کراچی، جسے پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا ہے، ایک بار پھر شدید بارشوں نے اس کے بچے کچے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ۔ قومی خزانے میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہونے کے باوجود، کراچی کا شہری منظر نامے کی حالت ناگفتہ بہ ہے، جو اس کے انفراسٹرکچر اور گورننس میں نمایاں خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ حالیہ بارش نے ان دعوئوں کی قلعی کھول دی کہ کراچی کے دیرینہ مسائل کو سنجیدگی سے حل کیا جارہا ہے۔ موجودہ بلدیاتی نظام بری طرح ناکامی کا شکار ہوا اور موجودہ مسائل کو مزید بڑھا دیا ۔ سڑکوں پر بارش کے پانی میں سیوریج کا پانی گھلنے سے سخت تعفن پھیلا ہوا ہے۔ نکاسی آب کے موثر نظام کی کمی کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے، کیونکہ کراچی کا قدیم انفرا سٹرکچر پانی کے حجم سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے وہ سڑکیں جو کبھی ہزاروں گاڑیوں کے بہا میں سہولت فراہم کرتی تھیں، ناقابل شناخت ہو چکی ہیں، بیشتر سڑکیں تو بنائیں ہی نہیں گئیں تھی اور جو بنائی گئیں ایسا لگتا تھا کہ جیسے اس پر کالا رنگ کر دیا ہو اور وہ، بارش کے پانی اور سیوریج کی موٹی تہہ میں ڈوبی ہوئی نظر آئیں، یہ درست ہے کہ بارش ہونے کے بعد نکاسی آب میں وقت لگتا ہے لیکن بیشتر سڑکیں ریت بن کر غائب ہوگئی۔ طوفان کے دوران فعال اسٹریٹ لائٹنگ کی کمی نے افراتفری کو مزید بڑھا دیا، کیوں کہ عوام اندھیری گلیوں سے گزرتے تھے جو کہ مصنوعی ندی نالوں اور کھلے گڑھے موت کے کنوئیں میں تبدیل ہوچکے تھے۔
اورنگی ،کورنگی ،پٹھان کالونی ،بلدیہ ،صدر، لیاقت آباد اور سول ہسپتال کے اردگرد جیسی اہم سڑکوں پر پانی بھرا رہا، سڑکوں کی جگہ خطرناک گڑھوں نے لے لی۔ اردوبازار اور پاکستان چوک سمیت اولڈ سٹی کے علاقوں میں پانی خطرناک حد تک جمع ہو گیا جس سے ٹریفک میں خلل پڑا اور روزمرہ کا سفر تقریباً ناممکن ہو گیا۔ گلشن اقبال سمیت کئی علاقوں میں میں نئی تعمیر شدہ سڑکیں خاص طور پر بہہ گئیں، جو حالیہ بنیادی ڈھانچے کے کام کے غیر معیاری معیار کی عکاسی کرتی ہیں۔ کراچی کی سنگین صورتحال گورننس کے وسیع تر بحران کو ظاہر کرتی ہے۔ مقامی حکومت کو، بنیادی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں، صورتحال سے نمٹنے کے لیے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کراچی کے میئر سمیت دیگر مقامی رہنمائوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ شہر کے بنیادی ڈھانچے کے مسائل کو موثر طریقے سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سمیت اپوزیشن جماعتوں نے پی پی پی کی طرز حکمرانی کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسلسل ناکامی قرار دیا ہے۔ جس نے کراچی کے بنیادی ڈھانچے کو دیکھ بھال اور بہتری کے لیے خاطر خواہ رقم مختص کیے جانے کے باوجود تباہی میں ڈال دیا ہے۔ میئر کے دفتر کی جانب سے نکاسی آب کی صورتحال پر قابو پانے کے دعوں کے باوجود زمین پر نظر آنے والی حقیقت کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔ مئیر کراچی سوشل میڈیا میں اپنی گاڑی میں رات گئے گھومتے پائے گئے اور ویڈیوز شیئر کرکے اس حقیقت کو مبینہ طور پر چھپانے کی ناکام کوشش کی کہ سب اچھا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں سندھ حکومت اور بلدیاتی حکومت شدید تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں واضح نظر آرہا تھا کہ حکومت کے مختلف درجوں کے درمیان رابطہ منقطع ہے، مقامی قیادت شہر کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے بجائے سیاسی الزام تراشی کے کھیل میں زیادہ مصروف دکھائی دیتی ہے۔ کراچی کے مکینوں پر اس کا اثر شدید ہے۔ بارش اور سیوریج کے پانی کے جمع ہونے نے بہت سے محلوں کو تقریباً ناقابل رہائش بنا دیا ہے۔ پانی بھری سڑکوں کی وجہ سے شہریوں کو گھروں سے نکلنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔ سڑکوں کی تعمیر نو کے وقت سیوریج نظام کا موجود نہ ہونا ، سب سے بڑی نا اہلی ہے کیونکہ سیوریج لائن بوسیدہ ، ناکافی اور نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی سطح زیادہ ہو نے سے روزمرہ کی زندگی مشکل سے دوچار ہوجاتی ہے۔
کراچی کے بنیادی ڈھانچے کی موجودہ حالت کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے بلکہ برسوں کی غفلت اور بدانتظامی کی انتہا ہے۔ شہر کی تیزی سے شہری کاری اور آبادی میں اضافے نے اس کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ و برباد کردیا ہے، جس سے اسے بار بار آنے والے بحرانوں کا خطرہ لاحق رہے گا۔ ان مستقل مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی درکار تھی لیکن اس کا فقدان بڑے پیمانے پر نظر آیا۔ شہری بنیادی ڈھانچے میں طویل مدتی منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری شامل نہیں ہے۔ شہر کی قیادت میں مستقبل کے بحرانوں کو روکنے، پائیدار ترقی اور موثر انتظام نہ کئے جانے کی صلاحیت موجود نظر نہیں آتی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کراچی کے بنیادی ڈھانچے کو معیاری بنانے کو یقینی بنانے کے لیے مقامی حکام کے ساتھ کام کرنا ہوگا بد قسمتی سے، مئیر کراچی اس کی اہلیت نہیں رکھتے۔ کراچی میں حالیہ شدید بارشوں نے شہر کے بنیادی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس سے ان دیرینہ مسائل کا پردہ فاش ہو گیا ہے جو کہ شہر کو برسوں سے دوچار کر رہے ہیں۔ 27اگست کو شروع ہونے والی موسلادھار بارش کے نتیجے میں رپورٹس کے مطابق شہر بھر میں تقریباً 226ملی میٹر بارش ہوئی۔ جس سے بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا اور روزمرہ کی زندگی میں خلل پڑا۔
کراچی کی حالیہ بارشوں نے جامع انفرا سٹرکچر کی بہتری اور موثر گورننس کی کی ضرورت کو ایک بار اجاگر کیا ہے۔ جیسا کہ شہر تباہی ، بدبو اور بدترین گورنس کی لپیٹ میں ہے، نکاسی آب کے مضبوط نظام کی کمی اور مقامی قیادت کی ان دائمی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی نے بہت سے رہائشیوں کو احساس محرومی پیدا ہوا ہے۔ شہر کی انتظامیہ کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو ترجیح دینا اور مستقبل میں بارش کے طوفان کے اثرات کو کم کرنے کے لیے پائیدار شہری منصوبہ بندی کی حکمت عملیوں کو نافذ کرنا ناگزیر ہے۔ کراچی کی موجودہ حالت زار پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں شہری انفرا سٹرکچر کی تباہی کا درد ناک نوحہ ہے۔ صورتحال اس بحران کی وجہ بننے والی نظامی ناکامیوں کو دور کرنے کے لیے حکومت اور مقامی رہنماں کی تمام سطحوں سے فوری اور ٹھوس کوششوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ گورننس اور انفرا سٹرکچر مینجمنٹ میں نمایاں تبدیلیوں کے بغیر، پاکستان کے معاشی پاور ہاس کے طور پر کراچی کا کردار بدستور سنگین خطرے میں ہے۔ سیاسی کرنسی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ یہ قابل عمل حل اور حقیقی تبدیلی کا وقت ہے۔ ارباب اختیار کو سمجھنا ہوگا کہ گاڑیوں میں گھومنے کے بجائے مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز جاری کریں ، اس میں امتیازی سلوک کو ختم کرنا ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں