یہ کیا ہے؟-نبیل اینتھونی

تنہائی اپنے وجود کی گُھٹن سے مرتی ہے ۔نہ اسے خوشی مار سکتی ہے اور نہ  ہی رونق کی انتہا۔ آپ میلوں ٹھیلوں کی رونق میںَ اکثر تنہا ہو جاتے ہیں اور عین تنہا کمرے میں  ناچ  اور جھوم رہے ہوتے ہیں جیسے چوگرد میلا لگا ہو ۔ پھر یوں کہہ لیجیے تنہائی تنہائی کو کھا جانے کے بعد کبھی خوشی کو جنم دیتی ہے کبھی اداسی کو ، کبھی بیزاری کو کبھی صبر کو ،کبھی ایسا عُقدہ کھولتی ہے کہ نیوٹن بنتا ہے اور کبھی ایسا کوزے میں بندھ کر دیتی ہے کہ گفتگو کا شیدائی ، شور و غل کرنے والا ، سوالات کی بھرمار کرنے والا پاتال کے ڈونگھے  پانیوں میں جا بیٹھتا ہے ۔

نفسیات کنویں کے مینڈک کے لیے نفس کی جمع ، سائنسدان کے لیے بگ بینگ تھیوری کا وہ مواد جس کے پھٹنے سے کائنات معرضِ وجود میں آئی جبکہ میرے لیے نفسیات فاروقی حفصہ اور جاوید ہیں ۔

حفصہ باجی دن میں پندرہ بیس کالز کرتی تھی جو میں مِس کر دیا کرتا تھا ۔۔مُجھے مشکل لگتا  حفصہ باجی سے بات کرنا۔ ہماری مُلاقاتیں نہ تھیں بس اُن کو ادب سے لگاؤ تھا اور مجھے بھی ۔ تو فیس بک سے ہماری بات چیت شروع ہوئی تھی جو اب واٹس ایپ تک  آ گئی  تھی ۔

میںَ کال پر بات کرنا ہی نہیں چاہتا تھا اور پتہ نہیں کیوں وہ اس بات پر قائل تھی کہ ہمیں فون کالز پر بات کرنی چاہیے البتہ و ٹس ایپ میسج پر روز حال احوال پوچھتے تھے۔بات کرتے کرتے وقت گزرتا تو بہت سارے میسج جب بھائی کہے بغیر گزر جاتے تو وہ پھر کسی اندر کی بے یقینی کو یقین دلانے کے لیے جاوید بھائی کہہ دیتی ۔ جیسے دیوانہ دیوار میں ٹکر مارتا ہے پھر وہ کال کرنے لگتی ،بارہا کال کاٹ دیتا فون کا گلہ دبا دیتا اور رکھ کر کسی کام لگ جاتا ۔
ابھی جمعہ جمعہ ہمیں ہفتہ ہی تو ہوا تھا بات کرتے ۔
حفصہ باجی کے پیغامات سے لگتا تھا وہ کسی تجربہ کو دہرانا نہیں چاہتی تھی۔

فاروقی میری موبائل شاپ سے میرا کلائنٹ تھا۔

فاروقی دن میں وقفے وقفے سے اَن گنت کالز کرتا تھا ۔ اُن کالز میں سے میں کوئی ایک آدھی اُٹھا پاتا تھا کال اُٹھاتے میں  اور فاروقی حال چال پوچھنے پچھانے کے بعد اور سناؤ اور سناؤ میں  لگ جاتے۔ فاروقی امیر ترین گھرانے کا تھا ۔قد کاٹھی پٹھانوں سی تھی رنگت کا گندمی لیکن جسم بدھا سا ہو گیا تھا جو لاہور کی مانند چاروں اطراف میں پھیل چکا تھا ۔بھولا تھا باتوں کو تیزی میں کرتا تھا اور عمر میں چونتیس برس کا تھا۔ ہمیشہ گھر کا فائدہ چاہتا تھا۔ کئی بار اُس نے کہا جاوید بھائی شادی کرنے کے لیے کام کرنا ضروری ہوتا ہےنا ، کیا کام کروں میں۔؟ ایک نیا گھر بنانا ہے امی نے اور میں نے اُس میں رہنا ہے۔ اور ساتھ ہی گاتا “بنے گا نیا پاکستان انشااللہ ”
گانے کے اختتام سے پہلے ہی اگلی بات شروع کرنے کا عادی کہنے لگتا
جاوید بھائی جِم شروع کیا ہے ۔کئی لڑکیوں کے فیس بُک پر میسج بھی آتے ہیں۔ یہ باتیں وہ روزانہ دہراتا تھا اور جب یہ تمام باتیں مکمل ہو جاتیں تو جلدی سے مجھے کہتا
خدا حافظ۔
ممکنات کی حد تک بھی اُس کی حرکات و سکنات میں توازن لانا مشکل تھا ۔ محبت کے جملے ادا کرنے کا ماہر اور جذبوں میں انتہا پسند تھا ۔ میری جب بھی اُس سے آمنے سامنے ملاقات ہوئی وہ ہاتھ ملانے کی بجائے جپھی ڈالتا ۔ کم ہنسنے والی بات پر قہقہہ لگاتا فاروقی کسی خاص توجہ کا متلاشی تھا ۔
آدھہ گھنٹہ نہیں گُزرا تھا فاروقی نے پھر کال کر دی ۔
میں اب روزانہ اُس کی ایک کال ہی اُٹھاتا تھا کیونکہ فاروقی کے سوالات وہی پرانے گھر نیا بنانا ہے ، شادی کرنی ہے ، نئے گھر میں مَیں  نے اور امّی نے اکٹھے رہنا ہے ۔ جاوید بھائی آپ آ سکتے ہیں آپ کا ایک کمرہ بنا دوں گا ۔
حیران ہوں میں بے حد حیران ہوں یہ امیر گھروں کے فقیر بچے نیا گھر، شادی اور امی کا اکٹھا رہنا ۔
فاروقی نے کالز نہ اُٹھانے پر واٹس ایپ پر میسج کیا خدا حافظ جاوید بھائی ۔
خدا حافظ کہنے کے بعد فاروقی مُجھ سے زیادہ باتیں کرنے لگتا تھا ۔

یہ نہیں کہ  میں  مصروف تھا بہت۔۔ لیکن میں فارغ بھی نہیں تھا۔ کام دھندے کو کرنے سے فارغ ضرور تھا۔ لیکن انتظار میں تھا ،انتظار سے بڑی مصروفیت کائنات میں کوئی نہیں ہے آپ کچھ اور کر رہے ہوں آفس کا کام تو آپ اس اہل ہوتےہیں  کہ آپ کسی دوسری انویلمنٹ کو اجازت دے سکیں۔ لیکن انتظار خالص رہنے میں نہایت ضدی ہے ۔یہ اپنے ساتھ کسی دوسری قسم کی شراکت نہیں چاہتا ۔ کوئی اور شراکت ہو تو یہ فرار ہو جاتا ہے ۔میں اپنی سہیلی کو وٹس ایپ پیغام بھیجنے کے بعد بڑی شدت سے اُسکے پیغام کا انتظار کرنے لگا ۔ہمیشہ کی طرح طویل انتظار کرتا رہا اور بے جان ہو گیا حرکت بالکل وجود سے جاتی رہی ۔اور دل شکوؤں سے بھر گیا۔

میں اپنے قریب کُرسی میز پنسل ، پانی کی بوتل اور باقی تمام بے جان چیزوں کو دیکھنے لگا اِن تمام کی حرکت بھی کسی دوسرے کی محتاج تھی میری طرح ۔
ان بے جان چیزوں نے بھی ضرور کوئی انتظار کیا ہو گا ۔ میں اپنی محبوبہ کو وقفے وقفے سے لاتعداد میسج کرتا پھر کبھی مہینے میں ایک آدھی بار وہ مُجھ سے بات کرتی اور جلد ہی چلی جاتی۔
اُسے مُجھ میں دلچسپی نہیں تھی پر میرے ساتھ سمجھوتا کرنے کا سوچا ضرور کرتی ۔ آخر کوئی کس کس بات پر سمجھوتا کر سکتا ہے کالی رنگت ، سُکڑا وجود اور چھوٹا سا قد اوپر سے جیب بھی خالی محبت کوئی سستی تھوڑی ہوتی ہے ۔

محبت تو مہنگا ترین جذبہ ہے ۔آپ جتنا مرضی وفاؤں کی بات کر لو ۔اپنا آپ وار دینے کے اظہار  بھی ہوں ۔ اقرار پر  اقرار ہو ۔ پہلے محبتوں میں  شائد ایسا چلتا ہو ۔لیکن اب ایسا کچھ نہیں چلتا سب صفر یارو صفر ۔شائد اُس میں  کوئی اور زندہ تھا یا نہیں لیکن مُجھ میں مَیں مر گیا تھا ۔

رات کے بارہ بجنے کو تھے ۔ابّا شہر سے باہر تھے اور میں نے آج چند دوستوں کے ساتھ باربی کیو پارٹی رکھی تھی۔ ہماری چھت پر چھوٹے ڈبوں پر رومانوی گانے لگے تھے اور رات گہری ہو رہی تھی۔ اکتوبر میں  گرمیاں الوداع کہہ چکی تھیں اور سردی اکثر موسم کو کال کرنے لگی تھی ۔
لہذا موسم اور سردی قریب ہونے لگے تھے ۔ گانے سُننے والے ڈبوں پر میرے موبائل کی رنگ ٹیون بجنےلگی موبائل کی سکرین پر نام تھا “ حفصہ باجی “ لڑکے نے آواز دی ،گھر سے کال ہے سُن لے ۔
میں نے کال کٹ کی اور موبائل رکھ کر باربی ۔کیو کی بھٹی کی طرف جانے ہی لگا۔۔۔  تو پھر کال آ گئی ۔میں   موبائل لے کر دوستوں سے تھوڑا دور جا کر کال سُننے لگا ۔باقی لڑکے باتوں میں مگن ہو گئے ۔ آج ہفتے میں  کئی کالز کے بعد پہلی بار کال اٹھائی تھی حفصہ باجی کی ۔

“اسلام علیکم “   کے بعد و ٹس ایپ والے سوالات ہی حفصہ باجی مُجھ سے پوچھنے لگی ۔

کھانا کھایا رات تھی تو پوچھنے لگی دن میں کیا کھایا تھا آپ نے ۔

دوپہر ہوتی تو پوچھتی ناشتے میں کیا کھایا
چائے پی
ابھی کدھر ہیں
میں جی ، ہاں جی ، بالکل وغیرہ کہتا رہا ۔
میں نے جواب دیا ہم باربی کیو پارٹی کر رہے ہیں دوست کی طرف۔۔ دیر تک باہر رہنا اچھی بات نہیں ہوتی ۔ ہفصہ باجی کو جوابات دیتے
ایک سوال مجھے کھٹکھٹاتا رہتا ۔

یہ کیا ہے ؟
دوسری رات دس بجے مجھے دوبارہ کال آئی
اور میں ایک کتاب کی رونمائی کے لئیے پھر باہر تھا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد ایک سوال میں اضافہ ہوا کہ کب جانا ہے گھر آنٹی جانے تک آپ کا انتظار تو کر تی ہوں گی ؟
حفصہ باجی کا بھیگا ہوا لہجہ تھا جیسے رونے کے بعد ،اداسی یا صبر کے بعد ہوتا ہے۔ اُنکی فکر مجھے سب سے پہلے اس سوچ پر مائل کرتی کہ میری محبوبہ یہ سارے سوال کب پوچھے گی مجھ سے ۔
جب بھی کوئی میری بے جا فکر کرتا تو میرا دھیان سیدھا میری محبوبہ کی طرف جاتا۔جو بس مجھے محبوب تھی۔میری محبوبہ کو مُجھ میں کوئی دلچسپی نہیں یا ادھوری دلچسپی تھی وہ مُجھ سے بات ضرور کرتی بعض عورتیں بھی گُل سے لپٹی تتلی کی طرح ہوتی  ہیں۔

حفصہ باجی نے مُجھ سے روزانہ وٹس ایپ پیغامات کی طرح کال پر بھی وہی سوال پوچھنے شروع کر دئیے۔ اور ایک آدھ  کسی نئی بات کا اضافہ کر دیتی ۔ آج کیا کھایا ؟ کتنے بجے سوئے ؟ کتنے بجے اُٹھے ؟ رات اتنی دیر کیوں کام کرتے ہیں ۔ اُن سوالوں کو حفصہ باجی مُجھے ایسے پوچھتی تھی جیسے کوئی ماں یا نہایت فکر مند بیوی پوچھتی ہو ۔اُنکی پوچھ گچھ میںَ اداسی تھی۔ میرے دل میں یہ سوال کھٹکتا رہتا کہ میں پوچھوں آپکا لہجہ اتنا اداس کیوں ہے اتنی اداسی کے باوجود بھی رُوکھا   نہیں ہے اداسی تو ویران کر دیتی  ہے اندر باہر سے لیکن آپ کا لہجہ بھیگا ہوا ہے جیسے شہد کی مکھیوں کا چھتہ شہد سے بھیگا ہوتا ہے ۔میں نے ہمت کی اور کہا حفصہ باجی اداس اداس سی ہیں آپ ۔۔

انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا اداس ۔۔۔۔ اُن کا قہقہہ ایسے تھا جیسے کسی بچے کو شرارت کرتے پکڑ لیا جائے اور وہ مُنہ پر مُکر جائے نہیں نہیں میں نے ربیقہ کی کاپی کب چھپائی میں تو یہاں سے اُسکو ڈھونڈ کے دے رہا تھا ۔میںَ نے حفصہ باجی کو اداسی چھپاتے پکڑ لیا تھا وہ مسکرائی اور کہا ٹھیک ہے بھائی۔
آج تیسرا دن تھا ہمیں بات کرتے اور حفصہ باجی نے مجھے پچھلے تین دِنوں میں پہلی بار کال پر بھائی بولا تھا ۔
میں نے کال بند  ہونے کے بعد خود سے پھر پوچھا
یہ کیا ہے ؟

فاروقی کے دس فون آئے دورانِ کال ۔ فاروقی میں تنہائی اور اکلاپا ہم دونوں سے زیادہ تھا۔ اُسکا اکلاپا کسی دوسرے دھیان میں لگ جاتا تھا اُسکا اختیار نہیں تھا کہ اپنے اکلاپے کو خالص رکھ سکے۔ پیسہ اور آسائشیں اُس کے اکلاپے کی ساتھی تھیں اُس نے گیارہویں کال کی اور میں نے کال اُٹھائی ۔
فاروقی نے میری کال اُٹھاتے ہی   پہلا سوال پوچھا جاوید بھائی کہاں تھے ۔؟ میں  نہیں آپ سے بولتا
میں آپکا بھائی نہیں ہوں ۔

توجہ کی محرومی تمام محرومیوں سے افضل ہے ۔
توجہ آپکو دیوتا بنا دیتی ہے آپکو فرعون بناتی ہے یہی موسٰی بھی ۔
کبھی کبھی تو گمان گُزرتا ہے خدا نے کائنات اس لئیے بنائی تاکہ وہ توجہ میں رہ سکے ۔
خیر فاروقی نے اظہارِ ناراضی پٹاخہ خیز کی جیسے کوئی چھوٹا بچہ شب رات پر گیارہ پٹاخے آخری گیارہ روپےکے لایا ہو اور دس پٹاخے اُسکے پھس ہو جائیں اور گیارہواں پٹاخہ چلنے کی ننھی مُنی سی اُس بچے نے دعائیں کی ہوں۔۔۔ یا خدایا یہ چل جائے ۔۔۔۔ایک تو چل جائے ۔۔ایک تو چل جائے ۔۔۔اور وہ گیارہواں پٹاخہ چل گیا ہو ۔

فاروقی کی دس کالز جو مس ہوئیں بالکل اُس کے شب رات کے دس پھُس پٹاخے تھے اور جو میںَ نے رسیو کی وہ اُسکا گیارہواں پٹاخہ تھا اُسکی فون پر ناراضی خوشی سے بھری تھی ۔ میرے معافی چاہنے کے بعد فاروقی نے کہا جاوید بھائی میں دعا کرتا ہوں آپ بھی امیر ہو جاؤ خدا بہت رزق دے آپکو بھی ۔اُسکو میری خاموشی کم بولنا میرا خالی پن اور اُسے میرا زیادہ سُننا میری معاشی پریشانی لگتی تھی لیکن فاروقی کو علم نہ تھا خالی لوگوں کے خلا روپے پیسوں سے کب بھرتے ہیں ۔
میں نے فاروقی سے پوچھا تمہاری جم کیسی جا رہی ہے ۔
فاروقی : اچھی
آنٹی کا کیا حال ہے ۔
فاروقی : پریشان ہیں بتانا نہیں امّی کو اُنکی بڑے بھائی سے آج لڑائی ہوئی ہے بیگم صاحب کی وجہ سے ہے ۔
میں نے کہا پریشان نہ ہو اللہ خیر کرے گا ۔ میںَ نے فاروقی سے اجازت لینا چاہی فاروقی نے وہی سوال دہرائے ۔
جاوید بھائی میری شادی ہو گی ، شادی کے لئیے کام کرنا پڑتا ہے نا، میںَ کیا کام کروں ،گھر بنانا ہے نیا ، اُس میںَ میںِ اور اماں اکٹھے رہیں گے ۔
ویسے بیگم کیا ہوتی ہے ۔
فاروقی نے نیا سوال کیا میںَ نے ٹھنڈے انہماک میںَ ہی جواب دیا ۔
بیگم تو بیگم ہوتی ہے ۔

فاروقی : قہقہہ  لگاتے ہوئے ۔ یہ بیگم! نویدا بھابھی ہوتی ہے ؟ جاوید بھائی ۔
میں نے کہا وہ تو آپ کے بھائی کی بیگم ہے ۔
اچھا فاروقی پھر بات ہو گی یار ۔

کال مکمل ہونے کے بعد پھر یہی سوچتا رہا کہ میری محبوبہ کو مُجھ میںَ دلچسپی نہیں اُسکو مُجھ میں دلچسپی ہو بھی کیوں ؟ حفصہ باجی کی طرح میںَ نے یہ سب سوال پوچھے تھے اُس سے کھانے میں کیا کھایا ، ناشتہ کیا کیا ، سکول سے کب آئی لیکن اُس نے مُجھ سے آج تک گُزرے سالوں میںَ ایسا کوئی سوال نہیں پوچھا تھا۔
یہ سوال خود سے پوچھتے پوچھتے میں سو گیا تھا ۔ دن چڑھا اور مجھے آج کسی کام کے سلسلے میں  حفصہ باجی کے شہر سیالکوٹ جانا تھا رات وہیں رہنا تھی میں نے اُنہیں میسج چھوڑا ۔سارا دن گُزر گیا لیکن حفصہ باجی نے میرا میسج نہ  دیکھا بارش کے بعد سردی بڑھ چُکی تھی اکتوبر کے آخری ایام کے ساتھ ساتھ سال 2009بھی خاتمے کی طرف بڑھ رہا تھا اور دھند اُترنے لگی ۔ میں اپنا کام مکمل کر کے ہوٹل کی طرف جا رہا تھا جدھر میری رہائش کا انتظام تھا ۔ کچھ منظر دھندلے رہنے چاہئیں صاف دکھائی دینے پر ویسے دکھائی نہیں دیتے جیسے دھندلے ۔
میں کمرے  میں  پہنچا، کپڑے بدلے واٹس اپ چلایا تو حفصہ باجی کی کئی کالز آ چکی تھیں ۔ میں نے کال کی بجائے میسج ہی کیا تو اُنہوں نے جواب میں بتایامیرے ابو ہسپتال میںَ تھے طبعیت خراب ہونے کے باعث میں موبائل سے دور ہی رہی ۔ ساتھ ہی اُنہوں نے مجھے میسج کیا کال پر بات کریں گے ۔ میں نے کہا نہیں آپ انکل کا خیال رکھیں ۔
ابو ٹھیک ہیں اور سو گئے ہیں آپ کال پر بات کر لیں پلیز ۔
میں کسی بھی صورت اس بات کے لئیے تیار نہیں تھا کہ کوئی بھی عورت میری توجہ میری محبوبہ کے علاوہ حاصل کرے اور مجھے بہلائے اور میری فکر کرے میں حفصہ باجی کی ضد اور سوالوں سے خود کو تقسیم ہوا محسوس کرنے لگا تھا۔ خیر میری نہیں کے باوجود بھی مجھے کال اُٹھانا پڑی ۔ سارے سوال پوچھنے لگی حفصہ باجی ۔ کب نکلے اپنے شہر سے ؟
میں نے جواب دیا صبح ہی ۔
ناشتہ کر کے نکلے تھے ؟
جی
دوپہر میں کچھ کھایا تھا ۔

ہاں جی

کیا کھایا تھا ۔
سندھی اچانک بریانی

آپکو پتہ اِسکا نام سندھی اچانک بریانی کیوں ہے

میں نے کہا جی بالکل پتہ ہے

حفصہ باجی نے کہا بتائیے ؟

میں نے کہا سندھ میں ایک گھرانہ ہو گا قورمہ بنانا چاہتے ہوں گے اور کوئی ملنگ درویش اُنکا ہمسایہ ہو گا وہ تعویز کرتا ہو گا ۔ اُسکا جادو چلتا بھی ہو گا اور اُسکا کوئی نیا مریض ہو گا اُس نے کہا ہو گا ہمیں کوئی کرامت دکھائیں پھر ہم آپ کے تعویز اور جادو پر ایمان لائیں گے انہوں نے کہا ہو گا آپ ساتھ والے گھر جائیں اور وہاں قورمہ بنا رہے ہوں گے اور جب وہ سارے لوازمات قورمے والے ڈال چُکے ہوں اور پکنے کے بعد جب اُتارنے لگیں تو اچانک بریانی نکل آئے گی ۔ یوں بنی ہو گی سندھی اچانک بریانی ۔

حفصہ باجی مسکرائی قہقہہ لگایا اور کہا میں آپکو ایک بات کہنا چاہتی ہوں ۔

میں نے کہا بتائیے ۔ کافی دیر چُپ
میں نے پھر کہا بتائیے پھر چُپ

میرے اسرار کرنے پر کہنے لگی آپ کو کھانا بنا کر بھیج سکتی ہوں ۔

میں نے انتہائی شائستگی سے انکار کر دیا ۔ اور اگلا سوال اس نیت سے کیا کہ اُنہیں اس بات میں الجھا دوں ۔
آپ مجھے اب بھائی نہیں کہتی ۔

انہوں نے کہا آپ سے میری بھی ایک گزارش ہے ۔
آدھا  جملہ بول کر وہ چُپ ہو گئی ۔
میں نے کہا کیا ۔ کال کٹ ہو گئی ۔ انہوں نے خود کی اپنے آپ ہو گئی مجھے اُنکے جواب کا تھوڑا بہت اندازہ تو تھا ہی ۔لیکن اس حرکت سے میں بیزار بھی ہوا ۔
یہ کال ایسے بند  ہوئی تھی جیسے میری پسند کی انسان کیا کرتی تھی اور اِس طرح جانے کے بعد وہ مُجھ سے ایسے لگی رہتی تھی جیسے آم کے درخت سے اُتری ہوئی گوند کسی کپڑے کو لگی ہوتی ہے ایک ایسا کپڑا جس کے علاوہ کوئی دوسرا کپڑا آپ کے بدن کو نہ ڈھانپ پاتا ہو ۔اور وہ گُوند والا کپڑا ہی آپکے لئیے کفن بھی ہو اور لباس بھی ۔

خیر رات کے گیارہ بج چُکے تھے فاروقی کو میں نے خود میسج کیا تھا آج اُسکی باتوں سے دل بہلا سکوں اپنی بیزاری سے چھٹکارا پانے کو ۔ فاروقی کا جواب نہیں آیا تھا میں نے کال کی اور اُس نے کال بھی نہ اُٹھائی میں نے نا چاہتے ہوئے بھی اپنی معشوق کو میسج کیا لیکن اُس نے ہمیشہ کی طرح کوئی جواب نہ دیا اور فاروقی کی کال آ گئی ۔

جاوید بھائی کیسے ہیں

میں ودھیا یار تو سُنا

جاوید بھائی یہ شادی کیوں ضروری ہے کیا کرتے ہیں شادی کر کے ؟

فاروقی کے سوال نے میرے ذہن کو حفصہ باجی کے خیالوں سے نکال دیا ۔

میں نے کہا شادی کر کے بچے پیدا کرتےہیں

بچے کیوں پیدا کرتے یہ کیسے پیدا ہوتے ہیں ۔ جاوید بھائی

میں نے کہا یار یہ پیدا ہو جاتے اور پیدا اِس لئیے کرتے ہیں کیونکہ پیدا کرنے ہوتے ہیں ۔
نہیں جاوید بھائی کیوں کرنے ہوتے ہیں پیدا اور کیسے ؟

کیسے کا جواب ابھی نہیں مل سکتا اور کیوں کرتے ہیں کی کئی وجوہات ہیں ۔
نہیں نہیں آپ دونوں کا جواب دیں

یہ پیدا تو ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہیں ۔
فاروقی اس کا مطلب ہوا کہ ہم تھوڑے تھوڑے جانور ہیں ۔
نہیں ، ہم تھوڑے تھوڑے انسان ہیں ۔ میں اپنے جواب پر مسکرایا اور فاروقی نے زیادہ دلچسپی سے اگلا سوال کیا ۔
جیسے ہمارے بلّی نے بچے دئیے ہیں تو اِس کے ساتھ ایک اور بلی لڑائی کر رہی تھی ویسے ہی انسان لڑائی کرتا ہے ۔
میں نے سنجیدگی سے کہا ہاں بالکل ویسے ہی ۔
فاروقی جاوید بھائی آپ نے بالکل ٹھیک کہا نویدا بھابھی بھی بھائی سے لڑتی ہے اِس لئیے اقصیٰ ، شہباز اُنکے بچے ہیں۔
میں نے کہا جی جی ۔
فاروقی نے کہا میںَ بھی کروں گا پھر ۔
ہاں اُس کے لئیے بیوی کا ہونا ضروری ہے اور پھر بیوی تجھے بتائے گی لڑائی کر کے ۔

میں ہنسا اور فاروقی سے اجازت چاہی فاروقی نے اپنے سوالات دہرائے۔ میری معشوق کا میسج آ گیا تھا ،نہیں تو میں فاروقی سے زیادہ بات کر سکتا تھا میں دنیا کے ہر کام کو چھوڑ کر صرف اُس سے بات کرتا تھا ۔ میں نے حال احوال پوچھا اُس نے جواب دیا اور اچانک غائب ہو گئی ۔ رات کا ایک بجنے کو تھا اور میں سونے کی تیاری میں تھا کہ مجھے واٹس آپ پر کال آئی میں خوشی سے فون کے پاس گیا کہ معشوق کی کال ہو گی اور حفصہ باجی کال پر تھی ۔ حفصہ باجی نے مجھ سے آخری کال کے لئیے معذرت کی اور پوچھا کیا کر رہے ہو آپ ؟

مجھے بُرا تو نہیں لگتا تھا کہ حفصہ باجی مجھے آپ کہہ کر بُلاتی لیکن نیت سے آپ کہتی تھی۔
میں نے پوچھا آپ بتائیں کیا کر رہے تھے انکل کا کیا حال ہے ۔ حفصہ باجی نے کہا ٹھیک ہیں وہ ۔
کھانا کھایا آپ نے ،
حفصہ باجی نے کہا نہیں دل نہیں کر رہا تھا ۔
میں نے کہا یہ تو اچھی بات نہیں ۔
یہ سارے سوال جب سے ہماری بات ہو رہی تھی پہلی بار پوچھے تھے ۔ جب سارے جواب پا لئیے تو میں نے کہا آپ کوئی بات کریں حفصہ باجی ۔
حفصہ باجی نے کہا میں آپ سے گزارش کرنا چاہتی ہوں ۔
میں نے کہا جی جی کہیے ۔

وہ چُپ ہو گئی ۔
میں نے کہا آپ کے پاس کوئی بیٹھا ہے

وہ چُپ رہی ۔

کیوں خاموش ہیں بتائیے نا

حفصہ باجی ؎حفصہ باجی۔۔۔  حفصہ حفصہ اُنکی آواز آئی سسکی اور ہوکے کی آواز۔
میں نے کہا خیریت ہے نا سب

اُنہوں کہا آپ کو آخری بار بھائی بولنا چاہتی ہوں ۔

میں نے کہا مطلب

آہ بھر کر کہنے لگی
جاوید بھائی

Will you Marry  me

Advertisements
julia rana solicitors london

غیر ارادی طور پر میری زبان سے کال کے دوران جو الفاظ ادا ہوئے “ یہ کیا ہے “ !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply