میں ہر سال میلاد النبی ﷺ کے جلوسوں کو دیکھ کر اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ ہم کیسی قوم ہیں،ہم نے بھی گزشتہ قوموں کی طرح اپنے نبی ﷺ کے فرامین کو غلافوں میں قید کر دیا،جلوسوں اور لنگر کی تقسیم میں عشق کی بنیادی تفہیم کو پس پشت پھینک دیا،ہم صبح سے شام تک جھوٹ بولتے ہیں دوسروں کو تکالیف پہنچاتے ہیں’ہم غرور بھی کرتے ہیں’ہم ایک دوسرے کو گالی بھی دیتے ہیں’ہم وعدہ کرنے کے بعد مکر بھی جاتے ہیں’ہم زنا کرتے ہیں’ہم سارا دن تجارت میں دو نمبری بھی کرتے ہیں’ہم نماز کے دوران بھی گھریلو معاملات اور دکانداری کے بارے میں سو چ رہے ہوتے ہیں’ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ عزت و ذلت اوپر والے کے ہاتھ میں ہے ہر عزت دار شخص کی پگڑی اس لیے اچھال رہے ہوتے ہیں کہ یہ عزت ہمیں کیوں نہیں ملی ’ہم اپنے اپنے شعبوں میں رشوت لیتے ہیں اور سود بھی کھاتے ہیں’ہم اپنی زندگی کا زیادہ حصہ دوسروں کی غیبت کرتے’ٹانگیں کھینچتے گزار دیتے ہیں’ہم نماز کے اوقات کے دوران بھی گالیاں دیتے ہیں’مسجد جانے والے بزرگوں پر آوازیں کستے ہیں’سارا دن بازاروں اور چوراہوں میں بیٹھ کر غیر محرم عورتوں کو دیکھتے ہیں’ان پر نہ صرف ہنستے ہیں بلکہ ان پر کستے ہیں اور اس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ہم غیر مسلموں سے ہاتھ ملانا تو دور کی بات ان سے بات کرنا تک گوارا نہیں کرتے’ہم اپنے حقوق کے لیے کئی کئی دن دھرنا دے لیتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے دھرنے سے عوام کو کتنی تکلیف ہوئی’کس کس کا کتنا حق مارا گیا’ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے کبھی کسی کو تکلیف دی اور نہ ہی اس کا حق غصب کیا۔ ہم فتوی دینے میں بھی بہت ماہر ہے’ہر دوسرے مسلمان کو کافر کہنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ’ہمارے تما م فرقے دوسرے مسلم فرقے کو ہی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں’اسے کافر کافر کہ کر دل کوایسے تسلی دے رہے ہوتے ہیں کہ جیسے ان کے پاس جنتی ہونے کا ٹکٹ موجود ہے’ہمارے مولوی ممبروں پر بیٹھ کر ‘‘پین کی سری’’سے لے کر تمام بڑی چھوٹی گالی دیتے ہیں اور ان کے مقتدی اس پر بھی واہ واہ اور‘‘ کمال کمال’’ کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ہم بھکاری کو آئے روز دھتکار تے ہیں یہ سوچتے ہوئے بھی کہ ہمارے نبیؐ نے بھکاریوں سے کیسا سلوک کیا۔ہم بچوں پر ظلم بھی کرتے ہیں’انہیں گھر میں بطور ملازم بھی رکھتے ہیں اور پھر ان کو پیٹتے بھی ہیں’یہ جانتے ہوئے بھی کہ نبی اکرم ؐ کا بچوں سے کیسا سلوک تھا۔ہم دو نمبری میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ کلو دودھ میں چار کلو پانی ملا کر بیچتے ہیں ’ہم لالچ میں بھی انتہاکو پہنچ گئے ہیں’ہم کسی مریض کی عیادت’کسی مردے کا جنازہ تک لالچ کے بنا نہیں پڑھتے۔ہم یہ ہی سوچتے ہیں کہ یہ میرے باپ کے جنازے پہ آیا تھا تو آج مجھے جانا ہے ’ یہ میری بیماری پر آیا تھا تو مجھے بھی عیادت کرنی چاہیے۔ہم کسی کام میں بھی مخلص نہیں’ہم بچوں کو پیدا ہوتے کی جھوٹ کا درس دینا شروع کر دیتے ہیں’ہم ان کی تعلیم و تربیت میں بھی غیر ذمہ دار ہوتے ہیں،ہم اپنے نبیؐ کے نام پر دھرنا دے کر الیکشن کمپین بھی کرتے ہیں’ہم ایک ہی جماعت کے عالم ہو کر ایک دوجے کو گالیاں بھی دیتے ہیں اور کرپشن کا الزام بھی لگاتے ہیں مگر ہم پھر بھی عاشقِ رسولؐ ہیں۔
دنیا کی ہر برائی ہم میں موجود ہے مگر ہم عاشقِ رسولؐ ہیں’ہمیں اس میلاد پر لنگر بھی تقسیم کرنا ہے اور محفل وجلوس بھی منعقد کرنے ہیں کیونکہ ہماری مثال اس شخص کی سی ہے جو نئی گاڑی خریدنے کے بعد اسے سجا کر گلی گلی تشہیر کرتا ہے’روزانہ اس کو پانی سے دھوتا توہے مگر اس پر سفر نہیں کرتا’اسے اپنے اور معاشرے کے فائدے کے لیے استعمال نہیں کرتا۔پروفیسر صاحب ٹھیک کہتے ہیں‘‘ہم انتہائی غیر ذمہ دار ’فرائض سے دور بھاگنے والی اور لفظوں کی جگالی کرنے والی قوم ہیں’ہم صرف نعرے لگا سکتے ہیں کیوں کہ ہمیں یہ کام سب سے ذیادہ آسان لگتا ہے’جس کام میں بھی محنت کرنی پڑے ہم وہ نہیں کر سکتے کیوں کہ ہماری گھٹی میں دو نمبری ہے لہٰذا ہم اس پر پوری شدت سے کاربند ہیں’’۔پروفیسر صاحب مزید غصے سے بولے‘‘یہ عشق کی کون سی نئی تفہیم ہے جس کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ محبوب سے محبت کے نعرے تو دن رات لگائے جائیں مگر اس کی کوئی بات نہ مانی جائے۔ہمیں عشق کے بنیادی تقاضے سمجھنے کی ضرورت ہے’۔سچا عاشق صرف نعرے بازی نہیں بلکہ عمل کرتا ہے۔ایک دیگ بریانی،اسٹریٹ لائٹس،لنگر کی تقسیم اور جلسے جلوس،ان سب سے دل کو تسلی تو دی جا سکتی ہے مگر عشق ِ رسولﷺ کا دعویٰ اس سے کہیں بلند ہے،اس کے لیے اتباع، پیروری اور اطاعت کا حکم ہے اور اگر ہمارا کردار عاشقوں جیسا نہیں ہے تو یقین جانیں ہمارے جلوس،نعرے،بریانی کی دیگیں اور لائٹنگ ہماری بخشش کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کریں گی،عشق کی عملی تفہیم ہی حقیقی تفہیم ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں