یورپ ہجرت ایک خواب ‘ایک حقیقت/ اےوسیم خٹک

موجودہ حالات میں پاکستانیوں کی یورپ کی طرف ہجرت کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام، امن و امان کی خراب صورتحال، اور تعلیمی و معاشی مواقع کی کمی نے بے شمار افراد کو مجبور کیا ہے کہ وہ بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک جائیں۔ جہاں یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کو بہتر زندگی اور مواقع کی سرزمین کے طور پر دیکھا جاتا ہے، وہیں وہاں کے سخت قوانین اور سماجی ذمہ داریوں کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔

یورپ میں زندگی کا ڈھانچہ منظم اور قانون پر مبنی ہے۔ لوگ عوامی مقامات پر تمباکو نوشی نہیں کرتے، سڑکیں مخصوص مقامات سے پار کرتے ہیں، اور قطار میں کھڑا ہونا ایک معمولی عمل سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں وہاں کے سماجی نظام کی مضبوطی اور ترقی کی وجہ ہیں۔ جو پاکستانی شہری اپنے ملک میں قوانین کو نظر انداز کرتے ہیں، وہی لوگ یورپ جا کر ان قوانین کی مکمل پابندی کرتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہاں قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سخت سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے والے طلبہ اور روزگار کے لیے جانے والے پیشہ ور افراد ایک اہم قدم اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنی تعلیم اور مہارتوں کو ترقی یافتہ ممالک میں بہتر مواقع کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور بہت سے لوگ یورپ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس آتے ہیں۔ لیکن جب وہ واپس آ کر یہاں کے نظام کا سامنا کرتے ہیں، تو اکثر ان کی مایوسی بڑھ جاتی ہے۔ بدعنوانی، قانونی کمزوریاں، اور حکومتی اداروں کی سست روی ان کے لیے بڑے مسائل بن جاتی ہیں۔

تاہم، بیرون ملک جا کر جو افراد کچھ پیسے بچا کر واپس آتے ہیں، وہ یہاں اپنے کاروبار شروع کرتے ہیں، جس سے نہ صرف وہ خود مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں بلکہ ملک کی معیشت میں بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ بیرون ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر ملکی معیشت کو سہارا دیتی ہیں، اور یہ ہجرت ملک کے لیے کچھ حد تک سودمند ثابت ہوتی ہے۔

لیکن یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ یورپ میں رہنا اتنا آسان نہیں جتنا دور سے دکھائی دیتا ہے۔ وہاں کے ٹیکس قوانین اور سماجی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے افراد کو بڑی محنت اور منظم زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ بہت سے پاکستانی یہ حقیقت نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یورپ میں زندگی کے اخراجات اور قانونی فرائض کے بوجھ کے تحت زندگی گزارنا کسی حد تک چیلنجنگ ہو سکتا ہے۔

ملک چھوڑ کر جانے والے افراد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ہجرت کو ایک وقتی حل کے طور پر دیکھیں۔ اگر پاکستان میں تعلیمی نظام، معاشی مواقع، اور قانونی نظام کو بہتر کیا جائے تو شاید ہجرت کی ضرورت کم ہو جائے۔ ملکی نظام کی بہتری سے ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ لوگ اپنی محنت اور صلاحیتیں اپنے ملک کی ترقی کے لیے استعمال کریں، بجائے اس کے کہ وہ بیرون ملک جا کر دوسروں کے لیے کام کریں۔

julia rana solicitors

آخری بات یہ ہے کہ ہجرت ایک وقتی حل ہے، لیکن ملک کے اندر اگر حالات بہتر ہوں تو لوگ ہجرت کرنے کے بجائے اپنے وطن میں ہی اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply