سفرِ حیات-دوسری شادی کا قصّہ (11)-خالد قیوم تنولی

اس کڑی رات میں ، ہسپتال کے طویل برآمدوں میں وارڈ سے لیب اور میڈیکل سٹورز سے وارڈ (ICU) تک جو فرزانگی فراموش دوڑتا پھر رہا تھا ، وہ ہم ہی تھے۔ ایک تو ہم اپنا دو پِنٹ خون نکلوا چکے تھے اور پھر صبح سے رات گۓ تک پانی کے چند گھونٹوں کے سوا حرام ہو اگر کوئی شے چکھی بھی ہو ۔۔ تو ایک بار چکر سا آیا اور ہم ایک مرمریں ستون کا سہارا لے کر عین راہداری میں زمین پر بیٹھتے چلے گئے ۔ اس روحانی بحران میں ہم نے بہت دور اوپر سیاہ آسمان کی رفعتوں میں خدا کو ٹٹولنا چاہا اور کہا : ”اگر تُو واقعی ہے تو پلیز فار یوئر سیک ، میری جانِ عزیز کا جو تجھ پر غیر متزلزل ایمان رکھتی ہے ، اب اس سے زیادہ امتحان نہ لینا۔“ اس دعا کے بعد ہم نے سگریٹ سلگائی  اور دھیرے دھیرے کش لگاتے ہوۓ آتے جاتے مریضوں کے تیمارداروں، طبی عملے اور متحرک سٹریچروں کا مشاہدہ کرنے لگے۔ اندر دل پہ سکینیت اترنے لگی۔ اضطرابیت ، قرار میں ڈھلنے لگی ، بالکل اسی طرح جب برسوں پہلے ہمارا کارگو شپ ہیبتناک سمندری مد و جزر سے بخیر و خوبی نکل جایا کرتا تھا۔

julia rana solicitors

جب وہ بے ہوشی کے طویل فیز سے نکلیں تو اینستھیزیا کے ما بعدی اثر نے نظر کو شاید دھندلا رکھا تھا جو کچھ دیر کے بعد معدوم ہو گیا۔ اس سمے ہم ہی ان کے مقابل تھے۔ گزشتہ ستائیس گھنٹوں میں کیا کچھ گزری ، اس سے وہ بے خبر تھیں۔ ہمارا محبوب رُوپ ہمارے سامنے تھا جس پر بے پناہ زردی کھنڈی ہوئی  تھی۔ رخساروں کے وہ معروف ساعتی گڑھے جو مسکراتے سمے طلوع و غروب ہوتے ، وہ نا موجود تھے ۔۔۔ ہمہ دم متبسم و زندہ آنکھوں میں نمی کے ہلکورے تھے۔ بے اختیار احمد فراز یاد آۓ :
میرا لَہُو ، تیری رَعنائی  ، تاریکی اِس دُنیا کی
میں نے کیا کیا رنگ چُنے ہیں ، دیکھوں کیا تصویر بَنے
پھر جو انھیں سب کچھ یاد آیا اور اس سے پہلے کہ آنسو ، آنکھ کی حد سے تجاوز کرتے ، ہم نے کہا : ”خبردار ، اگر روئیں ، ورنہ ہم اسی لمحے پلٹ جائیں گے ، ہمیشہ کے لیے۔“
”آپ کب آۓ؟“ انھوں نے تعجب آمیز اطمینان سے پوچھا۔
”سوچو تو ، گیس کرو۔“ ہم نے ان کے ناتواں ہاتھ کو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے مابین ملاٸمت سے مسلتے ہوۓ کہا۔
”پتہ نہیں ، یہ بھی پتہ نہیں کہ وقت کتنا بیت چکا۔“
”اوۓ یار ، ہم دونوں گئے  ہی کہاں ہیں کبھی ، ساتھ ہی تو ہیں ۔۔۔ ہاں اگر کچھ دیر مزید ہم نہ پہنچتے تو تم یقیناً گورستان میانی صاحب میں مدفون ہو چکی ہوتیں ، اپنے کچھ مہربانوں کی مہربانی کے طفیل ، جو تمہارا اچار بننے کے منتظر تھے۔“
اسی دوران ایک خاتون ڈاکٹر نے ہمیں ٹوکا : ”انھیں آرام کرنے دیں۔“ ہم نے کہا : ”ایہہ ہن ای تے سَوکھ اچ آۓ نیں ، اوکھ تے پہلاں سی۔“ ڈاکٹر رمز بھانپ کر مسکراتی ہوئی  ایک اور مریضہ کی طرف بڑھ گئی۔
کہنے لگیں : ”میں نے بہت ڈراؤنا خواب دیکھا ، دشت تھا یا صحرا ، آپ کو پکارتی ہوں ، آندھی کے تیز شور میں آپ پوچھتے ہیں ، کیا ہوا؟ ۔۔۔ میں روتے ہوۓ بتاتی ہوں کہ ۔۔۔۔ “
”میرا موتی کھو گیا ہے۔“ ہم نے جملہ مکمل کیا اور کہا : ”ایک ہی خواب ہم دونوں نے دیکھا۔“
پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہمیں کوئی  دیر دیکھے گئیں۔
”ہم نے کہا : ”زیادہ حیران نہ ہو ، ایک دنیا یہ ہے جو ہم جیتے ہیں ، اور کئی  دنیائیں ہمارے زیست کے متوازی بھی چلتی رہتی ہیں جن کا ادراک کسی اختصاص کے بغیر نہیں ہوتا۔ سب کچھ کے خالق کے ہاں بڑی ڈائیورسٹی ہے۔“
ان کی آنکھوں میں زندگی کی رمق بجلی کے کوندوں کی طرح لہراٸی جیسے تابکار فیوژن ہوا ہو۔ بولیں : ”تو پھر مان کیوں نہیں لیتے کہ خدا ہے !“
ہم نے کہا : ”رات میں اس سے بات ہوئی  تھی ، تمہارے متعلق ۔۔۔ اب یقین آ گیا ، وہ واقعی ہے ۔۔۔۔۔ اس نے ہماری ریکوٸسٹ کو اپنی ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا ، لہٰذا ۔۔۔ الله أكبر !!!“
بڑی سرشاری سے بولیں : ”بے شک اللہ سب سے بڑا ہے۔“
ہم نے کہا : ”نہیں ۔۔۔ ترجمہ درست نہیں ، بلکہ یوں صحیح ہے ، صرف وہی بڑا ہے۔ اس کا کوئی  متبادل ، مترادف یا مقابل ہو ہی نہیں سکتا۔“
شام سے پہلے انھیں آئی سی یو کی دہشت زدہ فضا سے پرائیویٹ کمرے میں شفٹ کر دیا گیا۔
ہم دنگ رہ گئے  جب غیر متوقع طور پر عمومی ملاقات کے اوقات شروع ہوتے ہی کمرے میں سب سے پہلے ہماری ماں جی اور پیچھے بانو داخل ہوئیں ۔۔۔ ماں جی نے انھیں بڑھ کر اپنی آغوش میں لے لیا۔ روایتی ساس پنے کی بجاۓ انھوں نے دعائیہ ہاتھ اٹھا کر فرمایا ۔۔۔ ”مولا تیرا لکھ لکھ شُکر ، میری بچی سلامت ہے۔“
بانو کی آنکھیں دُزدیدگی سے لبریز تھیں۔ وہ دلجوئی و دردمندی کے خیال سے تازہ پھولوں کا بُکہ اٹھاۓ بیڈ کی پائنتی کے پاس  رک گئی  تو ہم نے آگے بڑھ کر اسے خود سے لپٹا لیا۔ ایک مدت کی واہموں سے اَٹی آزردگی کی سلیٹ صاف ہو گئی ۔
بانو اور وہ جب بغل گیر ہوئیں تو دونوں رونے لگیں۔ ہم کھڑکی کے پاس چلے گئے  اور باہر دیکھنے لگے۔ باہر بہت کچھ تھا بھی تو کچھ بھی نہیں تھا۔ سب کچھ ہمارے دل و دماغ میں تھا۔ الله أكبر !!!
دو دن بعد وہ کافی حد تک سنبھل گئیں تو ہم انھیں گلبرگ لے آۓ۔ اب ہونے یہ لگا کہ وہ اور بانو یوں باہم ہوئیں کہ ہمیں درمیاں ان کے کسی رقابت کی خفیف سی پرچھائیں تک دکھائی  نہ دے۔ جب دیکھو ہنس بول رہی ہیں ، اکٹھی کھا پی رہی ہیں ، ساتھ محوِ استراحت ہیں۔ ہم نے یہ انوکھے رنگ ڈھنگ دیکھ کر ہنستے ہوۓ کہہ دیا : ”لگتا ہے ، دونوں نے ایک ہی تعویز گھول کر پی لیا ہے؟“
بانو بولیں : ”ہاں تو اور کیا ، اور تعویز بھی سچ کا ، سانجھے سچ کا۔“
سچ تو یہ ہے کہ ماں جی اور بانو کی بے لوث جذباتی کمک ملنے سے جو فعالیت اور استقامت مہینوں میں آتی ، وہ گنتی کے ان چند دنوں میں آ گئی۔
جس دن ماں جی اور بانو کی واپسیں پرواز تھی ، ایئر پورٹ پر ہم نے بانو کے حضور اپنی ساری عمر کی ممنونیت پیش کر دی۔ کہنے لگی : ”زندگی جتنی بے وزن اور بے آرزو ہو اتنی ہی سپھل گزرتی ہے ، میں اپنے میّسر حصے پہ قانع اور قائم ہوں ۔۔۔ مجھے اعتراف ہے کہ وہ اضافی محبت کی اہل ہے۔“
ہمیں اس دن اپنا آپ ہوا کی مانند لطیف و ہلکا لگا۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply