تاریخ کا سب سے بڑا سبق تاریخ ہے۔ کہ تاریخ سے لوگ سیکھتے نہیں۔ محمود شام صاحب نے کیا خوب کہا ہے
خؤد بخود ہوگی فہم مستقبل
ماضی و حال کو سمجھ پہلے
قیام پاکستان سے آج تک 16 انتحابات میں اقلیتوں پر 5 بار اقلیتوں پر 3 مختلف انتحابی نظام آزمائے گئے ۔لیکن پاکستان کی سیاسی ریاستی دانشور اشرفیہ اور اقلیتوں کے ماضی و حال کے نمائندوں کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے۔۔ کہ عام اقلیتی شہری کبھی بھی ان نظاموں سے مطمئن نہیں ہؤے۔ ان تینوں نظاموں کی مختصر کہانی ۔۔1.مخلوط طریقہ انتحاب مذہبی تشخص کا بانجھ پن دیتا تھا۔جس سے مسحیوں نے دو شہادتیں دے کر جان چھڑائی ریاست و حکومت نے چوتھی آئینی ترمیم کرکے اس مطالبے کو مانا۔کہ مذہبی شناخت پر نمائندگی دینا ناگزیر ہے ۔۔لیکِن ساتھ جمہوری غلامی کی شرط نتھی کردی جس کا مسیحی راہنماہ ادارک نہ کر سکیں آج یہ جمہوری غلامی ان کی نسلوں کے خون میں شامل ہوگئی ہے۔ 2. جداگانہ طریقہ انتحاب جمہوری غلامی کے ردِعمل میں مسیحی راہنماوں نے مذہبی تشخص والی نمائندگی لے لی ۔اور قومی شناخت و تشخص گروی رکھ آئے ۔۔جسکے نتیجے میں سیاسی شودر اور معاشرتی اچھوت بنا دئئے گئے ۔۔۔ 3.موجودہ دوہری نمائندگی بزریعہ سلیکشن کے زریعے مذہبی شناخت والی نمائندگی کا طریقہ انتحاب ۔۔ جداگانہ طریقہ انتحاب کا سیاسی شودر پن اور معاشرتی اچھوت پن ختم کروانے والی این جی اوز کے سماجی ورکر اور مذہبی ورکر پھر بھٹو کا دیا یہ جمہوری غلامی کا منبع اٹھا لائے۔۔ اور آج اسی پر عام اقلیتی شہریوں کے کوسنے اور گالیاں سنتے ہیں ۔۔ لیکن مجال ہے جو اپنی اس غلطی کو مانے بلکہ درپردہ آج بھی اپنی محرومیوں کی سوداگری کی عوض چند ٹکوں کے لئے برابری کی آڑ میں ایک بہت چھوٹی اقلیت کے بیانیے کی ترویج کے لئے دوہرے ووٹ کی مخالفت کرتے ہیں ۔۔۔تحریک شناخت نے نہ صرف ان نظاموں بلکہ 1909سے آج تک کے اقلیتوں کے لئے وضع کئے گئے انتحاہی نظاموں کی خوبیوں ،خامیوں اور پاکستان کے معروضی مزہبی تاریخی پس منظر اور معاشرتی سماجی رویوں کی روشنی میں دوہرے ووٹ کا مطالبہ و لالحہ عمل پیش کیا ہے ۔۔نیچے بیان کئے گئے حقائق میں اقلیتوں پر آج کل جو نظام نافذ العمل ہے اس کے بارے میں حقائق حاضر ہیں ۔فیصلہ حقائق کے کی روشنی میں کریں ۔پہلی دوسری قومی اسمبلی کے انتخابات جداگانہ طریقہ انتحاب سے ہؤے اس وقت تک کیونکہ جمہور ووٹ نہیں ڈالتے تھے ۔بس خواص ووٹ ڈالتے تھے ۔۔۔ لیکِن جوگندر ناتھ منڈل کے استعفی میں اقلیتوں کے طریقہ انتحاب کا شفاف اور انصاف پر مبنی نہ ہونے کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔۔ جسکے ردعمل میں ہی تیسری چوتھی اور پانچویں اسمبلی کے اگلے تین انتحابات مخلوط طرزِ انتحاب پر ہؤے ۔جن میں سے تیسری اور چوتھی 1962ءسے 1964ء1965سے 1969 اسمبلی میں اقلیتوں کی نمائندگی صفر تھی ۔۔۔ جسے شہباز چوہان نے یوں منظوم کیا
یہ مخلوط کیا تھا؟
فقط بانجھ پن تھا ۔۔
پانچویں قومی اسمبلی کی مکمل کہانی حاضر ہے ۔۔اس اسمبلی کے لئے 1970میں پہلی بار انتخابات میں ہر خاص و عام نے ووٹ ڈالیں یعنی ایک انسان ایک ووٹ ہر بالغ انسان کا ایک ووٹ تھا ۔۔ یہ بھی مخلوط طریقہ انتحاب تھا مغربی پاکستان کے مسحیو نے ان اس انتحاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پنجاب کے صوبائی اور قومی اسمبلی کی 35 نشستوں پر انتحاب لڑا لیکن بری طرح ہارے اور زر ضمانت بھی نہ بچا سکے ۔۔اس پورے انتحاب میں صرف ایک غیر مسلم مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کی نشست جیت سکا ۔۔ اور مغربی پاکستان سے رانا چندر سنگھ نے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی ۔۔لیکِن بنگلادیش کے قیام کی وجہ سے راجہ تری دیو جیت کر بھی ہار گیا۔ اس کا حلقہ مشرقی پاکستان (بنگلادیش) میں رہ گیا اور وہ پاکستان آگیا ۔ مسحیو نے احتجاج کیا اور دو شہادتیں دے کر بھٹو سے چوتھی آئینی ترمیم کے ساتھ اقلیتوں کی نمائندگی حاصل کی. جس رو سے چلتی پانچویں اسمبلی میں1975 میں چار مسحیوں پشاور کے آر ایم اینڈریوز ، سیالکوٹ کے جولین ڈین کوئٹہ کے بشیر مسیح اور ملتان کے ایچ ایس بیدی کو چن لیا جب کہ قادیانی کے نام پر شیخوپورہ سے طاہر بشیر کو چن لیا ۔۔ جسے فورآ جماعت احمدیہ نے اپنی جماعت سے نکال باہر کیا ۔(ان کے مبینہ طور پر اس رویئے کی قیمت پاکستان کی اقلیتیں آج بھی چکا رہی ہیں..کیونکہ وہ بطور اقلیت انتحاب میں حصہ لینے نہیں چاہتے جب آئین پاکستان انھیں اقلیت قرار دے چکا ہے اور ہماری کچھ این جی اوز اس بنیاد پر دوہرے ووٹ کی درپردہ مخالفت کرتی ہیں) ہندوؤں میں سے پی، کے ،شاہانی کے نام کی لاٹری نکلی ۔ 1973 میں آئین پاکستان اسمبلی نے متفقہ طور پر پاس کیا لیکن یہ بھی تاریخ ہے ۔ کہ اس وقت کوئی غیر مسلم شہری اس اسمبلی کا حصّہ نہیں تھا ۔ ۔اب اس نمائندگی دینے کے جمہوری پہلو دیکھیں 1972 کی مردم شُماری میں شیڈول کاسٹ ہندؤوں کی آبادی 603368 تھی۔جبکہ کے ہندؤ جاتی کی آبادی 290837تھی اس طرح ہندؤ کی مجعوعی آبادی 900206جبکہ مسحیو کی آبادی 907861 تھی۔۔انتحاب کی جمہوریت کا پردہ یہ صرف چار اعدادوشمار ہی چاک کرتے ہیں۔۔ کہ پہلے تو مسیحی اور ہندؤ آبادی کا فرق نہ ہونے کے برابر تھا ۔لیکن مسحیوں کو چار نشستیں اور ہندوؤں کو صرف ایک اسکے بعد ہندؤوں میں سے ایک نشست بھی آدھی آبادی والی مزہبی شناخت کی حامل ذات کو الاٹ کردی گئی۔۔جبکہ جمہوریت کا یہ عالم تھا۔ کہ جب 1976میں مسٹر اینڈریوز کی وفات ہو گئی تو یہ نشست انکی بیوہ نجمہ اینڈریوز کو الاٹ کردی گئی ۔ان چار مسحیوں میں سے کوئی بھی ایسی شخصیت نہیں تھی، جنہوں نے مخلوط طرزِ انتحاب کے بانجھ ہونے کی وجہ سے اقلیتوں کے لئے نمائندگی حاصل کرنے کے لئے طویل جدو جہد کی تھی ۔۔لیکن یہاں خؤد احتسابی بھی کرنی چاہیئے کہ ہمارے جو بزرگ 1972 سے جدو جہد کر رہے تھے۔ انھوں نے کوئی متبادل مکمل لالحہ عمل کیوں پیش نہ کیا۔۔ جہاں یہ سارے غیر جمہوری طریقے پاکستان کی اشرفیہ کا اقلیتوں کی طرف اجتماعی رویے کا بھی ایک ایک پہلو آجاگر کرتے ہیں۔ وہی اقلیتوں کی استعداد کار اور اپنے لوگوں کے لئے انکے خلوص پر بھی سوال اٹھتے ہیں ۔۔کہ بظاہر ساری اقلیتوں میں ہی خاصے پڑھے لکھے سمجھ دار لوگ گزرے ہیں ۔۔ سیاسی و سماجی کارکن بھی ایک سے بڑھ کر ایک کر آج بھی ہیں۔ لیکن نتائج صفر کیوں ہیں ۔ ؟ اس پر موجودہ نسل کو بہت غور وفکر کی ضرورت ہے۔اخر میں یہ کہانی نہیں حقائق ہیں نہ یہ کسی این جی اوز نہ کسی سفارت خانے کے لئے کھوجے گئے ہیں۔ یہ اقلیتوں کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے بطور وراثت اکھٹے کئے گئے ہیں کہ آپ ان حقائق کی روشنی میں
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں