معروف صحافی معصوم مرادآبادی کے سفرِ حج کی روداد ’ جہاں نور ہی نور تھا ‘ کے مطالعہ نے مجھے تین طرح سے متاثر کیا ، ایک تو اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت شدت سے غالب آگئی ، اور پھر سفرِ حج کی شدید خواہش سے دل بھر گیا ۔ اور اماں مرحومہ یاد آ گئیں ۔ حج کا یہ سفر نامہ کمال کا ہے ! کمال کا اس معنی میں کہ معصوم مرادآبادی کا قلم ارضِ قرآن کی تاریخ ، حج کے ارکان اور گھٹنے والے واقعات کا بیان تمام تر جزیات اور تفصیل کے ساتھ تو کرتا ہے ، لیکن رسول اکرم ﷺ اور ارضِ مقدس کی محبت سے ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں ہوتا ۔ ورق ورق اور سطر سطر میں ، اللہ رب العزت کی بڑائی اور کبریائی اور رسول اکرم ﷺکی شان ، عظمت اور تقدس سمایا ہوا ہے ۔ دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیں : ’’ بیچ رات میں مسجد نبوی ﷺ سے اذان کی آواز بلند ہونے لگی ۔ ہم نے وقت دیکھا تو ابھی ۳ بجے تھے ۔ بے وقت اذان سے کچھ دیر کے لیے تجسس پیدا ہوا ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ تہجد کی اذان ہے ۔ حرم شریف میں دیگر اذانوں کی طرح تہجد کی اذان بھی ہوتی ہے تاہم تہجد کی نماز لوگ انفرادی طور پر پڑھتے ہیں ۔ ہماری قیام گاہ مسجدِ نبوی ﷺ سے تقریباً آدھا کلو میٹر دور تھی ، ہم ہوٹل میں ہی وضو کر کے حرمِ نبوی ﷺ کی طرف چل پڑے ۔ اس وقت کی کیفیت ناقابلِ بیان ہے ۔ جس کی تڑپ اور طلب میں کتنے دن اور راتیں گزاری تھیں اب وہ منزل نگاہوں کے سامنے آنے والی تھی ۔ لیجیے ، وہ منزل عقیدت آ بھی گئی ۔ پہلی نظر مسجدِ نبوی ﷺ کے بلند و بالا مینار پر پڑی تو آنکھیں چھلک گئیں ۔ رات کی تاریکی میں طاقتور سرچ لائٹوں کی مدد سے میناروں پر ایسی رونق اور نور بکھرا ہوا تھا کہ اس سے نظریں ہٹانے کو جی نہیں چاہتا تھا ۔ جوں جوں ہم مسجد ِ نبوی ﷺ کے قریب پہنچ رہے تھے ، ہماری قلبی کیفیت پر بہار آ رہی تھی ۔ ‘‘
دوسرا اقتباس : ’’ کہا جاتا ہے کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑنے کے بعد جو دعا مانگی جاتی ہے ، اسے شرف قبولیت حاصل ہوتا ہے ۔ ہم نے جب اوپر سے خانہ کعبہ کا پہلی بار دیدار کیا تو پہلی ہی نظر نے ہماری گویائی کو ضبط کر لیا ۔ کچھ کہنے یا مانگنے کی کوشش کی تو ذہن نے زبان کا ساتھ نہیں دیا ۔ یہ اللہ کے گھر کا جلال تھا ۔ یا خدا ، ہم تیرے گھر کے اتنا نزدیک ہیں ؟ ہمیں خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا ہے ۔ نظروں کے ذریعہ دل میں اترنے والی کیفیات کچھ ایسی عجیب و غریب تھیں کہ زبان سے کچھ کہا نہیں جا رہا تھا ۔ بس ایک کیف تھا اور ہم تھے ۔ یا اللہ ! ہم تیری بارگاہ میں تیرے گھر کے اتنے نزدیک پہنچ کر اپنے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں ۔ ہم تیری بارگاہ میں شُکر و سپاس کے جتنے بھی نذرانے پیش کریں وہ کم ہیں ۔ تیری جتنی بھی حمد و ثناء کریں وہ کم ہے ۔ یقیناً ہماری گناہگار نظریں اور یہ سیہ کار دل اس قابل نہیں کہ وہ تیرے مقدس گھر کا دیدار کرنے کی تاب لاسکیں ۔ یہ محض تیرا فضل ہے کہ تو نے ہمیں اپنے گھر آنے اور اس کی زیارت کی سعادت بخشی ہے۔‘‘
مذکورہ دونوں ہی اقتباسات سے ، رسول اکرم ﷺ کی محبت اور اللہ رب العزت کی کبریائی میں ، لکھنے والے کے احساسات ، تڑپ ، ندامت اور وفور کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ کیفیت ایسی ہے جو اس سفرِ ِ حج کے پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ، اور وہ مصنف کا ہم سفر بن کر اس کے احساسات میں شریک ہوجاتا ہے ؛ میرے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے ۔
میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ اس کتاب نے مجھے والدہ مرحومہ کی یاد دلا دی ؛ کیوں؟ جواب کے لیے معصوم مرادآبادی کے ’ پیش لفظ ‘ پر نظر ڈالنا ضروری ہے ۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ہر مسلمان کی طرح اُن کے دل میں بھی حج کی تمنا تھی اور صحافی کی حیثیت سے انہیں مفت سفرِ حج کے مواقع ملے ، لیکن وہ چاہتے تھے کہ ’’ اس مقدس و مامون سرزمین کا پہلا سفر اپنی گاڑھی کمائی سے کروں تاکہ قلب کو سکون میسر آئے ‘‘، لیکن اس کا موقع نہیں مل سکا ۔ مصنف کی تمنا تھی کہ ’’ کسی نہ کسی طور اپنی والدہ کو حج کراؤں ‘‘، اور جب 2004 میں خود کے پیسے پر حج کرنے کے قابل ہوئے تو ان کی والدہ اسی دوران انتقال کر گئیں ۔ پھر ایک سال بعد وہ اپنے والد کو اور اہلیہ کو لے کر سفرِ حج پر روانہ ہوئے ۔ یہ روداد اسی سفر کی ہے ۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ والدہ بڑے بھائی فرید احمد کے ساتھ حج کا فریضہ ادا کرکے آئیں تو کہا کہ اب شکیل کے ساتھ حج کرنا ہے ، ان شا اللہ ، مگر اس سے پہلے کہ وہ دن آتا اماں مالک حقیقی سے جا ملیں ، اور ان کی میرے ساتھ حج پر جانے کی اور میری انہیں حج کرانے کی تمنا بس تمنا ہی رہ گئی ۔
معصوم مرادآبادی نے ، اس سفرِ حج میں ، بطور ضمیمہ اپنے دوسرے حج اور ایک عمرے کی روداد بھی مختصراً شامل کردی ہے ۔ یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ 2005 کے حج کی روداد اب تقریباً 19 سال بعد کیوں شائع کی جا رہی ہے؟ اس سوال کا جواب ’ پیش لفظ ‘ میں دے دیا گیا ہے ۔ معصوم مرادآبادی لکھتے ہیں : ’’ آپ کہیں گے کہ سفرِ حج کے اتنے سال بعد سفر نامہ لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ جواب یہ ہے کہ سفر نامہ تو واپسی کے فوراً بعد ہی لکھ لیا تھا اور اس کی کچھ قسطیں اخبار میں شائع بھی ہو چکی تھیں ، لیکن جب بھی اسے کتابی شکل دینے کا خیال آیا تو اس خوف نے دامن پکڑ لیا کہ سفر نامے تو اللہ کے نیک بندوں کے شائع ہوتے ہیں ۔ تم ایک گنہ گار سیہ کار بندے ہو ، نہ جانے کس گستاخی کے مرتکب ہو جاؤ اور تمہاری عبادت ہی رائیگاں چلی جائے ۔ ایک گنہ گار اور سیہ کار کے دامن میں سوائے ندامت و شرمندگی کے ہوتا بھی کیا ہے ۔ بار بار کی کوشش کے باوجود میں اس کتاب کی اشاعت سے گریز ہی کرتا رہا ۔ یہاں تک کہ کچھ دوستوں نے مجھے اس کی اشاعت پر مجبور کر دیا ۔‘‘ اور یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ اگر یہ سفر نامہ شائع نہ ہوتا تو ایک بہترین سفر نامہ پڑھنے سے بہت سارے پڑھنے والے محروم رہ جاتے ۔
سفر نامے کے گیارہ ابواب ہیں اور پانچ ضمیمے ہیں ۔ پہلے باب کا عنوان ہے ’ جہاں نور ہی نور تھا ‘۔ اس باب کا آغاز مدینہ منورہ میں جہاز کی لینڈنگ کے اعلان سے ہوتا ہے ۔ اور آگے سرزمین مدینہ کے اوصاف اور وہاں کی اہمیت کا ذکر کیا جاتا ہے: ’’ وہ مقدس شہر جہاں خدا کے سب سے محبوب اور اول و آخر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ ہے اور جو خدا اور اس کے محبوب ﷺ کا سب سے پسندیدہ شہر بھی ہے ۔‘‘ دوسرا باب ’ مسجد نبوی میں حاضری ‘ کے عنوان سے ہے ۔ یہ باب دلی کیفیات سے لبریز ہے ۔ روضہ اطہر ﷺ کا ذکر ملاحظہ کریں : ’’ روضہ اطہر ﷺ کے ہر سمت درود و سلام پڑھنے والے انفرادی اور اجتماعی طور پر سراپا ادب مگر مگن نظر آئے ۔ ان گنت لوگ کا ہجوم اس حجرہ مبارک کا دیدار کرنے جہاں آپ ﷺ حضرات صاحبینؓ کے ساتھ آرام فرما ہیں ، اور حضور ﷺ کے روضہ کی جالی کو چھونے یا چومنے کی کوشش میں جذبات سے اتنا مغلوب ہو گیے کہ کسی کو اپنی سدھ ہی نہیں رہی ۔ حالانکہ یہ وہ جا ہے جہاں فرشتے بھی با ادب رہتے ہیں ۔ ہماری تو بساط ہی کیا ، بڑے بڑے علمائے دین ، متقی ، پرہیز گار اور خدا رسیدہ بزرگ یہاں آکر خود کو اس تنکے سے بھی کم تر سمجھتے ہیں جسے ہوا کا ایک جھونکا آن واحد میں اڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے ۔ ظاہر ہے یہ دربار ہی ایسا ہے ۔ اللہ کے پیارے نبی ﷺ کی آخری آرام گاہ پر پہنچ کر اہل ایمان کے جذبات واحساسات پر جو بہار آتی ہے ، وہ بیان ہی نہیں کی جاسکتی ۔ یہاں آس پاس کھڑے ہوئے کسی شخص کی آنکھ ایسی نہیں ہوتی جو خوشی اور عقیدت کے جذبات سے نم نہ ہو ۔ روضہ اطہر ﷺ کی زیارت کے لیے لوگوں کے اژدہام میں شامل ہو کر ہم بھی دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گیے ۔ پھر نہ جانے کیسے چلتے چلاتے ، گرتے پڑتے آخر کار حضور ﷺ کی جالی تک پہنچے جہاں کئی سیکورٹی جوان تعینات تھے اور لوگوں کو ان حرکات سے روک رہے تھے جو محبت کا نتیجہ سہی مگر ادب کے خلاف ہیں ۔ روضہ ﷺ کی جالی کے قریب جو بھی پہنچ جاتا ہے وہ اس وقت تک ہٹنے کا نام نہیں لیتا تھا جب تک وہاں تعینات سیکورٹی جوان اسے ہٹا نہیں دیتے ۔ سلام پیش کرنے کے بعد جب ہم باہر نکلے تو ٹھنڈی ہواؤں کے باوجود سر تا پا پسینے میں شرابور تھے ۔‘‘ بعد کے ابواب ہیں ’ مدینہ منورہ سے مکہ مدینہ ‘،’ خانہ کعبہ کے پہلو میں ‘،’ حرم شریف کی چہل پہل ‘،’ عبادت و ریاضت کی بہار ‘،’ خیموں کی بستی میں ‘،’ میدان عرفات کا بدلتا ہوا سماں ‘،’ آنسوؤں کا سمندر ‘،’ عرفات سے مزدلفہ روانگی ‘ اور ’ وقت کی کش مکش ‘۔ ان ابواب میں حج کی ادائیگی اور حجاج کرام کی قلبی کیفیات ، لوگوں کی تڑپ ، مذہبی مقامات کی تفصیلات غرضیکہ سب کچھ پڑھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۔ ایک باب میں اس بھگڈر کا حال ہے جس میں چارسو سے زائد حجاج کرام شہید ہوئے تھے ۔ معصوم مرادآبادی نے سارا منظر ایک صحافی کی آنکھ سے بھی دیکھا اور زائر کی آنکھ سے بھی اور منظر تحریر کرنے میں دونوں ہی کیفیات جمع کر دیں؛ ’’ ایک مصری خاتون نے آگے سے چلا چلا کر کہا کہ ’ اے مسلمانوں رحم کرو ‘۔ بعد کو آگے جا کر معلوم ہوا کہ یہ عورت وہاں پڑی ہوئی لاشوں اور کچلتے ہوئے بےبس لوگوں کو دیکھ کر رحم کی بھیک مانگ رہی تھی ۔ آگے ایک مرد اور عورت کی کچلی ہوئی لاشیں پڑی ہوئی تھیں اور لوگ ان پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھ رہے تھے ۔‘‘ پورا منظر ہے ، جس میں معصوم مرادآبادی اور ان کی اہلیہ کے گرنے اور موت کو سامنے محسوس کرنے کا ذکر بھی شامل ہے ۔ کون تھا اس بھگدڑ کا قصور وار؟ اس سوال کا جواب بھی کتاب میں دیا گیا ہے ۔ پانچ ضمیمے مکہ اور مدینہ کی محبت سے بھرے ہوئے ہیں ۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سفرِ حج کے لیے آمادہ کرتی بلکہ کہتی ہے کہ آٹھ باندھ کمر ۔
کتاب کا وقیع مقدمہ پروفیسر محسن عثمانی ندوی کا تحریر کردہ ہے ، اس کا ایک اقتباس حرفِ آخر کے طور پر پیش ہے : ’’ حج کا سفر ایک عاشقانہ سفر ہے ۔ اس سفر نامے میں معصوم مرادآبادی نے اپنے عاشقانہ شوق و ذوق کے جذبات کو بہت موثر انداز میں پیش کیا ہے اور ایسے تمام مقامات پر وہ صحافی سے زیادہ قادرالکلام ادیب نظر آتے ہیں ۔ ان کے دل کی ولولہ انگیزی انشاء پردازانہ اسلوب سے بدل جاتی ہے ۔ ان کے جملے ان کے دل کی دھڑکنوں کے آئینہ دار بن جاتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا سفر نامہ ہے جس میں ایک صحافی کے مشاہدات اور ایک ادیب کے جذبات بہم ہو گیے ہیں ۔ جس میں ہوش بھی ہے اور جوش بھی ۔ کبھی دل کے ساتھ پاسبانِ عقل ہے اور کبھی دل کو جنونِ شوق اور جذبہ عشق میں بہنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے ۔‘‘
اس سفر نامے کا انتساب معصوم مرادآبادی نے اپنی والدہ مرحومہ کے نام کیا ہے ۔ ’ خبردار پبلیکیشنز ، نئی دہلی ‘ سے شائع ہونے والی یہ خوبصورت کتاب 128 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت 200 روپیے ہے ۔ اسے موبائل-فون نمبر 9810780563 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں