تو کل ملا کر بات اتنی سی ہے کہ پچھلی نگران حکومت نے اربوں روپے لگا کر سرکاری ہسپتالوں کی تزئین وآرائش کی،نئے بلاکس بنائے گئے، نئی ایمرجینسیاں بنائی گئیں، مریضوں کے بیڈ نئے آئے، لواحقین کے بیٹھنے کے نئے بنچ آئے۔ حتیٰ کہ پرانے ہسپتالوں کا نقشہ بدل دیا گیا،ان میں سے کچھ ہسپتالوں کا باقاعدہ افتتاح کر دیا گیا ہے،جبکہ کچھ میں ابھی کام جاری ہے۔
ابھی ایک وارڈ سے ہو کر آیا ہوں۔ یہ کال اس وارڈ سے آئی تھی جسکی مکمل تزئین وآرائش کی گئی ہے۔ وارڈ میں داخل ہو ں تو لگتا ہے کہ آپ کسی مہنگے پرائیویٹ ہسپتال آ گئے ہیں، لیکن وارڈ میں داخل ہونے سے پہلے جو واش رومز تھے، ان سے اتنی بدبو آ رہی تھی کہ سانس لینا محال تھا۔
مریضوں و لواحقین نے اتنے برے طریقے سے استعمال کیے تھے کہ ٹونٹیاں صحیح کام نہیں کر رہی تھیں، واش روم میں کوئی نہیں تھا جبکہ ٹونٹی ویسے ہی چل رہی تھی، ایک عورت نے واش بیسن سے ہاتھ دھوئے اور بنا ٹونٹی بند کیے آ گئی۔ صفائی پر مامور آپا کا پارا ہائی ہوا تھا، پوچھنے پر بولی کہ ڈاکٹر صاحب بیشتر لوگ ٹائلٹ استعمال کر کے پانی ہی نہیں بہا کر جاتے،تو بو کیسے جائے؟
جبکہ نئے بلاکس کو کھلے ابھی چند ماہ ہی گزرے ہیں ۔ جہاں عوام حکمرانوں اور ارباب اختیار کو کوستے نہیں تھکتی،کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھے ۔
سرکاری ہسپتال کے فرنیچر و دیگر چیزوں کیساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ جہاں اربوں تزئین وآرائش پر لگا دئیے ہیں،وہاں چند کر وڑ عوام الناس کو شعور دینے پر بھی لگا دیتے ۔
یہاں مریض کیساتھ پورا خاندان آ جاتا ہے، مریض کے سرہانے بیٹھ کر اتنی اونچی باتیں کرتے ہیں کہ باقی مریض ڈسٹرب ہوتے ہیں،اگر وارڈ بوائے/ آپا اور سکیورٹی گارڈز روکتے ہیں تو یہ لوگ آگے سے لڑتے ہیں ۔ اگر وارڈ میں مریض کم بھی ہوں تو سارے پنکھے اور لائٹس آن کریں گے،روکنے پر جواب دیں گے بل کونسا ہم نے دینا ہے۔
واش روم میں ایسا گند ڈالتے ہیں کہ انسان اور جانوروں میں فرق مٹ جاتا ہے۔ آپ اس عوام کے لیے کھربوں لگا جتنا مرضی جدید انفراسٹرکچر لے آئیں، جتنے مرضی نئے ہسپتال بنا لیں،اس عوام نے انہیں وحشیوں کی طرح استعمال کر کے اسے ناکارہ بنا دینا ہے۔
یہی عوام او پی ڈی میں سلپ بنوانے کے لیے لائن بنانا خود کی توہین سمجھتی ہے۔ او پی ڈی سلپ بنانے والوں سے انکی لڑائیاں مفت ہیں۔ سرکاری ہسپتال میں آ کر انتظار کرنا بھی انکی توہین کا باعث ہے۔ ہر کام جلدی کروانے کے لئے یہی عوام وارڈ بوائز و سیکورٹی گارڈز کو رشوت دیتی ہے۔ انہی حرکتوں کی وجہ سے ہسپتالوں کے درجہ چہارم کے ملازم اب رشوت لیے بنا کوئی کام ہی نہیں کرتے۔
سرکاری ہسپتالوں میں مفت دوائی لینے کے چکر میں پورا خاندان اٹھ کر آ جاتا ہے، جس کو کوئی علامت نہ بھی ہو، اسکی بھی پرچی بنوائی جاتی ہے تاکہ مفت دوائی زیادہ سے زیادہ ملے۔
سرکاری ہسپتالوں کی ہر چیز کو جانوروں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے،لیکن اس سب کے باوجود کرپٹ حکومت ہے ۔اسٹیٹ آف دی آرٹ بنائے گئے سرکاری ہسپتالوں کو ایسے برباد ہوتا دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے،جبکہ یہ عوام ساری گالیاں حکومت کو دیتی ہے۔سیانے صحیح کہہ گئے ہیں کہ پاکستانی قوم ناقابل اصلاح ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی اپنے گریبانوں میں جھانکیں تاکہ ہمیں احساس ہو کہ ہم بحیثیت قوم کیوں ناکام ہیں؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں