کاغذی نسل کشیوں سے نوبل پرائز نہیں ملتے /اعظم معراج

24اگست 2024
2023کی مردم شُماری کے اعداد و شمار پبلک کردئیے گئے ہیں ۔۔پہلی چار مردم شماریوں میں  34 سال تک مسیحیوں کی آبادی 44 فیصد اوسطاً ہر دس سال بعد بڑھتی رہی, اسی حساب سے اگر مردم شُماری ہوتی رہتی, تو مسیحیوں  کی آبادی آٹھویں مردم شُماری میں 5687996ہوتی .جبکہ ہوا یہ کہ  اگلے 17 سال بعد جو مردم شُماری1998 ہوئی, تو مسیحیوں  کی آبادی 17 سال میں اوسطاً 59.71 فیصد بڑھی جبکہ اسکی سالانہ شرح 3.59 تھی  ۔اصل غلطی یا کھیل اگلے 19 سال بعد 2017میں ہونے والی مردم شُماری میں ہوا ۔جس میں مسیحیوں  کی آبادی 19 سال بعد صرفِ 549146 بڑھی ۔جسکی سالانہ شرح 1.38 فیصد تھی  ۔ہندوؤں کی مجموعی آبادی پہلے 34سال چار مردم شماریوں میں ہر دس سال بعد اوسطاً 34فیصد بڑھتی رہی ۔۔ اگر مردم شماری 1981 کے بعد 1998 میں 17سال بعد اور اسکے بعد 19 سال بعد نہ ہوتی۔۔ تواسی شرحِ سے 2023 کی آٹھویں مردم شُماری میں شیڈول کاسٹ اور ہندو جاتی آبادی مجموعی طور پر 4114424 ہوتی  ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شیڈول کاسٹ ہندو  تعلیمی ،معاشی طور پسماندہ ، اور کئی قبائل آج بھی خانہ بدوشی کی زندگیاں گزارتے ہیں،جس وجہ سے شروع کے سالوں میں شائد اتنے رجسٹرڈ نہ ہوتے ہوں ،یوں اگر مجموعی ہندو  آبادی میں 20 فیصد کا اضافہ کر بھی لیا جائے تو بھی یہ آبادی 4937308 ہوتی ۔۔ لیکن  مجموعی ہندو  آبادی 2023 کی مردم شُماری میں 5217216 ہے ۔

یہ بھی ٹھیک مان لیتے ہیں۔  شاید  اتنی ہی ہو ۔۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے، کہ پہلی تین مردم شماریوں میں مسیحی اور شیڈول کاسٹ آبادی ہندؤ جاتی کے مقابلے زیادہ تھی اور اسی حساب سے مسیحی آبادی کے بڑھنے کی شرح بھی زیادہ تھی۔  جب کہ چوتھی مردم شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ ہی ختم کر دیا گیا ہے ۔۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے شیڈول کاسٹ زیادہ تر 1972 کے بعد ہجرت کر گئے اور پھر تھوڑے تھوڑے واپس آنے شروع ہوئے ۔ جو کہ 1998 کی مردم شُماری میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔۔ ۔۔ اس وقت ہندؤ جاتی 3867720 شیڈول کاسٹ 1349487 اور مسیحی 3300788 رہ گئے ہیں۔۔ لگتا ہے ۔۔1998 کی مردم شماری کے 19 سال بعد 2017 ہونے والی مردم شماری جب مسیحی وزیر شماریات، ہندؤ چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے شماریات اور ن لیگ کی حکومت میں یہ طے کیا گیا کہ مسیحیوں  اور شیڈول کاسٹ ہندؤوں کی تعداد کو کم کرکے   ہندو  جاتی کی تعداد کو بڑھانا ہے۔ پتہ نہیں اس میں اس وقت کے حکمرانوں کی کون سی حکمت اور دانش تھی۔۔ یا کوئی بہت بڑی غلطی تھی ۔۔ لیکن مسیحیوں  کے مسلسل احتجاج کے باوجود اس غلطی کو 2023 کی مردم شُماری میں درست نہیں کیا گیا ہے ۔۔بلکہ لاکھوں کا وہ فرق اسی طرح اب 2023 کی مردم شُماری میں بھی موجود ہے۔۔ فرض کریں کہ اگر اس وقت کے حکمران یہ سمجھتے تھے ۔ (اتفاق سے آج پھر اسی سیاسی جماعت کی حکمرانی ہے ۔)۔ اور وہ آج بھی دنیا کو یہ تاثر دے کر کے پاکستان میں ہندؤ جاتی کی تعداد 39 لاکھ کے قریب ہے،اور ہماری حکومت صرف انکے لئے ہر وقت شہد اور دودھ کی نہریں بہاتی رہتی ہے۔ تو وہ ،ہندؤ جاتی کمیونٹی کی آبادی کو جتنا مرضی بڑھا لیں امن کا نوبل پرائز بھی حاصل کر لیں ۔۔ لیکن حقیقت میں مجموعی اقلیتی آبادی کی 80فیصد تعداد کے حامل مذہبی گروہوں شیڈول کاسٹ اور مسیحیوں  کی کاغذی نسل کشی کرکے یہ تاثر دینا، کہ 1998 کے بعد مسیحی اور اور 1972 کے بعد شیڈول کاسٹ پاکستان سے ہجرت کرگئے ہیں۔۔ اور لاکھوں ہندؤ جاتی دیگر ممالک سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے ہیں ۔ یہ تاثر کبھی بھی درست نہیں مانا جا سکتا ۔  اور یہ نوبل پرائز حاصل کرنے کی ایک انتہائی بھونڈی حرکت ہے ،کیونکہ آپ اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ان آبادیوں میں جتنے مرضی ردوبدل کرلیں ،یا چاہے کسی مسیحی وزیر سے ہی کیوں نہ کرا لیں، لیکِن اب انسانوں کی شعور، آگاہی کی سطح بڑھانے کے بڑے ہی سستے زرائع بہت پیدا ہوگئے ہیں۔۔ لہٰذا مؤدبانہ گزارش ہے ۔ کہ ان ایک کروڑ کے قریب غیر مسلم شہریوں کی گنتی میں شفافیت آپکی حکومت کے لئے بہت نیک نامی لا سکتی ہے ۔ اس لئے اس کام کو انتہائی سنجیدگی سے انجام دیں۔ ورنہ پبلک سب جانتی ہے۔اور ن لیگ کا ووٹ بینک سارہ پنجاب بیس ہے۔ اور مسحیوں کی مجموعی آبادی کا 80 فیصد سے بھی زیادہ پنجاب کے شہری علاقے ہیں ۔ اور یہ تقریباً 15 لاکھ کے قریب ووٹرز صرفِ پنجاب کی 10 سے 15 قومی اور 25 سے 30 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ اور انکی کی اکثریت نے 2017 کی اس کاغذی نسل کشی کو بہت سنجیدگی سے دل پر لیا ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply