“لیکن میں بے قصور ہوں ۔ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ کوئی شخص قصور وار ہو ہی کیسے سکتا ہے؟ یقیناً یہاں ہم سب انسان ہیں ، ایک جیسے انسان ۔“ یہ بجا ہے، لیکن قصور واراکثر اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں “۔
فرانز کافکا کا ناول دی ٹرائل (Der Prozess ، تصنیف 5-1914 ء ) تپ دق کے باعث اس کی موت کے فوراً بعد شائع ہوا ،حالانکہ اس نے ہدایت کی تھی کہ اس کی تمام تحریروں کو بغیر پڑھے جلا دیا جائے ۔ لیکن اس کے ناول نگار دوست میکس براڈ نے درست فیصلہ کیا کہ ان زبردست تحریروں کو کسی بھی صورت میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
آنے والی نسل نے میکس براڈ کو الزام نہیں دیا، جو بہر صورت اچھی طرح جانتا تھا کہ کافکا موضوع پر دو گرفتگی کا حامل تھا۔ شاید اس نے مایوس کن طور پر محسوس کیا ہو کہ اس کا پہ پیغام “ بہت زیادہ منفی تھا۔ 1930ء میں جب سکاٹش شاعر ایڈون میور اور اس کی ناول نگار بیوی ولا نے ”دی ٹرائل کا پہلی مرتبہ ترجمہ کیا تو اس کی شہرت دور دراز تک پھیل گئی ۔اگر چہ دی ٹرائل کی مجموعی فروخت Gone With the Wind” کے برابر نہیں لیکن اس کے اثرات اس کے مقابلہ میں کہیں زیادہ پائیدار اور گہرے ہیں۔ ”گون و د دی ونڈ نے لاکھوں لوگوں کو تفریح مہیا کی اور اسے محض ” پڑھا جاتا ہے لیکن یاد نہیں رکھا جاتا ۔ دوسری طرف دی ٹرائل نے بہت سے لوگوں کے سوچنے کا انداز بدلا۔ شروع میں دانشوروں نے ہی کافکا کو زیادہ سراہا لیکن آہستہ آہستہ یہ واضح ہوتا گیا کہ کافکا نے خود بھی ایک دانشور ہونے کے باوجود تمام لوگوں کے احساسات کے بارے میں بھی لکھا ۔ دی ٹرائل“ دیگر چیزوں کے علاوہ کسی بھی سٹی کونسل کے ارکان کے لیے ایک بنیادی خاکہ ہو سکتا تھا ، لیکن صرف یہی لوگ اس سے نا واقف ہیں۔ محقق اور نقاد جے پی سٹرن نے 1977 ء میں دی ٹرائل کے ایک نئے ترجمہ کا تعارف کرواتے ہوئے لکھا تھا:
“انگریزی میں عام استعمال ہونے والا واحد لفظ ” Kafkaesque” کا فکائی) ہی ہے جو جرمن ادب سے اخذ کیا گیا۔ اس کے مختلف مطلب ہیں ،پُر اسرار، جادوئی، مافوق الفطرت ، خوفناک حد تک بیوروکریٹک سے لے کر ہیبت ناک اور ڈراؤنے تک ۔ البتہ ہم اسے سائنس فکشن کی خوفناک مشینوں یا ایڈگر ایلن پو کے ساتھ منسوب نہیں کرتے۔ ” کا فکائی تاثر میں روزمرہ کی خصوصیت موجود ہے۔ اس سے غیر ارضی یا مریخ سے آئی ہوئی مخلوق مراد نہیں، بلکہ ایک ایسا عمل مراد ہے جس میں ہم اپنے آپ سے ہی اجنبی اور بیگانے ہو جاتے ہیں۔”
فرانز کافکا پراگ ( چیکوسلواکیہ ) کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا ( 1883ء)۔ اس کا باپ ایک خوش حال تاجر تھا۔ وہ سینہ زوری کرنے والا ، درشت، تندرست، بیہودہ اور تند مزاج بھی تھا۔ فرانز کی تینوں بہنیں ہٹلر کے کیمپوں میں ماری گئی تھیں ۔ وہ اپنے باپ سے خوف کھاتا تھا لیکن اس میں باپ کے خلاف جذبات ظاہر کرنے کی ہمت نہ تھی ۔ فرانز کافکا نے نہایت منظم انداز میں سکول کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد قانون کا مطالعہ کیا اور ڈگری حاصل کی۔ پھر پراگ کی جرمن یونیورسٹی میں ادب پڑھا ( 1901 ء تا 1906 ء ) ۔ اس نے 1904 ء میں لکھنا شروع کیا اور تقریباً اسی دور میں مہلک بیماری کا شکار ہوا۔ 1908ء میں کافکا نے ورکرز ایکسیڈنٹ انشورنس انسٹیٹیوٹ نامی سرکاری تنظیم میں ملازمت اختیار کی ۔ اس نے وہاں 14 سال تک ایمانداری سے کام کیا حتیٰ کہ موت نے اسے ریٹائر کر دیا۔ وہ جون 1924 ء میں دیانا کے نزدیک ایک سینے ٹوریم میں فوت ہوا۔ زندگی کے دوران اس کی متعدد محبوبائیں اور متعد د افیئرز تھے۔
کافکا نے اپنی مختصر زندگی کے دوران کہانیوں کے چھوٹے چھوٹے کئی مجموعے شائع کیے جو بہت سراہے گئے مگر شہرت نہ دلا سکے۔ البتہ اسے ” بھٹی جھونکنے والا پر 1915 ء میں فونٹین پرائز ملا۔ بعد میں یہی کہانی ”امیریکہ کا پہلا باب بنی۔ اس کا سب سے قابل قدر ناول Das Schloss ( دی کاسل ، لیکن Schloss کا مطلب تالا بھی ہے ) تھا مگر اس میں کوئی اختتام نہیں۔ دی ٹرائل زیادہ متاثر کن ثابت ہوا۔ کافکا کے خطوط اور ڈائریوں کے بھی متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔ اس کی تقربیاً 50 سوانحات لکھی جاچکی ہیں جن میں سے میکس براڈ والی سوانح اب بھی کئی لحاظ سے لاثانی ہے۔
کافکا پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ان تحریروں میں اس کے کام کی نہایت مختلف تعبیریں کی گئیں۔ اسے بیورو کریسی کے خلاف طنز نگار، ایک پیغمبر اور علامتی مصنف قرار دیا گیا۔ اس میں یہ سبھی کچھ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہ ٹریجک موضوعات پر کامیڈی کے انداز میں لکھنے کا اہل بھی ہے۔ روسیوں نے دوستوفسکی میں یہ خوبی دیکھی تھی۔ لیکن کافکا کی کامیڈی میں غیر سنجیدگی نہیں ۔
کافکا کے مزاحیہ (Comic) پہلو پر ایک نظر ڈال لینا بہتر رہے گا ۔ مثلاً ایک ناتواں آدمی ایک کیڑے کی صورت اختیار کر لیتا ہے ( کایا کلپ ۔ دی ٹرائل پڑھتے ہوئے ہم میں سے کوئی بھی یہ تصور نہیں کرتا کہ ”ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ حالانکہ ناول کا موضوع ہی ہمارے ساتھ اس وقت پیش آ رہے حالات ہیں ۔ کیا ہم ایسے بے نام آقاؤں کے غلام نہیں جن کا اپنا بھی کوئی مقصد نہیں؟
کافکا کے عظیم ترین شاہکار دی کاسل ( قلعہ ) کے طرفدارا سے ایک لینڈ سرویئر کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن وہ تقاضوں پر پورا نہ اترنے کے باوجود ایک با اعتماد آدمی ہے۔ نیز کتاب میں کوئی قلعہ بھی موجود نہیں، مگر پھر بھی قلعہ اس کا بنیادی موضوع ہے۔ چنانچہ کا فکا کے ہاں مزاحیہ عنصر پر غور کرنا نہایت اہم ہے۔
اگر چہ کا فکا جدیدیت پسند (modernist) تھا لیکن اس کا ماضی سے بھی اتنا ہی تعلق ہے جتنا کہ حال یا مستقبل سے۔ اس نے روز مرہ استعمال کی سلیس زبان لکھی جو نہایت خوبصورت بھی ہے۔ حتیٰ کہ ملازمت کے دوران اس کے لکھے ہوئے لیٹرز بھی یہ ادبی خصوصیت رکھتے ہیں ۔ ادبی نقادوں نے اسے ایک اذیت یافتہ آرٹسٹ کہا۔ جی ہاں وہ ایک اذیت یافتہ آرٹسٹ تھا، لیکن وہ ایک بہت عام آدمی بھی تھا۔
ہمارے عہد کے ساتھ کا فکا کا تعلق اس کی ڈائری کے ایک اقتباس (1918ء) سے واضح ہوتا ہے: ” میں ایک دور کے منفی پہلو کی گہرائیوں میں جذب ہو گیا ہوں ۔ اس نے مزید کہا کہ وہ خود کو اپنے عہد کا نمائندہ سمجھتا ہے۔ کافکا جس منفیت کے بارے میں سوچ رہا تھا اسے انسانوں کی ایک دوسرے کی بہبود سے بڑھتی ہوئی لا تعلقی اور لا پروائی کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ کا فکا ان خوفناک امور کو نہایت طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں پیش کرنے کے قابل ہوسکا۔ یاد رہے کہ یہ منفی پہلو چمکدار میزوں کے گرد بیٹھ کر مشروب پیتے ہوئے لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے پر بات چیت کرنے کی قابلیت بیورو کریٹک رنگ رکھتی ہے۔ ہر چیز ( چاہے وہ کتنی ہی ہیبت ناک ہو ) شائستہ کلرک انجام دیتے ہیں جو انفرادی حیثیت میں خود بھی اپنے نشانہ بننے والے لوگوں جتنی ہی مایوس کن زندگی بسر کرتے ہیں ۔ کافکا نے اس صورت حال کو نہایت مؤثر اور انسانیت پسندانہ انداز میں پیش کیا۔
دی ٹرائل کا مرکزی کردار جوزف K ہے۔ یہ جوزف K کون ہے؟ وہ محض ایک فرد، ایک بینک کلرک ہے۔ لہٰذا جدید دنیا میں اس کی کیا وقعت ہے؟ اس قسم کے کچھ سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ ناول کا آغاز یوں ہوتا ہے:
کوئی جوزف K کے متعلق ضرور جھوٹ بول رہا ہوگا جسے ایک خوشگوار صبح کو بے خطاء گرفتار کر لیا گیا ۔ اس کی مالکہ کی باورچن، جو ہمیشہ اس کے لیے کھانا لایا کرتی تھی ، اس موقع پر نہ پہنچ سکی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس نے تکیے کی اوٹ سے کچھ دیر تک اپنی مالکہ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا جو اس کی جانب نہایت اشتیاق سے دیکھ رہی تھی ۔ لیکن پھر اسے بیک وقت اکتاہٹ اور بھوک کا احساس ہوا۔ اس نے گھنٹی بجائی ۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور ایک آدمی اندر داخل ہوا جسے اس گھر میں اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ سڈول اور گٹھیلے جسم کا مالک تھا، ہر قسم کی جیبوں ، بکلوں، پلیٹوں اور بٹنوں سے مزئین ، ایک سیاح جیسے حلیے میں ۔ ایک بیلٹ بھی تھی جو کسی خاص مقصد کے لیے لگتی تھی لیکن کوئی اس کا اصل مصرف نہیں بتا سکتا تھا۔
یہاں صاف الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ بینک اہلکار جوزف K نے کوئی خطا نہیں کی۔ لیکن کیا وہ واقعی بے خطا ہے؟ یہ ریاست کے خلاف ایک طنز ہے ۔K کو عدالت میں حاضر ہونے پر کبھی بھی مجبور نہیں کیا جاتا اور وہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات سے بھی آگاہ نہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اسے نازیوں کا شکار ہونے والے کسی یہودی یا ہم جنس پرست یا جیپسی کی طرح ویرانے میں لے جا کر مار دیا جاتا ہے۔ جے پی سٹرن کے خیال میں دی ٹرائل کی ایک مذہبی تفسیر نا قابل گریز ہے۔ کافکا نے نطشے کا بغور مطالعہ کیا تھا۔ وہ مذہب کے معاملے میں نطشے سے آگے تک گیا، لیکن وہ بھی ثقافتی لحاظ سے خدا کی موت کے بارے میں جانتا تھا۔ اس دنیا کے بارے میں کافکا کی فکرمندی قلعہ ناول میں زیادہ واضح ہے۔ ایرک ہیلر کے بقول ” قلعہ غناسطی عفریتوں کے ایک گروہ کا فصیل بند مسکن ہے۔ دی ٹرائل میں یہ عفریتیں جوزف K کو پیش آنے والی مشکلات اور رکاوٹیں ہیں۔ قانونی عمل کے پیچیدہ تانے بانے کو سمجھنے کیلئے اس کی خواہش قبالہ پسندوں کی جستجوئے خدا جیسی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں