوب ہنسوڑ اور گھُلنے ملنے والے بچے تھے۔اُسے دیکھ اور مل کر خوش بھی بُہت ہوئے، پر زہرت چچا کی اکلوتی تیرہ سالہ بیٹی پینٹ قمیض پر اسکارف پہنے ہوئے تھی۔ خوش طبع ضرور تھی پر تھوڑا سا لئے دئیے والی بھی محسوس ہوئی۔

اگلے چند دن اُس نے نیویارک سٹی کی سیر کی۔ کبھی چچا کے بیٹوں کے ساتھ اور کبھی اکیلے۔ نیویارک کے سب علاقوں میں اسے مین ہٹن سب سے زیادہ اچھا لگا۔یہاں آسمان کو چھوتی ہوئی عمارات، سینما ، تھیٹر ، بینک ، دفتر اور کمرشل پلازوں کی بھر مار نظر آئی۔ پندرہ بیس دن اُس نے یہی کام کیا۔ چچا نے بھی اُسے کھُلی چھٹی دی کہ وہ ماحول کے ساتھ رَچ بس جائے اور ہوم سکنس کا شکا ر نہ ہو۔ پھر وہ اپنے چچا کے پیٹرول پمپ اور گیس اسٹیشن پر کام کرنے لگا۔ کسٹمرز کو ڈیل کرنے میں اُس کی سمجھ داری، محنت اور ذمے داری نے چچا کو متاثر کیا۔ شام کی کلاسز میں اُس نے پڑھائی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ رات گئے وہ گھر جاتا۔اپنا کھانا گرم کرتا، کھاتا اور سو جاتا۔

ایک دن شام کی کلاس نہیں ہوئی۔ وہ جلدگھر آگیا۔ لینوگ روم میں بڑے صوفے پر زہرت نیم دراز کچھ پڑھنے میں محوتھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اُ س نے زہرت کو نظر بھر کر کسی قدر تنقیدی انداز میں دیکھا۔ عام سری لنکن لڑکیوں کے برعکس اُ س کے نقوش بُہت دلکش تھے۔ چنبیلی جیسا رنگ بڑی ملاحت لئے ہوئے تھا۔ اُس کے بال سیاہ اور لمبے تھے جو اُس وقت اُس کے سینے پر بکھرے ہوئے تھے۔ وہ پڑھنے میں اتنی محو تھی کہ اُسے احساس ہی نہیں ہوا کہ کوئی اُسے یوں دیکھ رہا ہے۔ زیادہ دیر تک کھڑے رہنااُسے خود بھی اچھا نہیں لگا۔ اُس نے ہلکی سی چاپ پیدا کی جس پر زہریت نے چونک کر نگاہیں اُٹھاکر اُسے دیکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

‘‘آج تو آپ جلدی آگئے ہیں۔’’ زہرت نے رسالہ قریبی تپائی پر رکھتے ہوئے اپنی اُلٹی پلٹی نشست سیدھی کی۔
‘‘دراصل آج کلاسز نہیں ہوئیں۔ پر سب لوگ کہاں ہیں؟ ’’ اُس نے اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیتے ہوئے پوچھا۔
‘‘ممی اور ڈیڈی ہنی سنی کے ساتھ مسز راجر کے گھر گئے ہیں۔ وہ شاید اپنا گھر سیل کرنا چاہتی ہیں ۔ آپ کھانا تو کھائیں گے نا پر لا طف بھائی میں ذرا مغرب کی نماز پڑھ لوں۔’’
زہرت کی خوبصورت آنکھیں کلاک کو دیکھ رہی تھیں اور زبان اس سے مخاطب تھی۔
اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ قریبی ریک پر پڑے رسالوں میں سے ہاتھ بڑھا کر اُس نے ایک رسالہ اُٹھا لیا اور اُس کی ورق گردانی کرنے لگا
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply