اقرار نہیں کرنا/ڈاکٹر راؤ کامران علی

ایک دہائی قبل، میرا کی اپنے منگیتر کے ساتھ قابلِ اعتراض ویڈیو لیک ہوئی۔ میرا نے کمال ذہانت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ یہ ویڈیو اس کی نہیں بلکہ کسی اور کا جسم اور اس کا چہرہ ہے، حالانکہ ان دنوں ڈیپ فیک کا تو نام بھی نہیں تھا۔ مبشر لقمان نے اپنے پروگرام میں اسے بلایا، میرا نے قسم کھائی اور کہا کہ تحقیقات کروا لیں۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ اسی طرح، کئی ٹک ٹاکرز اور اداکاراؤں کی اخلاق باختہ ویڈیوز لیک ہوئیں۔ انھوں نے اسے بکواس قرار دیا، اور میرا سمیت سب ہنسی خوشی رہ رہے ہیں۔ کس کے پاس وقت اور پیسہ ہے کہ ان کا فرنزک کروائے؟

رابی پیرزادہ ایک اچھی اور صاف گو لڑکی ہے۔ اپنے خیالات کا اظہار شروع سے برملا کرتی آئی ہے۔ شوبز میں اس کی عزت شروع سے تھی۔ اس کی ویڈیوز لیک ہوئیں جو کہ پرائیویٹ تھیں؛ وہ اس کے محبوب یا شوہر کے لئے تھیں اور بہت سی عورتیں اپنے محبوب یا خاوند کے جذبات ایسے ہی ابھارتی ہیں تاکہ جنسی زندگی کو بھرپور اور “spicy” کیا جاسکے۔ جنس پر لکھی ہر کتاب چار دیواری میں ایسے عمل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ بہرحال، وہ ویڈیوز لیک ہوگئیں۔ وہ بیچاری عورت شاک اور صدمے میں چلی گئی اور پتہ نہیں کیوں پاکستانی عوام سے معافی مانگنے لگ گئی جو کہ ویسے بھی پورن دیکھنے میں گوگل کی نمبر ون پوزیشن پر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مذہبی ہوگئی کیونکہ مذہب اس تکلیف سے نکلنے کے لئے بہترین سہارا تھا اور ہے۔

اب آپ فرق ملاحظہ فرمائیں! میرا اور ٹک ٹاکرز جنسی تعلق قائم کرتے پکڑے گئیں اور اگر مان لیتیں تو ان پر قانونی اور مذہبی حدود کا کیس بھی لگتا کیونکہ شرعی عدالت کے اعتبار سے “سرمہ سلائی” کا تعین واضح تھا؛ جیل بھی ہوتی اور ذلالت بھی۔ رابی کے کیس میں کوئی پارٹنر نہیں تھا تو وہ اخلاقی، مذہبی، قانونی کسی بھی اعتبار سے مجرم نہیں بلکہ بیچاری مظلوم تھی جس کی پرائیویسی کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ لیکن اس کا ایک ہی قصور تھا؛ اقرار یا confession؛ اور یہ زندگی کی بلکہ دنیا کی سب سے بڑی غلطی ہے۔

یعنی کہ اتنے گھناؤنے کام کرنے والے صاف مکر کر ویسے کے ویسے اور معاشرے سے معافی مانگنے والے مورد الزام؛ آپ کبھی رابی پیرزادہ کی فیس بک پر کمنٹس پڑھیں؛ اگر الٹیاں نہ کریں تو بتائیں! کوئی نیم پاگل مذہبی کہہ رہا ہوتا ہے کہ “نیک ہونے کا پتا تب چلے گا جب مجھ جیسے مذہبی سے شادی کرو گی”؛ کوئی کہہ رہا ہوتا ہے “عبایہ لے لیا لیکن جسم کے خدوخال نظر آرہے ہیں، ٹوپی والا برقعہ پہنو ورنہ تمھاری توبہ قبول نہیں!” یاد رکھیں اپنا گناہ صرف اللہ کے سامنے قبول کریں اور معافی مانگیں، یہی ہمارا مذہب کہتا ہے۔ اسی لئے عیسائیت کے برعکس ہمارے ہاں پادری سے confession نہیں۔ ہمارے آس پاس کے جانور نما لوگوں کو اللہ کے ساتھ معافی میں شریک نہیں کیا جاسکتا۔

یقیناً بہتر یہی ہے کہ ایسی ویڈیوز نہ  بنانی جائیں۔ ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہیے جو معاشرتی حدود سے باہر ہو۔ امریکہ اور یورپ میں بھی بکنی سمندر کنارے پہنی جاتی ہے، نہ کہ شاپنگ مال یا کام کی جگہ پر۔ لیکن غلطی کی سزا بلیک میلنگ ہرگز نہیں ہے۔ اگر کسی سے یہ غلطی ہوگئی ہے اور ایسا کچھ لیک ہوجائے تو کبھی بھی اقرار نہیں کرنا، confession نہیں کرنا؛ اصلی بھی ہو تو یہی کہنا ہے کہ یہ ویڈیو جعلی ہے۔ سچ اللہ کے سامنے بولتے ہیں یا عدالت میں؛ کسی بلیک میلر یا آپ کے فائدہ اٹھانے والے کے سامنے “سچ” کی ضرورت نہیں؛ اگر ضرورت پڑے اور جھوٹی قسم اٹھانی پڑے تو اٹھائیں؛ کفارہ دے دیں۔ لیکن اقرار نہیں کرنا۔ قانون میں بھی یہ حق موجود ہے کہ کسی پر الزام ہو تو وہ وکیل سے بات کئے بغیر کوئی اقرار نہ کرے، تو بلیک میلر کی کیا اوقات ہے کہ آپ پر پریشر ڈالے؟ اکثر خبر پڑھتے ہیں کہ کسی لڑکے اور لڑکی کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر مجرم نے بلیک میل کیا! کیوں؟ انگریزی میں کہتے ہیں
“It will be your words against mine”

تو یہاں تو دو لوگ ہیں جو بلیک میلر کو جھوٹا قرار دے سکتے ہیں! آج تک کسی بچے کو اس لئے مرتے نہیں دیکھا کہ اس کی ماں نے اس کی جھوٹی قسم اٹھائی؛ ایسے ضرور مرتے دیکھا ہے کہ ماں کو غیرت کے نام پر مار دیا گیا اور بچے رُل کر مر گئے! غلطی نہ کریں لیکن اگر ہوجائے تو عقل سے کام لیں، جذبات سے نہیں۔ اپنے حقوق کو پہچانیں۔ اور اس ایک لائن کو اپنے کمرے کی دیوار پر لکھ دیں:

Advertisements
julia rana solicitors

“اقرار نہیں کرنا”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply