ویب سیریز Kark Rogue/منصور ندیم

یہ انڈین ویب سیریز جس کا بنیادی خیال دنیا کی معروف ترین ادویات کی کمپنیاں اپنے ادویات کے ٹرائل کے لیے تیسری دنیا کو چنتی ہیں، کے بارے میں ہے، ظاہر ہے کہ سیریز شاید ہر ایک کو پسند نہ بھی آئے، مجھے تو یہ ایک سماجی موضوع کے طور پر بہت پسند آئی ہے اس میں تھرل سسپنس وغیرہ سب کچھ ہے، جو اس طرح کی ایک ویب سیریز کے لیے درکار ہوتا ہے، اس میں بنگال کا پس منظر ہے۔۔ یہ Zee5 کی 8 اقساط پر مبنی سیزیر ہے، جو ایک فرانزک سرجن ڈاکٹر بیاس بنرجی (چترگنگاڈا چکرورتی) کے مرکزی کردار جو پوسٹ مارٹم اور فرانزک ماہر ہے، وہ اپنی پریکٹس میں ماسٹیکٹومی (چھاتی کے کینسر سے متعلق سرجری) میں کچھ چونکا دینے والے حالات کا سامنا کرتی ہے، اسے اتفاق سے روڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ میں ملنے والی کینسر میں مبتلا فرانزک لاشوں کے درمیان بہت سی عجیب و غریب مماثلتوں کا پتہ چلتا ہے، جن کا وہ پوسٹ مارٹم کر رہی ہوتی ہے اسے لگتا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ یکے بعد دیگرے ہر ایسے ایکسیڈنٹ میں آنے والی ڈیڈ باڈی میں یہ مماثلت کیوں مل رہی ہے، تب اسے یہ سب کچھ ایک منظم جرائم کا حصہ لگتا ہے اور اس کے بعد وہ اس کی کھوج کے سفر پر نکلتی ہے۔

اس فلم کے دیگر دو مرکزی کرداروں میں سے ایک وکیل ہیں، جو اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا ہے، اور اس کی اچانک موت کی وجہ جاننے کے لیے ہر طرح کی کوشش کرتا ہے، اس کی بیوی ڈاکٹر ہوتی ہے اور اسی ریکٹ کا  نشانہ بنتی ہے، اور تیسرا کردار اندرانیل سینگپتا نے کیا ہے جو ایک پولیس افسر برون سرکار کا ہے، جو ڈاکٹر بیاس کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ اس کا کردار کہانی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اہم ہے۔ بنیادی طور پر یہ تیسری دنیا کے ممالک کے المیے پر مبنی فلم ہے، جہاں پر فارماسوٹیکل کمپنیاں چلانے والے تاجران بیوروکریٹ اور اداروں کے ساتھ مل کر نئی ایجاد ہونے والی ادویات کے لئے ان معصوم مریضوں کو ان ادویات کے ٹرائل کے لیے استعمال کرتے ہیں، لالچی ڈاکٹرز کا ریکٹ ان کی مدد کرنے والے بیوروکریٹس حتی کہ کلکتہ کا NSHR ان ادویات کے ٹرائل کا مرکز بن جاتا ہے۔ اسٹیٹ ڈرگ کنٹرول ڈائرکٹر تک اس کھیل میں شامل دکھایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا تو نہیں ہے کہ بغیر ٹرائل کے ادویات بازار میں ا سکتی ہیں لیکن مغربی ممالک میں ادویات کے ٹرائل کے لیے مریض کی رضامندی لازمی ہوتی ہے، کئی صورت میں مریض انسانیت کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنے اپ کو اس طرح کی ادویات کے ٹائل کے لیے پیش کرتے ہیں اور کئی صورت میں ایسے مریض کچھ مالی فائدہ بھی لیتے ہیں۔

لیکن بس افسوس یہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک ایسی جگہ ہے جہاں پر لالچ کی بدولت بدعنوانی ایک عام سی چیز ہے، جہاں حکومتیں ادارے بیوروکریٹ سیاستدان حتی کہ حکومتی طبی ادارے حتی کہ ہسپتال یا ڈاکٹرز تک اس میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ ان فارماسوٹیکل کمپنیوں سے ذاتی طور پر پیسہ لے کر اپنے پاس زیر علاج مریضوں پر یہ ٹرائل کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں جس کا مریض کو پتہ بھی نہیں ہوتا۔ اس کے لئے اکثر فارماسیوٹیکل کمپنیاں اتنی بھاری رقم دیتی ہیں کہ جن ادویات کے نتائج اچھے نہ بھی ہوں اس کا بھی تسلسل سے ٹرائل کرواتے رہتے ہیں، اور مریض مرتے رہتے ہیں، ظاہر ہے کہ کرپشن بلیک اینڈ وائٹ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک گرے ایریا سے بھی زیادہ ہوتی ہے، اور اس کے بعد ایسی ادویات کی غیر قانونی مارکیٹنگ بھی انہی ممالک میں زیادہ ہوتی ہے، یہ فلم بھی اسی صورتحال کو واضح کرتی ہے، جس میں پوری انتظامیہ کا ڈھانچہ ان غیر اخلاقی معاملات میں شامل دکھایا گیا ہے۔ فلم کا ایک حصہ بہت اہم ہے، جس میں اس ریکٹ  کو جب اندازہ ہو جاتا ہے کہ خون کے کینسر کے لیے دی جانے والی ادویات مریضوں میں سائیڈ ایفیکٹ کے طور پہ لمفوما پیدا کررہی ہیں یعنی ایک کینسر کے علاج کی دوا ایک اور کینسر پیدا کر رہی ہے بھانڈا پھوٹنے سے پہلے وہ لوگ ان تمام مریضوں کو جنہیں ادویات دی جا رہی ہوتی ہیں، مختلف روڈ ایکسیڈنٹ اور دوسرے حادثات میں قتل کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر یہ ویب سیریز تو آپ ضرور دیکھیں لیکن یہ ویب سیریس تو کلکتہ کی دکھائی گئی ہے، مگر شاید اپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ کرونا کے ایام میں چائنہ نے بھی ہمیں ویکسین دی تھی، جس پر ہمارے اداروں نے بہت چھلانگیں لگائیں تھی، ایک ویکسینیشن تو اقوام متحدہ کے ذریعے ہمارے پاس بطور امداد پہنچی تھیں، جو یقینا ً ٹرائل سے اپروول کے بعد آئی تھیں، لیکن چائنہ کی ساری ویکسینز ہمارے معتبر ادارے نے ٹرائل کے لیے لی تھی، اور اسی لیے ہمیں مفت میں دی گئی تھی بلکہ ہمیں اچھی رقم بھی ادا کی گئی تھی۔ بالکل ایسے ہی پاکستان میں کئی موذی امراض کی ادویات کے ٹرائل ہوتے ہیں، جی ہاں پاکستان کے ایسے بڑے بڑے ہسپتال جن کا میں نام بھی نہیں لکھتا وہ اتنے ہی معروف ہسپتال ہیں، جہاں علاج لاکھوں اور کروڑوں روپے میں ہوتا ہے، وہاں ایسی کئی فارما کمپنیوں کے ٹرائلز ہوتے ہیں جس کا علم مریضوں کو بالکل نہیں ہوتا، کہ ان پر ٹرائل ہو رہے ہیں، بہرحال ہسپتالوں، انتظامیہ اور حکومت کو یقیناً پتہ ہوتا ہوگا، یقیناً اس کے بدلے میں بھاری رقم بھی ملتی ہے، اور ٹرائل کے بعد پھر وہی ادویات جب ڈبلیو ایچ او اور ڈرگ سے متعلقہ اداروں سے اپروو ہو جاتی ہیں تو ان کی قیمت لاکھوں اور کروڑوں میں ہوتی ہیں، اور وہ ادویات پاکستان کے مریضوں کے لیے کبھی نہیں دستیاب ہوتیں۔
نوٹ :
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ کی ریاست طب کے حوالے سے کیا کام کر رہی ہے؟ ہمارے ملک میں صرف نام کے ریسرچ ادارے ہیں جو طب کے حوالے سے کام کر رہے ہیں، بلکہ کام نہیں کر رہے صرف فن کھا رہے ہیں؟ کیا اپ نے کبھی سوچا کہ ہمارے ملک میں کبھی اس حوالے سے کوئی تحریری کام ہوا ہو یا کوئی فلم یا ڈرامہ اس حوالے سے بنا ہو، ہماری ترجیحات میں اس وقت عمران خان اور نواز شریف ہیں یا پھر ہمارا ملک کا سب سے بڑا روگ، جو 56 اسلامی ملکوں میں کسی بھی ملک کے پاس نہیں ہے وہ ہے “ختم نبوت کا ڈھنڈورا۔”
پاکستان میں کسی بھی موذی مرض کے لیے کوئی بھی ادویات نہیں بنتی اور پاکستان میں کینسر یا لیکوئمیا یا اس طرح کے امراض کی کوئی بھی میڈیسن جو غیر ممالک سے اتی ہے وہ بھی تیسری دنیا کے ممالک سے ہی اتی ہیں جیسے بنگلہ دیش اور انڈیا وغیرہ یہ زیادہ سے زیادہ چائنہ کی اور ان میں سے اکثریت میڈیسن، ایسی ہی ہوتی ہیں جن کا تذکرہ اس ویب سیریز میں دکھایا گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply