کلیاتِ سیّد ریاض حسین زیدی/انوار احمد

سید ریاض حسین زیدی ہمیں 1965 ۔67 ایمرسن کالج ملتان میں اردو اختیاری پڑھاتے تھے یہ کلاس 70 سے زائد طالب علموں پر مشتمل تھی جس میں روف شیخ ، خالد شیرازی، شاہد زبیر تھے ، تب طالب علموں کو شاید لگام ڈالنے کے لئے 25 فی صد نمبر کالج کے امتحانات کے بھی پنجاب یونیورسٹی شامل کر لیتی تھی مگر یہ کم سعادت کلاس پہلے استاد سید منہاج الدین کے خلاف ہڑتال کرکے پرنسپل میاں محمود احمد سے انہیں ‘ ہٹوا ‘ چکی تھی ۔زیدی صاحب کسی بھی نکتے پر خود کو بحث میں نہیں الجھاتے تھے حالانکہ نصابی کتاب کے علاوہ مقدمہ شعرو شاعری (حالی ) تاریخ ادب اردو ( عہد سرسید تخصیص کے ساتھ ) اور قواعد میں تقطیع شامل تھی ۔ استاد محترم اردو اکادمی کے سیکرٹری بھی تھے وہ خوش خط تھے وہ پوسٹ کارڈ کے ذریعے آئندہ ہفتے کا ہی نہیں ایک ماہ کا پروگرام بھی لکھ کے بھیجتے تھے ۔تب عرش صدیقی ، مسعود اشعر ، اے بی اشرف ، فرخ درانی ، عبدالرشید ، چودھری نذیر احمد ، ارشد ملتانی اور کبھی کبھار لطیف عارف تنقیدی اجلاس کی رونق بڑھاتے تھے ، مرزا ابن حنیف شوخیاں کرنے والے طالب علموں کو جلالی آنکھ سے دیکھا کرتے سو عام طور پر میں خالد شیرازی کے ساتھ بیٹھنے سے گریز کرتا تھا ہم میں سے کسی طالب علم کے لئے اعزازہوتا ہے کہ اس کا نام اس پروگرام میں حاشیے کے نیچے محفوظ قلم کاروں میں شامل ہو ۔

julia rana solicitors

اسی کلیات میں استاد محترم کے کوائف پڑھ کر اپنی یادداشت کو شاباش دی کہ 1969 سے پہلے استاد محترم نے شاعری کا آغاز نہیں کیا تھا سو اردو اکادمی کے بانی سیکرٹری نے خود کو شاعر کے طور پر ان تنقیدی اجلاسوں میں پیش نہیں کیا شاید رحیم یار خان تبادلے کے بعد انہوں نے شعر کہنا شروع کیا ( صابر دہلوی کے پوتے اور بہت اچھے شاعر انوار انجم کے جگر کا عارضہ انہیں ہلاکت کی دہلیز پر لے آیا تھا اس لئے پرنسپل میاں محمود احمد نے زیدی صاحب کو اعتماد میں لے کر اس تبادلے کی تجویز محکمے کو دی تھی ۔ یوں کہنا چاہیے کہ زیدی صاحب کی شاعری پر بہار آئی جب وہ اپنے ‘وطن ‘ ساہیوال میں پہنچے) ، ان کی اہلیہ محترمہ نصرت صدیقی کی وفات ہوئی اور ان کے سات بچوں ، دامادوں ، اور نواسوں ، نواسیوں اور پوتوں اور پوتیوں کی بہار پر بھروسہ کرکے باذوق سامعین کے لئے بیرونی امداد کے محتاج نہ رہے پھر بھی انہیں اردو اکادمی کے بے درد نقاد یاد رہے اس لئے انہوں نے نعت گوئی سے آغاز کیا ، منقبت لکھی اور سلام پیش کئے سو اس کلیات میں بھی ان کے چار نعتیہ مجموعے ریاض مدحت ، جمال سید لولاک ، ذکر شہ والا اور اے رسول امیں شامل ہیں البتہ ریاض غزل میں ان کی مختلف جرائد میں شائع ہونے والی غزلیں برگ گل شاداب ہے اور غیر مطبوعہ غزلیں بیاض ریاض کے عنوان سے شامل ہیں ۔ ادبی حلقے ان کی بیٹی سیدہ آمنہ ریاض سے واقف ہیں اور اس کلیات کے شریک مرتب ڈاکٹر نوید عاجز سے بھی جنہوں اس کلیات کو بہت اہتمام سے حسن ادب فیصل آباد سے شائع کرایا (رابطے کے لئے 03127044014) اور اس کا سرورق پنجاب میں ترقی پسند اور روشن خیال اساتذہ کی قیادت کرنے والی ان کی ایک صاحب زادی سیدہ فائزہ ریاض نے بنایا ہے ۔ ان کی غزلیات میں سے میں کچھ اشعار اور ایک مصرع بطور مثال پیش کر رہا ہوں
اس کی بخشش میں کچھ کمی نہ ہوئی
اس نے سب کچھ دیا جفاؤں میں
۔۔۔
ذرا سی دیر میں یہ منظر خوش رنگ ڈوب جانا ہے
ہمیں گھر لوٹنے کو ایک جگنو ڈھونڈ لانا ہے
۔۔۔
ہے رنگ بہاروں کا ریاض آج بھی پھیکا
خالی ہے ستاروں سے مراجام ابھی تک
۔۔۔
بے صدا آئنوں کے نم سے ہوں
شمع خاموش تیرے غم سے ہوں
۔۔۔۔
خیال میں اسی خوش خواب کا سویرا ہے
۔۔۔۔۔
خلاف معمول ایک غزل کا اسلوب ہجویہ ہے ( آپ جانتے ہیں محکمہ تعلیم میں بہت کمینے لوگ بھی خود کو ارباب بست ہی خیال کر لیتے ہیں )
ایک بد اندیش آقا کی خوشی مقصود تھی
کار کاسہ لیس جو ایذا رسانی سے ہوئے
ناروا اسلوب کی ہیں عامیانہ صورتیں
گفتگو میں چند اشارے بد زبانی سے ہوئے
جن کو کروفر پہ اپنے سو طرح کے ناز تھے
آں جہانی ایک مرگ ناگہانی سے ہوئے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply