سیلون کے ساحل ۔ہند کے میدان( باب نمبر5 -ب)اپنے حصّے کا دیا جلائیں/سلمیٰ اعوان

اُسے تو یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ اس مادر پدر آزاد معاشرے میں اُس کا چچا کیوں اتنا رجعت پسند ہے۔ چچا چچی اور یہ زہرت اِس ماحول میں کتنے اجنبی سے لگتے ہیں۔
وہ اپنے ماحول سے خاصامختلف بچہ تھا۔ بچپن ہی سے کسی حد تک من مانی کرنے والا، کچھ باغی سا۔ ہادی جب بھی اس پر نماز کے لئے سختی کرتا و ہ چٹائی پر کھڑا ہوجاتا۔ اُٹھک بیٹھک بھی کرتا، پراگر موڈ نہ ہوتا تو کچھ نہ پڑھتا۔ کبھی کبھار باپ کے پُوچھنے پر غلط بیانی بھی کر جاتا۔ ماں کے سامنے تو وہ بول بھی پڑتا۔
‘‘آخرآپ لٹھ لے کر ایک ہی بات کے پیچھے کیوں پڑ جاتے ہیں؟ پڑھ لوں گا نماز اور رکھ لوں گا روزے۔ ایک ہی کام رہ گیا ہے آپ لوگوں کا۔’’ ماں جواباً بولتی اور کوسنے بھی دیتی۔
اس کھُلے ڈُلے ماحول کو اُس نے بے حد پسند کیا تھا۔
زہرت نے کھانا میز پر لگا کر اُسے آواز دے ڈالی اور جب وہ کرُسی گھسیٹ کر اس پر بیٹھا تو میز پر سجے ڈونگے میں سالن دیکھ کر اُس کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور وہ سرشار سے لہجے میں بولا۔
‘‘ارے یہ ڈوسا کس نے پکایا ہے؟’’
‘‘مما اور میں نے ۔’’ زہرت نے مختصراً کہا۔
اُ س کی ماں اپنے علاقے کی یہ خاص ڈش بُہت چاہت سے بنایا کرتی تھی۔ جب بھی یہ پکتا وہ تڑپ تڑپ کر کھاتا۔
‘‘زہرت یہ بُہت عمدگی سے پکایا ہے۔ میری ماں سے بھی اچھا۔’’ وہ کھاتا رہا اور باتیں کرتا رہا۔
وہ کام کرتا رہا، پڑھتا رہا پھر اس نے کمپیوٹر انجینئر نگ کے لئے صبح کی کلاسز جوائن کر لیں اور شام کو کام کرنے لگا ۔ اپنے مستقبل ، اپنی تعلیم اور اپنے کیرئیر کے لئے بُہت کریزی تھااور سیر سپاٹوں اور لڑکوں کے ساتھ دوستیاں کرنے میں بھی ماہر تھا۔ پر اس کے ساتھ وہ بُہت ذہین اورسُو جھ بُوجھ والا لڑکا تھا۔ نہ کبھی چچا کو شکایت کا موقع دیا اور نہ کبھی کوئی ایسی صورت پیدا کی جو اُس کے لئے پریشانی اور مصیبت کا باعث بنتی۔ ایشیائی لوگوں کے ساتھ نت نئے دن جو کچھ ہوتا وہ اُس کی آنکھیں کھولنے کو کافی تھا۔
چھ سال وہ اپنے چچا کے ساتھ رہا۔ اپنی ذہانت ، ذمے دارانہ رویے، کا م اور پڑھائی کے ساتھ لگن جیسی اچھی خوبیوں کے باعث وہ اپنے چچا اور چچی کو متاثر کرنے اور اُن کی خصوصی محبت حاصل کرنے میں بُہت کامیاب رہا اور جب اُس نے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کر لی اور اچھی کمپنیوں میں اپلائی کر دیا اور شکاگو کی ایک بڑی کمپنی میں انٹرویو بھی دے آیا تو اُسے یقین نہیں تھا کہ وہ اُسے ایشیائی ہونے کے باوجو د اِس بہترین پوسٹ کے لئے سلیکٹ کر لیں گے ، پر کمپنی کا جو بورڈ انٹرویو کے لئے بیٹھا تھا اُنہوں نے اُس کے سانولے وجود میں ایک زرخیز اور تخلیقی ذہن کا اندازہ لگا لیا تھا۔ اِس میں شک نہیں کہ جب خوشی سے بھرپورلہجے میں اُ س نے یہ خبر اپنے چچاکو سنائی تو جہاں اُسے اُس کی ذات پر فخر محسوس ہوا وہیں تھوڑا سا اُس کے چلے جانے کی صورت میں رنج بھی ہوا۔
زہرت کے لئے وہ ایسے ہی ہیرا سے لڑکے کا خواہش مند تھا۔ شروع میں اُس کا خیال تھا کہ وہ شاید زہرت میں دلچسپی لے پر وہ تو ہمیشہ کام سے کام رکھتا۔
اپنے بھائی سے وہ یہ بات کر بیٹھا تھا۔ بھائی نے لاطف کو لمبا چوڑا خط بھی لکھا تھا کہ بھلا اُس کے لئے زہرت سے اچھی کون سی لڑکی ہوسکتی ہے؟ خط پڑھ کر اُ س نے چند لمحوں کے لئے سوچا اور پھر اُسے ڈسٹ بِن میں ڈال کر اپنے آپ سے کہا۔
‘‘کمال ہے ذرا دیکھو تو اِن کی سوچوں کو۔ ٹھیک ہے زہرت اچھی لڑکی ہے مگر اتنی مذہبی لڑکی سے میرا گزارہ بُہت مشکل ہے۔’’
اُس نے باپ کو خط لکھ دیا کہ وہ فی الحال شادی جیسے کسی موضوع پر کوئی با ت یا سوچ بچا ر کے لئے تیار نہیں۔ اُسے ابھی آگے بڑھنا ہے۔ وہ اپنی ذاتی کمپنی بنانے میں کوشاں ہے اور اپنی محنت کے بل بوتے پر اُسے یقین ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوگا۔
ہادی دل سے چاہتا تھا کہ بیٹا کسی طرح اِس رشتے پر راضی ہو جائے۔ وہ بھائی کا احسان مند تھا، پر لاطف کی دوٹوک تحریر اور فون پر دوٹوک گفتگو نے اُس پر واضح کر دیا کہ وہ اُس پر راضی نہیں۔ یوں اپنے طور پر وہ کبھی کبھی اُسے ضرور لکھ دیتا۔
زہرت جب سر ی لنکاگئی تو تایا تائی سے بھی ملی۔ ہادی اُس کے انداز واطوار دیکھ کر دنگ ہی تو رہ گیا ۔ پہلے ایک دو بار جب آئی تو بچی تھی لیکن اب جوان ہو چکی تھی۔ کس قدر شائستہ اور مہذب ،ادب آداب والی شائستہ سی لڑکی۔ہادی کا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ جب وہ گھر آیا تو اُس نے بیٹے کو لمبا چوڑاخط بھی لکھ دیا کہ ایسی لڑکیاں نصیب والوں کو ملتی ہیں۔ زہرت کا ساتھ اُس کی زندگی کو جنت بنا سکتا ہے۔
لاطف یہ خط پڑھ کر بُہت ہنسا۔ سگریٹ سُلگا کر اُ س نے کش لیا اور اپنے والد کو تصور میں لا کر بولا۔
‘‘میرے پیارے ڈیڈی آپ کس جنّت جہنّم کے چکر میں پڑگئے ہیں؟ جنّت لے کر کیا کرنی ہے، میرے جیسے آدمی کے لئے دوزخ ہی ٹھیک ہے۔’’
چند دنوں بعد ایک دن اُس کے چچا کا فون آیا۔
‘‘بھئی لاطف تم نیویارک کا چکر لگا لو۔ زہرت سری لنکا سے آئی ہے، تمہارے امی ابو نے کچھ چیزیں بھیجی ہیں تمہارے لئے۔ ہمیں مل بھی جاؤ اور اُنہیں لے بھی جاؤ۔’’
وہ جس دن نیویارک آیا، آسمان بادلوں سے بھرا ہوا تھا اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔ زہرت گھرپر نہیں تھی۔ چچا بھی نہیں تھے۔ چچی نے محبت سے استقبال کیا اور اُس کے بُہت کم آنے کا گلہ کیا۔
‘‘اب شکا گو کو تو یوں لگتا ہے جیسے تم نے لا س اینجلز بنا لیا ہے۔ کتنا عرصہ ہوگیا ہے تمہیں آئے نہیں۔’’
‘‘ارے چچی مصروفیت، کام۔۔۔کام۔۔۔ میں اب اپنا کام بھی تو سیٹ کر رہا ہوں۔ ہاں یہ زہرت کدھر ہے؟’’
‘‘یونیورسٹی میں کوئی سیمینار تھا۔ بس آتی ہی ہوگی۔’’
کوئی گھنٹے بعد اُس نے زہرت کو اندر آتے دیکھا۔ پر ٹی وی لاؤنج میں جہاں وہ بیٹھا تھا وہاں آنے کے بجائے وہ اُوپر چلی گئی۔ باہر پھوار پڑ رہی تھی۔ عین ممکن ہے بھیگ گئی ہو اور چینج چاہتی ہو۔ اُس نے سوچا۔
اور واقعی یہی بات تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ سُرخ اور سیاہ پھولوں والی میکسی پہنے اندر آئی۔ میکسی پر ہلکے شوخ پھُولوں کی طرح اُس کا چہرہ بھی کھِلا ہوا تھا۔کس قدر بشاشت تھی اُ س کے لہجے میں جب اُس نے ماں کو چائے کی ٹرالی گھسیٹتے دیکھا۔
‘‘ارے واہ کتنی طلب تھی اِس وقت چائے کی۔’’
لاطف اُس کی لابنی چوٹی کو کمر پر جھُولتے دیکھ رہا تھا۔ سیاہ اسکارف کی ناٹ اُس کے گلے میں تھی۔ اب وہ لاطف کی طرف متوجہ ہوئی۔
‘‘تو آپ اپنی چیزیں لینے آئے ہیں۔ ویسے تو آنے کی قسم کھا لی ہے۔’’
لاطف ہنسا اور بولا۔
‘‘یہ تمہیں سری لنکا جانے کی کیا ہڑک اُٹھی۔’’ اُسے اپنے باپ کے اصرار بھرے خطوط یاد آئے تھے۔
‘‘کمال ہے، ہڑک کیوں نہ اُٹھے وطن ہے ہمارا۔ سارے رشتے تو وہیں سے جُڑے ہوئے ہیں۔ دراصل جینی بھی چاہ رہی تھی۔ تمہیں تو معلوم ہی ہے۔ سیاحت اُس کی ہابی ہے۔’’
جینی ان لوگوں کے ہمسائے میں رہتی تھی۔ سیر سپاٹوں کی دلدادہ۔ نئی دنیائیں دیکھنے کی شوقین ۔ لاطف اُسے تب سے جانتا تھاجب وہ یہاں رہتا تھا۔
میں نے تو بہتیر ازورمارا تھا کہ مت جاؤ ۔سیاحوں کیلئے ابھی حالات ساز گار نہیں۔پر تم تو جانتے ہی ہو وہ کیسی نڈر اور جیالی لڑکی ہے۔تنک کر بولی تھی۔
‘‘لو مجھے ڈراتی ہو۔ایک سری لنکا کیا.دنیا بھر میں دہشت گردی کی لہر رقص کر رہی ہے اب اِس ڈر سے کہیں جانا چھوڑ دیں۔’’
‘‘کیا حالات ہیں اب؟’’
‘‘کمزور ملکوں کے حالات کا کیا کہنا؟بڑے ہمسائے ملک نگل لینا چاہتے ہیں انہیں۔اب کوئی پوچھے انڈیا سے کہ ذرا سی چنگاری تھی اُسے ہوا ہی نہ دو ہوا بھی دی اور تیل بھی چھڑکا۔بھڑکایا اور اب فوجیں اُسے بجھانے کو اُتاردیں۔عالمی منظر نامے کے رنگا رنگ تماشے۔
‘‘ویسے ایک بات!’’
زہرت نے چائے کا کپ ماں کے ہاتھوں سے پکڑا، چھوٹا سا سِپ لیا اور بات کوجاری رکھا۔
‘‘سری لنکن اگر کہتے ہیں کہ A Land Like No Other تو یہ غلط نہیں۔ چھوٹے تھے تو ایک دفعہ گئے تب اتنا شعور نہیں تھا پر اب تو حُسن فطرت دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ سچی بات ہے سری لنکا کا قدیم تہذیبی ورثہ دیکھ کر مجھے تو فخر محسوس ہوا۔ جینی تو میوزیم میں زیورات کا سیل دیکھ کرکُنگ رہ گئی تھی۔’’
‘‘پر کچھ انسانوں کا بھی بتاؤ کہ وہ کیسے لگے؟ ’’
لاطف ہنسا، اُ س کے لہجے میں شوخی تھی اور کسی قدر طنزبھی۔
‘‘اُوپر والے کی تخلیق پر میں کون ہوتی ہوں رائے دینے والی۔ ویسے وہ اگر صورتاً اچھے نہیں لیکن سیرتاً تو کمال کے ہیں۔ایسے محبت کرنے والے کہیں دیکھے ہیں تم نے۔’’
‘‘کہاں کہاں گئیں ، کون کون سی جگہیں دیکھیں؟’’
‘‘کینڈی ، سیگریا، نویرا علیا،آدم پیک۔ انورادھاپور، جافنا اور راستوں میں پڑنے والے سب چھوٹے بڑے شہر۔’’
‘‘مائی گاڈ تم آدم پیک گئیں!’’ لاطف کے لہجے میں حددرجہ حیرت تھی۔
تبھی زہرت لاطف کو کھانے کے لئے اُٹھنے کے لئے کہتے ہوئے بولی۔
‘‘مما ڈیڈی کے ساتھ بُہت ملکوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ نماز کے لئے ڈیڈی کے ساتھ اُٹھنے کے بعد ہم دونوں تو پھر کبھی نہیں سوتے تھے، گھومنے پھرنے ہی نکلتے سچی بات ہے ایسی نشیلی صبحیں دیکھنے کو ملتیں کہ لطف آجاتا۔لیکن سری لنکا کی صبحوں کا جواب نہیں۔
‘‘خیر یہ بات بھی درست نہیں۔ اسکنڈے نیوین ممالک کی صبح شامیں اپنے اندر حُسن کے خزانے رکھتی ہیں۔ یہ چونکہ ہمارا وطن ہے اس لئے اِس کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی بھی ہے جو اِس کی ہر چیز کو خوبصورت بنا دیتی ہے۔’’
‘‘پر چند باتوں نے مجھے اس بار شدید متاثر کیا ہے۔ سچی بات ہے میں تو اس پر سنجیدگی سے کام کرنے کو پلان کر رہی ہوں۔
سر ی لنکن مسلمانوں کی روشن خیالی، وسعت نگاہی، ذ ہنی اُفق کی بلند ی اور مذہبی روح کو سمجھنے کے لئے ان کی اعلیٰ تعلیم کا اہتمام ازحد ضروری ہے۔سررزاق فرید کی تنظیم کے بنائے ادارے اب کم ہیں۔نئے اور جدید اداروں کی شدید ضرورت ہے۔دوردراز گاؤں کی لڑکیوں کیلئے انکے قریبی شہروں میں اچھے اسکول کھولنے کی ضرورت ہے۔تامل ہندو جو حلقہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں انکی تعلیم و تربیت کا موزوں بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں موجود تینوں فرقے ہندو، عیسائی اور بدھ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے بُہت کریزی ہیں۔ اس میدان میں سری لنکن مسلمان پیچھے ہیں۔ میں تو انشاء اللہ اب اس پر کام کرنے والی ہوں۔’’
‘‘مسلمانوں کی انتہاپسندی لبرل ازم اور سیکولر سوچ سے نارمل ہو سکتی ہے۔ ترقی کے لئے سیکولر ہیمو نسٹ ہونا بے حد ضروری ہے۔’’ لاطف نے کھانے کی میز پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
‘‘سیکولر کیوں؟ مسلمان اپنے مذہب کی روح کو سمجھیں۔’’
بحث شاید طول پکڑ جاتی جب زہرت کی ماں نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہاکہ بس بُہت باتیں ہوگئیں۔۔۔ اب کھانا کھاؤ۔’’
لاطف کھانے میں مصروف تھا جب زہرت نے یہ کہا۔
‘‘مجھے تو اپنے مسلمان ہونے پرفخر ہے اور میرا مذہب میری پہچان ہے۔’’
لاطف کے چہرے زاویے بگڑے تھے۔ کھانے کے عمل نے اس ناگواری کو چھپا لیا تھا۔ وگرنہ تو اُس کے تاثرات بُہت نمایاں ہوتے۔
تاہم پھر بھی وہ کہے بغیر نہ رہ سکا۔
‘‘مسلمان تو دنیا بھر میں رسوائے زمانہ ہیں۔شرم آتی ہے خود کو مسلمان کہنے پر۔دہشت گردی میں بڑا نام پیدا کر رہے ہیں۔’’
زہرت تلملائی۔اور پھٹ سے بولی ۔
‘‘تمہاری محبوب تنظیم لبریشن ٹائیگر زاف تامل ایلام نے توخیرسے سبھوں کو مات دے دی ہے ایسی جیالی نکلی پہلے القاعدہ کی ہمرازبنی. اُس سے یارانہ گانٹھا . کچھ سبق پڑھے کچھ چالیں سیکھیں۔پھر ایسے تخلیقی جنگی معرکے مارے کہ اُسے بھی پیچھے چھوڑ گئی خودکش حملوں کی نئی تکنیک ایجاد کر ڈالی۔دنیا بھر سے اپنی انفرادیت منوا لی۔’’
چوٹ تو گہری تھی۔تاہم ہنستے ہوئے بولا۔
‘‘تاریخ کی دُرستگی بہت ضروری ہے۔ خودکش حملے تاملوں کی ایجاد نہیں خیر سے زاروں کے ستائے ہوئے ماٹھے غریب روسیوں کے جذبات کا اظہار تھے۔’’
شاید دونوں میں تلخی پھر بڑھ جاتی۔زہرت کی ماں نے کہا۔
‘‘تم لوگ کن باتوں میں اُلجھ گئے ہو۔کھانے کو زہر کر رہے ہو۔’’
ہلکی پُھلکی سی ڈانٹ کے ساتھ کہتے ہوئے موضوع بدلوادیا۔
ؒٓ لاطف کو شاید یہ اعتراف کرنے میں اپنی سُبکی محسوس ہوئی تھی کہ اُس کا اب تامل ٹائیگر زسے کیا واسطہ اور ناطہ۔انٹرنیٹ سے کبھی کبھار کی حاصل کردہ معلومات اُس کے لئے کچھ اتنی دل خوش کن نہ تھیں۔تنظیم کے بانی رکن ویلو پلائی پر بھا کرن کے بارے میں جانکاری کا رخ بھی کچھ اتنا اچھا نہ تھا۔وہ مذہبی گھرانے کا پرُوردہ تامل ہندو لڑکا جس کا باپ اُسے بڑا افسر دیکھنے کا خواہشمند تھا۔بڑا پڑھا کو تھا تو دوسری طرف تخلیقی و تخریبی ذہن کا مالک بھی تھا۔اسکا نیٹ ورک۔ دنیا بھر میں اس کے رابطے .غیر قانونی منشیات، مختلف کمپنیوں میں غیر قانونی سرگرمیوں، غیرقانونی تارکین وطن کی منتقلی اورسمگلنگ جیسے قبیح دھندے تنظیم کی آمدنی کے ذرائع تھے۔اُس نے پلٹ کر کبھی اپنے اُس ماضی میں جانے یا جھانکنے کی خواہش نہیں کی تھی جس کے لئے وہ اپنے باپ سے اُلجھا تھا۔
لاطف اگر محنتی تھاتو قسمت کا دھنی بھی تھا۔ شکاگو آنا اُس کے لئے بُہت بابرکت ثابت ہوا تھا۔ اپنی منزل کی طرف وہ سرعت سے بڑھ رہا تھا۔ پیسے عہدے مرتبے اور خوشحالی نے اُس کی شخصیت کو نکھار دیا تھا۔
سانولا سلونا کمزورسا لڑکا جو تاڑ جیسا نظر آتا تھا اب ایک دلکش نوجوان کی صورت میں سامنے آیا تھا۔بُہت سی لڑکیوں سے اُس کی دوستی تھی۔ شادی کی اُسے قطعی جلدی نہ تھی۔یہ کام کہیں اُس کے مستقبل بعید کے کسی شیڈول میں تھا۔ زہرت کسی بھی طرح رد کئے جانے والی لڑکی نہیں تھی۔ حد درجہ دلکش اور پسندیدہ اطوار کی حامل ہونے کی بنا پروہ ہربار اُسے بیک ورڈ کہتے ہوئے اپنے دل میں رَدکرتا تھا۔ جب وہ واپس شکاگو آ رہا تھا اُ س نے زہرت کے بارے میں اپنے آپ سے کہا تھا۔
‘‘اُف میرے خدا کس قدر جنونی ہے یہ۔’’
تھوڑا سا وقت اور آگے بڑھ گیا تھا۔ اُ س نے اور کامیابیاں حاصل کیں۔ چچا سے بس کبھی کبھار فون پر ہی بات ہوتی۔ زہرت کے بارے میں چچا سے ہی سننے میں آیا کہ اُس نے ایک این جی او بنائی ہے۔ سری لنکا میں وہ تعلیم پر بُہت کام کر رہی ہے۔
یہ سال 1990ء اور مہنیہ اکتوبر تھا۔
وہ کسی میٹنگ کے سلسلے میں نیویارک آیا ہوا تھا۔ نیویارک بارشوں کے پانیوں سے دُھل دُھلا کر نکھرا ہوا تھا۔ گاڑی کو ئنیز بولیوارڈ پر بھاگتی ہوئی جانسن ہوٹل کی طرف جارہی تھی۔ مین ہٹن کا یہ علاقہ اُسے بُہت پسند تھا۔ سہ پہر سونے میں گزاری اور شام کو وہ سیر سپاٹے کے لئے نکل آیا۔
پہلے اس نے چچا کے گھر جانے کا سوچا۔ پھراس خیال کو جھٹکتے ہوئے وہ خود سے بولا۔
‘‘ہٹاؤ یار، وہاں جا کر بور ہونے سے بہتر ہے فورٹی سیکنڈ سٹریٹ چلوں اور شام بھی اچھی گزاروں اور کچھ خریداری بھی کروں۔ جرابوں اور چند ٹائیوں کی ضرورت ہے۔’’
گھومتے گھومتے وہ ٹائمز اسکوائرآگیا۔ درمیان کی گول سی بلڈنگ پر زیپر چل رہی تھی۔ ساری دُنیا کی اہم تازہ خبریں ایک پٹی کی صورت چمک دار حروف میں سامنے آرہی تھیں۔ اس کا تو قطعاً کوئی ارادہ نہیں تھا اِن خبروں کو دیکھنے کا ۔ پر جانے کیسے نظر اُٹھ گئی اور جو اُٹھی تو اُٹھی رہ گئی۔کِسی سنگی بت کی طرح وہ جہاں کھڑا تھا کھڑا رہ گیا۔ ٹائمزاسکوائر، اس میں گھومتے پھرتے لوگ سب جیسے اوجھل ہوگئے۔ صرف ایک چیختی چنگھاڑتی خبر تھی جس نے اُس کی آنکھوں کو، اُس کے اعضا اور اُس کے وجود کو ساکت کر دیا تھا۔
سری لنکا کے شمالی علاقوں کے اہم شہروں اور قصبوں سے تامل ٹائیگرزاور اس کی ذیلی تنظیم بلیک ٹائیگرز کے مسلح فوجی دستوں نے سنگینوں اور بندوقوں کی نوک پر ان علاقوں کے مسلمانوں کے گھروں پر قبضہ کر کے اُنہیں باہر نکال پھینکاہے۔ سری لنکا کے ان شہروں میں ابترصورت کے پیش نظر امن وامان کی حالت سخت مخدوش ہے۔
سائیں سائیں کرتے کان ، دھڑدھڑ کرتا اُس کا دل اور زیپر پررقصاں اُس کی نگاہیں سب جیسے اِس خبر کی صداقت سے انکاری تھے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ پر وہی خبر اب پھر سامنے تھی اور اُسے بتا رہی تھی کہ اُس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ اس پر یقین کرے۔
پھرجیسے وہ پاگلوں کی طرح بھاگا۔ اُسے یہ بھی نہ خیال آیا کہ فون پر وہ اپنے چچا سے بات کرے۔اُس نے ٹیکسی پکڑی اور برانکس کا کہہ کر نیم دراز ہوگیا۔اُس کے دل ودماغ میں جیسے آندھیوں کے جھکڑ تھے۔ جافنا، مینار، کلونچی ،وییانیا اور مولاٹاوی کے مسمانوں کو وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ امن پسند صلح جوقسم کے یہ لوگ جو کبھی کسی جھگڑے میں ملوث نہیں ہوئے، ہمیشہ اپنے کام سے کام اور اپنی کمیونٹی کی فلاح وبہبود میں خود کو مصروف رکھتے تھے۔
تاملوں اور سنہالیوں کے درمیان کبھی کبھار کے جھگڑوں میں ہمیشہ اس گروپ کا ساتھ دیتے جو انصاف پر ہوتا۔
اُس کے چچا کا گھر لاک تھا۔ یہ لوگ کہاں گئے ہیں؟ اُس نے گہرے دُکھ سے سوچا۔
پیٹرول پمپ فون کرنے پر اُن کے مینجرسے پتا چلا کہ چچا کی ساری فیملی آسٹریلیا گئی ہوئی ہے۔ واپسی پر اُن کا اراد ہ سری لنکاہو کر آنے کا بھی ہے۔
اُس نے جافنا فون کیا۔ کوئی جواب نہیں تھا۔ اُس کا باپ، اُس کے بھائی بہن اُس کی ماں کہاں ہوں گے؟ زندہ بھی ہیں یا نہیں پھر اُس نے کولمبو چچا کے سُسرال فون کیا۔ چچا کے سالے کی بیوی نے بتایا۔
‘‘ابھی تو کچھ پتا نہیں۔ سری لنکن فوج نے ایکشن تو لے لیا ہے پر ابھی حالات بُہت مخدوش ہیں۔ مسلمانوں پر بڑا کڑا وقت ہے۔ اِن دہشت گردوں نے تو انہیں اتنی بھی مہلت نہیں دی کہ وہ اپنا کوئی سامان بھی اُٹھا سکتے۔’’
وہ شکاگو واپس آگیا۔ وہ سری لنکا جانے کے لئے تیار ہو رہاتھا، ان چند دنوں میں جب وہ اپنے بزنس معاملات اور دیگر اُمور کو اپنی عدم موجودگی میں نمٹانے کے بندوبست میں مصروف تھا اُ س نے کتنی بار سوچا، کتنی بار اِس تلخ احساس نے اُس کوکچو کے لگائے کہ یہ وہی تامل ٹائیگرز لبریشن ہے جسے وہ حق پر سمجھتا تھا جس کے کاز سے اُسے ہمدردی تھی جسے وہ ممبربن کر اپنی خدمات سونپنا چاہتا تھا۔ وہ کیسا احمق تھا؟ کس قدر بے وقوف اور گھامڑ تھا۔
وہ بس نام کا مسلمان تھا۔ پر اس حادثے نے اسے اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اُس کی مسلمانیت جیسے جوش کھا کر تڑپی تھی۔ اُس کا باپ کتنی صحیح بات کہا کرتا تھا۔ یہ ہنود ویہود کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔
ان دنوں وہ کِس اذیت سے دوچار تھااس کا اندازہ صرف اُسے ہی تھا۔ اُس کی سیکولرکیمونسٹ سوچوں کے چیتھڑے اُڑ گئے تھے۔ بین الاقوامی میڈیا پر اُس کی صرف ایک خبر تھی۔ کتنے گھر بے گھر ہوئے ۔ کتنے معصوم اور بے گناہ مارے گئے۔کچھ علم نہ تھا۔ اِس کھُلی جارحیت پر کہیں احتجاج نہیں تھا۔ جانے سے ایک دن پہلے اُس نے کولمبو فون کیا۔اُس کے چچا چچی سب مع زہرت کے وہاں آچکے تھے اور کولمبو میں اپنے گھر میں مقیم تھے۔ اُ س کے والدین اور بہن بھائی سب اُس کے چچا کے پاس تھے۔ دو دن پہلے اُس کے چچا انہیں کینڈی کے کیمپ سے لائے تھے۔ زہرت ان دنوں کیمپوں میں امدادی پارٹیوں کے ساتھ دن رات کام کر رہی تھی۔ یہ بات اُ سکے والد نے اُسے فون پر بتائی تھی۔
اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے بات کر کے اُسے قلبی سکو ن تو ضرور ملا تھا، پر جیسے وہ اندر سے جل رہا تھا۔ اتنا بڑا ظلم! کیوں اور کس لئے؟
رات کے تین بجے وہ بند رانائیکے انٹرنیشنل ائر پورٹ پر اُترا تو اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ دس سال بعد اُس نے اپنے وطن کی سرزمین پر پاؤں رکھا تھا۔ یورپ کے ائرپورٹوں کے مقابلے میں یہ کس قدر چھوٹا اور چمکتی دمکتی شان وشوکت سے عاری تھا۔
میجسٹک سٹی میں چچا کا خریدا ہوا خوب صورت گھر جو ابھی خاموشی کے سناٹے میں ڈوباہوا تھا ۔اُس کے اندر پاؤں دھرنے کے ساتھ ہی جاگ اُٹھا تھا۔ دُکھ، کرب اور اذیت کے وہ مشترکہ محسوسا ت جن سے وہ سب اپنی اپنی جگہ دو چار ہوئے تھے ۔ مل بیٹھنے اور باتیں کرنے سے قدرے سکون پذیر ہوئے۔
‘‘آخر ایسا کیوں ہوا؟’’ اُس نے اپنے باپ سے سوال کیا۔
‘‘مسلمان طبقے کا بااثر ہونا اُنہیں کِھلتا تھا۔ انہیں وسطی حصوں میں دھکیل کر وہ پورے لنکا میں ایک اشتعال انگیز صورت حال پیدا کر کے مسلمانوں کو بقیہ فرقوں سے لڑانا چاہتے تھے تاکہ اُنہیں بالکل بے اثر کیا جا سکے۔’’
ہلکے سے ناشتے کے بعد و ہ سوگیا تھا۔ رات کے کھانے پر ماں نے اُسے اُٹھایا۔ وہ جب گہری نیند اور اِس کی مدہوشی سے قدرے باہر ہوا اُسے زہرت کی آواز سنائی دی تھی۔
اور ایسا پہلی بارہوا کہ اُس آواز کے سُنتے ہی اُسے اپنی دھڑکنوں میں ارتعاش سا محسوس ہوا۔ چند لمحے وہ ساکت لیٹا اُسے سنتا رہا۔ وہ کِسی کیمپ کا حال سُنا رہی تھی۔
وہ اُٹھا، واش روم میں جا کر اُس نے منہ ہاتھ دھویا اور پھر باہر آیا۔ کاہی رنگی ساڑھی میں وہ صوفے پر بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔
سفر کی تھکاوٹ کا ہلکا سا عکس اُس کے چہرے پر تھا پر لہجے میں تیزی اور گفتگو میں زور تھا ۔اُسے دیکھ کر مسکرائی۔ یقیناً یہ ایسی ہی مسکراہٹ تھی جیسی وہ ہمیشہ اُسے دیکھ کر اپنے ہونٹوں پر بکھیرا کرتی تھی۔
مگر لاطف کی نظریں آج وہ نہیں تھیں جو پہلے ہو اکرتی تھیں۔ زہرت نے نقشے کے ذریعے ان تمام مقامات کی نشان دہی کی جہاں جہاں مسلمانوں کے کیمپ لگے ہوئے تھے۔ اسے تقریباً ہر کیمپ کی حالت کا علم تھا کہ کہاں ِکس ِکس چیز کی ضرورت ہے؟ اس بھاگ دوڑ میں کولمبو کی پوری مسلم کمیونٹی سرگرم عمل تھی۔
گھر کے بقیہ لوگ تو سونے کے لئے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے۔ لاطف کی ماں نے اُسے زہرت کے ساتھ باتیں کرتے دیکھ کر وہاں بیٹھنا مناسب نہ سمجھا اور اُٹھ گئی۔
دفعتاً باتیں کرتے کرتے لاطف نے کہا۔
‘‘زہرت میں بھی اس مشن میں تمہارے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہوں۔’’
حیرت زدہ سی زہرت نے اُسے دیکھا۔
‘‘ہوش میں تو ہونا۔’’
وہ مُسکرایا۔ زہرت کا حیرت زدہ ہونااُسے سمجھ میں آتا تھا۔ وہ اُس کے خیالات سے بخوبی آگاہ تھی۔
‘‘بالکل ہوش میں ہوں اور بقائمی ہوش وحواس تمہارے مشن میں ایک ادنیٰ کارکن کے طور پر کام کرنے کا خواہش مند ہوں۔’’
‘‘پر لاطف میں تو اپنے مشن کو دُنیا بھر میں ہر اُس جگہ لے جانا چاہتی ہوں جہاں مسلمان مظلوم ہیں۔ سری لنکا میرے والدین کا وطن ہے۔ اُ س کے ہم پر حقوق ہیں۔ پر مجھے وطنیت کی سطح سے اُوپر اُٹھ کر کام کرنا ہے۔ رنگ اور نسل کی سطح سے بالا تر ہو کر۔’’
‘‘میں اور میرے سب وسائل تمہارے ساتھ وہاں تک چلیں گے جہاں تک تم ہمیں لے جانا چاہو گی، زہرت!’’ لاطف کا لہجہ گلوگیر سا تھا۔‘‘ زہرت’’ کہہ کر وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بڑی بوجھل آواز میں بولا۔
‘‘میں نے تو اپنے دل کے دروازے تم پر بندرکھے۔حالانکہ تم میں اندر جانے اور وہاں رہنے کی ساری خوبیاں موجود تھیں، پر میں تو خود کو ہی بھلاے بیٹھا تھا۔’’
اُس نے زہرت کا ہاتھ اپنے بھاری ہاتھوں میں تھاما اور بولا۔
‘‘میں معافی چاہتا ہوں زہرت۔’’
زہرت کی آنکھوں میں شبنم اُتر آئی تھی۔
اپنے باپ کی طرح لاطف اُس کی بھی پسند تھا، پر اُس نے کبھی اس پسندیدگی کا ہلکا سا اظہار کرنا بھی پسند نہ کیا۔ اُ س کا ہاتھ لاطف کے ہاتھوں میں تھا۔
‘‘ہم تو اپنے دشمن آپ بن بیٹھے ہیں۔ وہ آفاقی پیغام جو ہماری اساس ہے ، اُس کی روح کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے سے انکاری ہیں۔ رنگوں، نسلوں، فرقوں، گروہوں میں بٹے ہوئے ،اپنے مرکز سے بھٹکے ہوئے ، معجزوں کی توقعات میں زندہ، عمل سے عاری لاشے ہیں۔’’
‘‘لاطف تم نے مجھے اپنا آپ دیا ہے، میں بُہت خوش ہوں۔ آؤ چھوٹا سا دیا جلائیں اور اُسے اِن دیوں میں شامل کریں جو کہیں کہیں جل رہے ہیں۔ شاید یہ ایک قافلہ بن جائے۔
٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply