• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • “مکالمہ ” ( آٹھویں سالگرہ پر مبارکباد کے ساتھ )-محمد وقاص رشید

“مکالمہ ” ( آٹھویں سالگرہ پر مبارکباد کے ساتھ )-محمد وقاص رشید

“القلم ” خدا نے قلم کی قسم کھائی تھی۔ کاش کہ اس قسم کا وزن کوئی محسوس کر سکے۔ اس سماج میں مگر ہر کاش کی طرح یہ کاش بھی ایک حسرت کے سوا کچھ نہیں۔

کسی مضمون میں لکھا تھا ہر عہد اور نسل اپنی طرز کی ایک الگ ارتقائی مسافت طے کرتے ہیں۔ مگر ہم وہ نسل ہیں کہ جن پر انسانی استعداد کی ارتقاء کی وہ تان ٹوٹی کہ اللہ اللہ۔

خواب نگر ملکوال کے ریلوے سکول کا وہ عہد بھولے کیسے ؟۔ چار آنے کی قلم آتی تھی آٹھ آنے کی سیاہی، چار آنے کی دوات۔۔ مگر ازل سے احساس کے ماروں نے فیصلہ کیا گھر کی معیشت پر یہ بوجھ بھی نہ ڈالا جائے۔ سیم نالے کے ساتھ لگے سرکنڈے جا اکھیڑے ، قلم بنائے۔ ایک یادگار کردار بھائی آصف حسین جو کاپی کے پیسے بچانے کے لیے کاغذ کی ایک ملی میٹر جگہ بھی نہ چھوڑتا تھا۔ واہ، کیسے کیسے یادگار لوگ ہوئے۔ ان تمام کو ایک کتاب میں یکجا کروں گا۔ خدا کرے اپنے پوڈکاسٹ چینل پہ سب کے انٹرویو کر سکوں۔ کہاں سے چلے ، کہاں پہنچے۔

ریلوے کوارٹر کے ایک چھوٹے سے باورچی خانے میں چولہے میں گیلی لکڑیوں کو ممتا پھونکتی ایک جفاکش عورت ہماری تختیاں سکھاتی۔ تختیوں کی گاچی افق کی طرح ہوتی ہے پہلی کرن دکھائی دے تو اسکے بعد سفیدی کا سفر تیز ہو جاتا ہے۔ تختی سوکھتی تو دھویں سے لڑتی آنکھیں روشن ہو جاتیں۔ خدا نے جنت یونہی نہیں پیروں میں ڈال دی۔

لکڑی کی تختی لکھتے ، تو اس پر ہاتھوں سے تراشا قلم چلتا۔ تختی ختم ہوتی تو استاد کہتے رجسٹر نکالو ، مضمون لکھو۔ اپنے پاس سے جو مضمون لکھے گا انعام پائے گا۔ اپنے پاس سے مضمون لکھنے کیا بیٹھا۔ وقت نے ارتقاء کی ایک انقلابی جست بھری۔ سرکنڈے کا قلم تراشتی انگلیاں خود قلم بن گئیں۔ لکڑی کی تختی ایک موبائل کی حساس سکرین ہوئی۔ اور خود سے مضمون لکھنے کی ریاضت کا انعام کہاں آ کر ملا۔ ساڑھے تین دہائیاں بیت گئیں۔

ہماری سیمنٹ فیکٹری کے ایک شفٹ انجینئر ہمارے دفتر آئے۔ کہنے لگے ، آپ اپنے سوشل میڈیا پر ” وقاص نامہ ” لکھتے ہیں ، ان مضامین کو کسی ویب سائیٹ پر چھاپنے کا کبھی نہیں سوچا ؟ عرض کیا طریقہ نہیں جانتا۔ کہنے لگے “مکالمہ” نئے لکھنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ کہیں تو ان سے بات کروں۔ کہا، نیکی اور پوچھ پوچھ۔ اور یوں محترمہ عاصمہ مغل صاحبہ سے رابطہ ہوا۔ انتہائی عجز و حلم کی مالکہ ایک بہترین ایڈیٹر۔ ایسے مشفق سے انداز سے میرے قلم کی دستک پر “مکالمہ” کا دروازہ کھولا کہ تحریروں کو جیسے علمیت کی آماجگاہ مل گئی۔ وہ دن اور آج کا دن، شاید تین چار سال بیت گئے۔ ادھر مضمون بھیجا ادھر چھپ گیا۔ قدر دانوں کا دل کی گہرائیوں کیا روح کی وسعتوں تلک قدردان رہتا ہوں۔

بطور ایک نئے لکھنے والے کے قومی سطح کی اس ویب سائیٹ پر میرا مضمون چھپنا میرے لیے ایک اعزاز کی بات تھی۔۔۔مجھے بڑی ممنونیت کا احساس ہوتا جسکا اظہار میں محترمہ ایڈیٹر سے کر دیتا۔ جواباً ہمیشہ وہی حلم و عجز سے بھرا خوش آمدید کا پیغام سامنے آتا تو اور بھی مسرت ہوتی۔

کچھ ہی عرصے بعد مکالمہ کی یہ غالباً پانچویں سالگرہ تھی جسکے سلسلے میں ایک ” افسانہ نویسی” کا مقابلہ منعقد کروایا گیا۔ اس میں مَیں نے بھی قلم آزمائی کی۔ اور اس وقت مجھے خوشگوار ترین حیرت ہوئی جب دوسرا انعام مجھے ملا۔ کیا پتا تھا کہ سکول میں استاد جی نے جو کہا تھا کہ “جو خود مضمون لکھے گا انعام پائے گا” کیا خبر تھی کہ وہ انعام جنابِ انعام رانا ہونگے۔ ان سے انعام پا کر ایک ٹاٹ پہ بیٹھا لڑکا یاد آیا ۔ وہ قلم ، وہ دوات وہ لکڑیاں ، وہ پھونکیں ، وہ آنکھیں وہ تختی اور وہ سماں۔۔۔او خدایا!

آج مکالمہ کی آٹھویں سالگرہ ہے۔ “مکالمہ” کے نام ایک نظم کہی، ویڈیو بنائی اور بھیج دی۔ اسے رانا صاحب نے خود اپنی وال سے شیئر کیا تو قدردانی کے ساتھ ایک اور احساس بھی پروان چڑھا۔ رانا صاحب کو بھی تو کہیں کوئی مضمون لکھتا لڑکا یاد آتا ہو گا ، جس نے مضمون لکھنے کی مسافت سے سے لکھوانے کی منزل تک حاصل کی راہ پر منزلت کا کیا شاندار سفر طے کیا۔

اس شخص کی طمانیت کا عالم کیا ہو گا کہ راہ پر خواب کا ایک بیج بوئے ، خون پسینے کی سیرابی کرے اور ایک دن برگِ تعبیر کی چھاؤں میں اپنے ساتھ بہت سے مسافروں کو پائے ۔ اندھیری راہ میں اک عزم کا دیپ جلائے اور پھر اس سے حاصل کی نئی صبح پھوٹتی دیکھے۔ خوش بخت ہیں وہ ہاتھ جنکی لگائی ایک کلی ایک چمن کا روپ دھار لے۔ اپنے لکھت پہ نازاں ہوں وہ قدم جن سے ایک کاروان بن جائے۔

دنیا بھر سے “مکالمہ” کے نام پیغامات ویڈیوز اور تحریروں کی صورت آئے۔ کیا خوب صورت پیغام خود رانا صاحب نے دیا۔ عاصمہ صاحبہ کے لیے “مادرِ مکالمہ ” کے خطاب سے بہتر بھلا کیا ہوتا۔ کہا “مکالمہ” کو اپنے بچے کی طرح پالا انہوں نے اور گروپ ایڈیٹر احمد رضوان صاحب نے۔ کیا کہنے، سچ تو یہ ہے کہ اس پوری قوم کو ” مکالمہ” اپنے بچوں کی طرح پالنا چاہیے اسکی دیکھ بھال کرنی چاہیے اسکی تربیت کرنی چاہیے اسکو پروان چڑھانا چاہیے کیونکہ مکالمہ سے زیادہ اس ملت کو کسی شے کی ضرورت نہیں۔ جنابِ انعام رانا محترمہ عاصمہ مغل اور مکالمہ کی پوری ٹیم کو اس نظم کی صورت آٹھویں سالگرہ مبارک۔۔۔۔۔

“مکالمہ ”

آٹھ سال ہو گئے اک دیا تھا جلا

اب رہِ علم پر وہ ہے اک آفتاب

کتنی پلکوں کی تعبیر ہے وہ بنا

جو کہ تھا دو ہی آنکھوں کا تابندہ خواب

آگہی کہ ہوا کا وہ جھونکا تھا جو

علمیت کی ہے بادِ صبا بن چکا

وہ جو ادراک کی ایک کونپل سی تھی

اب گلستانِ علم و ضیاء بن چکا

وہ قلم جسکی رب نے تھی کھائی قسم

اسکے لفظوں کا اب اک نگہبان ہے

بانٹتا ہے وہ دھرتی پہ علم و شعور

پڑھتے لکھتے ہوؤں پر مہربان ہے

ہے یہ دل سے دعا آج اس کے لیے

وہ جو ہے علم کا استعارہ بنا

قلم و قرطاس کا کارواں اک لیے

ایک قومی سطح کا ادارہ بنا

ہو جنم دن یہ اسکو مبارک بہت

دل سے اسکے لیے ایک پیغام ہے

وہ کہ جسکی ضرورت ہے اس قوم کو

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں “مکالمہ ” بس اسکا ہی نام ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply