ماہرین ارتقأ کا مانناہے کہ اوّلین دور کے انسانوں نےغاروں کے اندرجوپینٹنگز بنائی ہیں، جنہیں کیو(cave) پینٹنگز کہاجاتاہے، وہ دراصل پاری ڈولیا کی وجہ سے ہی بنائی گئی ہیں۔ یعنی غار میں کسی قدیم انسان نے کسی دیوار پر کوئی پیٹرن دیکھا اوراسے وہاں جس جانور کی شکل محسوس ہوئی اس نے کھرچ کر وہاں اس شکل کو واضح کردیا۔ کہاجاتاہے کہ انسان نے تحریر کا آغاز انہیں شکلوں سے کیا۔ یعنی پہلے غاروں میں پاری ڈولیا کی وجہ سے شکلیں دریافت کیں اورپھر جب کچھ سیکھ گیا تو انہی تصویروں کو اوّلین دورکی تحریری علامتوں میں بدلنا شروع کردیا۔
چنانچہ جب مابعدساختیات کے فرانسیسی استدلال پرہم غورکرتےہیں تو ایسا لگتاہے کہ انہوں نے تخلیقی متن کی معنوی تفہیم کا ساراکام قاری کی پاریڈولیائی صلاحیتوں کے حوالے کردیاہے۔جب وہ کہتے ہیں کہ مصنف مرچکاہے اور اب معنی کی تلاش قاری کا ذاتی معاملہ ہے تو بالفاظ دیگر وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ کوئی بھی تخلیقی متن مثلاً نثری نظم کی تمثالیں وغیرہ، بادلوں میں بنی تصویروں جیسی ہیں، یا کالے تیتر کی آواز جیسی کہ جوسنے وہ اپنی مرضی کا معنی اخذ کرلے۔ گویا بادل یا تیتر کی آواز ایک تخلیق ہے اور اس تخلیق کی بے معنویت کو معنی پہنانے کا کام قاری کی ذمہ داری ہے۔اورپھر مابعد ساختیات کی اس تحریک کے ہمارے ہاں درآمد ہوجانے کے بعد جدید اردونظم کا جو حشر ہم نے ساٹھ کی دہائی کے بعد دیکھناشروع کیا، وہ سب کے سامنے۔ بس اس کا کیا ذکرکیا جائے۔
الغرض، مابعدساختیات کی جہاں بہت سی خوبیاں ہیں، جیسے مثلاً بائنریز کی بائیسنیس وغیرہ کا نظریہ، وہیں پر مابعدساختیات نے گویا لکھاری کاوجود ہی سرے سے اُڑادیاہے اورمعنوی تفہیم کی ساری ذمہ داری صرف قاری کے کندھے پر ڈال دی، جسے رولاں بارتھ لکھاری کی موت کہہ کر پکارتاہے۔اوریہی معنوی تناظر ہے جس نے ساٹھ کی دہائی کے بعد بائیبل اور قران اوردیگر آسمانی کتابوں کےبارے میں بھی بعینہ یہی نظریہ قائم کیا کہ ان کی تشریح ہرکوئی اپنی مرضی سے کرسکتاہے اور یہ کہ ان میں کہیں کوئی متعین معنی موجود نہیں ہے۔حالانکہ قران خود اپنے آپ کو ایک واضح اور بیّن کتاب کہہ کر پکارتا ہے۔اور کہتا ہے کہ قران میں دوطرح کی آیات ہیں۔ ایک آیتِ محکمات ہیں جن کے معانی متعین ہیں اور دوسری متشابہات ہیں جن کے ایک سے زیادہ معنی نکالے جاسکتے ہیں۔ لیکن متشابہات کے بارے میں پھر ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ،
فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ ﳘ
یعنی وہ لوگ جن کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے وہ فتنہ پھیلانے کی غرض سے اور ان آیات کا (غلط) معنیٰ تلاش کرنے کے لئے ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔
چنانچہ مابعدساختیات کے ذریعے معنی اخذ کرنے کی یہ ذمہ داری جوقاری پر ڈال دی گئی اس سے لکھاری گویا فارغ ہوگیاہے۔ اس کے لیے کام آسان ہوگیاہے، بلکہ اس کا کام سرے سے ختم ہی ہوگیاہے۔کیونکہ اب اس سے صنائع بدائع کی مدد سے اپنا مدعا واضح کرنے کی اجازت واپس لے لی گئی ہے۔ اس کی تحریر اس کی اپنی ذمہ داری ہی نہیں رہی۔ مثلاً وہ چاہے تو مبہم بات بھی کہہ دے کوئی حرج نہیں۔یہ قاری کی سردردی ہے کہ وہ اس سے کیا کچھ اخذکرسکتاہے؟
یہاں میرا ایک معصومانہ سا سوال ہے۔ کہ اگر قاری کی پاری ڈولیائی صلاحیت پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی کہ وہ خود بڑا تخلیق کار بن کر خام تخلیق کے ان بادلوں میں سے خود ہی شکلیں بناتا پھرے ، توپھر سوال یہ ہے کہ ہرقاری تو تخلیقی ذہن کا مالک نہیں ہوتا۔بلکہ زیادہ تر لوگ تو لیفٹ برینرز ہوتے ہیں۔پھرلازمی ہے کہ وہ کسی اور کےنکالے ہوئے معانی کو قبول کرلینے پر مجبور رہے گا۔ گویا بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں آکرختم ہوگئی۔یعنی قدیم انسانوں میں خاص خاص باتوں کی سمجھ صرف چند تخلیقی اذہان کو ہی حاصل ہواکرتی تھی اور باقی تمام انسان ان کی بتائی ہوئی ’’سمجھ‘‘ کو ہی حتمی سمجھ کر چلتے تھے۔
نظریۂ ارتقأ میں ایک تھیوری کا بڑا شہرہ رہاہے اور اب تک بھی ہے۔ اس تھیوری کو’’جولین جینز کی بائی کیمرل مائنڈ تھیوری‘‘ کہاجاتاہے۔اس تھیوری میں یہ دعویٰ کیا گیاہے کہ قدیم انسانوں میں شیزوفرینیائی ذہن کے مالک لوگوں کے رائٹ برین میں، انہیں غیب سے آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ان آوازوں کو آڈیٹوری ہیلوسی نیشنز کہاجاتاہے۔اورجو اذہان شیزوفرینیا کے زیادہ شکار ہوتے تھے انہیں وژول ہیلوسی نیشنز بھی ہوتی تھیں۔یعنی انہیں ایسی چیزیں دکھائی بھی دیتی تھیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا تھا۔جولین جینز کا کہناہے کہ جس چیز کو آج ہم وحی یا الہام کے نام سے جانتے ہیں یہ دراصل ایسی ہی ہیلوسی نیشنز تھیں۔چنانچہ جو لوگ غیب سے ایسی آوازیں سنتے تھے وہ انہیں خدائی پیغام قرار دیتے تھے ۔ اور جن لوگوں کا فقط لیفٹ برین ڈومی نینٹ ہوتا تھا وہ رائٹ برینرز کی ایسی ہی ہیلوسی نیشنز کو خدائی احکامات جان کر ان پر عمل کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔
بہرحال مختصر یہ کہ تخلیقی ذہن خدا کی عطا اس لیے ہے کیونکہ تخلیقی ذہن ڈومی نینٹ رائٹ برین کی کارستانی ہے، اورڈومی نینٹ رائٹ برین کسی بھی انسان کو پیدائشی طورپر عطا ہوتاہے۔یہ برین جہاں نعمت ہے وہاں زحمت بھی ہے۔ کیونکہ یہ تخلیقی اذہان ہی ہوتے ہیں جو گوناں گوں نفسیاتی بیماریوں کا آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں۔جتنا زیادہ تخلیقی ذہن ہوگا اتنا زیادہ اسے غیرحقیقی پرچھائیاں دکھائی دیں گی۔اور اتنا زیادہ وہ توہمات کا شکار ہوکر مالیخولیائی رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ اکیڈمک اعدادوشمارکے مطابق دنیا میں ساٹھ فیصد دیوانے وہ لوگ ہوتے ہیں جو فی الاصل بلا کے تخلیقی اذہان ہوتے ہیں۔اور جنہیں ابتدا میں آڈیٹوری ہیلوسی نیشنز ہوناشروع ہوتی ہیں اورجب ان کا شیزوفرینیا ترقی کرجاتاہے تو وہ وژول ہیلوسی نیشنز کا شکار ہوکرگھروں کو چھوڑ دیتے ہیں اورگلیوں میں آوارہ گھومتےنظرآتے ہیں، کیونکہ اب دنیا انہیں اور طرح دکھائی دے رہی ہے۔ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں، وہ ہم نہیں دیکھ رہے۔
چنانچہ یہ کہنا نادانی کے سوا کچھ نہیں کہ اچھے شعرکوصنعت یا کرافٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔مجھے ڈاکٹرعابدسیال صاحب نے حال ہی میں بتایا ہے کہ عربوں میں شاعری کو تکلف کے مترادف سمجھاجاتاتھا۔پھرجب ہم صنائع بدائع کا وہ انمول خزانہ دیکھتے ہیں جو ہمارے بزرگوں نے نہایت محنت سے وضع کیا تو اندازہ ہوجاتاہے کہ شاعری اوراچھی شاعری کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ میں اکثرکہاکرتاہوں کہ شاعری کے سمندر میں جو شعر جتنا لطیف ہوتاہے وہ اتنی جلد سطح پر نمودار ہوجاتاہے اور جو جتنا کثیف ہوتاہے وہ اتنی جلدی اس سمندر کی گہرائیوں اور تاریکیوں میں ڈوب جاتاہے۔اچھے شعر کے لیے تنکوں سے بھی ہلکاپھلکا ہونا ضروری ہے، تاکہ وہ شاعری کے اس مہیب سمندر میں سطح پر آکر آسانی سے تیر سکے۔لیکن کیا شعرمیں یہ لطافت فقط تخلیقی وفور کی مرہونِ منّت ہوتی ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ اس بات کی صداقت کے حق میں سب سے بڑا حوالہ غالب کا یہ شعر ہے کہ،
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کرنہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینہ ٔ بادِ بہاری کا
اور یہ کثافت وہی مشقِ سخن ہے جس کے دوران ہم شعر کہنے کی مہارت پر عبورحاصل کرتے ہیں۔یہ کثافت وہی کرافٹ ہے جسے جدید کے اوٹک لٹریچر گویا حرام سمجھتاہے۔جیسا کہ ایذرا پاؤنڈ کے تنقیدی خیالات میں ہم نے دیکھا۔پھر یہ کثافت ایک زمانے تک نہ صرف ذریعۂ تعلیم رہی ہے بلکہ اسے ایک تہوارکی سی حیثیت حاصل رہی ہے۔پرانے لوگوں کی تمام تر وزڈم انہیں بحروں اور اوازن کی وجہ سے ہی سروائیو کرپائی۔ ضرب الامثال میں، محاوروں میں، نی مانکس (mnemonic) میں، لوک کہانیوں میں، اور بچوں کی تعلیمی نظموں وغیرہ میں یہی اوزان و بحورموجود ہوتے تھے جن کی وجہ سے فوک وزڈم صدیوں تک زندہ رہ پاتی تھی۔مجھے یاد ہے میرے دادامرحوم، اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے، مجھے عربی گرامر پڑھاتے ہوئے ایسے کئی اشعار یاد کروایا کرتے تھے جن کے بظاہر معانی نہیں ہوتے تھے لیکن بحر اور وزن کی وجہ سے مجھے گرامر کے ضروری اجزا یاد ہوجایا کرتے تھے۔ مثلاً کلمے کی اقسام میں نے اس طرح یاد کی تھیں۔
صحیح ہست و مثال ہست و مضاعف
لفیف و ناقص و مہموز و اجوف
اور حروف جارہ کی اقسام میں نے اس طرح یاد کی تھیں،
باؤ تاؤ کاف و لام و واو منزو مذخلا
ربّ حاشا حتیٰ عاد من اِلی فی عن علی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں