بُلھے کا شاہ عنایت/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

دوستو!چند دن پہلے قصور میں بابا بلھے شاہؒ کا عرس گزرا ہے۔
بابا بلھے شاہ کو ان کے خوبصورت کلام کی وجہ دنیا بھر میں جانا جاتا ہے وہیں ان کے مرشد، ان کے استاد حضرت عنایت شاہ قادریؒ کے بارے بہت سے احباب زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ بیشتر مرید، پیر سے زیادہ مشہور ہو جایا کرتے ہیں۔
بابا بلھے شاہ کے عرس کے بعد جمادی الثانی میں انکے پیر و مرشد شاہ عنایت قادری کا عرس آتا ہے۔ چلیں ان کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔

میرا پیر ہے شاہ عنایت
میرے سر دا چھت کُڑے
میرا رانجھا ماہی جَٹ کُڑے

کہا جاتا ہے کہ شہر لاہور کے چار کونوں پر موجود گدیوں کے وارث چار شاہ ہیں جو سید تو نہیں ہیں لیکن عزت و احترام سے ان کے نام سے پہلے شاہ لگایا جاتا ہے۔
یہ میاں میرؒ، شاہ حسینؒ، شاہ ابوالمعالیؒ اور شاہ عنایت قادریؒ ہیں (حالانکہ میاں میر کے نام سے پہلے شاہ کبھی نہیں سنا)۔
آج ذکر ہے ان میں سے ایک شاہ، عنایت اللہ قادری شطاریؒ کا جن کی آخری آرام گاہ لاہور میں سرگنگا رام اسپتال کے پاس کوئینز روڈ پر واقع ہے۔

1646 کو قصور میں ارائیں برادری کے میاں پیر محمدؒ کے ہاں پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمد عنایت اللہ قادری (کنیت ابوالمعارف) رکھا گیا جو آگے چل کر شاہ عنایت قادریؒ کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کے اجداد کاشتکاری کے پیشے سے منسلک تھے جبکہ والد ایک مسجد کے امام تھے۔ ابتدائی تعلیم والد گرامی سے قصور میں ہی حاصل کی اور پھر لاہور پہنچ کر شاہ محمد رضا قادری شطاریؒ اور حضرت شیخ سلطان بخاریؒ سے فیض پایا۔
قرآنِ مجید، عربی و فارسی پر عبور حاصل کرنے کے بعد تزکیہ نفس کے لیئے خلوت گاہوں کا رخ کیا۔ یہاں آپ تصوف اور دیگر روحانی علوم کی طرف مائل ہو گئے۔

الف اللہ دل رتّا میرا
مینوں ‘‘ب‘‘ دی خبر نہ کائی
‘‘ب‘‘ پڑھیاں کجھ سمجھ نہ آوے
لذّت الف دی آئی
‘‘ع‘‘ تے ‘‘غ‘‘ دا فرق نہ جاناں
ایہہ گَل الف سُجھائی
بُلھیا! قول الف دے پورے
جیہڑے دل دی کَرن صفائی

(بلّھے شاہ)​

لاہور میں حضرت رضا شاہ قادریؒ کی بیعت کرنے کے بعد ایک طویل عرصہ آپ انہی کی صحبت میں رہے اور پھر اپنے مرشد سے خلافت پائی۔ تبھی آپؒ کا سلسلہ طریقت قادریہ شطاریہ ہے۔
پھر جب مرشد کا حکم ہوا تو آُپ قصور تشریف لے آئے اور اِس سلسلے کے فیض کی ندیوں کا رخ قصور کی طرف ہو گیا۔
یہاں سے شروع ہوئی مرشد و مرید کے عشق کی داستان جس نے سرزمینِ پنجاب کو بابا بلھے شاہ عطا کیا۔
قصور میں آپ کے دو شاگرد ایسے تھے جو آگے چل کر پنجابی شاعر کے وارث کہلائے، ایک قصور کے بابا بلھے شاہؒ اور دوسرے جنڈیالہ شہر خان کے وارث شاہؒ۔
لیکن یہاں بلھے شاہ کی کہانی کا ذکر ہوگا۔

ہندوستان کے دیگر کچھ علاقوں کی طرح سرزمینِ پنجاب میں بھی ذات پات اور برادری کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ اسلام میں مساوات و برابری کی اہمیت مُسلمہ ہونے کے باوجود آج تک ذات و برادری کے نام پر بھید بھاؤ کیا جاتا ہے۔

بہت سی ذاتیں اعلیٰ جبکہ کچھ ادنیٰ خیال کی جاتی ہیں۔ بابا بلھے شاہ کا تعلق ایک سید خاندان سے تھا جو ایک بڑی ذات ہے اور شاہ عنایت قادری ایک ارائیں تھے جنہیں تب کم تر خیال کیا جاتا تھا۔
ایک مرشد کی تلاش میں جگہ جگہ پھرنے والے بُلھے شاہ، جب شاہ عنایت کے حلقے میں پہنچے تو ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بنا نا رہ سکے۔ شاہ عنایتؒ، نہ صرف صوفیانہ مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے بلکہ قادریہ سلسلے سے بھی بیعت تھے اس لیے ان کی ذات میں یہ دونوں سلسلے مل کر ایک نئی ترکیب کا موجب بنے اور بلّھے شاہ نے انہیں مرشد مان لیا۔
یوں بلّہے شاہ نے ذات پات اور فرقے کے سب بندھن توڑ کر عقیدت و محبت کا راستہ اپنایا۔
لیکن رب کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

خبر کا پہنچنا تھا کہ بلھے شاہ کے خاندان والوں نے ایک طوفان برپا کر دیا کہ آخر ایک سید بادشاہ کسی ارائیں کا مرید کیونکر ہو سکتا ہے؟
حکم ملا کہ تمہیں مرشد چاہیئے تو کوئی سید ڈھونڈ لو۔۔
لیکن یہ تو دل کا کھیل تھا، جہاں لگ گیا سو لگ گیا۔
خاندان اور معاشرے کے شدید دباؤ نے آپ کو مجبور کر دیا اور بلھے شاہ اپنے مرشد کے پاس جا کر یہ بتلا آٸے کہ اب مزید وہ ان کے شاگرد نہیں رہ سکتے۔ ہم بھی تو چار لوگوں کی باتوں میں آ ہی جاتے ہیں۔

جس پر شاہ عنایت نے فرمایا :
”تم کھو گئے ہو”

یہ الفاظ بلھے شاہ کا پیچھا کرتے رہے اور مرشد سے الگ ہو کر بھی انہیں کہیں قرار نہ  آیا۔ اپنے استاد کے لیئے ان کی محبت نے سر اٹھایا تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اسی احساس کے تحت وہ واپس گئے اور معافی مانگ کر استاد سے انہیں واپس قبولنے کی درخواست کی۔۔۔۔۔

بُکل دے وِچ چور نی میری بُکل دے وِچ چور
چوری چوری نکل گیا پیا جگت وچ شور

میری بُکل دے وِچ چور

مسلمان سوّیاں توں ڈردے، ہندو ڈردے گور
دوویں ایس دے وچ مردے، ایہو دوہاں دی کھور

میری بُکل دے وچ چور

رام داس کتے فتح محمد، ایہو قدیمی شور
مٹ گیا دوہاں دا جھگڑا، نکل پیا کجھ ہور

میری بُکل دے وِچ چور

عرش مُنور مِلیاں بانگاں، سُنیاں تخت لہور
شاہ عنایت کُنڈیاں پاٸیِاں، لُک چُھپ کھِچدا ڈور نی

میری بُکل دے وِچ چور

لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
شاہ عنایت نے انہیں معاف کرنے سے انکار کر دیا اور واپس بھیج دیا۔
اب شروع ہوا ان کی محبت کا اصل امتحان۔
پشیمان، افسردہ اور ہارا ہوا بلھے شاہ سیدوں کے گھر جانے کی بجائے ان خانہ بدوشوں کی آماجگاہوں کی طرف جا نکلے جنہیں دنیا کنجر کے نام سے یاد کرتی ہے۔
اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرنے اور اپنی ذات کو مٹی کرنے کے لیئے بلّھے شاہ نے خود کو ان ناچنے والوں کو سونپ دیا جنہیں معاشرے میں ایک نیچ ذات خیال کیا جاتا ہے۔ یوں وہ اپنی ”میں“ مٹانے کے ساتھ ساتھ خاندان سے بھی الگ ہو گئے۔
کئی سال آپ ان ناچنے والوں کے ساتھ رہے۔ ان جیسے کپڑے پہنے اور عشق کی دھمال ڈالی۔

جِس تن لگیا عشق کمال
ناچے بے سُر تے بے تال

درد منداں نوں کوئی نہ چھیڑے
جس نے آپے دُکھ سہیڑے
جمنا جِیونا مُول اگھیڑے
بُوجھے اپنا آپ خیال

جِس تن لگیا عشق کمال
ناچے بے سُر تے تال

جِس نے ویس عشق دا کیتا
دُھر درباروں فتویٰ لیتا
جدوں حضوروں پیالہ پیتا
کُجھ نہ رہیا جواب سوال

جِس تن لگّیا عِشق کمال
ناچے بے سُر تے بے تال

(بلھے شاہ)

یہ آپ سے اپنے مرشد کے سامنے نادانستگی میں سرزد ہونے والے امتیازی سلوک کا علامتی کفارہ تھا جو آپ کو بہرحال دینا ہی تھا۔ یہاں بلھے شاہ کو اپنی میں مٹا کر سکون ملا اور پھر وہ دن آیا جب بابا بلھے شاہ نے زنانہ لباس زیب تن کر کے اپنے مرشد کے سامنے اپنے دل کی بات کہی۔
معافی کےخواستگار ہوئے اور اپنے لکھے کلام ”تیرے عشق نچایا” پر ایک ماورائی رقص کیا۔ یا پھر وہ ہو گیا۔

تیرے عشق نے ڈیرا، میرے اندر کیتا
بھر کے زہر پیالہ، میں تاں آپے پیتا
جھبدے بوہڑِیں وے طبیبا، نہیں تاں میں مر گئی آ
تیرے عشق نچایا کرکے تھیّا تھیّا

ایس عشق دے کولوں، مینوں ہٹک نہ مائے
لاہُو جاندڑے بیڑے، کیہڑا موڑ لیائے
میری عقل جو بُھلّی، نال مہانیاں دے گئی آ
تیرے عشق نچایا کرکے تھیّا تھیّا

ایس عشقے دی جھنگی وچ مور بولِیندا
سانوں قبلہ تے کعبہ، سوہنا یار دسِیندا
سانوں گھائل کر کے، پھیر خبر نہ لئی آ
تیرے عشق نچایا کرکے تھیّا تھیّا

بُلّھا شَوہ نے آندا، مینوں عنایت دے بُوہے
جس نے مینوں پوائے ، چولے ساوے تے سُوہے
جاں میں ماری ہے اَڈّی، مِل پیا ہے وہیّا
تیرے عشق نچایا کرکے تھیّا تھیّا

بلھے شاہ کی مخلصانہ عقیدت اور توبہ کو محسوس کرتے ہوئے شاہ عنایت نے آپ کو معاف کر دیا اور یوں بلھے شاہ کی کڑی تپسیا کا باب بند ہوا۔
بابا بلھے شاہؒ کا لکھا گیا کلام ”تیرے عشق نچایا تھیا تھیا“ آج تک پنجاب سمیت دیگر صوبوں یہاں تک کہ سرحد پار بھی بہت مشہور ہے۔ یہ کلام پنجاب دھرتی کے شعر و ادب کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ پنجابی زبان میں اپنے نچلی ذات والے مرشد سے محبت کا یہ بہترین اظہاریہ ہے جسے تب سے اب تک موسیقی کے مختلف طرزوں میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔
یہ بھی ایک حیران کن امر ہے کہ ایک صوفی بزرگ اور کئی کتب کے لکھاری ہونے کے باوجود شاہ عنایت قادریؒ کو وہ شہرت نا حاصل ہوئی جو بابا بلھے شاہؒ کا مقدر بنی۔ شاید اس میں بابا بلھے شاہ کی کڑی تپسیا اور لازوال شاعری کا ہاتھ ہے۔
اب بھی شاہ عنایت پر بہت کم لکھا گیا ہے جبکہ بابا بلھے شاہ کو پنجاب کا بچہ بچہ جانتا ہے۔

شاہ عنایت قادری پر واپس آتے ہیں۔
اس وقت کا حاکمِ قصور نواب حسین احمد خان، آپ کی مقبولیت اور آپ کے گرد عوام کا جمِ غفیر دیکھ کر گھبرا گیا۔ درباریوں کے کان بھرنے سے اسے بغاوت کا اندیشہ ہوا تو آپ کو اپنا دشمن سمجھ بیٹھا اور آپ کے لیئے اذیت کا باعث بننے لگا۔
ٹکراؤ اور کسی بدمزگی سے بچنے کے لیئے شاہ عنایتؒ نے دوبارہ لاہور جانے کا قصد کیا اور عقیدت مندوں کو سمجھا کر واپس مرشد کے شہر تشریف لے آئے۔
یہاں آپ نے اُس جگہ ایک مدرسہ قائم کر کے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا جہاں آج آپ کا مزار ہے۔ مدرسے میں قرآن، حدیث و فقہ کے ساتھ ساتھ مثنوی مولانا روم بھی پڑھائی جاتی تھی۔ اپنے دور کے مشہور قوال، مولانا روم و شاہ شمس تبریزؒ کا کلام عقیدت سے یہاں پڑھتے تھے۔

بے حَد رَمزاں دسدا
نی ڈھولن ماہی
مِیم دے اوہلے وَسدا
نی ڈھولن ماہی
اوَلیا مَنصُور کہاوے
رمز اَنَا اَلحق آپ بتاوے
آپے آپ نُوں سُولی چڑھاوے
کول کھلو کے ہسدا
نی ڈھولن ماہی

بے حد رمزاں دسدا میرا ڈھولن ماہی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کی اولاد میں دو بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے شیخ محمد زاہد اللہ قادری جو آپ کے جانشین و شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے روحانی شیخ بھی تھے جبکہ دوسرے بیٹے شیخ محمد زمان تھے۔
عربی اور فارسی میں لکھی گئی آُپ کی تصانیف اس دور کے عوام اور صوفیاء دونوں کے لیئے یکسر کارآمد رہیں۔
ان میں غایت الحواشی، شرح جواہر خمسہ، ارشاد الطالبین، اصلاح عمل، دستورالعمل، مجموعہ عرفانیہ شرح مجموعہ سلطانیہ، رسالہ در مسئلہ حرب، کلمات التامہ فی رد مطاعن الشفات، رسالہ بہز الطاعات و دیگر شامل ہیں۔ غایت الحواشی نامی کتاب پر جامعہ پنجاب میں ڈاکٹریٹ بھی کیا گیا ہے جس کے بہت سے قلمی نسخے دستیاب ہیں۔
شاہ عنایت قادریؒ نے 1728 میں وفات پائی اور لاہور میں دفن ہوئے۔
کوئینز روڈ پہ ایک خوبصورت راستہ آپ کو شاہ عنایت کے مزار اور منسلک مسجد تک لے جاتا ہے۔ آپؒ کے مزار پر سنگِ مرمر اور شیشے کا خوبصورت کام کیا گیا ہے۔ ایک اچھی بات یہ کے مزار کی دیواروں پر بابا بلھے شاہ کے خوبصورت اشعارلکھے گئے ہیں جو میرے جیسے کم علموں کی نظر میں ایک محب کا اپنے محبوب کو بہترین خراجِِ تحسین ہے۔ باہر صحن کے ایک کمرے میں آپ کی اولاد کی قبور بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply