کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر روگ کا علاج ہے۔ البتہ شاید علمی روگ کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ خصوصاً جب کوئی ملت اپنے علمی روگ کو ہی مقدّس سمجھ بیٹھے۔ آئیے اپنے علمی روگ پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ اس کیلئے ہمیں چند سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے ہونگے۔ کیا سُنّت رسول کو ترک کرنے کا آغاز حیاتِ پیغمبر میں ہی ہوچکا تھا؟ جب سُنّتِ رسول، قرآن مجید کی تفسیر ہے تو پھر کیا کسی اور کی تفسیر قرآن کی جگہ لے سکتی ہے؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ خود مسلمان ہی رسول کی احادیث کو لکھنے پر پابندی لگا دیں۔؟ اگر ماضی میں ایسا ہوا ہے تو یہ علمی خلا ہمارا سرمایہ ہے یا ہمارا خسارہ؟ جب بھی کوئی منصف مزاج انسان مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو ششدر رہ جاتا ہے۔ سب سے پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ علمی دنیا میں لغت، اصطلاح اور عرف کے تعین کردہ معانی میں اختلاف سے گریز نہیں کیا جا سکتا۔ نبی اکرمؐ سے جو بھی قول، فعل اور تقریر کی صورت میں صادر ہُوا اُسے سُنّت کہا جاتا ہے۔
قول اور فعل تو ہمارے عرف کے مطابق ہی ہے لیکن تقریر سے مراد وہ نہیں، جو ہمارے ہاں لغت یا عرف کا بیان کردہ ہے بلکہ اصطلاحِ علمِ حدیث میں تقریر سے مراد ایسا فعل ہے، جو رسولؐ کے سامنے کیا گیا، مگر رسولؐ نے نہ تو اِس کے کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے منع فرمایا بلکہ اِس پر سکوت فرمایا۔ رسولؐ کا قول، فعل اور تقریر دراصل قرآن مجید کی تفسیر ہے۔ یعنی قرآن مجید کی جو تفسیر نبی اکرمؐ نے کی، اُسے سُنّت کہتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ آج امرِ پروردگار ہمارے پاس قرآن مجید اور سُنّت رسول کی شکل میں موجود ہے۔ ہمیں فراخدلی کے ساتھ یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ سُنّت رسول درحقیقت تفسیر قرآن ہے۔ چنانچہ دینِ اسلام میں خدا کے امر کو بندوں تک پہنچانے کیلئے جو اہمیت قرآن مجید کی ہے، وہی سُنّت رسول ؐ کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی علوم میں بطورِ منبع قرآن مجید کے ساتھ سنّتِ رسول کا ہونا لازمی امر ہے۔
یہ کسی ایک اسلامی فرقے کا منہج نہیں بلکہ اس پر قرآنی نصوص موجود ہیں کہ اُمّت پر سُنّت رسول کی پیروی لازم ہے اور سُنّت رسول دراصل عملی قرآن ہے۔ سُنّت رسول کی پیروی اور اطاعت پر تاکید کرنے والی صرف چند آیات ملاحظہ فرمائیں: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَهًْ حَسَنَهًْ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللَّهَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّهَ کَثِیرًا(احزاب، آیه ۲۱) تم میں سے اس کیلئے رسول اللہ بہترین نمونہ عمل ہیں، جو اللہ اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے۔ قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّهُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ. قُلْ أَطِیعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ الْکَافِرِینَ(آل عمران، آیات 31 و ۳۲) کہہ دو اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، تاکہ تم سے اللہ محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا -وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘ ( حشر:۷) اور رسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں، وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں (اس سے) باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والاہے۔ اگر سُنّت رسول کو اُس کے حقیقی مقام کے مطابق قرآن مجید کی تفسیر مان لیا جائے تو اس کے مندرجہ زیل دو بنیادی فوائد ہیں:
۱۔ قرآن مجید کا درست فہم: اپنی اپنی آرا اور اپنے اپنے اکابرین کی باتوں کے بجائے سُنّت رسولؐ کو قرآن کا ماخذ بنانے کا نتیجہ قرآن مجید کا درست فہم ہے۔ یہی درست فہم ہر انسان کی نجات کیلئے ضروری ہے
۲۔ مسلمانوں میں وحدت: جب مسلمان اپنی آرا اور ذاتی مصلحتوں کے بجائے قرآنی مفاہیم کو سُنّت رسول سے سمجھیں گے تو یقیناً ان کے درمیان وحدت اور اتفاقِ رائے کو فروغ ملے گا۔ آج مسلمانوں میں انہی دوچیزوں کا فقدان ہے۔ ایک متنِ قرآن مجید کا درست فہم کیا ہے؟ اس پر مسلمانوں کا خود سے قطعاً اتفاق نہیں اور دوسرے تمام دینی، سیاسی اور سماجی مسائل بر بطورِ امت مسلمان ہرگز متفق نہیں۔ کہیں اس فقدان کی جڑیں سُنّت رسول ؐ سے منہ پھیرنے میں تو نہیں؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں جب تاریخِ اسلام پر نگاہ ڈالی جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے سُنّت رسول کو ترک کرنے کا آغاز حیاتِ پیغمبر میں ہی ہوچکا تھا۔ ایک عام مسلمان تو اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے لیکن جو مسلمان تحقیق کے ساتھ بات کرنے کا عادی ہے اس کیلئے حدیث قرطاس و قلم یا المیہ جمعرات ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔
یہ سنہ 11 ہجری میں صفر کے مہینے کے آخری ایّام کی بات ہے۔ جب رسولِ خدا نے اپنی وفات سے صرف چار دن پہلے اپنی عیادت کیلئے جمع ہونے والے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ قلم اور دوات لاؤ، تاکہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہو جاؤ، لیکن اس وقت حضرت عمر بن خطاب نے کہا کہ “بیماری نے نبیؐ پر غلبہ پالیا ہے اور ہمارے لیے خدا کی کتاب کافی ہے۔” اپنی اہمیت کی وجہ سے یہ حدیث چھ مرتبہ بخاری شریف میں اور تین مرتبہ صحیح مسلم میں نقل ہوئی ہے۔ ایک مقام پر اس کا متن کچھ یوں ہے:
ائتونى بکتاب اکتب لکم کتاباً لا تضلّوا بعده، قال عمر: إنّ النبىّ غلبه الوجع، وعندنا کتاب الله حسبنا، مجھے کاغذ کا ایک ٹکڑا دو، تاکہ میں تمہارے لیے وصیّت لکھوںم تاکہ تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو جاؤ، حضرت عمر ؓنے کہا: نبی ؐپر بیماری غالب ہے، لہذا ﴿وصیّت کو چھوڑیں﴾ کتاب الٰہی! ہمارے پاس ہے اور ہمارے لیے یہی کافی ہے۔ اس وقت وہاں موجود صحابہ کرامؓ نے حضرت عمرؓ کے ساتھ جھگڑا شروع کیا، یہ جھگڑا اتنا شدید ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ﴿ قوموا عنی﴾ کہ اٹھو اور میری آنکھوں کے سامنے سے چلے جاؤ، میرے سامنے اس طرح جھگڑا کرنا یہ تمہیں زیب نہیں دیتا۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بعد ازاں رو کر یہ کہا کرتے تھے کہ سب سے بڑی مصیبت اس وقت ہوئی، جب کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی تحریر کے درمیان کھڑے ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیّت کو انہوں نے نہ لکھنے دیا۔ شاید ہی کوئی اس کا اندازہ لگا سکے کہ ایسا کرنے سے خود اللہ کے رسولؐ کو کتنا دکھ پہنچا ہوگا۔ بہر حال ایک محقق کے سمجھنے کیلئے یہ کافی ہے کہ رسول ؐ کی سُنّت و احادیث کو ترک کرنے کا رویہ خود زمانہ پیغمبر ؐ میں موجود تھا۔ اس کی متعدد مثالیں اور بھی موجود ہیں، جن میں سے ہم نے فقط المیہ جمعرات یا واقعہ قرطاس و قلم کو ذکر کیا ہے۔ اسی طرح اہلِ بیت رسول ؐ کو نظر انداز کرکے سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کو تشکیل دینا بھی حضور نبی ؐ کی احادیث کو پسِ پُشت ڈالنا ہے۔ اگر اُمّت احادیث پیغمبر اور سُنّت پیغمبر کی اہمیت کی قائل ہوتی تو نبی ؐ کی وصیّت کو بھی لکھتی اور نبیؐ کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں جا کر اپنی رائے سے اُمّت کی قیادت کا فیصلہ کرنے کے بجائے نبیؐ کی سُنّت اور احادیث سے استدلال کرتی اور نبی ؐ کی احادیث کے مطابق اہلِ بیت رسولؐ کو مسئلہ خلافت میں کم از کم شریک تو کرتی۔ یہ سراسر احادیث رسول ؐ کو خاطر میں نہ لانا ہے۔
تاریخی و حدیثی شواہد کے مطابق صدرِ اسلام میں ہی مختلف مصلحتوں کی بنا پر احادیث اور سُنّت رسول سے منہ موڑ نے کا عنصر مسلمانوں کے ہاں موجود تھا۔ خلیفہ دوّم کے زمانے میں پہلی ہجری میں ہی سرکاری سطح پر منعِ تدوینِ حدیث کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔ سرکاری طور پر اس منع تدوین حادیث کے مندرجہ زیل نتائج نکلے:
۱۔ حقیقی احادیث پر تو پابندی لگ گئی لیکن جعلی احادیث کا دروازہ کھل گیا۔
۲۔ قرآن مجید کی حقیقی اور نبوی تفسیر کے بجائے تفسیرکے نام پر اپنی رائے بیان کرنے کا آغاز ہوا اور اسے عروج ملا۔
۳۔ حدیث جو کہ درحقیقت قرآن مجید کی تفسیر تھی، بعد ازاں وہ خود محتاجِ ِ تفسیر ہوگئی۔
۴۔ احادیث کے بجائے اسلامی کتابوں میں داستانوں اور کہانیوں کو فروغ ملا۔
بہرحال حضرت عُمَر بن عَبدالعَزیزؓ (۶۳-۱۰۱ق) کے زمانے تک یعنی ایک سو سال تک جہانِ اسلام میں سرکاری سطح پر احادیث لکھنے پر پابندی رہی۔ اُس کے جو ثمرات نکلے، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ آج احادیثِ نبوی قرآن مجید کی تفسیر کرنے کے بجائے خود محتاجِ تفسیر ہیں اور اب احادیث کی جانچ پرکھ اتنا مشکل فن بن چکا ہے کہ یہ عام مسلمان کے بس کا روگ ہی نہیں۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر روگ کا علاج ہوتا ہے، لیکن شاید علمی روگ کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ خصوصاً جب کوئی ملت اپنے علمی روگ کو ہی اپنا علمی سرمایہ سمجھ بیٹھے۔ آخر میں پڑھے لکھے احباب کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ علمی خلا ایک روگ ہوتا ہے، اسے مقدّس نہ سمجھئے، اس کا درمان سوچئے۔ اس خلا کو مقدّس سمجھنا ثواب نہیں بلکہ اس خلا کو پُر کرنا ثواب ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں