جانے کہاں سے ڈھیر ساری وحشت در آئی ۔ جیسے دل پر بھاری ترین چٹان آ گری ہو۔ در و دیوار سے سکوت لپٹ گیا۔ اعصاب میں اینٹھن کسمسانے لگی۔ بے کلی رگ و پے سے الجھنے لگی۔ حلق سُوکھ گیا، سکون روٹھ گیا ۔۔۔ جیسے آب چشم جَم گیا ہو۔ سی ڈی پلیئر آن کیا، مغنیہ کی حزنیہ صدا گونجی :
اے دل ناداں ! آرزو کیا ہے ، جستجو کیا ہے
سامنے دیوار پر پہلی بیگم (بانو) کی تصویر آویزاں تھی جو ایک چوبی صندوق میں مستور تھی تو دوسری (جاناں) نے اسے نکال ، اپنی چُنری کے پَلو سے چمکا دمکا ، بکمالِ ظرف زینتِ دیوار کر دیا تھا اور جب وہ ایسا کر رہی تھیں تو ہم نے نہ سوال اٹھایا اور نہ استعجاب۔ انھوں نے خود ہی ہماری رمز پا لی اور کہا تھا : ”سورج کبھی انگشت کے پیچھے نہیں چھپ سکتا۔ جو آپ کا سچ ہے وہ میرا بھی سچ ہے۔ زندگی صرف اپنے سچ کے ساتھ نہیں بلکہ سانجھے سچ کے ساتھ ہی گزرے تو اچھا ہے۔“
دائیں آنکھ کے گوشے سے گویا برف کا تودہ نکلا اور گال کی ڈھلان پر پھسلتا چلا گیا۔ پتہ نہیں ہماری آنکھ دھندلائی تھی یا تصویر میں بانو نے اپنی نظر کا محور بدلا تھا۔ سگریٹ کی ڈبی اور ماچس اٹھائی اور بہت دیر یہ بہلاوا چلا کیا۔
بیگم کی گاتو (بلی) بے قرار دوڑ رہی تھی۔ شاید بھوکی ہو ، لہٰذا ہم نے اس کے لیے ابالی ہوئی کلیجی برتن میں ڈالی مگر وہ کسی نادیدہ شے کے تعاقب میں مسلسل متحرک تھی۔ ہم نے کہا : ”فٹے مونہہ نی تیرا ۔۔۔ بَھجدی رہ۔“
بیٹھک میں لیٹے تو جو حالت پہلے تھی ، وہ بتدریج معتدل ہوتی گئی اور ہم سو گئے ۔ شام ہونے کو تھی کہ آنکھ کھلی۔ آواز آئی : ”چاۓ بناؤں؟“
ہم نے جواباً ہانک لگائی : ”نیکی اور پُوچھ پُوچھ۔ بناؤ ، بناؤ ۔۔۔ ہمارے لیے، اپنے لیے ۔۔۔ اپنی گاتو کے لیے۔“
اور جب بہت دیر چاۓ نہ آئی تو ہم تاخیر کا سبب جاننے کو اٹھ کر کچن میں جھانکے۔ کہاں کی چاۓ اور کس کے لیے چاۓ۔ وہ تو لاہور پہنچ بھی گئی ہوں گی۔ واہمے بھی خوب بے وقوف بناتے ہیں۔ ناچار اپنے نصیب کی چاۓ خود ہی بنائی اور پی۔
ان دنوں ادبی حلقے ”صریر خامہ“ کے ہفتہ وار اجلاس گندھارا کالج (واہ کینٹ) میں برپا ہوتے تھے۔ منگل کی شام تھی۔ ہم نے اپنی ایک تازہ فکشنی نگارش ، فائل کی اور گھر کو تالے چڑھا ، نکلے اور جی ٹی روڈ عبور کر کے مصنوعی جنگل میں سے گزرتے کینٹ مال پر جا پہنچے۔
گیارہ بجے واپس پلٹے تو گاتو کے چکر اب بھی جاری تھے۔ ہم نے کہا : ”کیا چیز ہو تم گاتو ، تھکتی بھی نہیں ہو۔“ سردی کے دن تھے تو ہم نے ایک بار پھر اپنے لیے چاۓ بنانا چاہی۔ اسی دوران موبائل کی کال ٹون بجنے لگی۔
”سلام عشقم ! چہ طوری؟؟؟“ بیگم کی کھنکھناتی آواز۔
”خیلی قشنگ جان عزیزم۔“ ہم چمچ بھر پتی کیتلی کی نذر کرتے ہوۓ جوابے۔
”آقائی کجا ہستی؟“ وہی دنیا بھر کی بیویوں والا تجسس۔
خیر ہم نے کہا : ”در خانہ تنھا ام محبوبی! و تُو کجا داری؟“
پہلے کھلکھلائیں پھر بولیں : ”وائی وئی مپُرس۔۔۔ مثلِ تُو تنھا ہستم و دل تنگ برائی شما۔“
ادھر ہم بھی قہقے : ”درود درود ! ، قسم بجمال انارکلی ، در ایں فراق جگرم کباب میشہ ۔۔۔ اور اب یہ ریڈیو کابل سے رابطہ موقوف کر کے ریڈیو لاہور سے بتاؤ کہ سفر کیسا گزرا۔“
”بھائی جان نے بہت خیال رکھا۔ چار گھنٹوں کا سفر سات میں طے کیا۔ وجہ وہی جو آپ جانتے ہیں۔“
چاۓ بن چکی تو ہم زینہ چڑھ کر چھت پہ چلے گئے ۔ ہوا تند اور بہت خنک تھی۔ ہمیں تو ہجر کے متعدد تجربات حاصل تھے ، مگر وہ عائلی زندگی کی پہلی جُدائی سے گزر رہی تھیں ، سو کلام پہ مائل رہیں حتیٰ کہ ہمارے موٹرولا کے سیٹ کی بیٹری جواب دے گئی ۔
گھر میں سواگتی نگاہیں اور مسکراہٹ کی عدم موجودگی کے باعث ہم نے وقت گزاری کے کئی جواز پیدا کر لیے۔ ڈیوٹی کے بعد کبھی مغلیہ باغات کی طرف اور کبھی ٹیکسلا کے قدیمی آثار کی سمت نکل جاتے۔ کبھی کسی محفلِ یاراں میں گِھر جاتے ۔۔۔ یا پھر گھر سے قریبی شہزاد بھائی کے ڈرائیور ہوٹل پر ان سے بحثو بحثی ہوتے رہتے۔
بیگم کی واپسی میں ابھی دو دن باقی تھے کہ ایک سہ پہر کو ناسازیء طبع کے باعث ذرا دیر کے لیے آنکھ لگی تو خواب میں وہ کسی صحرا میں کھڑی ، پریشاں حال مسلسل روۓ جا رہی ہیں۔ ہم سبب پوچھتے ہیں تو روتے ہوۓ بتاتی ہیں ۔۔۔ ”میرا موتی کھو گیا ہے“ ۔ بس وہیں خواب کا متحرک فیتہ ٹوٹ گیا۔ ہم نے کال ملائی تو رابطہ مسدود نکلا۔ باقی نمبر بھی متواتر مصروف ملے۔
اگلی صبح صادق ، ہم صدر (لاہور) میں برادر نسبتی کے گھر کی اطلاعی گھنٹی بجا چکے تھے۔
وجہ جو معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ محترمہ اپنی بڑی ہمشیرہ کے ہمراہ گلبرگ سے صدر بھائی کے ہاں جانے کے لیے ٹیکسی میں سوار ہوئیں تو ڈرائیور نے کہیں اور پہنچنے کی جلدی میں اتنی رف ڈرائیو کی کہ کسی سپیڈ بریکر اور کھڈے کی پرواہ نہیں کی۔ گھر پہنچتے ہی جریان خون شروع ہوا جو کہ مس کیریج کا نتیجہ تھا۔ بجاۓ کسی بڑے ہسپتال لے جانے کے قریبی کسی گائنی کلینک پر لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر کے نام پر دراصل کوئی اتائی ہیلتھ ورکر براجمان تھی جس نے الٹی سیدھی دوائیں دے کر کیس مزید بگاڑ دیا۔ ہم نے حالت دیکھی تو بہت زیادہ خون ضائع ہو جانے سے ان پر غشی طاری تھی۔ رنگت پیلی زرد ہو چکی تھی۔ فوراً سے پیشتر گاڑی میں لٹا ، شالامار ہسپتال کی ایمرجنسی پہنچے۔ بعجلت معائنے اور ضروری ٹیسٹوں کے بعد انھیں ڈی این سی کے لیے اوٹی میں لے جایا گیا۔ آپریشن سے قبل پیپرز سائن کے وقت لیڈی سرجن نے ہمیں سنگین غفلت کا مرتکب فرض کر کے اچھی خاصی چڑھائی کر دی۔ قصور اگرچہ ہمارا نہیں تھا مگر اپنے پیشے کے قواعد کے لحاظ سے وہ حق بجانب تھی۔ الجھنے کا موقع نہ تھا۔ ہم چپ رہے۔ پیچیدگی اتنی گھمبیر تھی کہ صبح آٹھ بجےکی او ٹی میں گئی ہوئی شام پانچ بجے آئی سی یو میں منتقل ہوئیں اور اگلے دن دس بجے طویل بے ہوشی سے نکلیں۔ اس دوران جھنجھلاہٹ ، پریشانی اور صدمے کے باعث ہم نے خاندان کے نصف درجن ”سیانوں“ کو ٹکا کر گالیاں دیں۔ پانچ ماہ کا پریگننسی لاس تھا لیکن ہمیں ان کی جان بچ جانے کی بے اندازہ خوشی تھی۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں