سب گول مال ہے/حیدر جاوید سیّد

سب گول مال ہے رے “بھیا” سب گول مال ہے

قلم مزدوری کی ابتدا سے اب تک نصف صدی کے مرحلے میں دو تین باتیں سمجھ نہیں پایا اولاً سول ملٹری اشتراک (ایک پیج والا)کا راگ کیوں الاپا جاتا ہے۔ ثانیاً باقی کی دنیا میں بھی عسکری شعبہ کے منصب داروں کے ایسے ہی کروفر کیوں نہیں ہوتے جیسے ہمارے ہاں ہیں ثالثاً باقی کی دنیا میں عسکری منصب داروں کے معمول کے بیانات کو “بریکنگ نیوز” کے طور پر شائع و نشر کیوں نہیں کیا جاتا۔

رابعً ہمارے عسکری منصب دار اس حلف کی پاسداری کیوں نہیں کرتے جو وہ تربیت کا عمل مکمل ہونے پر اٹھاتے ہیں۔ ایک بات اور ہمارے سیاستدان عوام کی طرف دیکھنے کی بجائے عسکری منصب داروں کی طرف کیوں دیکھتے ہیں۔ نہ سمجھ میں آنے والی باتیں اور بھی ہیں مثلاً 93فیصد مسلم آبادی والے ملک میں اسلام ہمہ وقت خطرے میں کیوں رہتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم (یعنی ہمارے کرتا دھرتا) کچھ نیا کرنے کی بجائے “ریگ مار” مارے بغیر پرانی چیزوں، محلوں، چوکوں، سڑکوں اور بستیوں کے مذہبی نام کیوں رکھنے کے شوق میں مبتلا رہتے ہیں؟

جب کبھی یہ سوالات ستانے لگتے ہیں تو سوچتا ہوں جس ملک میں دودھ، لال مرچ، چائے کی پتی خالص نہ ملتے ہوں آئے دن یہ خبر ملے کہ فلاں ہوٹل والے گدھے یا کتے کا گوشت مہینوں نہیں بلکہ سالوں گاہکوں کو کھلارہے تھے اسی ملک کے ہر محلے میں تین سے پانچ مساجد ہیں تو پھر لوگوں کی اخلاقی حالت ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بگڑتی کیوں جارہی ہے۔

اچھا یہاں درست کیا ہے۔ کچھ بھی تو نہیں ایک جھوٹ کو نبھانے کے لئے ہزار جھوٹ بولے جاتے ہیں وہ مثال تو آپ نے اپنے سفر حیات میں درجنوں بار سنی ہوگی “لُچا سب توں اُچا”۔ چار اور نگاہ دوڑاکر دیکھ لیجئے ہر سو بلکہ ہر شعبے میں یہی صورتحال ہی تو ہے۔

365 دنوں میں کوئی دن (دو عیدوں کو نکال لیجئے) شاید ہی ایسا ہوتا ہو جس دن خیبر سے کراچی اور مری سے لسبیلہ کے درمیان سینکڑوں بلکہ ہزاروں چھوٹے بڑے مذہبی اجتماعات منعقد نہ ہوتے ہوں پھر بھی منافع خوری، سینہ زوری، چور بازاری، ملاوٹ اور وہ دوسرے دھندے عروج پر ہیں جن کی کوئی مذہب، عقیدہ، سماجی روایات اور اخلاقیات اجازت نہیں دیتے۔

آپ ذرائع ابلاغ کے دونوں حصوں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ہی لے لیجئے اور زیادہ نہیں تو پچھلے 24 برسوں کے دوران ان کے کردار کا تجزیہ کیجئے اور پھر اور پھر سینے پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ انہوں نے اس ملک میں بسنے والوں کے سیاسی سماجی شعور میں اضافے کے لئے کیا کردار ادا کیا اور اخلاقی سماجی و سیاسی روایات کی کامل بربادی میں کتنا حصہ ڈالا؟

دستیاب 5 مسلم مکاتب فکر (یہ بنیادی طورپر تو 2 ہی ہیں مکتب امامت اور مکتب خلافت) کے ہزارہا مدارس ہیں ان مدارس کے طلباء کے لئے جھوم جھوم کر ایک روایت بیان کی جاتی ہے “دینی مدارس میں پڑھنے والے طلبا سرکار دوعالمﷺ کے مہمان ہوتے ہیں”

کئی برس ہوتے ہیں میں نے ایک عالم دین دوست سے سوال کیا “اگر دینی مدارس کے طلبا سرکار دوعالمﷺ کے مہمان ہوتے ہیں تو پھر انہیں صدقہ زکوٰۃ و خیرات کیوں کھلاتے ہیں؟

انہوں نے مجھ سے کہا، شاہ جی اس سوال کی خاص وجہ ہے کوئی۔

جی میں نے عرض کیا، وجہ یہ ہے کہ اگر ہمارے یا آپ کے گھر میں مہمان تشریف لائیں تو کیا ہم اپنے مہمانوں کی صدقہ، زکوٰۃ، خیرات کی رقوم سے میزبانی کریں گے؟ وہ بولے بالکل بھی نہیں۔ عرض کیا پھر وقت ملے تو غور کیجئے گا کہ جس رقم سے ہم اپنے مہمان کی میزبانی کرنے کو تیار نہیں

ایسی رقم سے سرکار دوعالمﷺ کے مہمان قرار پانے والے طلبہ کے قیام و طعام کا بندوبست کیوں کرتے ہیں اسی رقم سے اساتذہ کی تنخواہیں کیوں ادا ہوتی ہیں؟

انہوں نے بہت مہارت کے ساتھ گفتگو کا موضوع تبدیل کردیا۔ میرا سوال آج بھی اپنی جگہ موجود ہے۔

کالم کی ابتدائی سطور میں نہ سمجھ میں آنے والی پانچ سات جن باتوں کا ذکر کیا وہ بھی اصل میں ذہن میں ابھرتے سوالات ہی ہیں۔ یقین کیجئے مجھے بہت حیرانی ہوتی ہے۔ اخباری دنیا میں قلم مزدوری کی ابتداء بچوں کا صفحہ بنانے سے شروع کی تھی اگلے مراحل میں رپورٹر، سب ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر اور مختلف اخبارات و جرائد میں بحیثیت ایڈیٹر بھی فرائض سرانجام دیئے۔ اس دوران دنیا جہان کے اخبارات و جرائد دیکھنے پڑھنے کا موقع ملا۔

خیر چھوڑیئے آپ مجھے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کی مسلح افواج کے سربراہ کا نام بتادیجئے۔ پڑوسی کے ملک بھارت کے آرمی چیف کے بیان کی پرنٹ میڈیا میں سپر لیڈ یا لیڈ کے طورپر اشاعت دیکھادیجئے۔

کور کمانڈر میٹنگ خالصتاً پروفیشنل میٹنگ ہوتی ہے کبھی بھارت، امریکہ، برطانیہ، ایران، سعودی عرب، وغیرہ وغیرہ میں کور کمانڈروں کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے پریس ریلیزوں کو 2کالمی خبر سے زیادہ اہمیت ملی؟

اسے بھی چھوڑیں ہمارے ہاں تو اعلیٰ عدالتوں میں سیاسی مقدمات کی سماعتوں کے دوران ججوں کے ریمارکس ہوں یا ججوں اور وکلاء میں ہوئے سوال و جواب، یہ بھی صفحہ اول کی چیختی ہوئی سرخیوں والی خبریں بنتی ہیں کیوں؟

ہم نے تو سنا تھا جج نہیں بولتے فیصلے بولتے ہیں یہاں جج بولتے ہیں اور فیصلوں کا پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ کیا ہوں گے۔

ججز کی تقرری کا جو عمل ہمارے ہاں ہے وہ اور کہیں ہے۔ بھارت، برطانیہ، امریکہ وغیرہ میں کتنے لاء چیمبرز کے بارے میں وکلاء میں یہ عمومی سوچ پائی جاتی ہے کہ یہ فلاں فلاں لاء چیمبرز، ججز تقرری کے عمل میں بادشاہ گر کا درجہ رکھتے ہیں۔

ہمارے یہاں تو فوجی آمر کے وزیر مشیر اور قانونی معاونین بننے والے بے شرم آگے چل کر جج بن جاتے ہیں اب بھی ہیں۔

ہم ایک عجیب و غریب ملک میں رہتے ہیں یہاں فوج اور پارلیمان میں دوہری شہریت والا نہیں ہوسکتا۔ سرکاری افسری اور ججز وغیرہ میں سب چلتا ہے۔ کیوں چلتا ہے یہ کوئی راز نہیں۔ 76 برس سے کچھ اوپر ہوگیا وقت اس ملک کو بنے ہوئے۔ ہم آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ بٹوارے اور آزادی میں فرق کیا ہوتا ہے آزادی عصری شعور پر لی جاتی ہے بٹوارہ نفرت پر ہوتا ہے۔

1947ء کے بٹوارے کی بنیادوں میں نفرت ہے، خون ہے، لاشیں ہیں اور آگ و راکھ۔ اس کے سوا کچھ ہے تو طالب علم کی رہنمائی کیجئے۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ ہمارے پاس تو تاریخ اپنی ہے نہ ہیرو اپنے ہیں۔ ہمارا اصل کچھ نہیں۔ ہر چیز مصنوعی ہے۔ ہر سُو دھندے باز دندناتے پھر رہے ہیں۔ ایسا پکا پیٹھا منہ بناکے جھوٹ بولتے ہیں ہمارے ہاں کہ جھوٹ بھی شرمسار رہتا ہے کہ کس مخلوق کے ہتھے چڑھ گیا ہوں۔

مثلاً اس ملک کے مقبول عام لیڈر بلکہ امت مسلمہ کی آخری امید عمران خان جب وزیراعظم تھے تو وہ ہمیں فوجی عدالتوں کے فضائل ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر سناتے رٹواتے تھے صرف وہی نہیں بلکہ ان کے عاشق صادق عمران ریاض المعروف نکاح برائے جہاد الشام والے ان ملکوں کی فہرست نکال کر دیکھاتے تھے جہاں فوجی عدالتیں کام کررہی ہیں اور پھر پوچھتے تھے کہ “ان ملکوں میں فوجی عدالتیں ہوسکتی ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں؟” اب عمران خان ان کی جماعت اور ان کے نام پر کمائی کرنے والے یوٹیوبرز سارے فوجی عدالتوں کے نقصانات بیان کرتے نہیں تھکتے۔

شاعر کے بقول “منافق ہیں ہم لوگ اور گڑے کے منافق”۔

کالم یہاں تک آن پہنچا جہاں تنگ دامنی کی دستک آخری سطور لکھنے پر متوجہ کرتی ہے۔ یہ شہروں، قصبوں، بستیوں، سڑکوں اور چوکوں کی مسلمانی کا جو عمل ہمارے ہاں جاری و ساری ہے اس سے سماج کے اندر بھی “مسلمانی” پھلی پھولی کہ نہیں؟ ہمزاد فقیر راحموں کا کہنا ہے، یار شاہ جی

“سب گول مال ہے رے “بھیا” سب گول مال ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بات اس کی درست ہے سب گول مال ہی ہے لیکن یہ بھی ایک نمبر نہیں بلکہ دونمبری ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply