سیمون دی بووار کی “دی سیکنڈ سیکس” مشہور کتاب ہے۔ یہ کتاب فیمینزم اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں دی بووار نے خواتین کی سماجی حیثیت، تاریخ، اور ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
عورت کی آزادی کے حوالے سے سیمون دی بووار کی ضخیم تصنیف پیرس سے دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی ۔ 1953ء میں اس کا انگریزی ترجمہ ایک ہی جلد میں شائع کیا گیا۔ یہ کتاب اس دور تک لکھی جانے والی کتابوں میں بے مثال اور فلسفیانہ لحاظ سے متوازن تھی۔ اس سے قبل جان سٹوارٹ مل کی Subjection of Women کتاب 1869٫ میں شائع ہوئی تھی ۔
سیمون دی بووار بھی اس کی معترف تھی۔ دی سیکنڈ سیکس آزادی نسواں پر بیسویں صدی میں لکھی جانے والی نہایت مدلّل کتاب ہے۔ اگر چہ اس کتاب نے اپنے ملک میں بھی فوری اور واضح اثر مرتب نہ کیے ، پھر بھی یہ اپنی دانشورانہ وسعت اور گہرائی میں کافی ایڈوانس ہے۔ دی بووار کی ایک سوانح نگار نے اسے ہم سب کی ماں کہا۔
وہ پیر کے ایک کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئی (1908ء) ۔ اس کی پرورش کیتھولک ماحول میں ہی ہوئی۔ ژاں پال سارتر کے ساتھ اس کی تاحیات رفاقت کا آغاز عہد طالب علمی میں ہی ہو گیا (1929 ء ) دی بووار نے کچھ عرصہ سکول میں پڑھایا۔ وہ 1945ء کے بعد کثیر الاشاعت میگزین Le Temps Modernes میں سارتر کی شریک ایڈیٹر رہی ۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ سارتر کا فلسفہ وجودیت دی بووار کے ہاں زیادہ پُر زور اور پائیدار نظر آتا ہے۔ لیکن دی بووار کا مقصد صرف اس احساس کا ابلاغ کرنا تھا کہ اس دور میں ایک پُر فکر اور غور و خوض کرنے والی عورت کے طور پر زندگی کیسے گزاری جائے۔
کچھ عرصہ قبل حقوق نسواں کے نام نہاد علمبرداروں نے دی بووار کو اس بات پر بہت بُرا بھلا کہا کہ وہ سارتر کے سامنے بالکل جھک گئی تھی، لیکن یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے، اور “دی سیکنڈ سیکس” کے دلائل کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس نے اپنے ناول The Mandarin (1954) میں امریکی ناول نگار نیلسن الگرین کے ساتھ اپنے طویل افیئر کو پوری تفصیل سے ( مگر فکشن کے انداز میں ) پیش کیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ سیمون انگریز ناول نگار جارج ایلیٹ کی طرح یہ نہیں جانتی تھی کہ ایک عورت کا رویہ کیسے اپنانا ہے یعنی بالکل کوئی افیئر نہ چلانا یا پھر حیاتیاتی رجحانات کے باوجود جرات مندانہ ہم جنس پرستی کی راہ اختیار کرنا۔ تا ہم ، وہ اپنی نکتہ چینوں کے برعکس حقیقت میں دلچسپی رکھتی تھی ۔ وہ متعدد پُر فکر ناول اور ڈرامے، چار کتابوں پر مشتمل یادداشتیں، جدید دنیا میں پرانے دور کا پُر اثر مشاہدہ – La Ville (1970) لکھنے کے بعد 1986 ء میں فوت ہو گئی ۔ وہ سارتر کی وفات کے چھ سال بعد تک زندہ رہی اور اپنی لے پالک بیٹی کے ساتھ کافی تنازعات کا شکار ہوئی۔
تاہم ، دی سیکنڈ سیکس سیمون دی بووار کا موثر ترین کام ہے جس میں اس کے ملک کی حقوق نسواں کی تحریک مکمل انداز میں نظر آتی ہے۔ جتنا اس کتاب نے فرانس کو متاثر کیا وہ امریکہ پر فرائیڈان کی کتاب کے اثر کی نسبت کہیں کم براہ راست تھا ، لیکن ” دی سیکنڈ سیکس“ زیادہ پر فکر ، عمیق النظر اور تحقیقی ہے۔ فرائیڈ کی مرکزیت لنگ (Phallocentricity) پر کبھی اتنی اچھی دلچسپ یا عمدہ بحث نہیں کی گئی۔
بلا شبہ دی بووار کا نکتہ نظر وجودی تھا: یعنی اس کے خیال میں ایک ہر لحظہ بدلتی ہوئی کائنات میں انسان ہی انتخاب کرتا ہے کہ اسے کیا بننا ہے۔ وہ سارتر کی الحاد پرستی اور بورژوا کی گرافک کیٹیگرائزیشن سے پوری طرح متفق تھی ۔ لیکن اس بارے میں کچھ کم پُر جوش رہی ۔ دی بووار نے عورتوں پر الزام عائد کیا کہ وہ مردوں جتنی ہی غیر معتبر ہیں کیونکہ وہ مردانہ کھیل کھیلتی ہیں ۔
” سچی بات تو یہ کہ عورتوں نے مردانہ اقدار کے مقابلہ میں کبھی بھی زنانہ اقدار قائم نہیں کیں ،مردانہ استحقاق کے خواہش مند مرد نے ہی یہ گریز ایجاد کیا۔ مردوں نے ایک زنانہ اقلیم۔۔ زندگی کی، مہجولیت کی سلطنت، تخلیق کرنے کا مفروضہ قائم کیا تا کہ عورتوں کو اس کے اندرقید کر سکیں”
اس کے بعد سیمون دی بووار عورتوں کو بطور دوسرا (the Other) بیان کرتی ہے۔ اس کے مطابق مرد عورت سے فرار نہیں حاصل کر سکتے تھے: چنانچہ انہوں نے اسے ایجاد کر لیا۔ اس نے کہا کہ ہم جنس پرست مرد بھی عورتوں سے چھٹکارا نہیں پا سکے، اور انہوں نے اپنی ہی جنس میں مسرت کے معروض میں فرجی سحر (Vaginal magic) داخل کر دیا۔ (اس نے یہ بھی رائے دی کہ مرد جذباتی طور پر اپنے تخیل کی نرم و ملائم، زنانہ دنیا کی جانب بڑھتا ہے جبکہ عورت سخت، مردانہ دنیا میں رہنے پر مائل ہے ۔ ( سیمون نے کہا کہ عورت اپنی بہترین حالت میں مردوں کے مصنوعی تصوف (باطنیت ) اور بدترین صورت میں سادیت (Sadism) کی شکار ہے۔ اس نے عورتوں کی ہم جنس پرستی کے بارے میں بھی کافی وضاحت سے لکھا۔
ہم جنس پرست عورتوں کی جنسیت کا تعین ہرگز کسی جسمانی مقدر سے نہیں ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم جنس پرستی جان بوجھ کر اپنائی ہوئی کج روی سے زیادہ ایک بدنصیبی ہے۔ یہ ایک مخصوص صورتحال میں منتخب کردہ رویہ ہے۔ یعنی بیک وقت تحریک یافتہ اور آزادانہ اپنایا ہوا بھی ۔ اس انتخاب کے حوالے سے موضوع کے نمایاں عناصر میں سے کوئی بھی جسمانی حالت ، نفسیاتی پس منظر، سماجی صورت حال ، عنصر غیر فیصلہ کُن نہیں، تاہم، یہ سب اس کی وضاحت میں شریک ہیں ۔ دیگر راہوں کی طرح یہ بھی ایک راہ ہے جس کے ذریعہ عورت بحیثیت مجموعی اپنی حالت، بالخصوص اپنی شہوانی حیثیت کی جانب سے پیش کردہ مسائل کو حل کرتی ہے۔ سارے انسانی رویے کی طرح ہم جنس پرستی بھی مکر و فریب ، عدم مساوات، مایوسی و محرومی، کذب و ریا تک لے جاتی ، یا پھر اس کے برعکس یہ حقیقی زندگی میں اپنے انداز اظہار کی مطابقت میں مکافاتی تجربات کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ چاہے یہ تجربات بداعتمادی ، کاہلی اور تصنع میں ہوں، یا تا بندگی ، فیاضی اور آزادی میں ۔
قاری وجودی الحاد پرستی کے بارے میں چاہے کچھ بھی رائے رکھتا ہو، لیکن یہ ایک سادہ اور معتدل سمجھ داری ہے، اور اس میں ہم جنس پرستی کی تعریف ایک اچھی چیز کے طور پر نہیں کی گئی ۔ اسی سمجھ داری میں سیمون دی بووار شاندار عمیق نظری کے ساتھ عورت کی مظلومیت کا تجزیہ کرتی ہے۔ ممتاز فرانسیسی مورخ اور مفکر Michelet Jules نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ عورت ایک اندرونی زخم کے باعث مسلسل تکلیف زدہ ہے ۔ 28 میں سے پندرہ یا بیس برس کے لیے عورت کو نا صرف معذور بلکہ مجروح بنا کر رکھا جاتا ہے۔ وہ محبت کے اذلی زخم کی تکلیف متواتر جھیلتی ہے۔
دی بووار کی رائے میں یہ چیز عورت کو انسان بننے میں مدد نہیں دیتی ۔ وہ اس بنیاد پر زنانہ تصوف یا باطنیت“ سے نفرت کرتی تھی کہ عارفہ ایک غیر حقیقت کے ساتھ تعلق جوڑ لیتی ہے ۔“ وہ مارکس کے براہ راست اثر میں کہتی ہے کہ عورت کے پاس معتبر بننے کی صرف ایک راہ ہے کہ وہ اپنی محنت کو معتبریت کے ساتھ استعمال کرے، یعنی اسے انسانی معاشرے میں مثبت عمل کے ذریعے سامنے لائے ۔ ”دی سیکنڈ سیکس کا واحد ناقص پہلو یہ ہے کہ اس میں مذہبی جذبات کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ لہذا : ” سیاسی عقیدہ رکھنے اور یونینوں میں عسکری اقدام کرنے والی عورتیں ہی روزمرہ کی بلا شکریہ محنت کو اخلاقی مفہوم دے سکتی ہیں ۔“
دی سیکنڈ سیکس کی اشاعت کے بعد ہونے والے واقعات ( چیکوسلوا وکیہ پر کمیونسٹ قبضہ، 1956 ء میں ہنگری پر روس کا حملہ ) نے سارتر اور دیگر مارکسی وجودیوں کو ایک قسم کی در بدری سے دوچار کر دیا: وہ دیکھ سکتے تھے کہ سوویت روس بہت کم حوالوں سے حقیقی مارکسی ریاست ہونے کا دعویٰ کر سکتا تھا۔ ان مفکرین کی یہ گوشہ گیری سیمون کی کتاب کی کمزوریوں میں منعکس ہوتی ہے۔
لیکن سیمون کو ایک کمزوری کا مورد الزام تو بالکل نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ یہ کمزوری اس بات سے انکار کرنا تھا کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی حقیقی فیصلہ کن فرق حتیٰ کہ جسمانی بھی موجود نہیں لیکن خود کو آزاد کر لینے والی نادر عورت کے بارے میں بھی سیمون لکھتی ہے کہ
“یہ عورت ایک اخلاقی ، سماجی اور جسمانی صورتحال میں بھی مرد جیسی ہے،کیونکہ اپنی بالغ زندگی کا آغاز کرنے پر اس کے پیچھے لڑکوں جیسا ماضی موجود نہیں ہوتا۔ کائنات اسے ایک مختلف تناظر میں دکھائی دیتی ہے ۔ وہ خود کو مونث کی حیثیت میں محدود رکھنے سے انکار کر دیتی ہے، کیونکہ ایسا کرنے میں اس کی قطع برید ہو جائے گی ، لیکن اس کی جنس کو نا منظور کرنا بھی تو ایک قسم کی قطع و برید ہی ہوگا ”
یہ رائے اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ سیمون دی بووار نے کبھی بھی سنجیدگی سے عورت کے مرد بن جانے کے بارے میں نہیں سوچا، اور نہ ہی اس بارے میں شبہ کیا کہ دونوں جنسوں کے مابین ایک ناگزیر فرق موجود تھا ۔ کتاب کی ایک خامی اس کا حد سے زیادہ سیاسی ہونا بھی ہے۔ آخر میں وہ کہتی ہے کہ مرد اور عورتیں صرف اپنے فطری امتیازات کے ذریعہ ہی بھائی چارے کو یقینی بنا سکتے ہیں:
عورت گم شدہ ہے۔ عورتیں کہاں ہیں؟ آج کی عورتیں ہرگز عورتیں نہیں ! ہم نے غور کیا ہے کہ ان پُر اسرار نعروں کا کیا مطلب ہے۔ مردوں کی نظر میں اور مردوں کی نظر سے دیکھنے والی عورتوں کے جم غفیر کے لیے صرف نسوانی جسم کا مالک ہونا یا محبوبہ یا ماں کا نسوانی وظیفہ اختیار کر لینا ہی حقیقی عورت بننے کے لیے کافی نہیں۔ کوئی عورت جنسیت اور مادرانہ پن میں خود مختاری کا دعویٰ کر سکتی ہے، لیکن حقیقی عورت بننے کی خاطر ا سے خود کو بطور ” دوجا“‘ قبول کرنا ہوگا ۔ کیا یہ پُر اسرار نعرے اب بھی نہیں لگائے جار ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں