ژاک دریدا ، مشیل فوکو، رولان بارتھ،جُولیا کرسٹیوا، ژاں بودریار۔ یہ وہ چند مشہور نام ہیں جو دیگرکئی فلسفیوں اور تنقید نگاروں کے ساتھ مل کر، گزشتہ صدی میں ساختیات پرباجماعت حملہ آورہوئے۔جس کے نتیجے میں ایک نئی تحریک، مابعد ساختیات کے نام سے، پوری قوت کے ساتھ دنیائے تنقید میں نمودارہوئی۔ رولان بارتھ نے ایک پوری کتاب لکھی کہ مصنف مرچکاہےاوراب مصنف کا نہیں قاری کا دورہے۔
ساخت کیاہے؟ ظاہرہے کہ لفظ ساخت میں ہی اس کے ڈیزائن ہونے کا عنصرموجود ہے۔ساخت ایک ڈیزائن ہے جس کا ایک ڈیزائنرہوتاہے۔یہ سوال کہ یہ کائنات ساختہ ہے یا بے ساختہ مغربی ادیبوں کے نزدیک اس وقت بہت زیادہ اہمیت اختیارکرگیاجب ساختیات اور مابعدساختیات کی بحث چل رہی تھی۔ کیونکہ اگر کائنات ساختہ ہے تو اس کا بھی ایک ڈیزائنر ہوگا، یعنی کہ خُدا۔ اور اگر کائنات بے ساختہ ہے تو ظاہرہے کسی نے اِسے ڈیزائن نہیں کیا اس لیے خدا نہیں ہے۔
ادب کے طلبہ جانتے ہیں کہ ایذرا پاؤنڈ، جسے جدید نظم کے بانیوں میں شمار کیا جاتاہے، کس مبلّغانہ جذبے کے ساتھ ادبی تخلیقات کے لیے بے ساختگی کے نظریے کا حامی ہے۔وہ شاعرانہ خیال کو غیرضروری طورپرآراستہ کرنے کا سخت مخالف ہے۔وہ ساختہ شاعری کو مُردہ شاعری کہتاہے۔ ایذرا پاؤنڈ شاعری کی تراش خراش کو شاعری کے لیے غیرضروری سمجھتاہے۔وہ بڑے دعوے سے کہتاہے کہ کہ کلاسیکی شاعر عہدِ حاضر کا شاعر نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کا ربط عہدِ موجود کے ساتھ مفقود ہے۔ایذراپاؤنڈ کے بقول آج کا زمانہ شاعری میں سجاوٹ کا زمانہ نہیں ہے بلکہ وحشت اوربے قاعدگی کا زمانہ ہے۔
یہ وہ دور ہے جب فکری دنیا میں ہرطرف ڈیزائن کی مخالفت کی جارہی تھی۔ چارلس ڈارون کے نظریۂ ارتقأ نے ڈیزائنرکے تصورکو گویا تہس نہس کردیا تھا ۔رچرڈ ڈاکنز اپنی کتاب بلائنڈ واچ میکر میں لکھتاہے کہ ڈارون نے یہ حتمی طورپر ثابت کردیا ہے کہ کائنات کو بنانے والا اگر کوئی ڈیزائنر ہے تو یقیناً وہ ڈیزائنر کوئی ماہر ڈیزائنر نہیں ہے، کیونکہ اس نے انواع کو بار بار بنایا اور بار بار تباہ کیا۔ جیسے وہ تجربے کررہاہوکہ کونسا ڈیزائن بالآخر زیادہ بہتر رہےگا۔
چنانچہ ایذراپاؤنڈ کا ’’شاعرانہ خیال‘‘ کی اہمیت پر زور دینا اور کلاسیکی شاعری کے اوزان و بحور کی مخالفت کرنا بظاہرایک جائز منطقی استدلال تھا۔ہمارے ایک بہت ہی اچھے دوست ہیں، ڈاکٹرخضر یاسین۔ڈاکٹرخضریاسین اپنی کتاب منہاج الفرقان میں لکھتے ہیں کہ تخلیقی متن کے امتیازی اوصاف کی وہ اہمیت نہیں ہے جو اس کے ناگزیر اوصاف کی اہمیت ہے۔ان کے بقول، ہرمتن کے اوصاف کی دوقسمیں ہیں۔امتیازی اوصاف اور ناگزیر اوصاف۔ یہ ضروری نہیں کہ امتیازی اوصاف لازماً ناگزیراوصاف بھی ہوں، مگر ناگزیراوصاف لازماً امتیازی اوصاف ہوتے ہیں۔قاری کی قرات سے اگر متن کے امتیازی اوصاف غائب ہوجائیں تو متن کا اتنا زیادہ نقصان نہیں ہوتا لیکن اگر قاری کی قرات سے متن کے ناگزیر اوصاف ہی مفقود ہوجائیں تو یہ تقصیرِ متن ہے۔
ایذراپاؤنڈ بھی گویا یہی کہہ رہاہے کہ کسی شاعری کو اوزان و بحور اور قافیہ و ردیف سے سجاتے وقت اگر شعرکا ناگزیروصف ہی کہیں صنائع بدائع کے بوجھ تلے دب جائے تو یہ تقصیر متن ہوگی۔کیونکہ صنائع بدائع تو شعرکا امتیازی وصف ہیں، ناگزیر وصف نہیں۔ اورکسی تخلیق کا امتیازی وصف قراتِ متن سے جاتا رہے تو اس سے تقصیرِ متن نہیں ہوتی، جب تک ناگزیر وصف موجود رہے۔جونہی ناگزیروصف فنا ہوتاہے، جس کا، شعرکی سجاوٹ اورکرافٹ کے دوران مفقود ہوجانے کا بھرپور احتمال بہرحال موجود رہتاہے، تو ایسی شاعری تقصیر متن کا شکار ہوجاتی ہے، بایں ہمہ یہ خراب شاعری ہوتی ہے۔
اقبال اگرچہ ڈیزائنر کے وجود کے قائل ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مبلغ ہیں، لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال فطرت کی بے ساختگی کے بھی قائل ہیں۔بالفاظ ِ دیگر اقبال یہ کہتے ہیں کہ خودڈیزائنر نے ہی ایسا ڈیزائن تخلیق کیا کہ جو انسانوں کو بے ساختہ نظرآئےتاکہ وہ اسے اپنی خاص صلاحیت یعنی صناعی کے ذریعے خود ساخت کرسکیں۔چنانچہ اقبال فطرت کی تراش خراش اور آرائشِ گیسو کا سہرا فقط انسان کے سرباندھتے ہوئے کہتے ہیں،
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس نے نہ ہوسکا وہ تُو کر
اقبال کے نزدیک، خُدا نے تو بیابان و کہسار و راغ پیدا کیے تھے، یہ انسان ہے جس نے انہیں خیابان و گلزارو باغ میں بدل دیا۔ اسی نظم ’’مکالمہ مابین انسان اورخدا‘‘ میں اقبال نے یہ بھی کہا، کہ خدا نے تو مٹی پیدا کی تھی، یہ انسان ہے جس نے اس سے پیالہ ساخت کیا۔سفال آفریدی ایاغ آفریدم۔گویا تخلیق کا عمل خدا نے انجام دیا اورصنعت کاانسان نے۔اورتخلیق کے اس خدائی عمل کو اقبال نے حُسنِ بے پروا کی بے نقابی کہا ہے، جبکہ انسانی صنعت کو اقبال نے ضربِ کلیمی کہہ کرپکارا ہے۔اقبال نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انسان کوفطرت کے ہُنر سے آگے بڑھ جانے کی تلقین بھی بڑی شدت کے ساتھ کی۔تخلیقِ فن میں فطرت کی نقالی کو اقبال نے پسند نہیں کیا ، بلکہ اسے فطرت کی غلامی قراردیتے ہوئے مسترد کردیا اور کہا،
فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو
صیاد ہیں مردان ِ ہنر مند کہ نخچیر
چنانچہ جب ایذراپاؤنڈ اوراس کے حامی فقط اس لیے شاعری کی تراش خراش کی مخالفت کرتے ہیں کہ فطرت خود بے ساختہ ہےتووہ اس نکتے کو نظرانداز کردیتے ہیں جو اقبال کے سامنے ہے۔ اوریہ، وہ نکتہ ہے جس کی بڑی اہمیت ہے۔یعنی یہاں اقبال نے اپنے آپ کو فطرت کی بے ساختگی سے علیحدہ کرلیاہے۔ یہ اقبال کے نظریۂ فن کا وہ خاص پہلو ہے جس کی موجودگی میں ہم کہتے ہیں کہ اقبال نے اُس نام نہاد تخلیقیت پر صنعت کو ترجیح دی ہے جس کا ذکر ہم ایذراپاؤنڈ اور جدید نظم کے حوالے سے کرتے ہیں۔یہ گویا فطرت کے وحشی فن کو ٹیم(tame) کرنے کے ارادے کا اظہارہے۔
قرانِ کریم نے البتہ فطرت کو سِرے سے بے ساختہ تسلیم ہی نہیں کیا۔ غالباً اقبال کو یہ بات معلوم تھی، اسی لیے وہ فطرت کے ڈیزائن کو بے ساختہ مانتے ہوئے بھی ایذراپاؤنڈ کی طرح یہ نہ کہہ سکے کہ فطرت کسی ڈیزائنر کا کمال نہیں ہے۔
الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاؕ-مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍؕ-فَارْجِـعِ الْبَصَرَۙ-هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ(3)ثُمَّ ارْجِـعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِیْرٌ۔
وہ جس نے آسمان کی بلندیوں کو طبق درطبق بنایا۔تُورحمان کےبنانے میں کوئی تفاوت نہیں دیکھے گا۔ تُو نظراُٹھا کردیکھ، کیا تجھے خدا کی تخلیق میں کوئی فطور(یعنی رخنہ) نظر آتاہے؟ تُو پھر دوبارہ نظر اٹھا کر دیکھ، تیری نگاہ ناکام ہوکر تھکی ماندی واپس تیرے پاس پلٹ آئےگی، لیکن تُو خدا کی تخلیق میں کوئی رخنہ نہیں ڈھونڈ پائےگا۔
قرانِ کریم میں متعدد مقامات پرتخلیقِ خداوندی کے اُستویٰ کا ذکرہے۔یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو برابر برابر تخلیق کیا۔پھر کئی مقامات پر قدرٍمعلوم کے الفاظ ہیں۔یعنی اللہ تعالیٰ نے ہرشے کو ایک خاص مقدار میں پیدا کیا۔معلوم ہوتاہے کہ خدا نے یہ کائنات بے ساختہ نہیں بنائی، بلکہ پورے پروگرام اور ارادے کے ساتھ اِسے ساخت کیا۔یوں گویا وہ خود خالق بھی ہے اور صانع بھی ہے۔یہ کائنات اس کی تخلیق بھی ہے اور صنعت بھی۔
دراصل کوئی تخلیق، صنعت ہوئے بغیر تخلیق ہونے کا حق ہی ادا نہیں کرسکتی، کیونکہ تخلیقِ محض ’’را‘‘ ہے، یعنی خام ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی تخلیق کا اوّلین اظہار فرسٹ پرسن کے ذہن میں فقط ایک انسائیٹ کی صورت ہی ہوتاہے۔انسائیٹ کہہ لیں، اَچھُوتا خیال کہہ لیں، ذہن میں ہونے والا ایک جھماکہ کہہ لیں، یا اگر آپ زیادہ جذباتی ہیں تو اسے الہام کہہ لیں۔تخلیق اپنی خام حالت میں فقط فرسٹ پرسن کا تجربہ ہے۔فرسٹ پرسن کو عربی میں واحد متکلم کہتے ہیں۔ واحد متکلم کا تجربہ، ایک خالصتاً سبجیکٹو ایکسپیری انس(یعنی موضوعی تجربہ) ہوتا ہے۔اورکوئی بھی سبجیکٹ جب تک آبجیکٹ نہیں بن جاتا، سیکنڈ یا تھرڈ پرسن کے لیے اس کا جان لینا ناممکن ہوتاہے۔
فرض کریں، ایک شخص موم کے ساتھ کھیل رہاہے۔ وہ کبھی موم سے گھوڑا بنادیتاہے، کبھی مجسمہ بنادیتاہے، کبھی کوئی کھلونا بنا دیتاہے۔لیکن جب وہ موم سے کوئی چیز ساخت کرلیتاہے تو تب کسی سیکنڈ پرسن یا تھرڈ پرسن کو پتہ چلتاہے کہ اس کے ذہن میں کیا تھا۔یعنی جب تک اس نے، فرض کریں، گھوڑا نہیں بنالیاتھا، تو سیکنڈ پرسن یا تھرڈ پرسن کے لیے ناممکن تھا کہ وہ فرسٹ پرسن کے داخلی تجربے سے واقف ہوپاتا۔ خام تخلیق فقط ایک سبجیکٹ ہے اور جب تک وہ فرسٹ پرسن کا اپنا ذاتی ایکسپیری انس ہے کوئی اور اس تجربے کا حصہ نہیں بن سکتا۔مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تخلیق فرسٹ پرسن کا ایکسپیری انس ہے اور صنعت سیکنڈ اورتھرڈ پرسن کا ایکسپری انس بھی ہے۔ کیونکہ صنعت کسی ذہنی اختراع کے مشہود(manifest) ہوجانے کا نام ہے۔یہ دراصل ارادے کی مینی فیسٹیشن کا عمل ہے۔یاغالب کے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ تخلیق نوائے سروش ہے اورصنعت صریرِ خامہ ہے۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
یہ جو اردوشاعری میں آمد کا تصورہے، اس کی حقیقت ایک مِتھ سے زیادہ کچھ نہیں۔کیونکہ غیب سے آئے ہوئے کسی مضمون کو جونہی الفاظ کا قالب میسر آتاہے، شعریکایک آمد سے آورد میں ڈھل جاتاہے۔شعرکبھی خالصتاً آمد نہیں ہوسکتا۔پھر یہ خیال اس سے بھی بڑی مِتھ ہے کہ آمد کا تعلق تعطیلِ حواس کے ساتھ ہے۔بعض سطحی اذہان کی طرف سے یہ بھی کہاجاتاہے کہ جب آپ شراب پی لیتے ہیں، یاکوئی اور نشہ کرلیتے ہیں اور حالتِ سُکر میں چلے جاتے ہیں تو پھرآپ کو آمد ہونے لگتی ہے، کیونکہ اس وقت آپ کے حواس چھٹی پر چلے جاتے ہیں اورشعور،ایک قسم کی بے خودی میں ڈھل جاتاہے۔اس حالت میں الفاظ آپ پر نازل ہونے لگتےہیں اور نتیجۃً آپ بہت اچھے اشعار کہنے لگ جاتے ہیں۔یہ ساری بات سچ اُس وقت ہوتی جب غیر شعرا بھی ایسی حالتِ سُکرمیں شاعری کرلیتے۔حقیقت یہ ہے کہ جب حالتِ سُکر میں ایک شاعر پر آمد ہوتی ہے تو وہ شعراس لیے کہہ لیتاہے کیونکہ اس کے پاس شعر کہنے کی مہارت پہلے سے موجود ہے۔وہ سیٹ آف سرٹن سکلز اس کے پاس ہے، جس کے استعمال سے وہ حالتِ سکر میں ہو یا نہ ہوشعرکہہ سکتاہے۔
نفسیات میں ایسی مہارت کو آموزش بسعی خطا کہاجاتاہے، جو ایک طویل مدت کے بعدخودکار ہوجاتی ہے۔یہ بعینہ وہی مہارت ہے جوایک پرانے ڈرائیور کے پاس ہوتی ہے۔آپ جب آموزش بسعی خطا کے عمل سے گزرنے کے بعد، مثلاً، سائیکل چلاتے ہیں توسائیکل خود بخود چلتی ہے۔آپ اسے شعوری حالت میں نہیں چلاتے۔اوراگر آمد کی وہی تعریف ہے جو عام طورپر سمجھی جاتی ہے توپھر سائیکل چلانا بھی آمد ہے۔
دراصل تخلیقی ذہن ہونا اور بات ہے، جبکہ تخلیق کو مہارت کے ذریعے صنعت بنانا بالکل الگ معاملہ ہے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ تخلیقی ذہن خدا کی عطا ہے۔ہرذہن تخلیقی نہیں ہوتا۔سائنس کہتی ہے کہ حیوانی دماغ کے دو حصے ہیں۔ ایک رائٹ برین اوردوسرالیفٹ برین۔رائٹ برین تخلیقی اورسُست ہے جبکہ لیفٹ برین میتھیمیٹیکل اور فعّال ہے۔ماہرینِ ارتقا کےنزدیک، حیوانات میں رائٹ برین ، ماحول میں مضمرخطرات کو قبل ازوقت تصور کرنے کاکام کرتاہے، جبکہ لیفٹ برین ہروقت مستعد رہتاہے اور جونہی رائٹ برین اسے کسی خطرے کی پیشگی اطلاع دیتاہے لیفٹ برین، جاندار کو متحرک کرکے خطرے سے دُورلے جاتاہے۔ماہرین ارتقأ کہتے ہیں کہ چونکہ رائٹ برین کا کام ہروقت خدشات و خطرات کا حساب کتاب لگاتے رہناہے اس لیے کبھی کبھار یوں ہوتاہے کہ جانور خطرات و خدشات کے بغیر بھی فرضی خطرات و خدشات کی پرچھائیاں دیکھنے لگ جاتے ہیں۔اسی عمل نے، یعنی کبھی کبھار بغیرخطرات کے فرضی خطرات کی پرچھائیاں دیکھ لینے کاعمل نے ارتقأ میں آگے چل کر انسان کی لطیف تخلیقات یعنی شاعری، مصوری یا موسیقی کو جنم دیا۔
ارتقائے حیات میں انسانی سطح تک پہنچتے پہنچتے رائٹ برین میں پرچھائیاں تخلیق کرنے کا یہ عمل بہت زیادہ سوفسٹیکیٹڈ ہوگیاتھا۔اتنا سوفسٹیکیٹڈ ہوگیاتھا کہ اس میں نئے نئے تصورات کو تخلیق کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔اب یہ جو کہاجاتاہے کہ ہرذہن تخلیقی نہیں ہوتا اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض انسانوں کا رائٹ برین حاوی ہوتاہے اور بعض لوگوں کا لیفٹ برین ۔یہ شناخت کرنا کچھ مشکل نہیں کہ کس کا کون سا برین ڈومی نینٹ ہے۔ ماہرینِ نفسیات اس کی شناخت پاری ڈولیا کے ذریعے کرتے ہیں۔
پاری ڈولیا کیاہے؟ یہ جو بعض لوگوں کو بادلوں میں شکلیں نظرآتی ہیں اسے پارڈی ڈولیا کہاجاتاہے۔ کبھی کسی بادل میں، یا کسی دیوار کے اکھڑے ہوئے پلستر میں، یا فرش پر گرے ہوئے پانی کے پیٹرن میں ہمیں شکلیں نظر آتی ہیں۔کبھی کسی بادل کے پیٹر ن میں کسی جانور کی شبیہ نظر آتی ہے یا دیوار کے اکھڑے ہوئے پلستر میں کوئی چہرہ نظرآتاہے، تو یہ پاری ڈولیا ہے۔چنانچہ وہ شخص جسے ایسی شکلیں زیادہ جلدی سے نظر آجاتی ہیں اوراکثرنظرآتی ہیں، اس شخص کا رائٹ برین ڈومی نینٹ ہوتاہے۔اوریہی ذہنی تخلیقی ذہن ہے۔کیونکہ بادلوں میں شکلوں کا حقیقی وجود تو نہیں ہوتا، یہ اس شخص کا تخلیقی ذہن ہوتاہے جو اس میں کسی شکل کو متخیّل کردیتاہے۔پاری ڈولیا صرف بصری ہی نہیں ہوتا بلکہ سمعی اور لمسی بھی ہوتاہے۔آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ بعض پرندوں کی آوازوں کو لوگ معنی پہنا دیتے ہیں۔ مثلاً بعض لوگ قُمریاں جسے ہم پنجابی می خُمرے کہتے ہیں، محض اس لیے پالتے ہیں کہ بقول ان کے وہ کلمۂ طیبہ کا ذکر کرتےہیں۔ دیہی علاقوں کے سرائیکی لوگ کہتے ہیں کہ کالا تیتر جب بولتاہے و ہ کہتاہے سبحان تیری قدرت۔
ادریس آزاد
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں