تصوف کو عروج مسلمانوں کے دور زوال میں ملا تھا ۔منگولوں کی خونی یلغار نے مسلم دنیا کے بخیے ادھیڑ دیے تھے ،خوازرمیوں کی سلطنت سے لے کر بغداد کے خلیفہ تک سب کو کچل کے رکھ دیا تھا ،بستیوں کی بستیاں ،شہر کے شہر تباہی سے دور چار تھے،یہ تباہی صرف باہر کی دنیا میں نہیں ہو رہی تھی بلکہ لوگوں کے اندر کی دنیا بھی اس یلغار سے زخمی ہو رہی تھی۔ یلغار تاتار سے تباہ حال انسانوں کو کسی روحانی مرہم کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی ،جو اِن کے دکھوں کا مداوا کر سکے اور پھر روحانی مرہم تصوف کی صورت میں مسلم دنیا کو ملا ۔طریقت شریعت کے متوازی چلنے لگی ۔شریعت کی تشکیل مسلمانوں کے دور عروج میں ہوئی تھی ،اس لیے شریعت کے مزاج میں تحکم اور تمکنت تھی ،جسے صرف ریاستی طاقت سے ہی آپریٹ کیا جا سکتا تھا ۔تیرھویں صدی تک تو اسلام کسی نا کسی شکل میں سلطنت میں رہا تھا ،اس لئے ریاستی طاقت کی سپانسر شپ سے شریعت سماج کا قانون کا رہی۔مگر منگولوں کے ہاتھوں عباسی خلافت کے خاتمے کے بعد شریعت ریاستی سرپرستی سے محروم ہوگئی ۔تباہ حال مسلمانوں کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت اس میں نہ تھی ۔یہ ضرورت پھر تصوف نے پوری کی ۔
یہ نہیں کہ تصوف تیرھویں صدی سے پہلے نہیں تھا مگر منگولوں کی یلغار سے تصوف کا سارا ڈھانچہ بدل گیا،تیرھویں صدی سے پہلے کے اور بعد کے تصوف میں بہت بڑا فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔ قدیم اسلامی تصوف کی نشوونما مضبوط عباسی خلافت کے دور میں ہوئی،تصوف بنیادی طور پر منظم مذہبی ڈھانچے سے فرار کا نام ہے ،مگر عباسیوں کی خلافت میں صوفیاء شریعت کے قوانین سے چاہ کر بھی ہٹ نہیں سکتے تھے، ،جو ہٹتا اس کا حال منصور حلاج کی طرح ہوتا ،اس لیے پرانے تصوف میں شرعی رنگ زیادہ نظر آتا ہے ،حسن البصری ،جنید بغدادی ،ابوالقاسم القشیری یا امام غزالی جیسے شریعت کے رنگ میں ڈھلے صوفیا نظر آتے ہیں کیونکہ ان کی فکری نشوونما مضبوط ریاستی ڈھانچے کے اندر ہوئی تھی ،اس لیے اس دور کے صوفیانہ لیٹریچر میں بھی روایتی مذہبی اداروں سے بغاوت بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہے ۔تیرھویں صدی سے قبل کے صوفیانہ ادب کا موضوع تزکیہ نفس اور روحانی ترقی ہی ہے ،اس دور کا صوفی مُلاں سے دور نہیں ہوا تھا ۔اس دور کے صوفی لٹریچر میں رسالہ قشیریہ،قوت القلوب ،احیاء العلوم الدین اور تھذیب السرار جیسی کافی متوازن کتابیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔
پھر تیرھویں صدی آجاتی ہے ،منگولوں کے ہاتھوں خلافت کا تیا پانچہ ہو جاتا ہے ،مرکزی مسلم حکومت کی غیر موجودگی “فکری انارکی ” پیدا کر دیتی ہے۔ یہ بہت ہی آئیڈیل صورت حال تھی تصوف کے لئے ،ایک طرف صوفیاء نے تباہ حال مسلمانوں کو روحانی افیون پلائی جس سے انھوں نے شریعت کے متبادل کے طور پر اپنا آپ منوا لیا ،مسجد کے مقابلے میں خانقاہ مضبوط ہونے لگے ۔پہلے جس صوفیانہ اظہار رائے پر حلاج کی طرح پھانسی لگ جاتی تھی اب وہ ڈر بھی نہ تھا کیونکہ منگول خاصے سیکولر واقع ہوئے تھے ۔
اسی تاریخی مرحلے میں ایک ہی وقت کئی بڑے صوفیاء پیدا ہوئے ،ابن عربی ،مولانا رومی ،فرید الدین عطار اور یونس ایمرے جیسے بڑے صوفیاء کا تاریخ کے ایک ہی مرحلے میں پیدا ہونا ہی میرے تھیسیس کی درستی کی دلالت کرتا ہے ۔منگولوں کے حملے کے بعد ہی تصوف منظم اور institutionalized نظر آتا ہے ،تمام بڑے صوفی سلسلے نقشبندی ،سہروردی ،چشتی ،مولویہ یہ سارے بھی تیرھویں صدی کے بعد ہی وجود میں آئے۔
زیادہ پُراثر صوفی ادب بھی منگولوں کی یلغار کے بعد کے دور کی پیدوار ہے ،جہاں ابن عربی کی فتوحاتِ مکیہ ،فصوص الحکم ،مولانا روم کی مثنوی ،عطار کی تذکرۃ اولیاء ، سعدی کی گلستان و بوستان جیسا بڑا اور زیادہ پُراثر و مقبول عام لٹریچر نظر آتا ہے جس کی گرد کو بھی تیرھویں صدی سے قبل کا صوفی لٹریچر نہیں پہنچ سکتا ۔ایک بڑا فرق بعد از منگول یلغار کے لٹریچر میں دیکھنے کو یہ ملتا ہے کہ پرانے ادب کے برعکس اس صوفیانہ ادب میں محبت ،شاعری ،وحدت الوجود کا عنصر زیادہ ملتا ہے یہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ کہ یہ والا لٹریچر امام غزالی اور حسن البصری کے دور کے ادب کے مقابلے میں کافی ذیادہ لبرل تھا۔
منگول جتنے بڑے فاتح تھے اتنے ہی اناڑی منتظم تھے ،انھوں نے فتوحات تو کر لیں مگر وہ حکومت کے فن سے ناواقف تھے ،اس لیے جلد ہی محکوم علاقوں پر سے اپنی گرفت کھو بیٹھے ،اس انارکی کے دور میں تصوف کا سیاسی کردار بھی لائق مطالعہ ہے جس پر بہت ہی کم بات کی گئی ہے۔
خاص کر ایران میں تو تصوف کا سیاسی کردار بہت ہی دلچسپ رہا ہے ۔حنفی اور شافعی فقہ کے ماننے والے ایران کو شیعہ ایران میں بدلنے اور پھر صفوی سلطنت کی تشکیل تک تصوف کا مرکزی کردار رہا ہے۔ صفوی تحریک کے بانی صفی الدین ادریبلی خود بہت بڑے صوفی تھی ،ان کی صفوی تحریک بھی خالص صوفیانہ تھی ،جو فضل اللہ استرآبادی کے صوفیانہ حروف ازم کی ہی ایک کڑی تھی ۔
الموت سے شکست کھائے اسماعیلی ایران میں بس گئے تھے ان کی باطنیت اور تصوف کی روحانیت قریب قریب ہی تھے ایک دوسرے کے۔پھر اسماعیلیوں نے تصوف کی آڑ میں پہلے صفوی تحریک کو ہائی جیک کیا،قزلباش جو صفوی تحریک کا ہی حصّہ تھے اور خاصے ملی ٹینٹ صوفی تھے ،ان کے ہی ذریعے ایران کو اثناء عشری شیعہ من بدل کر صفوی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی ۔۔۔
تصوف کی نشاہ ثانیہ مسلمانوں کی دور تباہی میں ہوئی تھی،جب کوئی یہ کہتا ہے غزالی اور اشعریہ مسلمانوں کے فکری زوال کا باعث تھے یہ بالکل غلط بات ہے۔۔یہ منگولوں کی یلغار کے بعد مرکزی حکومت کی غیر موجودگی اور تصوف تھا جس نے انسانوں کی عقلی صلاحیتوں کو خانقاہ تک محدود کر دیا تھا ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں