• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بند گلی سے نکلنے کا کوئی طریقہ ہے ؟-حیدر جاوید سیّد

بند گلی سے نکلنے کا کوئی طریقہ ہے ؟-حیدر جاوید سیّد

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لئے ازحد ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو طے کرنے کے لئے سیاسی شعور کا عملی مظاہرہ کیا کریں۔ اختلافات کے گندے کپڑے کسی محکمے کی چوکھٹ پر دھونے کے جو نتائج نکلتے ہیں انہیں لگ بھگ نصف درجن بار اس ملک کے عوام بھگت چکے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ مجموعی ملکی اخراجات کے لئے چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے چاہئیں۔ قرض کی مے پینے اور ایک دن فاقہ مستی سے نجات حاصل کرلینے کے “ذوق و شوق” نے مالیاتی اعتبار سے ایک ایسی بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے جس سے نکلنے کی فوری تو کیا قلیل و طویل المدتی صورت بھی دیکھائی نہیں دیتی۔

اسی طرح ذرائع ابلاغ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کو بھی سستی ریٹنگ کی بجائے صحافت کے اعلیٰ اصولوں اور ذمہ داریوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ امید کی شمع روشن رکھنے میں حصہ نہیں ڈال سکتے تو مایوسی پھیلانے میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرنے سے اجتناب برتنا ہوگا۔

ملک مشکل حالات میں ہے بعض عالمی طاقتیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کو ناکام ریاست بنانے کے لئے سازشوں میں مصروف ہیں جیسی موسمی اور فیشنی باتوں سے مزید جی بہلانے کی بجائے کامل سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک کے ماہ و سال میں سیاسی استحکام، سماجی وحدت، مثبت معاشی پھیلائو کے لئے عملی طور پر کیا ہوا اور کون سے ایسے کام ہوئے جن کی وجہ سے چار اور مایوسی ہی مایوسی کاشت ہوئی دیکھائی دے رہی ہے؟

ہمارے سیاسی قائدین عوام اور پارلیمان پر انحصار کرنے کی بجائے جب تک دستور کے پابند اداروں اور محکموں کو دستور سے ماورا اقدامات و کردار کے لئے اکساتے رہیں گے پاکستان میں نظام ہائے حکومت سمیت کسی شعبہ میں استحکام کا آنا جاگتی آنکھوں کا خواب ہی ہے۔

آج کے حالات میں جو سیاسی کشیدگی اور بداعتمادی دیکھنے میں آرہی ہے اس سے صرف نظر کرکے من پسند راگوں سے جی بہلاتے رہنے سے حقیقت کی پردہ پوشی ہوسکتی ہے نہ ہی ان سنگین مسائل سے نجات مل سکتی ہے جو حکمران اشرافیہ کی غلط پالیسیوں اور ہم سب جانتے ہیں کہ زعم سے پیدا ہوئے اور ہر گزرنےوالے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو یہ امر بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ جمہوری و سیاسی اقدار و اخلاقیات کی پاسداری کے برعکس سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کا رنگ دینے اور نبھانے کے نتائج کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔

ایک حد تک تو اب بھی بھگتا جارہا ہے۔ اسی طرح دستور کے پابند اداروں اور محکموں کے ذمہ داروں کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ دستور و حدود سے ماورا اقدامات اور خواہشوں کی فصل اٹھاتے رہنے سے ان کے اور عوام کے درمیان جو بداعتمادی پھلی پھولی اس سے نجات کی صورت کیا ہوسکتی ہے؟

ہماری دانست میں اس بداعتمادی کے خاتمے کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ ماضی کی غلطیوں اور ایڈونچروں پر کھلے دل سے معذرت کرکے آگے بڑھا جائے۔

بدقسمتی سے یہ ممکن نہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں”سب جانتے ہیں” کے مرض کا ہر کس و ناکس شکار ہے۔ گو ایک طبقہ اصلاح احوال کی طرف متوجہ کرتا ہر دور میں دیکھائی دیتا رہا اب اس کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے اور آوازیں بھی ماند پڑنے لگی ہیں۔

یہ امر بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ سیاسی و سماجی ماحول میں آج جن نفرتوں کدورتوں زبان دانیوں اور دشنام طرازیوں کا دور دورہ ہے اس کی تام تر ذمہ داری ان قوتوں پر عائد ہوتی ہے جو روز اول سے اس زعم کا شکار ہیں کہ اقتدار، نظام سازی اور دوسرے معاملات میں فقط وہی عقل کل ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ادارے ہوں، محکمے، پارلیمان ہو، سیاسی جماعتیں کوئی بھی عصری شعور کے ساتھ صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرکے اصلاح احوال کے لئے حکمت عملی وضع کرنا چاہتا ہے نہ اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔

ملک ہے کہ اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا سسک رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 25 کروڑ کی آبادی والے ملک میں ہر شخص اس وقت 2 لاکھ 80 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ یہ بھاری بھرکم قرضے آخر کن مدوں میں خرچ ہوئے کہ شہریوں کی حالت ہر گزرنے والے دن کے ساتھ پتلی ہوتی گئی؟

طرفہ تماشا یہ ہے کہ بیرونی قرضوں کو غیرضروری یا یوں کہہ لیجئے غیرمتعلقہ مدوں میں صرف کرنے پر سوال اٹھانے والوں کو چرب زبان ٹولہ ملک دشمنوں کا آلہ کار قرار دے دیتا ہے۔ حالانکہ اصولی اخلاقی اور قانونی طور پر شہریوں کا حق ہے کہ وہ حکومت سے دریافت کریں کہ جو قرضے لئے گئے وہ کہاں خرچ ہوئے اور افغان پالیسی کے دو مرحلوں (سوویت امریکہ جنگ اور انسداد دہشت گردی جنگ) میں جو بیرونی امداد اور لاجسٹک سپورٹ کی رقوم ملیں وہ کہاں خرچ ہوئیں؟

دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ وزارت صحت کی رپورٹ کے مطابق ملک میں 8 کروڑ لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں یعنی 25 کروڑ میں سے 8 کروڑ افراد نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں۔ جس قسم کے حالات و واقعات کااس ملک کے لوگوں کو روزمرہ کی بنیادوں پر سامنا کرنا پڑرہاہے ان کی بدولت نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد میں کمی تو ممکن نہیں اضافہ در اضافہ ہی ہوگا۔

اسی طرح یے لگام بیروزگاری و غربت ہے مہنگائی کا سونامی، ان کے تدارک کی بجائے ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے عوام کی کھال اتارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔ ریڈیو اور پی ٹی وی کی فیسیں بذریعہ بجلی کے بل وصول کرنے کے باوجود ان دونوں اداروں کو ہر وقت مالی بحران کا سامنا رہتا ہے۔

مہنگی بجلی اور گیس کا ظلم اپنی جگہ صارف کے خریدے ہوئے میٹر پر فکس ماہانہ بھتہ وصول کیا جارہا ہے۔ سیاسی میدان کے حالات پر نگاہ دوڑائی جائے تو ایسی بدترین نفرتوں کا دور دورہ ہے کہ نفرتیں پروان چڑھانے والوں کے چہرے دیکھ کر گھن آتی ہے۔ حکومت ہو کہ اپوزیشن دونوں اپنی اپنی انا کے خول میں بند ہیں۔

سنگین ہوتے مسائل، عوام کی مشکلات، قرضوں کے انبار سے جنم لیتے بحران سماجی یکجہتی کے فقدان سے کسی کو سروکار نہیں۔ ان حالات میں اگر رائے عامہ کا ایک طبقہ نظام اور سیاسی عمل کے ساتھ دیگر کچھ اور سے بیزار ہوتا دیکھائی دیتا ہے تو ان پر پھبتیاں کسنے کی بجائے یہ سوچا جانا چاہئے کہ یہ سارے مسائل کن وجوہات کی بنا پر پیدا ہوئے۔ ہمارے خیال میں حکمران اشرافیہ اور اس کے ساجھے دار طبقات اصلاح احوال میں جتنی تاخیر کریں گے نقصان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

یہاں ہم اس امر کی نشاندہی ازبس ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت تمام وسائل رکھنے کے باوجود بعض بھگوڑوں اور بیرون ملک مقیم اپنے ایک سیاسی مخالف کے حامیوں کے پروپیگنڈہ کا دلائل کے ساتھ توڑ کرنے میں ناکام رہی ہے۔

جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو حقیقت حال سے آگاہ کرکے اعتماد میں لیا جائے۔ اندریں حالات ہم یہی عرض کرسکتے ہیں کہ قرضوں کے بوجھ تلے سسکتے سیاسی عدم استحکام کا شکار ایک ایسے ملک میں جہاں ہر سو نفرتیں کاشت و فروخت ہوتی ہوں قانون کی حاکمیت، دستور کی بالادستی اور جمہوری اخلاقیات کو رواج دیئے بغیر اصلاح احوال کی کوئی صورت ممکن نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا عوام الناس امید کریں کہ ان کے حکمران طبقات اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرکے اصلاح احوال کے لئے حکمت عملی وضع کریں گے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply