مشکلات میں خوش رہنے کی سائنس/محمد ثاقب

گرمی کے موسم میں آپ نے اکثر لوگوں کو گرمی کی شدت کی شکایت کرتے سنا ہوگا۔ گرمی واقعی شدید ہوتی ہے، اس سے انکار نہیں لیکن کیا گرمی کی مذمت یا شکایت کرنے سے اُس کی شدت میں کمی آجائے گی ؟ بالکل نہیں مگر اپنا دل ضرور جلے گا۔

دوسرے لفظوں میں ہم سب کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ زندگی میں ہمیں بعض ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا کوئی حل نہیں ہوتا، اس لیے لازم ہے کہ ان مسائل سے نمٹتے ہوئے وسیع الظرفی کا مظاہرہ کیا جائے۔

مشہور عربی شاعر

ایلیا ابو ماضی نے کہا تھا

اُس نے کہا: آسمان افسردہ اور ترش رو ہے۔

میں نے کہا: مسکراؤ ، آسمان کی ترش روئی کے لیے بس اتنا کافی ہے۔

اُس نے کہا “مشرق کی تیز ہوا ”صبا“ پھر آدھمکی۔

میں نے اُس سے کہا

مسکراؤ، افسوس کرنے سے کاٹ دار ہوا لوٹ نہیں جائے گی

اس نے کہا: وہ جو میرا آسمان محبت تھی عشق کا دوزخ بن چکی ہے۔

میں نے اُسے اپنے دل کا مالک بنایا

لیکن اُس نے مجھ سے باندھے عہد توڑ دیے۔

سو میں کیونکر مسکراؤں؟

میں نے کہا: ” پھر بھی مسکراؤ اور خوش رہو

اس لیے کہ اگر تم اُس کے

وعدوں کا حساب کتاب کرنے بیٹھ گئے

تو ساری عمر اذیت میں رہو گے۔“

اس نے کہا: ”میرے ارد گرد دشمنوں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔

دشمنوں کےگھیرے میں کیا خوشی محسوس کروں ؟

میں نے کہا: ” تو بھی مسکراؤ، اگر تم دشمنوں سے بلند مرتبہ اور عظیم نہ ہوتے تو

وہ کبھی تمھیں مذمت کا نشانہ نہ بناتے ۔

اُس نے کہا: ” راتوں نے مجھے کڑوے گھونٹ پلائے ہیں۔

میں نے کہا: مسکراؤ، اگر چہ تمھیں کڑوے گھونٹ پلائے گئے ہیں۔”

ہوسکتا ہے تمھیں گا تا دیکھ کر

کوئی دکھی دل انسان افسردگی پس پشت ڈال دے

اور گانے لگے ۔

” کیا تم سمجھتے ہو کہ گنگنا کر کوئی درہم کما لو گے یا خوش روئی اور بشاشت سے خسارہ پاؤگے؟

اس لیے ہنسو۔ دیکھو، تارے تاریکیوں کی دبیز تہوں میں بھی ہنستے رہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہم ستاروں سے محبت کرتے ہیں۔

جی ہاں ! زندگی کا لطف اُٹھایئے۔ یادرکھیے آپ کی نفسیاتی حالت کا بداثر آپ کے کردار، ملازمت، بچوں اور دوست احباب پر نہیں پڑنا چاہیے، آخر وہ ناکردہ گناہوں کی سزا کیوں بھگتیں؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ جب بھی آپ کو دیکھیں، آپ کو یاد کریں، حزن و ملال کی ایک تصویر اُن کی آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔

رسول اللہ ﷺ نے میت پر نوحہ کرنے، گریبان چاک کرنے سے منع کیا تو اس میں یہی حکمت کارفرما تھی کہ آدمی کی موت کے بعد اصل کام اُسے نہلا نا دھلانا، کفن پہنانا اور نماز جنازہ پڑھ کر دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنا ہے۔ چیخ و پکاراور واویلا کا اس کے سوا اور کیا فائدہ ہے کہ زندگی اپنی تمام تر دلچسپیوں کے باوجود غم و اندوہ کا سامان بن جائے۔

اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر فرد کے مزاج کے موافق اس سے برتاؤ کریں اور ایسا طریقہ تعامل اپنا ئیں جسے وہ آسانی سے ہضم کر سکے تاکہ وہ ہماری رفاقت پا کر راحت محسوس کرے اور کسی قسم کی اکتاہٹ یا بددلی کا شکار نہ ہو۔

مشہور ٹرینر محمد عبد الرحمن العریفی کہتے ہیں کہ ایک معمر نیک خاتون جو میرے ایک دیرینہ دوست کی والدہ تھیں، اپنے ایک بیٹے کی ہمیشہ تعریف کیا کرتیں، اس سے مل کر بہت خوش ہوتیں اور اس کے ساتھ ڈھیروں باتیں کرتی تھیں۔ باقی اولا د بھی ان سے اچھا سلوک کرتی لیکن اُن کا دل اپنے ایک اسی بچے سے بندھا ہوا تھا۔ میں اُن خاتون کے اس برتاؤ کا راز جاننا چاہتا تھا۔ ایک دن میں ان کے اسی بیٹے کے ساتھ جسے وہ دل و جان سے چاہتی تھیں، کسی محفل میں شریک تھا۔ میں نے ان سے بڑی اماں کے اس رویے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا:

در اصل بات یہ ہے کہ میرے بھائی اپنی والدہ کے مزاج سے ناواقف ہیں۔ اسی لیے وہ جب بھی ان کے پاس بیٹھتے اور چند باتیں کرتے ہیں، وہ ان سے تنگ آجاتی ہیں۔“

میں نے دلچسپی سے سوال کیا: تو کیا آپ نے اپنی والدہ کی طبیعت کا راز پا لیا ہے؟“ وہ ہنسے اور بولے: ”جی ہاں! میں آپ کو یہ راز بتاتا ہوں۔ دراصل میری والدہ بھی اپنی عمر کی دیگر بوڑھیوں کی طرح عورتوں کے موضوع پر باتیں کرنا پسند کرتی ہیں۔ انھیں صرف عورتوں کے معاملات سے دلچسپی ہے، کس عورت کی شادی ہو رہی ہے، کسے طلاق ہو چکی ہے، فلانی کے کتنے بچے ہیں، ان میں بڑا کون ہے، فلاں مرد نے فلاں عورت سے کب شادی کی، ان کے پہلوٹھی کے بچے کا کیا نام ہے، یہ اور ان جیسی بہت سی باتیں جو میرے لیے بالکل بے فائدہ ہوتی ہیں لیکن والدہ صاحبہ انھیں بار بار بیان کر کے ہی خوش رہتی ہیں۔

انھیں اپنی معلومات کی قدرو قیمت اور نایابی کا بھی پورا پورا احساس ہوتا ہے اور واقعی یہ معلومات ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملتیں، نہ کسی کیسٹ میں محفوظ ہیں اور نہ ہم انٹرنیٹ جیسے معلومات کے وسیع وعریض ذخیرے ہی سے انھیں حاصل کر سکتے ہیں۔ میں جب والدہ صاحبہ سے یہ باتیں پوچھتا ہوں اور وہ تفصیل سے جواب دیتی ہیں تو انھیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سننے والے کو ایسی معلومات فراہم کر رہی ہیں جن کا علم اگلے پچھلے لوگوں میں سے کسی کو بھی نہیں ، چنانچہ وہ خوش ہوتی ہیں اور ان کی طبیعت کھل جاتی ہے۔ میں ان کے پاس بیٹھتا ہوں تو ہمیشہ یہی موضوع چھیڑتا ہوں۔ وہ گھنٹوں خوشی سے اس موضوع پر بولتی رہتی ہیں۔ میرے بھائی والدہ کی ان غیر اہم باتوں کو تحمل سے نہیں سنتے اور ادھر ادھر کی ہانکتے رہتے ہیں۔ ان کی یہ باتیں والدہ کے لیے اہم نہیں ہوتیں۔ نتیجتاً وہ ان سے تنگ آجاتی ہیں اور مجھ سے خوش ہوتی ہیں۔ بس اتنی سی بات ہے۔“

بالکل! آپ اپنے مخاطب کی طبیعت اور اس کے مزاج سے واقف ہوں، آپ کو اس کی پسند و نا پسند کاعلم ہو تبھی آپ اس کے دل کو اپنی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ نبی علیم ﷺ کے طرز عمل میں یہ صفت بڑی واضح اور نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ ملنے والے ہر شخص سے اس کی افتاد طبع کے مطابق سلوک کرتے ۔ گھر میں اپنی بیویوں اور اولاد کے ساتھ بھی آپ کا رویہ ان کی طبائع کے موافق ہوتا

julia rana solicitors

اس مضمون کی تیاری کے لیے عبد الرحمن العریفی کی کتاب “زندگی سے لطف اٹھائیے” سے مدد لی گئی ہے!

Facebook Comments

محمد ثاقب
محمد ثاقب ذہنی صحت کے ماہر کنسلٹنٹ ہیں جو ہپناتھیراپی، لیڈرشپ بلڈنگ، مائنڈفلنس اور جذباتی ذہانت (ایموشنل انٹیلیجنس) کے شعبوں میں گذشتہ دس برس سے زائد عرصہ سے کام کررہے ہیں۔ آپ کارپوریٹ ٹرینر، کے علاوہ تحقیق و تالیف سے بھی وابستہ ہیں اور مائنڈسائنس کی روشنی میں پاکستانی شخصیات کی کامیابی کی کہانیوں کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ معروف کالم نگار اور میزبان جاوید چودھری کی ٹرینرز ٹیم کا بھی حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply