معروف فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا کی پیدائش ہوئی 15 جولائی 1930 کو اور وفات ہوئی 8 اکتوبر 2004 میں۔
دریدا کو فلسفے میں ساختیاتی اور مابعد ساختیاتی نظریات کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے، اور ان کی شہرت “ڈی کنسٹرکشن (Deconstruction) کا نظریہ ہے۔
آج کسی مفکر کا فلسفیانہ یا تنقیدی رجحان کچھ بھی ہو، مگر کوئی بھی ژاک دریدا کے کام کو نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ 1966ء کی بات ہے کہ اسے جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک کانفرنس میں مقالہ پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ تاہم، اس کے نتیجے میں ایک اہم فلسفیانہ coup جیسی کوئی چیز واقع ہوگئی۔ دریدا نے نہایت غیر متوقع طور پر مغرب میں فلسفے کی ساری تاریخ کو مشکوک بنا دیا تھا۔
وہ El-Biar کے مقام پر ایک الجیریائی یہودی گھرانے میں پیدا ہوا ۔ 22 سال کی عمر میں وہ فرانس چلا گیا اور پیرس کے Ecole Normale Supérieur میں تعلیم حاصل کی ۔ اس نے ایڈمنڈ مرل کے مظہریت پر توجہ مرکوز کی۔ 60ء کی دہائی کے دوران اس نے بائیں بازو کے ایک جریدے کے لیے فلسفہ تحریر کے متعلق کئی تجزیاتی مضامین شائع کیے۔ عشرے کے نصف اول میں اس نے تاریخ اور فلسفہ تحریر کے متعلق چھپنے والی کتب پر تبصرے لکھے۔ یہ تحریریں ہی غالباً دریدا کے بعد کے کام کی بنیاد بنیں ۔ 1967 ء میں وہ تین کتب کے ذریعے تحریر و تصنیف کے افق پر یکدم ابھرا:
،”Writing and Difference”
نہایت متاثر کن “Of Grammatology” اور
“Speech and Phenomena”
اس کی پیدا کردہ فکری تحریک ڈی کنسٹرکشن ( تحلیل ) کہلائی۔ دریدا نے بیس سے زائد کتب اور مقالے لکھے۔ لیکن برسوں تک وہ کسی کا بھی ہیرو نہیں تھا۔
اس نے 1965ء سے 1984 ء تک Ecole Normale Supérieur میں پڑھایا اور پیرس و امریکہ کی یونیورسٹیوں میں تھوڑا تھوڑا وقت دیتا رہا۔ 1981ء میں وہ پراگ میں ہونے والے ایک Clandestine سیمینار میں مشغول تھا کہ اسے گرفتار کر کے ملک سے نکال دیا گیا۔ اس دوران وہ فلم Ghost Dance (82) میں بھی نمودار ہوا اور جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خاتمے کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اگر دریدا مغربی فکر کو سر کے بل کر دینے میں کامیاب ہوا ہے تو اس کی وجہ صرف فریڈرک نیچے، فرائیڈ ، ہیڈگر اور ساسیور Saussure کے بل بوتے پر ہے۔ نیچے کی طرح دریدا بھی بہ حیثیت مجموعی فلسفے کے متعلق تشکیک کا شکار تھا، لیکن بالخصوص اس کے انداز میں صداقت کے متعلق دعوؤں پر اسے اعتراض تھا۔ دریدا کو بھی علم تھا کہ ہم اپنے تناظر (Perspective) کے قید ہیں، چنانچہ دونوں نے کسی کے تناظر کو الٹے پٹنے کی کوشش کی۔ دونوں ہی موضوع / معروض؛ صداقت/ خطا؛ اخلاقی / غیر اخلاقی کے متضادات کو الٹتے پلٹتے ہیں۔ تحلیلی نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائیڈ (1939-1856ء) کے ساتھ مل کر دریدا انسانی سائیکی کی یگانگت پر سوال اٹھاتا ہے جس پر ہمیشہ ماضی کے تجربات کے تحت الشعوری سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔
ڈی کنسٹرکشن ( تحلیل) کا لفظ جرمن فلسفی مارٹن ہیڈگر (1976 – 1889ء) کے تصور Destruktion سے مشتق ہے۔ اس کا مطلب تخریب کی بجائے ادھیڑنا، کھولنا یا جزئیات کی سطح پر کھول کر دیکھنا ہے۔ انگلش کے لفظ analysis کا بھی یہی مطلب ہے، بلکہ analysis اور deconstruction کو ایک دوسرے کا ہم معنی سمجھنا چاہیے۔ لہٰذا ٹھوس اشتقاقی اور اصطلاحی بنیادوں پر ڈی کنسٹرکشن کا اردو ترجمہ تحلیل کیا جا سکتا ہے۔ ادب، فلسفے اور زبان کی ڈی کنسٹرکشن کے لیے تحلیلی تنقید کی اصطلاح نہایت موزوں ہوگی، بالکل تحلیلی نفسیات کی طرح۔ مارٹن ہیڈگرنے داخلی ترقی سے تعارف کے ذریعے وجودیات کی پرانی روایت کے بندھنوں کو ڈھیلا کرنے پر زور دیا۔ دریدا نے اپنے لکھے ہوئے لفظ پر کاٹا مارنے کا طریقہ بھی ہیڈگر سے مستعار لیا جس طرح ہیڈگر نے Being لکھا ، اسی طرح دریدا نے is کا استعمال کیا۔ کیا میز موجود ہے؟
فرڈینڈ ساسیور ایک سوکس ماہر لسانیات تھا جو سٹرکچرل ازم ( ساختیات) کا نقیب بنا اور ادب، semiotics ، لوک ریت اور بشریات کے شعبوں پر اثرات مرتب کیے۔ اس کا خیال تھا کہ ایک مجرد ساخت ( سٹرکچر) موجود ہے جو تمام زبانوں میں ٹھوس اظہار پاتی ہے، جیسے شطرنج کے قواعد جو کھیل میں تمام ممکنہ چالوں کا تعین کرتے ہیں۔ اسی طرح ساختیاتی ماہرین بشریات کو یقین ہے کہ اسطوره، قرابت داری وغیرہ جیسی ثقافتی صورتوں کی تہہ میں مجرد ساختیں ( سٹرکچرز) موجود ہیں ۔ نتیجتاً با کسنگ، اساطیر ، سیاسی مہم ، مذہبی اساتیر اور ٹریفک سگنلز کا بھی ساختیاتی تجزیہ کیا گیا۔
اس قسم کے تجزیے میں جزئیات کا مفہوم ان کے آپسی تعلق جتنا اہم نہیں ۔ مثلاً ٹریفک کی لائٹوں میں سرخ، پیلی اور سبز لائٹوں کا مطلب سبز کے سبز پن یا پیلی کے پہلے پین پر مبنی نہیں۔ لائٹوں کا مفہوم ایک نظام کے اجزا کے طور پر ان کے باہمی تعلق میں ہے۔ ان جگہ اگر کسی اور رنگ کی لائٹیں لگا دی جائیں تو تب بھی نظام اسی مفہوم کا حامل ہوگا۔ ایک قرمزی رنگ کی لائٹ بھی سٹاپ!‘ کا مفہوم دے سکتی ہے۔
ساختیات نے بشریات، ادبی تنقید اور دیگر شعبوں کو ایک سائنسی بنیاد مہیا کرنے کا عہد کیا، لیکن امریکہ میں اپنے اثرات ڈال سکنے سے پہلے ہی جان ہاپکنز والے سیمینار میں دریدا نے سٹرکچرل ازم کی کمزوری عیاں کر دی۔ ساختیات کا انحصار ساختیوں پر ہے اور ساختیوں کا مرکز ہے۔ اور دریدا نے ایک مستحکم مرکز کا تصور ہی معرض سوال میں ڈال دیا۔ پوسٹ سٹرکچرل ازم کا عہد شروع ہو گیا تھا۔
پوسٹ سٹرکچرل ازم کی تحریک میں دریدا اور مشل فوکو کے علاوہ کئی دیگر فرانسیسی مفکرین بھی شامل ہیں۔ یہ سارے علم تاریخ بشریات، ادب، نفسیات ، وغیرہ کو متن پر بنی خیال کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ علم تصورات کی بجائے الفاظ پر مشتمل ہے۔
ہاں تو ڈی کنسٹرکشن یا تحلیل کی تعریف ایک ایسی سرگرمی ہے جو دریدا کی ساری فکری امنگ کے برخلاف جاتی ہے۔ درحقیقت دریدا نے کہا کہ ڈی کنسٹرکشن X ہے جیسا کوئی بھی جملہ خود بخود اصل نکتے سے انحراف کر جاتا ہے۔ لیکن ڈی کنسٹرکشن میں اکثر پڑھنے کا ایک طریقہ ملوث ہے جو غیر مرکز بنانے کے عمل سے تعلق رکھتا ہے۔ مراکز کی مسائل انگیز نوعیت سے پردہ اٹھانے کے ذریعے۔ مراکز کو غیر مرکزی بنانا ؟ مرکز کیا ہے؟ آپ کو غیر مرکزی ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ دریدا نے مراکز کے متعلق ایسی مجرد زبان میں لکھا کہ اس کی کچھ مثالیں پیش کر دینا برمحل ہو گیا۔ اس کے مطابق ساری مغربی فکر مرکز کے تصور پر مبنی ہے۔ ایک ماخذ ، ایک سچائی، ایک مثالی صورت، ایک طے شدہ نقطہ، ایک غیر متحرک محرک، ایک جوہر، ایک خدا، ایک حضوری جو تمام مفہوم کی ضمانت دیتی ہے۔ مثلاً کوئی دو ہزار سال تک مغربی ثقافت مسیحیت اور مسیح کے تصور پر مرکوز رہی ہے۔ اور دیگر ثقافتوں میں بھی یہی صورت ہے۔ ان سب کی اپنی اپنی مرکزی علامتیں ہیں۔
دریدا کی نظر میں مراکز کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ خارج کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں دوسروں کو نظر انداز کرتے ، دباتے اور حاشیہ نشین بناتے ہیں۔ مردوں سے مغلوب معاشروں میں مرد مرکزی ہے اور عورتیں نظر انداز شده، استحصال زدہ دوسرا اگر آپ کی ثقافت میں مسیح مرکز میں ہے تو عیسائی اس ثقافت میں مرکزی، جبکہ بودھ، مسلمان، یہودی کوئی بھی مختلف- حاشیوں پر ہوں گے، برطرف شدہ ۔ چنانچہ مرکز کی خواہش متشابہہ متضادات (binary opposites) کو جنم دیتی ہے۔ جس میں ایک متضاد اصطلاح مرکز اور دوسری نظر انداز شدہ کے لیے ہوتی ہے۔ نیز ، مراکز متشابہہ متضادات کے کھیل کو فکس یا غیر متحرک بنانا چاہتے ہیں۔ متشابہہ متضادات کے کھیل کو منجمد کرنے سے کیا مراد ہے؟
مرد عورت کا متضاد محض ایک متشابہہ متضاد ہے۔ دیگر میں روح مادہ ، فطرت ثقافت، گورا / کالا، عیسائی بت پرست شامل ہیں۔ دریدا کے مطابق تصورات، ضابطوں اور زمرہ بندیوں کے ذریعے ہی ہم حقیقت تک رسائی پاتے ہیں اور انسانی ذہن کے وظائف اسی قسم کے تصوراتی جوڑے تشکیل دینے کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ کس نے کس طرح دائیں طرف والی اصطلاح مراعات یافتہ ہے۔ جب بائیں طرف والی اصطلاح مراعات سے محروم ہو جاتی ہے۔ مسیح یا ہو ہے۔ بدھ یا کسی اور چیز کو مرکز میں دکھانے والی شبیہیں ہمیں بتاتی ہیں کہ مرکز میں موجود چیز ہی حقیقت ہے۔ دیگر تمام نکتہ ہائے نظر تادیب یافتہ ہیں۔ اس قسم کی شبیہہ کھینچنا مثلاً، عیسائی /یہودی یا عیسائی/ بت پرست کے درمیان متضادات کے کھیل کو منجمد کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس قسم کے آرٹ میں یہودی اور بت پرست کو دکھایا تک نہیں گیا۔ لیکن اس کے علاؤہ بھی اس کھیل کو جامد کرنے کے متعدد ذرائع موجود ہیں۔ جیسے ایڈورٹائزنگ، سماجی ضوابط ، ٹیبوز ، روز ، زمرہ بندیاں، رسوم، وغیرہ۔ مگر حقیقت اور زبان مرکزی، قاطع شبیہہ والی ان تصاویر جیسی سادہ اور دو ٹوک نہیں۔ وہ مبہم ہیں۔
دریدا کہتا ہے کہ تمام مغربی فکر متشابہہ متضادات کے جوڑے بنانے کے ذریعے عمل کرتی ہے جن میں جوڑے کا ایک رکن مراعات یافتہ ہے۔ یوں نظام کو جامد اور جوڑے کو دوسرے رکن سے محروم کر دیا گیا۔
تحلیل یا ڈی کنسٹرکشن مرکز کو بے مرکز کرنے کی تکنیک ہے۔ پڑھنے کا ایک انداز جو پہلے ہمیں مرکزی اصطلاح کی مرکزی سے آگاہ کرتا اور پھر مرکزی اصطلاح کو معزول کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ دبی ہوئی اصطلاح مرکز بن سکے۔ وہ استحصال / استیصال زدہ اصطلاح عارضی طور پر سلسلہ مراتب کا تختہ الٹ دیتی ہے۔
دریا کا دعویٰ ہے کہ ڈی کنسٹرکشن ایک سیاسی عمل ہے۔ اور آپ کو لازم ہے کہ معزولی کے اس مرحلے سے یونہی عجلت میں نہ گزر جائیں۔ جلد ہی آپ کو معلوم ہوگا کہ نیا نکتہء نظر پہلے جیسا پائیدار نہیں ، اور تب آپ دونوں معنیٰ برابر طور پر دیکھیں گے۔
دری اپنی زندگی کے دوران سیسی سرگرمیوں میں پوری طرح مشغول رہا۔ اس نے فرانس میں الجیریائی تارکین وطن کے حقوق کی خاطر جدوجہد کی نسلی تعصب کے خلاف آواز اٹھائی اور چیک چارٹر 77 کے منحرفین کے حقوق کی خاطر کھڑا ہوا۔ وہ اپنے فلسفہ اور سیاسی حقیقت کے درمیان مطابقت لانے کا متمنی تھا۔ ادبی تنقید اور فلسفہ کے تقریباً تمام شعبوں میں اس کے حوالے بہت وسیع پیمانے پر دیے گئے ۔ 2003ء میں تشخیص ہوئی کہ اسے پیکریاز کا کینسر تھا۔ صرف ایک سال بعد وہ پیرس کے ایک ہسپتال میں جان کی بازی ہار گیا۔ موجودہ دور کے فلسفے پر اس کے اثرات ناقابل تردید ہیں اور وہ بلاشبہ بیسویں صدی کے نہایت متاثر کن فلسفیوں میں سے ایک ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں