گزرے بچپن کے دنوں میں سے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ساری زندگی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ہم انھیں مختلف موقعوں پر مختلف حوالوں سے یاد کرتے ہیں اور گزرے وقت کی روشنی میں تجزیہ کرتے رہتے ہیں لیکن وہ کبھی مرتے نہیں یا ہم ان کو مرنے نہیں دیتے۔
ایسے ہی واقعات میں سے ایک ہمارے اسکول کے دنوں کا واقعہ ہے۔ ان دنوں ہر ماہ میں ایک سے دوبار یہ ضرور ہوتا تھاکہ اسکول بریک یا چھٹی کے وقت جب باہر نکلنے کے لئے سب کھڑے ہوتے تو کسی نا کسی لڑکی کی فراک کا پچھلا حصّہ داغ دار ہوتا اور جب برابر بیٹھی ہم جولی اس بات کا احساس دلاتی تو جس کی فراک پہلی بار داغ دار ہوئی ہوتی تھی وہ دھواں دار رونا شروع کر دیتی۔
ٹیچر کلاس میں موجود ہوتی تو آگے بڑھتی اور کلاس کی ذرا بڑی لڑکیوں کو اس کے پاس آنے کا اشارہ کرتے ہوۓ ہم جیسوں کو کلاس سے باہر جانے کا کہتیں۔ تجسس سے بھری اس عمر میں ہم سب کلاس کا کمرہ چھوڑ تو ضروردیتے لیکن کلاس کے باہر برآمدے میں لائن بنا کے رونے والی کا شد ت سے انتظار کرتے رہتے، تاوقتیکہ اندر سے رونے دھونے والی دوپٹہ سے منہ رگڑتی باہر نکلتی۔ ایسے موقعوں پرزیادہ تر وہ کسی ہم جماعت کے برقعہ کا نیچے والا حصہ پہنے ہوتی اور صاحب برقع اوپر کا حصہ پہنے مسکراتی ہوئی ساتھ چل رہی ہوتی۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا کہ کوئی برقع والی میسر نہ ہوتی تو رونے والی کے فراک کا پچھلا حصہ روشنائی سے کالا یا نیلا کر دیا جاتا۔ ایسی صورت میں کلاس کی وہ تمام لڑکیاں جو خود کو بڑا اور زیادہ سمجھدار سمجھتی تھیں۔ کلاس کی اس ساتھی کو گھیرے میں لے کے چلتیں ان کے ساتھ ہی ہم نا سمجھوں کا قافلہ بھی چل پڑتا اور اس کوشش میں ہوتا کہ فراک کی روشنائی میں چھپے داغ کا سراغ کسی صورت مل جاۓ۔
روشنائی ،داغوں اور منقسم برقعوں کا کھیل دیکھتے ہم آگے بڑھتے رہے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک دن میں نے یہ قصہ گھر میں اپنے سے کئی سال بڑی تایا زاد بہن کو سنایا تو پہلے وہ مسکرائیں اور پھر کہا “ تم کو کھڑے ہوکے تماشا دیکھنے کی کیا ضرورت تھی”۔
ضرورت تھی یا نہیں اس بات کا شعور توکئی سالوں بعد آیا لیکن یہ سوال ذہن میں ہمیشہ کلبلاتا رہا کہ ہمارے گھروں میں موجود امیاں، نانیاں، دادیاں اور دیگر رشتہ دار خواتین اپنی بچیوں کو قدرت کے اس نظام کی آگاہی کیوں نہیں دیتے انھیں اسکولوں ، مدرسوں یا دیگر مقامات پر تماشا کیوں بنواتے ہیں۔ اس بات کا اظہار کئی مرتبہ اپنی ساتھیوں سے بھی کیا جن کو سمجھ تھی انھوں نے ہاں میں ہاں ملا دی ،اور چند ایک نے یہ کہہ کے منہ موڑ لیا” کیا مطلب ہے؟ جس بات کا ظہور نہیں ہوا، اسے بچیوں کے ذہن میں کیوں گھسیڑا جاۓ”۔
ہماری بحث ہوتی کہ بات ظہور کی نہیں، شعور اور آگاہی کی ہے۔ جب ہمیں وضو کرنے کا طریقہ بتایا اور پڑھایا جاتا ہے تو اس بات کو بتانے میں کیا حرج ہے۔
اپنی عمر کے مختلف ادوار میں، مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف حوالوں سے شعور اور آگاہی کی یہ بحث چلتی رہی۔
چند ماہ قبل ایک کام کے سلسلے میں کوہی گوٹھ جانا ہوا۔
کوہی گوٹھ کے حوالے سے جو سراپا نظروں میں سب سے پہلے سرسراتا ہے وہ “ڈاکٹر شیرشاہ “ کا ہوتا ہے۔ ان سے ملاقات ہو اور کچھ نیا سننے،دیکھنے یا پڑھنے کو نہ ملے یہ ہو نہیں سکتا۔
اس بار بھی ایسا ہی ہوا ،میٹنگ ہوئی ،ڈاکٹر شیر شاہ ایک کمرے میں گئے اور پھرلدے پھندے یہ کہتے ہوۓ باہر نکلے “ شہناز تم نے یہ پڑھی، ان کے ہاتھ میں ایک چھ انچ لمبا چھ انچ چوڑا کتابچہ تھا”۔
اس کتابچے کانام “ امی بتائیے” ہے۔ اس کے ورق الٹتے پلٹتے ہوۓ جو پہلا احساس میرے اندر جاگا” یہ سب میں نے کیوں نہیں لکھا ،برسوں جن باتوں پر بحث کرتے ہم سب سوکھے کھیت ہوگئے، ہم نے قلم کیوں نہیں اٹھایا۔
یہ کتابچہ بچیوں کی عام معلومات کا خزینہ ہے۔ جس میں نوعمری بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ بچپن میں شعور کا روشندان کھلنے سے لے کر نوعمری اور جوانی کی طرف قدم بڑھاتی بچیوں کے ذہنوں میں سرسراتے،کلبلاتے،جگمگاتے اور ڈگمگاتے سوالات کا ایک باشعور ماں کی زبان میں جواب ہے۔ مثلاً
میں لڑکی کیوں ہوں؟
ابو کی مونچھیں کیوں ہیں؟
گلی کا چوکیدار مٹھائی دے رہا تھا کیا میں لے لوں؟
اسکول جاتے ہوں ایک آدمی مجھے روک کر گود میں بٹھانے کی کوشش کیوں کرتاہے؟
قران پڑھانے والے مولوی صاحب نے مجھے گود میں بٹھالیااور مجھے بالکل اچھا نہیں لگا؟
جب میں اسکول بس کا انتظار کر رہی تھی تو چوکیدار مجھے برابر بٹھانا چاہ رہا تھا؟
مولوی صاحب بار بار مجھے کیوں چھوتے ہیں؟
میری چھاتیوں میں بہت درد ہے کیا مجھے کینسر ہوگیا ہے؟
میری جماعت کی دو لڑکیاں چھپ کر سگریٹ پیتی ہیں، مجھے بھی پینے کا کہہ رہی تھیں ،کیا میں استانی کو بتادوں؟
میرا جسم میری مرضی کا کیا مطلب ہے؟
کاروکاری کا کیا مطلب ہے؟
دادی بھائی کو دوانڈے کیوں دیتی ہیں؟
ماموں کے گھر بیٹا پیدا ہو تو سب نے اتنی خوشی منائی، دعوت ہوئی لیکن جب چاچا کے گھر بیٹی پیدا ہوئی تو صرف مٹھائی بانٹی گئی تھوڑے سے گھروں میں؟
چھوٹے چاچا جب بھی آتے ہیں مجھے گھورگھور کے کیوں دیکھتے ہیں؟
لوگ بیٹیوں کو بوجھ کیوں کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ
ان تمام اور بہت ساری باتوں کا جواب ایک ماں دے رہی ہے۔ ایک بہت ہی باشعور اور ہوش مند ماں ، جو اپنی بچی کی ذہنی کیفیت کو سمجھتی ہے اور اسے مطمئن کرنا جانتی ہے۔
میرے بس میں ہوتا تومیں اس کتاب کو لڑکیوں کو پڑھاۓجانے والے سیلبس کا حصہ بنا دیتی۔
میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اس کتاب کو اسکول جانے والی اور گھر سے نکلنے والی ہر بچی ،لڑکی تک پہنچائیں۔
اپنی بچیوں کو مثبت سوچ دینے اور انھیں محفوظ بنانے کےلئے شعور اور آگاہی کی اس شمع کا جلتے رہنا بہت ضروری ہے۔
چھیتر (۷۶)صفحات پر مشتمل اس کتابچے کی قیمت صرف تین سو روپے ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں