بچوں کے نام رکھنے کی فلاسفی اتنی سادہ نہیں جتنی بظاہر نظر آتی ہے۔پنجاب کے علاقے میں بچوں کے نام رکھنے کی روایت بہت سارے حقائق اور خواہشات کی آئینہ دار ہے۔یہاں ایک دو عشرے قبل تک بھی سکندر اعظم اور سلطان محمود پسندیدہ ترین نام تھے۔یہ دونوں ہماری سرزمین ِ ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تھے۔
سکندر یا سکندر ِاعظم مذہباً مشرک تھا۔ اور اس کی پرورش بھی ایک مشرک کے طور پر ہوئی تھی۔ وہ قدیم یونان کے دیوتاؤں کی پوجا کرتا تھا۔ اس کے والد، بادشاہ فلپ دوم، Zeus اور Heracles (Hercules) کے پیروکار تھے، اور الیگزینڈر کو مشہور فلسفی ارسطو نے لکھایا پڑھایا اور اسے یونانی فسانوں اور فلسفے کے بارے میں بتایا۔ اگرچہ الیگزینڈر کے مذہبی عقائد اچھی طرح سے دستاویزی نہیں ہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ اس نے زیوس، ایتھینا اور اپولو جیسے یونانی دیوتاؤں کی پوجا کی۔ مصری اور بابلی داستانوں سمیت دیگر ثقافتوں کے مذاہب میں دلچسپی ظاہر کی۔ سیوا، مصر میں زیوس کے اوریکل کے ذریعہ ایک خدا بادشاہ (زیوس کا بیٹا) قرار دیا گیا تھا۔ فارس کو فتح کرنے کے بعد کچھ فارسی رسم و رواج کو اپنایا۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ قدیم زمانے میں مذہب کا تصور مختلف تھا، اور الیگزینڈر کے عقائد میں مختلف ثقافتوں اور فلسفوں کے عناصر کو ملایا جا سکتا ہے۔مگر جہاں تک نام رکھنے کا سوال ہے یہاں پنجاب میں سکندر اور سکندر ِاعظم نام کے لوگ اب بھی موجود ہیں۔
ویسے عجیب مخمصے کے شکار ہم لوگ پاکستان کے قیام سے پہلے ایک مسلمان قوم تھے اور پاکستان کی تخلیق کے بعد ہم پاکستانی قوم ہو گئے۔خود علامہ اور حسین احمد مدنی دونوں کسی نہ کسی مغالطے کا شکار رہے اور پہلے ہندوستانی مسلمانوں اور بعد میں پاکستانی مسلمانوں کو مغالطے کا شکار کیے رکھا۔اسی مغالطے نے مسلمانوں کو اپنے بچوں کے نام رکھنے کے وقت بھی اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا اور آج تک یہی مغالطہ چل رہا ہے کہ کون ہمارا ہیرو ہے اور کون ولن۔پاکستانی قوم نے اقبال کا کہا مان لیا اور حسین احمد مدنی اور ابوالکلام آزاد کا کہا ہمیشہ کے لیے مسترد کر دیا۔اقبال ہمارے ہیرو ہو گئے اور آج بھی ہندوستانی اور پاکستانی مسلمانوں کے دل کی دھڑکن ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے وقت بہت سارے والدین نے اپنے بچوں کا نام اقبال کے نام رکھا۔اقبال نام بھی رکھا اور اگر اقبال نام نہ رکھا تو اقبال کا لاحقہ ضرور سکہ رائج الوقت ہو گیا۔ظفر اقبال چالیس اور پچاس کے دہے کا فیورٹ نام تھا۔اس سے ذرا قبل مسلم قوم کے نام خلافت عثمانیہ کے خلفا کے نام پر بھی رکھنے کا بہت رواج تھا۔
عثمانی سلطنت کے آخری خلیفہ عبدالمجید تھے جن کا انتقال 1944 میں پیرس میں ہوا۔اسی سال کے بعد برصغیر میں تقریباً عبدالمجید نام رکھنا ختم ہو گیا۔خلافت تحریک کے زمانے میں وہی خلیفہ تھے اور برصغیر میں دونوں قوموں کے پسندیدہ سمجھے جاتے تھے مگر ان کے نام پر نام صرف مسلمانوں نے ہی رکھنا تھا۔پچاس کے بعد جنم والے شاذوناذر ہی کسی بچے کا نام عبدالمجید رکھا گیا۔ان کے والد کا نام عبدالحمید تھا۔یہ نام بھی ہندوستانی مسلمانوں میں بہت مقبول رہا۔حالات نے نئے ہیرو پیدا کیے جیسے اقبال جیسے مولانا ظفر علی خان یوں یہاں اقبال اور ظفر اقبال نام رکھنے کا کریز پیدا ہوا۔
ان دو قومی ہیروں نے ہی مسلمان قومیت کا بھی سبق دیا بھی اور اسے اذہان میں راسخ بھی کیا۔
مشہور ہے کہ پی ٹی وی کے ایک مشہور پروڈیوسر کا بیٹا جی ٹی روڈ پر سفر کے دوران کسی ٹریفک رول کی غلطی کر بیٹھا۔ ٹریفک وارڈن تو اس وقت ہوتے نہیں تھے زیادہ پولیس کے لوگ ہوتے تھے۔پولیس والے نے چالان کرنے کے لیے اس کا اور اس کے والد کا نام پوچھا۔اس کے بعد پولیس والے نے چالان کی دوسری دفعات مکمل کرنے کے لیے اس سے قوم پوچھی۔بتاؤ بھئی تمہاری قوم کیا ہے؟۔اس لڑکے نے کسی توقف کے بغیر قوم ” پاکستانی” بتایا کہ علامہ اور دوسرے زعما یہی تو پیغام دے گئے تھے کہ پہلے ہم ہندوستانی اور اب پاکستانی مسلمان قوم ہیں ۔پولیس والا گویا ہوا اپنی قوم بتاؤ۔اس نے کہا مجھے تو پاپا نے یہی بتایا ہے کہ ہم پاکستانی قوم ہیں۔استفسار ہوا تمہارا باپ کیا کرتا ہے جواب ملا کہ وہ ٹی وی پروڈیوسر ہے۔چالان کرنے والے کو گویا” آمد” ہوئی اپنے جونئیر کو کہا لکھ اوئے قوم میراثی۔یہ واقعہ منو بھائی نے اسی زمانے میں اپنے کالم میں لکھ بھی دیا اور اس تاریخی چالان کی کاپی بھی ساتھ شائع کر دی۔ منو بھائی نے لڑکے کے باپ کو خراج ِتحسین پیش کیا جس نے اسے پاکستانی قومیت کی تعلیم دی تھی۔ نوے کی دہائی میں صدام حسین تمام مسلمان قوم کا ہیرو بنا تو یہاں بچوں کا نام صدام رکھنے کا بھی رواج ہو گیا۔اس سے قبل یاسر عرفات کے نام پر بھی نام رکھے گئے۔شاعر بھائی ذرا جذباتی ہوتے ہیں چند لوگوں نے اپنے بچوں کا نام فراز رکھا تو وہ کچھ زیادہ ہی جوش میں آ گئے
اور فراز چاہییں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
اپنے معاشرے میں پیشے کو بھی قوم ہی مانا ہی جاتا ہے۔یہ الگ قسم کا” تصور ِ قوم” ہے۔ پولیس کے کاغذات میں قوم کا خانہ اب بھی مسلمان قوم کے مدمقابل استعمال ہوتا ہے۔ہمارے سابقہ ضلع کے سربرآوردہ ترین سیاست دان ایک گاؤں میں جلسے سے خطاب کرنے کے لیے گئے تو وہاں ایک مرد ِدانا نے سیاست دان کو بتایا کہ قوم آپ سے خوش نہیں ہے۔مرد ِدانا کا اشارہ واقعتاً پاکستانی یا مسلمان قوم کی طرف تھا اور سیاست دان کو یہی جتایا جا رہا تھا۔سیاست دان نے اس دانا کے کان میں پوچھا کون سی قوم مجھ سے ناراض ہے اور پھر چالان کرنے والے پولسیے کی طرح ” قوم” کا نام لیا۔پچھلے صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی میں عمران نام رکھنے کا فیشن آیا جو تا حال جاری ہے۔ہم نے بہت سوچا کہیں سے کوئی بچہ یا ایسے نام والا بچہ مل جائے جس کا نام شہباز، آصف یا مشرف کے نام پر ہو۔جب ایسا نام والا کوئی بچہ موجود نہ ملا تو اس قوم کی نفسیاتی توجیہ پر ہمارا دل باغ باغ ہو گیا مگر ہم نے اسے قوم کی بدقسمتی پر محمول کیا کہ قوم کو ان ہیروں بمعنی لعل و جواہر کی قدر کرنا نہیں آیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں