قوم و ملک کی تعمیر میں نوجوانوں کا کردار /جاویدایازخان

کہتے ہیں نو جوان معاشرے کا ایک ایسا فرد ہوتا ہے جس کی عمر پندرہ سال سے پینتیس سال تک ہوتی ہیں ۔اس تعریف میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی شامل ہوتے ہیں ۔نوجوانی آپکی عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے کہ جب آپ بچپن کے دور سے گزر چکے ہوتے ہیں لیکن ابھی پختہ عمر یا بڑھاپے کی حدود میں  داخل نہیں ہو پاتے یعنی بچپن کے بعد اور بڑھاپے سے قبل کے دورانیے کو جوانی کا دور سمجھا جاتا ہے ۔یہی دور وہ وقت ہوتا ہے جہاں انسان کے ارادے ،جذبے اور توانائی اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ بے خوف صلاحیتیں اور عزائم بلند ہوتے ہیں، یہی وقت ان نوجوانوں کی ان توانائیوں سے قوم اور ملک کے فائدہ اٹھانے کا ہوتا ہے ۔افراد انسانی کا اجتماعی ڈھانچہ ہی انسانی معاشرہ کہلاتا ہے اجتماعی زندگی کی خوبصورتی کے لیے کچھ اہم اور کلیدی صفات درکار ہوتی ہیں اور خصوصاً  نوجوان نسل کا ان صفات سے متصف ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اگر معاشرے کے نوجوانوں میں ان مثبت صفات کا خیال نہ رکھا جاے تو انفرادی اور اجتماعی زندگی پریشانی ،مایوسی ،الجھن ،عدم برداشت ،اور بے شمار مشکلات و مصیبتوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔

پاکستان دنیا کے چند ایسے خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہا ں کی کُل آبادی کا پینسٹھ سے ستر فیصد تک حصہ ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں اٹھارہ سے پینتیس سال کے درمیان ہیں اور جسے ایک بھرپور نوجوان طاقت اور اثاثہ کہا جاتا ہے نوجوان کسی بھی ملک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور وہی اپنی انتھک محنت اور کاوش سے اقوام عالم میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں کسی بھی ملک وقوم کی تعمیر وترقی میں جہاں پوری قوم کے  ہر فرد کا اپنا اپنا منفرد کردار ہوتا ہے وہیں کسی بھی معاشرے کے نوجوانوں کا کلیدی کردار دراصل زندہ قوموں کی  شناخت ہوتا ہے اور اس حقیقت کو ساری دنیا تسلیم کرتی ہےکہ نوجوان کی طاقت اور توانائی کے بغیر کسی بھی تعمیری پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوتا ہے ۔بلاشبہ کسی بھی قوم کی باگ ڈور اس کی نئی نسل کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جس طرح کسی بھی عمارت کی ایک ایک اینٹ بھی اس کی بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور اینٹ سے اینٹ جڑ کر ہی کوئی عمارت وجود میں آسکتی ہے اسی طرح قوم کی تعمیر میں ہر نوجوان کی اپنی اپنی الگ الگ اہمیت ہوتی ہے جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا اور کسی بھی معاشرے کی فکری ،معاشی ،تعلیمی ،معاشرتی اور دیگر کئی اعتبار سے ترقی اور بہتری نسل نو کے تعاون سے ہی میسر آسکتی ہے اور دنیا کا ہر معاشرہ اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اور کسی بھی ملک ،قوم یا معاشرے میں حقیقی اور مثبت تبدیلی کے لیے قوم کے ایک ایک نوجوان کی جدوجہد اور محنت ازحد ضرورت ہے ۔

تاریخ شاہد ہے کہ قومی ترقی اور معاشرتی تعمیر انہیں قوموں کا مقدر بنتی ہے جس کے نوجوان کے دل میں آگے بڑھنے اور کچھ مثبت کرنے کی لگن اور تڑپ ہوتی ہے یہی وہ طاقت ہے جو ہر ہر شعبہ زندگی میں تعلیمی ،معاشرتی اور معاشی مسائل کو حل کرنے صلاحیت رکھتی ہے ۔ایک امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کا قول ہے کہ ” ہم نوجوانوں کے لیے مستقبل تعمیر نہیں کرسکتے مگر ہم مستقبل کے لیے اپنے نوجوانوں کی تعمیر ضرور کرسکتے ہیں ” آج ہمیں اپنی نئی نسل کی تربیت ایسے کرنی ہے کہ وہ ملک و قوم کے مستقبل کو سنبھالنے کے لیے تیار ہو سکیں اور اپنے مثبت رویے سے ہر برائی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو سکیں کیونکہ یہی معاشرے کا محنتی اور انتھک طبقہ ہوتا ہے دراصل کسی بھی قوم کا نوجوان ہی اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے جو اپنی قوم میں نئی زندگی نوید لاتا ہے دنیا میں ہر انقلاب کے پیچھے نوجوان طبقے کا کردار ہی کار فرما نظر آتا ہے نوجوان ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ہم نے اپنے اس قیمتی اثاثے کی نہ صرف حفاظت کرنی ہے بلکہ اسے کار آمد بنا کر اس کے ثمرات سے مستفید بھی ہونا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا انقلاب وہ تھا جس نے دنیا کی سوچ ہی بدل دی وہ ہمارے پیارے رسول حضور ؐ کا اسلامی انقلاب تھا جس انقلاب کے ہراول دستے میں اکثریت نوجوانوں کی تھی ۔ کہتے ہیں جب مسلمانان ہند پاکستان کے لیے صف بندی کرنے لگے تو علامہ اقبال ؒ نے بھی اپنے خیالات نوجوانوں کے ذہنوں تک پہنچانے کے لیے اپنے اشعار کو ذریعہ بنایا وہ جانتے تھے کہ نوجوانوں کے بغیر یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا وہ اپنے نوجوانوں پر کامل یقین رکھتے تھے اسی لیے وہ دعائیہ لہجہ میں کہتے تھے

جوانوں کو سوز جگر بخش دے ،مرا عشق میری نظر بخش دے

خرد کو غلامی سے آزاد کر ،جوانوں کو پیروں کا استاد کر

ہمارے عظیم رہنما علامہ اقبال ؒ نے نسل نو کو قوم اور ملت کا سرمایہ قرار دیا ہے اور اسے “شاہین ” سے تشبیہ دی ہے ان کی خواہش تھی کہ نوجوان میں شاہین جیسی صفات پیدا ہوں اقبال ؒ نے اپنے جو افکار و خیالات نوجوانوں تک پہنچاے ان میں فلسفہ خودی بہت اہم ہے جسے اقبال ؒ نوجوان کی زندگی کا جزو بنانا چاہتے تھے وہ اپنے کلام میں اپنے نوجوانوں کو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے زیور سے آرستہ کرنے کی خواہش اور تلقین فرمائی ہے وہ اپنے پرعزم نوجوانوں سے والہانہ عقیدت و محبت رکھتے تھے ان کے اشعار میں جگہ جگہ نوجوانوں سے اپنی امیدوابستہ دکھائی دیتی ہے جو آج بھی ہماری نئی نسل کے لیے مشعل راہ نظر آتے ہیں ۔

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا ، پردم ہے اگر تو ،تو نہیں خطرہ افتاد

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ،ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

Advertisements
julia rana solicitors london

آج اس حوالے سے کرنے والی سب سے بنیادی چیز اپنے ستر فیصد اس نوجوان طبقے کی تربیت نظر آتی ہےتا کہ ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروکار لایا جاسکے ہمیں اپنے نوجوان کا مستقبل تعمیر کرنا ہے جس کے لیے بنیادی طور پر اپنی استعداد اور ملکی وسائل کے مطابق بہترین تعلیم کی فراہمی کو اہم سمجھا جاتا ہے ۔تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی مثبت شعوری تربیت کی اہتمام ہونا چاہیے اور ایک مثالی ماحول فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ ایک جانب تو ان کی طاقت ،صلاحیت اور توانائیوں سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور انہیں ہنر مند بنایا جاسکے اور دوسری جانب ان نوجوان قوتوں کو منفی رجحانات سے محفوظ رکھا جاسکے تاکہ وہ معاشرے کے لیے ایک اچھا مفید انسان اور مسلمان ثابت ہو سکے اور اسکی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے مطابق نظم وضبط پیدا ہوسکے اور وہ اسلامی معاشرت کے تحت زندگی گزارنے کی سعی کرے  ۔ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو اپنا کر ہی نوجوان نسل کو اچھے اخلاق و کردار کا خوگر بنایا جاسکتا ہے یہ تعلیمات ہی نوجوان نسل کو اخلاق حسنہ کا درس دیتی ہیں ۔بزرگوں کا ادب و احترام ،چھوٹوں پر شفقت و محبت ،بےکسوں کی داد رسی ،ہم عمروں اور ساتھیوں سے محبت والفت اور جذبہ ایثار و ہمدردی جیسے سبق انہیں ایک اچھا انسان بناتے ہیں ۔پاکستانی معاشرہ بےشمار ہمہ قسم کی برائیوں میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے جن میں انٹر نیٹ کا بے تحاشا اور منفی استعمال ،جدید کلب ،سوشل میڈیا ،الیکڑانکس میڈیا کے فحش پروگرام ،شیشہ ،پان ،سگریٹ ،منشیات کے ساتھ ساتھ ذخیرہ اندوزی ،ملاوٹ ،ناپ تول میں کمی ،آپس میں عدم برداشت کا رویہ ،لوٹ مار ،چوری ،وعدہ خلافی ،غیبت ،بہتان ،رشوت ،جوا ،سود ،اور مختلف مافیا ز جو نوجوان نسل میں برائیوں کو پروان چڑھانے کے لیے کام کررہے ہیں یہ سب بےروزگاری اورتعلیم کی کمی کی باعث ہو رہا ہے ۔ہمیں اپنے نوجوان کو ان برائیوں سے بچانا ہے اور ان کے لیے بےشمار اچھی اور مثبت مصروفیات تلاش کرنی ہیں ۔انہیں تعلیم ،ہنر اور بہتر روزگار ، کے ساتھ صحت مند سرگرمیوں کے فروغ اور کھیل کے میدان اور تفریح کے مناسب مواقع فراہم کرنے ہیں ۔جبکہ ملک کے نوجوانوں کو بھی عہد کرنا چاہیے کہ وہ مایوسیوں اور کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے ہوے اپنی صلاحیتوں ،اپنے علم وفن کو بروکار لاکر اپنے معاشرے ،ملک اور قوم کی محرومیوں کے ازالے اور تعمیر وترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے اور کسی صورت مغربی پروپیگنڈا اور مسلمان اور ملک دشمن سازشوں سے مرعوب ہو کر مایوسی کا شکار نہ ہوں گے ۔بے شک ہمارے محب وطن نوجوان ہی ہمارے ملک وملت کا سرمایہ ہیں اور ہمارے پاکستان کے روشن مستقبل کی روشن اور تابندہ نوید ثابت ہوں گے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply