Battle of ideas
کی جہاں سماجی اعتبار سے بہت بڑی اہمیت ہے وہیں علمی اعتبار سے بھی یہ بہت سنجیدہ اور انتہائی محنت طلب کام ہوتا ہے- خاص طور پر جب آپ فلسفہ ، سائنس، سماجیات ، تاریخ ، مذھب ، نفسیات ، ادبی تھیوریز کے باب میں اصول و مبادیات سے جڑے سوالوں کو زیر بحث لا رہے ہوتے ہیں- اگر آپ زیر بحث موضوع سے جس شعبہ علم کا تعلق ہے اس پر اکیڈیمک دسترس نہیں رکھتے تو خود اپنی طرف سے کچھ کہنے سے شدید گریز کرنا اور اس شعبہ کے مستند ماہرین کی رائے کو پیش کرنا بہتر ہوتا ہے –
ہمارے ہاں انتہائی اکیڈیمک تحقیق کو لازم کرنے والے موضوعات پر بھی انشائیہ پردازی، کالم نگاری ، صحافتی و نیم صحافتی مضمون نگاری کا چلن بہت عام ہے اور انتہائی گہرائی اور وسعت کی حامل اصطلاحوں کو بے تکے انداز میں پیش کرنے یا انھیں رد کرنے کی جاہلانہ ثقافت بھی عام ہے –
ابھی حال ہی میں ویمن کیوسچن /عورت سوال کو لیکر مساجنی ، فیمنسٹ، پدرسریت، مردانہ شاونزم ، مردانہ بالادستی ، ہراسانی ، عورت کی تذلیل کو لیکر اکثر پوسٹوں اور کمنٹس کا “فی مافیہ” آغاز ہی میں بتا دیتا تھا کہ اکثریت جینڈر اسٹڈیز/صنفی مطالعات اور اس کے ساتھ جڑی اصطلاحات سے کس قدر نابلد ہے – زیادہ تعداد دھڑے بندی ، گروہ بندی اور یارانہ نبھانے کو زیادہ اہم سمجھتی ہے ناکہ وہ سنجیدگی سے اس باب میں اپنے فہم کو بہتر بنانا اور پھر اپنے رویوں اور ردعمل میں اس کے مطابق بدلاو لانا چاہتی ہے-
جو مرد یا عورت پدر سریت سے جڑے نظریات، رویے یا ذہنیت کی حمایت کرتا/کرتی ہے وہ مردانہ بالادستی، حاکمیت اور تعصب کا/کی حامل قرار پائے گا/گی – چاہے وہ پدرسری
Patriarchy
کی اصطلاحی تعریف سے واقف ہو یا نہ ہو-
ایسے ہی ہوسکتا ہے کہ کسی کو
Sexulaity based discrimination
Sexism
Intersetionality based prejudices
Misogyny, misogynistic, misogynist
جیسی اصطلاحوں کا یا تو سرے سے پتا ہی نہیں ہو یا اس نے محض ان کے نام سن رکھے ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے جڑے جو منفی خیالات، تعصبات اور رویے ہوں وہ اس کے اندر نہ پائے جاتے ہوں-
جینڈر اسٹڈیز کے ماہرین اور طالب علموں کا فرض بنتا ہے کہ سب سے پہلے تو عام لوگوں اور رہنماء کردار کے حامل افراد کے درمیان فرق کرنا اور ان دونوں سطحوں سے ان کے شعور اور فہم کے مطابق بات کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ سمجھیں –
ہمارے سماج میں مرد اور عورتوں کی اکثریت پدرسری خاندانی سسٹم کے اندر پلی بڑھی ہے اور قریب قریب ہر شعبہ زندگی میں اسی پدرسری شعور کے حامل مردوں اور عورتوں کی اکثریت ہے اور اسی لیے مردوں کے زیادہ اور عورتوں کے ذرا اس سے کم رویے ، علمی فہم کہیں نہ کہیں مردانہ شاونزم سے متاثر ہوتے ہیں –
ہم میں سے اکثر کا سماجی شعور جس میں مذھبی روایات ، قبیل داری ، جاتی واد ، جاگیردارانہ ، نیم جاگیردارانہ اخلاقیات، عقائد اور ان سے تشکیل پانے والے رویوں سے مل کر بنا ہے اور یہ شعور عورتوں کے بارے میں بار بار ، کہیں نہ کہیں
Anti-human Backward Patriarchal formations
کے زیر اثر آتا ہے – اور ان کے آزاد وجود
Independent existence
سے کہیں زیادہ انھیں شئے مملوکہ
Possessable thing /commodity
اور پدرسریت کے تحت محض مردانہ رشتوں
Patriarchal male relations
کے ساتھ جوڑ کر دیکھتا ہے – اس سے جو انفرادی اور گروہی نفسیات تشکیل پاتی ہے وہ کہیں نہ کہیں مرد کی عورت پر برتری کی قائل ہوتی ہے – اس پسماندہ پدرسری شعور اور نفسیات
Backward Patriarchal sensibilities and psychy
محض جذباتی دشنام ترازی جس کا سوشل میڈیا پر بہت مقبول چلن
Social media trolling
کے ذریعے خاتمہ نہیں کیا جاسکتا – عورتوں کی برابری اور ان کے آزاد وجود کو تسلیم کرانے میں سرگرم مرد و خواتین جن میں انٹلیکچوئل جرم ہوتے ہیں انھیں تو اور زیادہ صبر، تحمل ، برداشت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے جس کا خیال زعم علم اور برتری کے منفی جذبے کے زیر اثر اکثر خیال رکھا نہیں جاتا –
میں بطور مرد اگر اپنی بات کروں تو مردانہ شاونزم سے میں نے یک دم چھٹکارا نہیں پایا- گزرے سالوں میں بار بار میرا پدرسری شعور جو اپنے گھر، اسکول، کالج، یونیورسٹی ، بازار ، دوستوں کی کمپنی اور اپنے خاندانی رشتوں سے تفاعل کے دوران تشکیل پایا اور وہ میرے تحت الشعور اور لاشعور کی اتھاہ گھپ گہرائیوں تک میں چھپا بیٹھا تھا اور مجھے بار بار ایک طرح کی تحلیل نفسی کے عمل سے گزرنا پڑا اور یہ سیکھنا پڑا کہ عورتوں کے ساتھ ایک نارمل ، برابری اور ان کی صنفی شناخت سے اوپر اٹھ کر ان سے معاملات کا وہ طریقہ کیسے اپنانا ہے جو غیرانسانی پسماندہ پدرسری رویوں اور خیالات سے ہٹ کر ہو اور یہ ایک مستقل سیکھنے اور جاری رہنے والا عمل ہی رہے گا جب تک کہ پدرسریت جڑ سے اکھڑ نہ جائے –
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں