کمبخت ذہنی صحت (9)-محمد وقاص

فرض کریں آپ کے ارد گرد لوگوں کا دو لاکھ کا نقصان ہو جاتا ہے۔ آپ کا صرف 20 ہزار کا نقصان ہوتا ہے۔ باقی لوگوں سے موازنہ کر کے آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟
اب اگر ایک اور کیس میں باقی لوگوں کا 2000 کا نقصان ہوتا ہے اور آپ کا 20 ہزار کا نقصان ہو جاتا ہے؟
اب اس کیس میں آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟کیا پہلے کیس اور دوسرے کیس کی فیلنگ میں کچھ فرق ہوگا؟
یقیناً ہوگا۔
نقصان ایک جیسا ہے۔ لیکن فیلنگ تبدیل ہو گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اپنے ذہن میں موازنہ کر رہے تھے۔
اس تصور کو ہم روزانہ استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن بعض صورتوں میں ہم اس کو اپنے نقصان کے لیے استعمال کر لیتے ہیں۔
اب تھوڑی سی عقلمندی کرنی ہے۔ اسی اصول کو اپنے فائدے کے لیے اور اپنا موڈ بہتر کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے۔
اس کے لیے آپ کو یہ مشق کرنی ہوگی۔

جب بھی کوئی مشکل، تکلیف یا کوئی چیلنج درپیش آئے تو آپ نے تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کر کے تصور کرنا ہے۔ آپ کی جو بھی موجودہ حالت ہوگی اس سے بری حالت تصور کرنی ہے۔ اب اس کو مزید بد سے بدترین بنا دیں۔ اور معاشرے سے اس بدترین حالت کی کچھ مثالیں بھی سوچنی ہیں تاکہ آپ کے ذہن کو یقین ہو جائے کہ ایسا بھی ممکن ہوتا ہے۔
مثلاً اگر آپ کا کہیں 10 ہزار کا نقصان ہو گیا تو آپ تصور میں دیکھیں کہ آپ کا 10 لاکھ کا نقصان بھی ہو سکتا تھا۔ اگر آپ کا 10 لاکھ کا نقصان ہو جاتا تو آپ کیسا محسوس کر رہے ہوتے۔ اب اس تصور کو اپنے موجودہ حالات کے ساتھ موازنہ کرنا ہے۔ آپ کو خود بخود شکر گزاری اور خوشی کا احساس ہوگا کہ شکر ہے کہ وہ بری پوزیشن نہیں ہوئی۔
اسی طرح اگر کسی نے برا بھلا کہا تو آپ تھوڑی دیر کے لیے ویژولائز کریں گے کہ وہ شخص آپ کو کئی گنا زیادہ برا بھلا کہہ سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ایک شخص کے علاوہ باقی اٹھ دس لوگ بھی آپ کو برا کہہ سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے نہیں کہا۔ جب اس صورتحال کو موجودہ صورتحال کے ساتھ موازنہ کریں گے تو آپ کو اچھا محسوس ہونے لگے گا۔
ذہنی صحت کہیں باہر سے نہیں آتی، بلکہ یہ ہمارے اندر چلنے والے معاملات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہمیں دکھ تب ہوتا ہے کہ جب ہم موجودہ صورتحال کا ایک آئیڈیل صورتحال کے ساتھ موازنہ کر لیتے ہیں۔

آج میں DC کالونی گوجرانوالہ میں کسی ڈاکیومنٹیشن کے لیے موجود تھا۔ بارش بہت تیز ہوگئی۔ مجھے ایک آفس میں انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران مجھے یہ سوچ آئی کہ بارش اگر کچھ دیر رک جاتی تو میرا کام ہو جاتا۔ اس بات سے تھوڑا افسوس ہوا تو میں نے اس تکنیک کو استعمال کیا۔
میں نے تصور کیا کہ میرے گھر سے نکلنے سے پہلے بھی بارش ہو سکتی تھی۔ میں پورے راستے میں بھیک بھی سکتا تھا۔ اور یہ بھی کہ میں ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں کوئی شیلٹر یا کوئی آفس وغیرہ نہ ہوتا تو اور زیادہ مسئلہ ہوتا۔
آسان الفاظ میں کہ میں نے اپنی حالت کو ایک ایسی حالت سے موازنہ کیا کہ جو اس سے بدترین تھی۔ اس موازنے سے میرا ذہن مطمئن ہو گیا اور وہاں دو گھنٹے پرسکون بیٹھ کر کتاب کے 25 سے 30 صفحات بھی پڑھ لیے۔

مشق:
ابھی آپ جس بھی مسئلے کا شکار ہیں، تھوڑی دیر کے لیے اس کو بدترین version کے ساتھ موازنہ کریں۔ سوچیں کہ اگر آپ کے ساتھ ویسا ہو جاتا تو آپ کیا کرتے۔ یہ موازنہ کر کے نیچے کمنٹس میں بتائیں کہ آپ کو کیسا محسوس ہوا۔

وہ عورتیں جن کو جذباتی طور پر ستایا گیا ان پر ریسرچ کی گئی۔ 1996 میں فریڈمین نے ایک بڑی ریسرچ کی اور ان عورتوں کو سٹڈی کیا جن کو معاف کرنے کی تھیراپی کروائی گئی تھی۔ ان کا موازنہ ان عورتوں کے ساتھ کیا گیا جن کو معاف کرنے کی تھیراپی نہیں دی گئی۔ اس سٹڈی سے یہ ثابت ہوا کہ وہ عورتیں جنہوں نے معاف کرنے کی تھیراپی استعمال کی اور سٹریس دینے والے کو معاف کر دیا تھا، ان میں ڈپریشن، سٹریس PTSD بہت کم پایا گیا۔ اسی طرح عورتوں کے ساتھ مردوں پر بھی ریسرچ کی گئی۔ اس میں بھی ایسے ہی نتائج ظاہر ہوئے۔

اگر آپ بھی خود کو مینٹلی مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور ڈپریشن، ایگزائٹی اور سٹریس سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیشہ Let Go (درگزر) کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بات بار بار ریسرچ سے ثابت ہوئی ہے کہ جو لوگ Let Go کرتے ہیں وہ زیادہ پر سکون زندگی بسر کرتے ہیں۔
اگر کسی نے ذیادتی کی ہے تو Let Go کر دیں۔
اگر آپ کی زندگی میں ظلم ہوا ہے تو Let Go کر دیں۔
اگر آپ نے ماضی میں کچھ غلطیاں کی ہیں تو خود کو معاف کرتے ہوئے Let Go کردیں۔
یہ ایک ایسی طاقت ہے کہ جیسے ہی آپ اس کو استعمال کریں گے اسی وقت آپ کو ایک سکون اور خوشی کا احساس ہوگا۔ آپ کو محسوس ہو گا کہ ایک بوجھ جو آپ نے کئی سالوں سے اٹھایا ہوا تھا وہ اترا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بطور سائیکالوجسٹ میں مانتا ہوں کہ کچھ لوگ اس قدر شدت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ وہ کسی کو معاف کرتے ہوئے لچک کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
یہاں میں ان کی سوچ واضح کرتا ہوں کہ وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ:
“اگر میں نے فلاں کو معاف کر دیا تو وہ آزاد ہو جائے گا”
“میں فلاں کو کسی قیمت پر معاف نہیں کروں گا”
“اس نے میرے ساتھ بہت زیادتی کی۔ میں ایسے اس کو معاف نہیں کروں گی”
اس کو اتنی آسانی سے کیسے معاف کر دوں”
لوگوں کی ایسی سوچ اور ایسے جملوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ معاف کرنے سے اگلا بندہ آزاد ہو جائے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاف کرنے سے وہ خود آزاد ہو جاتے ہیں۔ یہ باریک نقطہ پڑھتے ہوئے ہر بندہ سمجھ جاتا ہے۔ لیکن جب اس کو اپلائی کرنا ہو تب لوگ اس کو بھول جاتے ہیں
ایسے لوگ جو دوسروں کو معاف کرنے میں ناکام رہتے ہیں، اگر ان لوگوں کو کچھ موٹیویشن کے ذریعے رہنمائی دی جائے کہ یہ ان کے لیے کس قدر میں فائدہ مند ہوسکتا ہے تو وہ اس پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ جیسے ہی وہ کسی کو معاف کرتے ہیں تو ان کا بوجھ اتر جاتا ہے۔
چلیں مان لیتے ہیں آپ کے لیے معاف کرنا مشکل ہے۔
چلیں اسی کو سچ مان لیتے ہیں۔
آپ کی بات کا ہی بھرم رکھ لیتے ہیں۔
آپ اپنے ستانے والے کو معاف نہ کریں۔
لیکن میرے کہنے پر اس کو صرف ایک مہینے کے لیے معاف کر دیں۔ ایک مہینے بعد دوبارہ جیسے آپ کو بہتر لگے ویسے کر لیں۔ صرف ایک مہینہ میری بات مان لیں۔ یہ چیلنج قبول کر لیں۔ آج سے 30 ستمبر تک 30 دن آپ نے سب لوگوں کو معاف کر دینا ہے۔ چاہے کسی نے کتنا ہی ستایا ہو۔ یکم اکتوبر کو جیسے آپ کو بہتر لگے کر لیجئے گا۔
اگر آپ اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں تو بتائیے کہ “میں نے یہ چیلنج قبول کیا”
آگے آنے والی پوسٹوں میں مزید کچھ پہلو بتائے جائیں گے، جو ذہنی صحت کے لیے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply