4ستمبر 2024
پاکستان کی دوسری اسمبلی 1955کو وجود میں آئی اور یہ 1958تک چلی، اس میں گیارہ اقلیتی ارکان تھے ،جن میں سے 9 کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا ان میں سے ایک مسیحی تھے ۔۔جن کے نام یہ تھے،گور چندرا بالا ،کنتسور برمن ،بسنتا کمار داس ،بھوپندرا کمار دتا ، کمنی کمار دتا ،اکشے کمار داس ،پیٹر پال گومز( مشرقی پاکستان)۔،.رسا راج منڈل، سیلندرا کمار سین ,سرو مل کرپل داس (سندھ مغربی پاکستان)۔
سیسل ایڈورڈ گبن المعروف سی ای گبن ( مغربی پاکستان پنجاب) یہ وہ ہی سی ای گبن تھے جنہوں نے 1946میں اپنے دیگر دو ساتھیوں ایس پی سنگھا ،اور چوہدری فضل الٰہی کے ساتھ مل کر قائد اعظم کے کہنے پر پنجاب کو تقسیم نہ کرنے کی قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔یہ اس دوسری قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہے ، پنجاب کی تقسیم کے حق اور مخالفت میں 77/91 لوگوں نے رائے دی تھی. اور سنگھا صاحب ان تمام ہندؤں سکھوں مسلمانوں،مسیحیوں کا متفقہ اسپیکر تھا۔یہ وہ ہی ووٹ ہیں جن کو فیصلہ کُن ووٹ قرار دے کر ہمارے اکثر لوگ لا علمی میں غلط بیانی کرتے ہیں اور تسلسل سے کرتے ہیں ۔ یہ 77/91 کی گنتی بھی جو کہ پنجاب اسمبلی کے ریکارڈ میں دستیاب ہے، غلط بیانی کی بجائے ، اہم یہ ہے کہ اپنی نسلوں کو سچ بتا یا جائے کہ ” ہمارے اجداد تاریخ کے صحیح رخ پر کھڑے تھے ۔ان سے فیصلے میں غلطی نہیں ہوئی تاریخ کی اتنی بڑی قتل وغارت ،ہجرت کی بدولت پیدا ہونے والے معاشی مواقع اور نفسا نفسی نے اس وقت کے قائدین بشمول قائد اعظم اور پھر انکے جانشینوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ پسے اور دھتکارے ہوئے دھرتی واسیوں بارے سوچ سکیں ۔”
دوسری اسمبلی کے لئے یہ الیکشن بھی جداگانہ طریقہ انتخاب پر ہوا ۔ یہ آخری دور تھا جس میں شیڈول کاسٹ فیڈریشن نے پاکستان کی قومی سیاست میں بھرپور حصّہ لیا ۔۔ مغربی پنجاب سے صرف ایک ہی ممبر قومی اسمبلی مسیحی تھا۔جو یہ ظاہر کرتا ہے، کہ مسیحیوں کی سیاست کا محور و مرکز پنجاب ہی تھا ۔ حقائق بہت سارے بیانیے بھی درست کر دیتے ہیں ۔پہلی دو اسمبلیوں میں اقلیتوں کی تعداد میں سے 99 فیصد شیڈول کاسٹ فیڈریشن آف ایسٹ بنگال کے لوگوں کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سب جوگندر ناتھ منڈل کی قیادتِ کا ہی ثمر تھا جس کے اثراتِ دوسری اسمبلی میں بھی نظر آتے ہیں۔جب کہ وہ پہلی اسمبلی کے دوران ہی ہجرت بھی کر چکے تھے۔ بے شک تاریخ سے سیکھنے کے لئے قوموں اور افراد کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے ۔ بس فرد یا قوم تھوڑا بہت پڑھنے کے شوقین غور وفکر کرنے والے ہوں ۔
قیام پاکستان سے آج تک 16 انتخابات میں اقلیتوں پر 5 بار 3 مختلف انتخابی نظام آزمائے گئے ،لیکن پاکستان کی سیاسی ریاستی دانشور اشرفیہ اور اقلیتوں کے ماضی و حال کے نمائندوں کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ عام اقلیتی شہری کبھی بھی ان نظاموں سے مطمئن نہیں ہو ئے۔پہلی دونوں اسمبلیوں میں یہ طریقہ اپنایا گیا ۔اسکے نتیجے میں اقلیتیں سیاسی شودر اور معاشرتی اچھوت بنا دی گئی تھیں ۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر آواز کیوں نہ اٹھائی گئی؟ ۔
پہلی وجہ یہ رہی ہوگی کہ اس وقت عوام ووٹ نہیں ڈالتے تھے۔ اس لئے عوامی سطح پر ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا ۔بس خواص ہی ووٹ ڈالتے اور الیکشن میں حصہ لیتے تھے ۔ برّصغیر کی اشرفیہ ایسی چیزوں پر کم ہی توجہ دیتی ہے ۔ دوسرا یہ کہ اس وقت کے اسمبلی ممبران نے اس مسئلے کو اسمبلی میں اٹھایا ضرور تھا۔جس کا گلہ شکوہ جوگندر ناتھ منڈل کے استعفیٰ میں پڑھا جا سکتا ہے، اسی کے ردِعمل میں اگلے تین الیکشن مخلوط طرزِ انتخاب کے ذریعے ہوئے جس کا ذکر تیسری چوتھی اور پانچویں اسمبلی بارے تحریر میں آئے گا ۔۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں