سبز ہلالی پرچم لہرانے اور آزادی کے گیت گانے کے ان پابند اگست موسموں میں ماتم و سوگ سا سماں ہے ، چہار سو دٍل دٍل پاکستان کی نہیں بلکہ بٍل بٍل پاکستان کی صدائیں ہیں ، یہ ظلم کی انتہائیں ہیں ۔ معاشی بحران ، کمر توڑ مہنگائی ، بھوک اور بےروزگاری نے پاکستان اور پبلک آف پاکستان کو تنزلی کی گہری دلدل میں دھکیل دیا ہے ۔ محمد نصیر زندہ کے الفاظ میں :
حریت پیٹ میں پگھل جاتی ہے
تہذیب روایت سے پھسل جاتی ہے
تم کرتے ہو بات حضرتٍ انساں کی
یہ بھوک تو مذہب کو نگل جاتی ہے
ٹی وی ٹاکروں مذاکروں میں بیٹھے اکثر اینکر پرسنز و تجزیہ کار اور سیاسی جماعتوں کے ترجمان و عہدیداران میرے ”سنگی“ ہیں بلکہ بھائی بھی ہیں مگر میں ان دنوں بہت ہی کم ٹی وی دیکھ پاتا ہوں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جب بھی ٹی وی کرو آن تو آگے سے سن لو معافی ، معافی معافی ، کی گردان ۔ ہر کسی نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ میں کیوں مانگوں معافی وہ مانگے معافی ، پھر آگے سے جواب آئے گا کہ ہم کیوں مانگیں معافی وہ مانگے معافی جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوائے عوام کے یہ کرتا دھرتا خواص و اشرافیہ سب کے سب مانگیں معافی خالق سے بھی اور خلق سے بھی ، یہ جو پچہتر سالوں سے ملک و قوم پر مسلط رہے یہ سارے مجرم ہیں مگر حصہ بقدر جُثہ ہے ۔ کوئی تین سالوں کی معافی مانگے اور کسی کو تیس سالوں کی توبہ توبہ کر کے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا پڑے گی۔ بقول محمد نصیر زندہ :
مظلوم کا کردار بدل جاتا ہے
اندازٍ ستم گار بدل جاتا ہے
ہوتا نہیں اربابٍ سیاست کا ضمیر
انصاف کا معیار بدل جاتا ہے
ان سول اور فوجی آمروں نے قوم کو دیا ہی کیا ہے سوائے مسائل و مشکلات کے ۔ ان ظالموں کے جبر و کارستانیوں نے میرے تخیل کا رخ ہی موڑ ڈالا ہے ، میں ان سیاستوں و صحافتوں اور حکمرانوں و پردھانوں سے اس قدر مایوس ہوا ہوں کہ میں نے اپنے کالم کا چلن ہی بدل ڈالا ہے ، اب میں سیاستٍ دوراں اور حالاتٍ حاضرہ سے زیادہ شعر و ادب و اہل ادب کے بارے میں بات کرنے لگا ہوں ، آج بھی میرا خیال تھا کہ بنتٍ جوش ملیح آبادی محترمہ تبسم ملیح آبادی جی کے حوالے سے لکھوں گا ، میں نے تو اپنے ذہہن میں یہ عنوان تک ترتیب دے رکھا تھا کہ ”جوش ملیح آبادی سے تبسم ملیح آبادی تک“ لیکن ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے الفاظ میں ، میں نے جو سوچا تھا مضمون چوری ہو گیا ۔ در حقیقت ہوا کچھ یوں ہے کہ رباعی کے نامور شاعر محمد نصیر زندہ کی کتاب ”میرا دوسرا وجود“ نے اچانک ہی آ کر دستک دے دی اور پھر میں اسی کا ہو کر رہ گیا ۔ ملاحظہ فرمائیے :
مرنے پہ مری برات رکھ دی اس نے
تشنہ نگہٍ حیات رکھ دی اس نے
میں نے کہا اسرارٍ علی مجھ کو بتا
سر پر مرے کائنات رکھ دی اس نے
معروف شاعر برادرم و محترم طاہر یاسین طاہر اس کتاب میں شامل اپنے مضمون ”محمد نصیر زندہ جدید رُباعی کا کوزہ گر“ میں ایک جگہ یوں رقمطراز ہیں کہ ”محمد نصیر زندہ نے اپنے شعری مجموعہ کا نام ”میرا دوسرا وجود“ رکھا ہے ، انہوں نے اپنی ذات کا وجدان پا لیا ہے اور بڑی مہارت سے اپنے اندر کے شاعر کو پورے قد و قامت کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے ۔ ان کا تخلص اس پر معتبر دلیل بھی ہے ۔ یہ ان کا پانچواں شعری مجموعہ ہے ۔ اس سے ان کی مہارت اور استادانہ چابک دستی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ کتاب کا نام اس بات کی دلیل ہے کہ محمد نصیر زندہ اپنی ذات کا گیان حاصل کر کے ذات سے آگے کا سفر شروع کر چکے ہیں ۔ “ محمد نصیر زندہ فرماتے ہیں کہ :
تجدیدٍ کہن فنا کی مٹی میں ہے
تعمیرٍ نو قضا کی مٹی میں ہے
وا ہوں گے نہاں خانہٍ تخلیق کے در
آدم ابھی کربلا کی مٹی میں ہے
محمد نصیر زندہ عہدٍ موجود کے سر بلند شاعر ہیں اور ان کا شمار بلاشبہ رُباعی کے اساتذہ میں ہی ہونا چاہیے ۔ انہوں نے ایک بار مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ راجہ صاحب ! شاعر کو یا تو فقیر ہونا چاہیے یا پھر بادشاہ ہونا چاہیے کیونکہ شعر کہنے کے لیے شاعر کا بے لوث و بے نیاز ہونا لازم و ملزوم ہوتا ہے ۔ میری رائے میں برادرم محمد نصیر زندہ آج ادب نگر کے شاہ ہیں اور رُباعی کے بے تاج بادشاہ ہیں ۔ پورے پوٹھوہار میں اس طرز و لیول کا رباعی گو کوئی نہیں ۔ میرے پوٹھوہار میں عمومی طور پر چوبرگے کو ہی رُباعی بولا جاتا ہے جو کسی طور پر بھی درست نہیں ہے ، اور تو اور اکثر اہل زبان و ادب بھی جو برگے کو بیت بولتے ہیں ، بھلا بیت بھی کوئی صنفٍ سُخن ہے کیا۔؟ بیت تو شعر کو کہتے ہیں چاہے وہ کسی بھی صنفٍ سُخن کا ہو ۔ جو برگہ ایک مقبول صنفٍ سُخن ہے جسے چومصرعہ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ آخر میں محمد نصیر زندہ کی ایک اور رُباعی ملاحظہ فرمائیے:
تبدیل خداؤں میں صنم ہوتے ہیں
تجدید کے بُت زیبٍ حرم ہوتے ہیں
کرتی ہے خرد جب نئے کعبے ایجاد
شمشیرٍ قلم سے سر قلم ہوتے ہیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں