تیرہ کا ہندسہ اور جمعہ جب ایک ہی دن جمع ہوتے ہیں تو عقلیت پسند مغربی معاشرہ اسے بُرا شگن سمجھتا ہے۔
عیسائیت میں نمبر 13 کو منحوس یا برا شگن سمجھنے کی ایک بڑی وجہ حضرت عیسیٰ کا “آخری عشائیہ” ہے۔ بائبل کے مطابق، اس کھانے میں 13 افراد موجود تھے: حضرت عیسیٰ اور ان کے 12 حواری۔ حضرت عیسیٰ کے ساتھ غداری کرنے والا “یہودا” دستر خوان پر 13واں شخص تھا۔ یہی غداری حضرت عیسیٰ کی مصلوبیت کا سبب بنی۔ اس واقعے سے یہ عقیدہ پیدا ہوا کہ نمبر 13 بدقسمتی لاتا ہے، خاص طور پر جہاں اجتماع یا گروپ میں لوگ اکٹھے ہوں۔ یوں یہ تصور مغربی توہمات میں خاص طور پر شامل ہو گیا۔ آج بھی کئی معاشروں میں نمبر 13 سے بچا جاتا ہے، جیسے کہ بعض عمارتوں میں 13ویں منزل کو نظرانداز کرنا یا دعوتوں میں 13 مہمانوں سے اجتناب کرنا وغیرہ۔
خود جمعہ بھی عیسائی تاریخ میں اہم اور مقدس ہے، کیونکہ یہ وہ دن ہے جب حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا تھا، جسے “گڈ فرائیڈے” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اگرچہ “گڈ فرائیڈے” حضرت عیسیٰ کی قربانی کی یاد کے لیے ہے، لیکن جمعہ کے ساتھ مصلوبیت کا یہ تعلق جمعہ کو عمومی طور پر نحوست یا ناپسندیدہ سمجھنے کا باعث بنا۔
لہذا جب جمعہ اور مہینے کی 13 تاریخ اکٹھے ہو جاتے ہیں تو یہ بدشگونی کی دو مختلف روایات کو یکجا کر دیتا ہے—ایک آخری عشائیے سے اور دوسری حضرت عیسیٰ کی مصلوبیت سے—اور یوں یہ دن “دوگنا منحوس” سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا آغاز عیسائی مذہبی تاریخ سے ہوا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ توہم مغربی ثقافت کا حصہ بن گیا، اور “جمعہ کی 13 تاریخ” کو ایک ایسا دن سمجھا جانے لگا جب حادثات یا بدقسمتی کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس دن کے خوف کا مغرب پر اتنا گہرا اثر ہے کہ اس کا ایک مخصوص طبی نام بھی موجود ہے: “پراسکیویڈی کیٹریا فوبیا”، جو خاص طور پر اس تاریخ کے خوف کو ظاہر کرتا ہے۔
جمعہ کی 13 تاریخ کی نحوست کا تعلق ایک اہم تاریخی واقعے سے بھی جوڑا جاتا ہے جو نائٹس ٹمپلر، یعنی قرونِ وسطیٰ کے ایک طاقتور فوجی اور مذہبی گروہ، کے ساتھ پیش آیا تھا۔ یہ نظریہ اس بدقسمتی کو جمعہ، 13 اکتوبر 1307 کو نائٹس ٹمپلر کی گرفتاریوں سے جوڑتا ہے۔
نائٹس ٹمپلر کا قیام 12ویں صدی کے اوائل، تقریباً 1119ء میں، عیسائی زائرین کی حفاظت کے لیے کیا گیا تھا جو صلیبی جنگوں کے دوران مقدس سرزمین کی جانب سفر کر رہے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ گروہ بے حد طاقتور اور دولت مند ہو گیا، اور یورپ بھر میں ان کی وسیع زمینیں، قلعے اور بینکاری اثاثے تھے۔ ان کی فوجی مہارت اور مالی طاقت نے انہیں اُس دور کے مذہبی اور سیاسی معاملات کا ایک اہم کردار بنا دیا تھا۔
13ویں صدی کے آخر تک، نائٹس ٹمپلر کی دولت اور اثر و رسوخ اتنا بڑھ چکا تھا کہ وہ یورپی بادشاہوں کی توجہ اور حسد کا مرکز بن گئے تھے۔ فرانس کے بادشاہ فلپ چہارم، جسے فلپ دی فئیر بھی کہا جاتا ہے، نے خاص طور پر ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ٹھانی۔ فلپ چہارم نے اپنی جنگوں اور شاہانہ طرزِ زندگی کو چلانے کے لیے نائٹس ٹمپلر سے بھاری رقمیں ادھار لی تھیں، اور جب ان کے قرضے بڑھ گئے، تو فلپ نے قرض واپس کرنے کے بجائے ان کی دولت پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ، فلپ چہارم کو اس تنظیم کی بڑھتی ہوئی طاقت پر شبہ تھا، جو اس کے اقتدار کے لیے ایک ممکنہ خطرہ بن سکتی تھی۔ اس وقت پوپ کے ساتھ اس کے تعلقات بھی کشیدہ تھے، اور نائٹس ٹمپلر کو نقصان پہنچانا—جو براہِ راست پوپ کے تابع تھے—اس کی سیاسی حکمتِ عملی کے عین مطابق تھا۔
جمعہ، 13 اکتوبر 1307 کو، فلپ چہارم نے ایک منظم اور خفیہ کارروائی میں فرانس بھر میں نائٹس ٹمپلر کے سینکڑوں افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ یہ کارروائی انتہائی رازداری سے کی گئی، اور مہر بند احکامات شاہی افسران کو بھیجے گئے تھے۔ نائٹس ٹمپلر پر بدعت، کفر اور دیگر کئی جرائم کے الزامات لگائے گئے۔ اس تنظیم کے سربراہ جیکس ڈی مولے اور کئی اعلیٰ عہدیداروں کو گرفتار کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور بالآخر سزائے موت دی گئی۔ تشدد کے تحت کچھ ارکان نے الزامات تسلیم کر لیے، حالانکہ بعد میں ان میں سے کئی نے اعتراف واپس لے لیا۔ اس کے باوجود، نائٹس ٹمپلر کو تحلیل کر دیا گیا، ان کی املاک ضبط کر لی گئیں، اور ان کے ارکان کو شدید اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
نائٹس ٹمپلر کی گرفتاری کو اکثر جمعہ کی 13 تاریخ کی نحوست کے آغاز کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تعلق ہر مورخ کی نظر میں تسلیم شدہ نہیں ہے، لیکن اس دن کے واقعات نے اس خیال کو تقویت دی کہ جمعہ کی 13 تاریخ بدقسمتی اور نحوست کا دن ہے۔ ایک اتنی طاقتور اور معتبر تنظیم کا زوال، خصوصاً غداری اور سیاسی چالوں کے ذریعے، دھوکہ دہی اور بربادی کے ساتھ ایک دیرپا تعلق قائم کر گیا۔
تاریخی سانحہ، غداری، اور مذہبی سیاست کے اس کردار نے اس نظریے کو جمعہ کی 13 تاریخ کی نحوست کی وضاحت میں سب سے زیادہ دلکش اور قابلِ قبول بنایا ہے۔ آج بھی مغرب میں، جمعہ کی 13 تاریخ بدقسمتی کی علامت سمجھی جاتی ہے، اور 13 اکتوبر 1307 کے واقعات اس کی اصل کے حوالے سے بار بار یاد کیے جاتے ہیں۔
پھر رہی سہی کسر جدید پاپ کلچر میں جمعہ کی 13 تاریخ کے خوف کو فلموں، ٹی وی شوز اور دیگر پروگرامز نے بہت زیادہ بڑھاوا دیا ہے۔ اس تاریخ کو خوفناک، بدقسمت، اور عجیب و غریب واقعات سے منسوب کر دیا گیا، خاص طور پر اس کی وجہ “فرائیڈے دی 13th” ہارر فلم سیریز ہے، جس نے اس دن کو خوف اور بدشگونی کا مستقل نشان بنا دیا ہے۔
“فرائیڈے دی 13th” ہارر فلم سیریز ہے، جو 1980 میں شروع ہوئی۔ پہلی فلم، جسے شان ایس کننگھم نے ڈائریکٹ کیا، ایک گروپ کی کہانی بیان کرتی ہے جسے موسمِ گرما میں ایک کیمپ میں نامعلوم قاتل تعاقب کرکے قتل کر دیتا ہے۔ فلم کا ولن جیسن ووہرہیز ہے، جس کا کردار بعد میں ہارر فلموں کا ایک آئیکون بن گیا۔ جیسن اکثر ایک ماسک پہنے ہوئے اور ایک خنجر لیے نظر آتا ہے، اور اپنے شکار کو بے رحمی سے مارنے کے لیے جانا جاتا ہے۔
اس فرنچائز میں ایک درجن سے زیادہ فلمیں، ناولز کامکس، اور یہاں تک کہ ایک ٹی وی سیریز بھی بنائی گئی ہے، جس نے جمعہ کی 13 تاریخ کو پاپ کلچر میں خوف کا نشان بنا دیا۔ ان فلموں کی مقبولیت نے جمعہ کی 13 تاریخ کو تقریباً “سلیشر ہارر” کے مترادف بنا دیا ہے، جس نے اس دن کے ساتھ ایک توہماتی اور خوفناک تصور کو جوڑ دیا۔ فلمی فرنچائز کے علاوہ، جمعہ کی 13 تاریخ میڈیا میں بار بار آنے والا موضوع بنا۔ ٹی وی شوز، ویڈیو گیمز، کتابیں، اور یہاں تک کہ موسیقی میں بھی اس دن کا ذکر کیا جاتا ہے کہ جب بدقسمتی یا خوفناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔ جیسے دی ایکس فائلز، سپرنیچرل اور یہاں تک کہ بچوں کے شوز جیسے دی سمپسنز نے اس دن کا ذکر یا مذاق بھی اڑایا ہے، جس نے اسے مغرب میں عوامی شعور کا حصہ بنا دیا ہے۔
میڈیا کے اثر و رسوخ اور جمعہ کی 13 تاریخ سے جڑے پرانے توہمات نے مل کر ایک “اجتماعی اضطراب” کو جنم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ، چونکہ بہت سے لوگ اس دن کو منحوس یا خوفناک سمجھتے ہیں، وہ زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہیں یا بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات نے نوٹ کیا ہے کہ لوگ غیر ارادی طور پر کسی بھی ناگہانی واقعے یا بدقسمتی کو اس دن کے ساتھ جوڑتے ہیں، جس سے ان کے خوف میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ بعض ثقافتوں میں، کاروباری ادارے جمعہ کی 13 تاریخ کو اہم تقریبات یا پروڈکٹس کا اجرا کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ یہ ناکام ہو جائے گا۔ ایئر لائنز بھی رپورٹ کرتی ہیں کہ اس تاریخ کو سفر کی بکنگ میں معمولی کمی آتی ہے، کیونکہ کچھ لوگ اس دن اڑنے سے ڈرتے ہیں۔
مختصراً، اگرچہ جمعہ کی 13 تاریخ کی نحوست کے پیچھے تاریخی اور مذہبی توہمات موجود ہیں، لیکن جدید پاپ کلچر خصوصاً ہارر فلموں نے اس خوف کو ایک نئی بلندی تک پہنچا دیا، اور اس دن کو عوامی تخیل میں خوف، خطرے اور بدقسمتی کی علامت بنا دیا ہے۔
یہودیت اور اسلام میں جمعہ کی 13 تاریخ کو منحوس سمجھنے کا کوئی مذہبی تصور موجود نہیں ہے۔ جمعہ کی 13 تاریخ کو بدقسمت ماننے کا نظریہ زیادہ تر مغربی، خاص طور پر عیسائی روایات اور توہمات سے جڑا ہوا ہے۔ تاہم، یہودیت اور اسلام میں جمعہ اور نمبر 13 کو الگ الگ اہمیت دی جاتی ہے، لیکن ان دونوں کو ملا کر کسی نحوست کا تصور نہیں پایا جاتا۔
یہودی روایات میں 13 نمبر کئی اہم روحانی تصورات سے جڑا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، خدا کی 13 صفاتِ رحمت ہیں، جنہیں توبہ کی دعاؤں میں پڑھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ایک یہودی لڑکا بار متزوا (مذہبی بالغ) 13 سال کی عمر میں بنتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ مذہبی ذمہ داریاں قبول کر رہا ہے اور احکامات کی پیروی کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ یہودیت میں جمعہ کو بھی منحوس نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس دن کو مذہبی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ شبّات (سبت) سے پہلے کا دن ہوتا ہے، جو جمعہ کی شام سے شروع ہوتا ہے۔ شبّات آرام، عبادت اور روحانی تفکر کا دن ہوتا ہے اور یہ ہفتے کا سب سے مقدس دن سمجھا جاتا ہے۔ یہودی جمعہ کے دن شبّات کی تیاری کرتے ہیں، جیسے کھانے تیار کرنا، صفائی کرنا اور روحانی طور پر تیاری کرنا۔ اس لیے یہودیت میں جمعہ کو مثبت انداز میں دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہ بابرکت دن شبّات کی طرف لے جاتا ہے۔
اسی طرح، اسلام میں نمبر 13 کا کوئی خاص مذہبی مفہوم نہیں ہے، نہ مثبت اور نہ منفی۔ کچھ ثقافتوں میں جہاں نمبروں کو اچھے یا برے شگون کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اسلام میں نمبروں کو ایسی کوئی مافوق الفطرت حیثیت نہیں دی جاتی۔ اسلامی عقائد میں اہمیت ایمان، اعمال اور اللہ کے ساتھ تعلق کی ہوتی ہے، نہ کہ نمبروں کی۔
جمعہ اسلام میں ہفتے کا سب سے مبارک دن سمجھا اور اسے عبادت، تفکر اور اجتماعیت کا دن مانا جاتا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ، “جمعہ کا دن تمام دِنوں کا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب دِنوں سے زیادہ عظمت والا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانی اور عید الفطر کے دن سے بھی عظیم ہے۔ اس کی پانچ خوبیاں ہیں : اس میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اسی میں آدم علیہ السلام کو زمین پر اُتارا اسی میں آدم علیہ السلام کو فوت کیا، اس میں ایک ایسا وقت ہے جس میں بندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بھی چیز مانگے، اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا کرتا ہے، بشرطیکہ وہ حرام نہ ہو۔‘‘

“جمعہ، 13 تاریخ” کی نحوست کی یہ کہانی ہمیں ماضی کے جیتے جاگتے قصے اور انسانی نفسیات کے پیچیدہ تعلقات کی گہرائی میں لے جاتی ہے۔ یہ دن، جو مختلف ثقافتوں اور تاریخ میں بدقسمتی اور خوف کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ توہمات کیسے ایک قوم کی شناخت اور اس کی ثقافت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ جبکہ سائنسی دور کی نئی دریافتیں اور عقل کی روشنی ہمیں نئی راہیں دکھا رہی ہیں۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں