بنجر آنکھوں کا نوحہ/آغر ندیم سحر

معاشرے کی عمارت اخلاقیات، برداشت، رواداری اور بھائی چارے کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جب یہ اعلیٰ قدریں رخصت ہو جائیں تو سماج تباہی کی جانب سفر شروع کر دیتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کو بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے، ایک طرف انتہا پسندی اور عدم برداشت اور دوسری طرف تعلیمی اداروں میں سی جی پی اے کی دوڑ میں شامل ہمارے ملک کا مستقبل یعنی نوجوانانِ ملت۔

عدم برداشت اور تعصب کی کہانی ہماری تربیت گاہوں سے شروع ہوکر سماج میں قتل و غارت پر ختم ہوتی ہے۔ تعلیمی ادارے جہاں معاشرے کے خدو خال سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، وہاں مذہبی و سیاسی وابستگیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یہ وابستگیاں بھی ہمارے سماج کو بہت حد تک اثر انداز کر تی ہیں لہٰذا معاشرے میں موجود خلا کی ایک بڑی وجہ ہمارے یہ تین ادارے بھی ہیں۔

آپ کو تعصب اور عدم برداشت کا پہلا سبق آپ کو محلے کا مولوی پڑھاتا ہے۔ جہنم واصل کرنے کے سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے، نوے فیصد علماء فرقہ پرستی کو ہوا دیتے ہیں لہذا تشدد کی کہانی میں اس طبقے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مولوی آپ کو فرقہ بندی، مسالک و مذاہب کی بحث میں الجھاتا ہے۔

دوسرے نمبر پر آپ کے تعلیمی اداروں اور جامعات سے وابستہ اساتذہ کرام آتے ہیں جنھوں نے آپ کو جی پی اے کی دوڑ میں شامل کیا، جنھوں نے کلاس روم میں امن، اخوت اور بھائی چارے کا سبق دینے کی بجائے “مر جائو یا مار دو”کا سبق پڑھایا۔ جب آپ کے تعلیمی اداروں (کالجز و یونیورسٹیز)کے اساتذہ کرام اپنی دیہاڑی لگانے آتے ہوں، طالب علموں کو سوال کرنے پر کلاس روم سے باہر نکال دیتے ہوں، طالب علموں سے دشمنی پالتے ہوں، دوسرے تعلیمی اداروں اور مخالف سوچ رکھنے والے طالب علموں سے تعصب اور نفرت سکھاتے ہوں تو سماج میں اخوت کی جگہ صرف اور صرف عدم برداشت، تعصب اور مخالف طبقوں کے بارے نفرت ہی پروان چڑھے گی۔

بدقسمتی سے میں اس معاشرے کا فرد ہوں جہاں تعلیم صرف اس لیے حاصل کی جاتی ہے کہ ہم سرکار کے”نوکر” بھرتی ہو سکیں لہٰذا اس میں تعجب کیسا کہ ہمارے نوے فیصد طالب علم ڈگریاں لیتے ہی نوکری کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں، ان طالب علموں کے پاس نہ ہنر ہوتا ہے اور نہ ہی مشاہدہ، نہ ہی ان بے چاروں کو کتب خانوں اور سوال کی اہمیت سے متعارف کروایا جاتا ہے۔ لہٰذا ایک استاد جب پچاس سال کسی ادارے سے وابستہ رہنے کے بعد ریٹائرڈ ہوتا ہے تو اس کے پاس گنتی کے اپنے دس کامیاب طالب علم بھی نہیں ہوتے جن کے بارے وہ معاشرے کو فخر سے بتا سکے کہ اس کا کل سرمایہ یہ دس لوگ ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم نے کبھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا؟ کس قدر تکلیف کی بات ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی اداروں میں تعلیم تو دی مگر شعور، علم اور سوچ بچار کے سارے راستے بند کر دیے۔ ہم نے بچوں کو یہی سکھایا کہ بیٹا یہ ڈگری ہے، اس کے بعد نوکری کرو تاکہ تمہاری کسی” کھاتے پیتے “گھرانے میں شادی ہو سکے یعنی ہم نے تعلیم کا مقصد بھی شادی تک محدود کر دیا۔ اس کے بعد آپ خود فیصلہ کریں کہ ہمارا مستقبل کیا ہونا چاہیے؟

تیسرا اہم طبقہ ہمارے سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ہیں۔ اس معاشرے کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے، سماج میں متشدد واقعات کو فروغ دینے اور اختلاف کرنے والوں کو”اڑادو” جیسی پالیسیوں کو متعارف کرانے میں اس طبقے نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ یہ لوگ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو فرعون ہوتے ہیں اور جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان سے بڑا سماج سیوک اور محب وطن کوئی نہیں ہوتا۔ جب اقتدار اورکرسی کی ہوس ان کی آنکھوں تک آ جائے تو یہ ایسے لوگوں سے بھی ہاتھ ملا لیتے ہیں جنھیں کل تک یہ غدار کہتے تھے، لہٰذا معاشرتی عدم برداشت، تعصب اور نفرت کی جنگ میں آپ سیاسی جاگیرداروں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

ہم عدم برداشت میں اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو محض اس لیے گولی سے اڑا دیتا ہے کہ اس نے “گول روٹی” کیوں نہیں بنائی، بیٹے نے باپ کو اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے نون لیگ کے جلسے میں جانے سے انکار کیا تھا، ایک بیوی نے اس لیے خلع کا دعویٰ دائر کر دیا کہ اس کا شوہر عمران خان کی تقاریر سنتا ہے۔ پچھلے دو ماہ میں مختلف شہروں میں کالجز کے طالب علموں کے درمیان ہاتھا پائی، قتل و غارت اور گالم گلوچ کے مجموعی طور پر دو سو واقعات(جو ریکارڈ ہوئے) پیش آئے۔ ایسی گھنائونی صورت حال میں ہمیں سوچنا پڑے گا کہ آخر خلا کہاں ہے؟

آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری تربیت گاہیں ناکام ہو چکیں اور قوم کے مصلح کی باتیں بے اثر ہوگئیں، آخر کوئی تو وجہ ہے کہ آج کا طالب علم اے پلس گریڈ لینے کے بعد بھی اندر سے کھوکھلا ہے، اس کے پاس نہ تو اپنے سبجیکٹ پر دسترس ہے اور نہ ہی اسے ذہنی طور پر معاشرے کے تھپیڑوں کے لیے تیار کیا گیا۔

ایک طالب علم سولہ سالہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی کنفیوز ہے تو آخر کیوں؟ اس کنفیوژن کا ذمہ دار کون ہے، استاد، معاشرہ یا خود طالب علم؟ مجھے خوشی ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ سوالات زیربحث آنے لگے ہیں لیکن ہمارے قومی میڈیا کو بھی ان موضوعات کو زیربحث لانا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ ہمیں”پری پلان”شعور اور سوا ل سے دور رکھا گیا، ہمارا دشمن جانتا تھا کہ اگر ان کو سوال اور سوچ بچار کی طاقت کا اندازہ ہوگیا تو ہماری دکان بند ہو جائے گی لہٰذا کوئی استاد ہے یا قومی دانشور، کوئی سیاست دان ہے، سب اسی خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں ان کے مقلدین اور شاگرد سوچنا شروع نہ کردیں لہٰذا وہ پوری محنت کے ساتھ معاشرے سے سوال کا قتل کر رہے ہیں، کتب خانوں، کلاس رومز اور سیاسی تھیٹرز، سے ایسی نسل تیار ہو رہی ہے جو اندھی تقلید کی قائل ہو۔ ایسے میں عظیم قوم بننے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا کیوں کہ جو آنکھیں بنجر ہو جائیں، ان میں نہ تو خواب ہوتے ہیں اور نہ ہی شرمندگی کے آنسو۔۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply