خوشی کیا چیز ہے؟ اور خوش رہنے کے لیے کون کون سے لوازمات ضروری ہیں؟ انسانوں کی اکثریت خوشی کے حصول کے لیے طرح طرح کے جتن کرتی رہتی ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ دولت، خوشی حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔ دولت کے بغیر خوشیوں کا حصول ممکن نہیں لیکن اگر ہم دولت مند انسانوں کی زندگیوں کے اندر جھانک کر دیکھیں تو ہر طرح کی آسائشوں کے باوجود وہ اَن گنت حقیقی خوشیوں سے محروم ہوتے ہیں۔ اس کائنات میں خوش صرف وہی لوگ ہیں جو اپنے حال اور حالات سے مطمئن ہیں۔ قدرت نے انہیں جو شکل و صورت اور قد کاٹھ دے کر اس دنیا میں بھیجا اور جن محدود وسائل سے نوازا وہ اس پر قناعت کرکے سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ دراصل سادگی اور قناعت ہی اطمینان اور خوشی کا ذریعہ ہیں۔
خوشی کے حوالے سے مجھے یہ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ پچھلے دنوں اقوام متحدہ نے ڈینش قوم کو دنیا کی سب سے زیادہ خوش رہنے والی قوم قرار دیا۔ مجھے تجسس ہوا کہ وہ کون سے اسباب یا کام ہیں جن کی وجہ ڈنمارک کے لوگ دنیا میں سب سے زیادہ خوش رہتے ہیں؟ویسے تو میں کئی بار ڈنمارک جا چکا ہوں لیکن ایک بار پھر مجھے کوپن ہیگن کا سفر اس لیے اختیار کرنا پڑا کہ اس ملک کے لوگوں کے خوش رہنے کی وجوہات کی کھوج لگائی جائے۔ اس بار بھی میرے رفیق سفر معروف قانون دان نسیم احمد صاحب تھے۔ ہمیں علی الصبح لندن کے ہیتھرو ائر پورٹ سے سکینڈے نیوین ائر لائن کے ذریعے کوپن ہیگن روانہ ہونا تھا ہوائی اڈے تک پہنچنے کے لیے میں نے ٹیکسی ایک دن پہلے ہی بک کروا دی تھی۔ ایسٹ لندن سے ہیتھرو تک کا سفر ڈرائیورکی تیزرفتاری اور سڑک پر ٹریفک کم ہونے کے باعث سوا گھنٹے میں طے ہوگیا۔ بورڈنگ کارڈ ہم پہلے ہی کمپیوٹر سے ڈاؤن لوڈ کر چکے تھے اورساتھ لے جانے والا سامان بھی صرف ہینڈ لگیج تک محدود تھا۔دوران سفر سامان کم ہونے کی وجہ سے بڑی سہولت رہتی ہے۔ میری طرح نسیم صاحب بھی سفر کرتے ہوئے کم سے کم سامان ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ ہماری فلائٹ سویرے سات بجے تھی اور ہم ساڑھے پانچ بجے ٹرمینل4پر پہنچ گئے مگر اس کے باوجود ہوائی اڈے پر بہت رش تھا، سکیورٹی چیک کے لیے لمبی قطارمیں کھڑے ہوئے میں اور نسیم صاحب گزرے ہوئے اس وقت کے بارے میں سوچ رہے تھے۔جب ہم پہلی بار لندن کے اسی ہیتھرو ائر پورٹ پر پہنچے تھے تو یہ ہوائی اڈہ ہمارے لیے کس قدر اجنبی تھا۔ میں جب 1993 ء میں یہاں پہلی بار آیا تھا تو کیسی عجیب و غریب کیفیت مجھ پر طاری تھی۔ اپنے ملک خاندان اور یاروں دوستوں کو چھوڑنے کا دکھ اور ایک اجنبی ملک میں نئے امکانات اور روشن مستقبل کی توقعات! یاد ِ ماضی بھی کیا چیز ہے۔ انسان جب پیچھے مڑ کر گزرے ہوئے دنوں پر نظر ڈالتا ہے تو اُسے کس قدر حیرانی ہوتی ہے کہ وہ کن کن مرحلوں سے ہوکر موجودہ مقام تک پہنچا ہے۔ نسیم صاحب بتا رہے تھے کہ جو وہ پہلی بار لندن پہنچے تھے تو اسی ہیتھرو پر روبن گھوش اُنہیں لینے کے لیے آئے تھے۔ (وہی روبن گھوش جو اپنے وقت کے نامور موسیقار اور مقبول اداکارہ شبنم کے شوہر تھے) اُس وقت ہیتھرو کس قدر نامانوس اور اجنبی تھا اور اب اسی ہوائی اڈے پر سال میں درجنوں بار آتے جاتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ خیالات اور حالات کس قدر بدل جاتے ہیں۔ ہیتھرو بھی کیا عجیب جگہ اور ہوائی اڈہ ہے جس کے پانچ ٹرمینل ہر روز ہزاروں مسافروں کو اپنی منزلوں کی طرف آتے جاتے دیکھتے ہیں۔ دنیا کے اس معروف تین ہوائی اڈے سے80ائر لائنز کے طیارے180ممالک میں آتے اور جاتے ہیں۔1929ء میں قائم ہونے والے اس ہوئی اڈے کو1966 ء میں ہیتھرو کا نام دیا گیا اس سے پہلے یہ لندن ائر پورٹ کہلاتا تھا۔موجودہ حالات میں اس ہوائی اڈ ے سے اوسطاً 75ملین مسافر ہر سال اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے سفر کرتے ہیں۔
سکیورٹی چیک سے فارغ ہو کر جب ہم ڈیوٹی فری ایریا میں پہنچے تو ناشتے کی طلب ہمیں سٹار بکس کی طرف لے گئی۔ گرما گرم کریم کافی کے ساتھ بادام والی پیسٹری نے ناشتے کا لطف دوبالا کر دیا۔ ناشتے کا بل ادا کیا تو پتہ چلا کہ ہماری فلائٹ کلوزہونے والی ہے۔ ہم تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے جہاز تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہم اس طیارے کے آخری مسافر ہیں اور فلائٹ کا عملہ بے تابی اور خفگی سے ہمارا انتظار کررہا ہے جیسے ہی ہم جہاز میں اپنی نشستوں پر براجمان ہوئے فلائٹ رن وے کی طرف حرکت کرنے لگی۔ جہاز فضا میں بلندہوا تو زمین پر موجود ہر چیز چھوٹی ہونے لگی اور یوں لگا کہ نیچے زمین کی بجائے کسی بڑے تختے پر لندن شہر کا ماڈل سجا ہوا ہے۔پونے دو گھنٹے گپ شپ میں ایسے گزرے کہ وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔ جہاز کے کپتان نے اعلان کیا کہ چند منٹ بعد کوپن ہیگن کے ہوائی اڈے پر اترنے والے ہیں۔ جہاز سمندر کے اوپر بہت نیچی پرواز کررہا تھا۔ نسیم صاحب کھڑکی کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے تھے۔ میں اُن کی تشویشن بھانپ گیا اور انہیں تسلی دی کہ گھبرائیے نہیں۔ جہاز سمندر میں نہیں اُترے گا۔ اس ہوائی اڈے کا رن وے ایک طرح سے ساحل کے ساتھ ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ جہاز سے نکل کر ہوائی اڈے سے باہر جانے کے درواز ے تک پہنچنے میں خاصا وقت لگ گیا۔ آبادی اور ہوائی سروس میں اضافے کے باعث اب یورپی ملکوں کے دارالحکومتوں کے بیشتر ائر پورٹس بہت وسیع اور راہداریاں طویل ہوگئی ہیں۔ جہاز سے اتر کر بھی ایسا لگتا ہے کہ ہم ابھی تک حالت سفرمیں ہیں۔ ہوائی اڈے کی عمارت سے باہر نکلے تو کامران اقبال اعظم اور اقبال اختربانہیں کشادہ کیے پُر خلوص مسکراہٹ کیساتھ ہمارے منتظر تھے۔ میرے یہ دونوں دیرینہ دوست نسیم احمد سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ ہمارا ہوٹل ایڈیسن ہوائی اڈے سے زیادہ دور نہیں تھا۔لیکن فواد کرامت نے کامران کو فون کرکے ہدایت کردی تھی کہ ہمیں ناشتہ کرائے بغیر ہوٹل نہ لے جائے چنانچہ ہم کوپن ہیگن کے مرکزی شاپنگ سنٹر کے فوڈ ہال میں پہنچے تو فواد کرامت بھی وہاں آگئے اور ہم نے بفے ریستوران کے کھڑکی کے ساتھ لگائے گئے بڑے ٹیبل پر ناشتہ کیا جہاں سے دھوپ اور ہوا کے باعث سفر کی تھکان بھی جاتی رہی۔ ناشتہ بہت مرغن تھا۔ طرح طرح کے تازہ پھل، پنیر، مچھلی، دہی، سلاد، موسمی پھلوں کے تازہ رس (فریش فروٹ جوس) خشک میوؤں سے بنائی گئی ڈبل روٹی اور تازہ گرم کافی نے سیر ہوکر کھانے پر مجبور کردیا۔
ناشتے کے بعد ہوٹل پہنچے تو معلوم ہوا کہ ایڈیسن ہوٹل کی14منزل کا کمرہ ہمارا مسکن ہوگاجہاں سے کوپن ہیگن شہر کا تقریباً 25فیصد حصہ دکھائی دیتا ہے۔ برق رفتار لفٹ سے جب کمرے میں پہنچے تو طبیعت خوش ہوگئی۔ کمرے کی ایک دیوار شیشے کی تھی جس کا پردہ ہٹایا تو سامنے شہر کا منظر تھا۔ موسم گرما کے آغاز کی دھوپ میں شہر اور زیادہ نکھر ا ہوا لگ رہا تھا۔ تمام دوست ہمیں آرام کرنے کے لیے ہوٹل میں چھوڑ کر چلے گئے۔ ہوٹل آرام دہ تھا۔گداز بستر نے ہمیں جلد نیند کی آغوش میں لے لیا۔ آنکھ کھلی تو دوپہر ڈھل رہی تھی۔ کمرے میں کافی کا انتظام تھا۔ کافی پی کر تازہ دم ہوئے تو نسیم صاحب کی خواہش تھی کہ سب سے پہلے اس مشہور جل پری (Mermaid) کا مجسمہ دیکھنے چلیں جو سمندر کے کنارے ایک پتھر پر طویل مدت یعنی1913سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ ہوٹل کے استقبالیہ سے معلومات لے کر ہم نے تین دن کے لیے سیاحتی بس کارڈ بنوایا اور مقررہ سٹاپ پر پہنچ گئے جہاں سے سیاحتی بس میں سوار ہوئے تو وہ ہمیں شہر کے مرکز سے گھماتی ہوئی سمندر کے اس کنارے تک لے گئی جہاں پتھر پر بیٹھی جل پری سیاحوں کا انتظار کررہی تھی۔ کانسی کی بنی ہوئی اس نیم عریاں جل پری سے کئی طرح کی کہانیاں اور داستانیں منسوب ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے جتنے منہ اُتنی باتیں ۔۔ یورپ میں سیاحوں کی توجہ اور دلچسپی کے لیے ان گنت مقامات اور یادگاریں ایسی ہیں جن سے طرح طرح کے قصے منسوب کردئیے گئے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں طالب علمی کے زمانے میں پہلی بار پاکستان کی مشہور جھیل سیف الملوک دیکھنے گیا جو واقعی قدرت کے شاہکاروں میں سے ایک ہے تو وہاں بھی ایک غار سے شہزادہ سیف الملوک کا قصہ منسوب ہے۔ اسی لیے جھیل سیف الملوک کا نظارہ کرنے کے لیے جانے والے اس غار کا درشن ضرور کرتے ہیں۔ اسی طرح یورپ میں سیاحتی مقام پر جہاں کوئی فوارہ یا مصنوعی چشمہ بنایا گیا ہے وہاں سیاحوں کی اکثریت اس نیت سے پانی میں سکے ضرور پھینکتی ہے کہ سکہ پھینکتے وقت د ل میں جو خواہش کی جائے گی وہ ضرور پوری ہوگی۔ اسی طرح لندن کے مشہور ٹاور برج سمیت یورپی ممالک کے دارالحکومتوں میں جہاں کہیں بھی دریاؤں اور نہروں پر پل بنائے گئے ہیں وہاں نصب جالیوں یا جنگلوں پر اَن گنت تالے لگے نظر آتے ہیں۔ یہ تالے مختلف ملکوں سے آنے والے سیاح لگاتے ہیں اور چابیاں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں یا پانی میں پھینک دیتے ہیں۔ ان تالوں پر اپنے محبوب کا نام یا اس کے نام کا ابتدائی حرف لکھ دیتے ہیں۔ یہ تالے پائیدار یا نہ ٹوٹنے والی محبت کے طور پر لگائے جاتے ہیں۔ ایسے تالے ہمیں کوپن ہیگن کے کئی پلوں کی جالیوں کے ساتھ بھی لگے ہوئے نظر آئے جن کا ذکر بعد میں آئے گا۔ فی الحال جل پری کے قصے کی طرف آتے ہیں جس کے بارے میں پہلی بار ڈینش ادیب کرسچین اینڈرسن نے1836ء میں خامہ فرسائی کی تھی۔ جل پری کا مجسمہ سمندر کے کنارے جس پتھر پر رکھا گیا ہے اس سے سمندر کا پانی مسلسل ٹکراتا رہتا ہے۔ سیاحوں کی اکثریت پتھروں کو پھلانگ کر جل پری تک پہنچ جاتی ہے اور وہاں تصویر بنوا کر اس یادگار کو محفوظ کر لیتی ہے۔ نسیم صاحب نے بھی جگہ ملتے ہی ایک تصویر اس جل پری کے ساتھ بنوائی اور میں نے بھی اُن کی پیروی کی۔ سمندر کے جس کنارے پر یہ مجسمہ لگا ہوا ہے وہ بہت صحت افزا جگہ ہے۔
مجسمے کے ایک طرف سمندر اور دوسری طرف ہرے بھرے درخت، چھوٹے چھوٹے پارک، جھیل اور راہداریاں ہیں جہاں سمندری ہوا ہر آنے والے سیاح کوتروتازگی کا خوشگوار احساس دلاتی ہے۔ جل پری کے مجسمے کے ساتھ تصویریں بنوانے والوں کا رش تھا اور ساتھ ہی ایک عورت اپنی وین کے ساتھ لگائے گئے عارضی کاؤنٹر پر جل پری کے مجسمے سجائے فروخت کررہی تھی۔ ہم نے نیم عریاں جل پری کے مجسمے خریدنے سے گریز کیا اور ٹہلتے ہوئے واپس اپنے بس سٹاپ کی طرف آگئے۔ جہاں ایک بہت بڑا فوارہ لگا ہوا تھا۔ اس فوارے کے ساتھ ایک تنو مند عورت ہاتھ میں کوڑا لیے 4 منہ زور بیلوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ مجسمہ اور فوارہ مجسمہ ساز کی مہارت کا ایک ایسا شاہکار ہے جسے ہر دیکھنے والا داد ضرور دیتا ہے۔ فوارہ جیفیون فاؤنٹین کہلاتا ہے اور اس کے ساتھ عورت اور بیلوں کے مجسمے نامور ڈینش فنکار اینڈرز بند گارد کی تخلیق ہیں۔ ہم بلندی پرلگے ان دیو ہیکل مجسموں اور فواروں کے حسن تربیت کی داد دے رہے تھے کہ اتنے میں ہماری سیاحتی بس مقررہ سٹاپ پر پہنچ گئی۔ دن بہت روشن اور خوشگوار تھا۔ اس لیے میں اور نسیم صاحب بس کی دوسری منزل پر جا بیٹھے۔ کھلی چھپ والی اس بس میں ہر نشست پر ایک ہیڈ فون لگا ہوا تھا جس کے ذریعے سے انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں ہر اس جگہ کے بارے میں معلومات دی جاتی ہیں جہاں جہاں سے یہ بس گزرتی ہے۔ شام ڈھل رہی تھی اور ہم بس کی کھلی چھت سے کوپن ہیگن کے مختلف علاقوں سے گزرتے اور معلومات حاصل کرتے ہوئے اپنے ہوٹل کی طرف رواں دواں تھے کہ فواد کرامت کا فون آگیا کہ آج رات کا کھانا ہم سب دوست مل کر کھائیں گے۔ گرما گرم نان کے ساتھ کڑاہی گوشت اور تڑکا دال کھانے کا مزہ آگیا۔
کھانا کھا کر ہم ہوٹل پہنچے جہاں رات گئے دوستوں سے گپ شپ نے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہونے دیا۔ نیند غالب آنے لگی تو دوستوں نے اجازت چاہی اور ہمیں اپنے آرام دہ بستر میں لیٹتے ہی نیند آگئی۔ صبح9 بجے بیدار ہوئے تو طبیعت ہشاش بشاش تھی۔ناشتہ کرنے ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں پہنچے تو کھانے پینے کے درجنوں لوازمات اور مستعد عملے نے ہمارا خیر مقدم کیا۔ ناشتے کے بعد ہمارا پروگرام سائیکل کے ذریعے شہر گھومنے کا تھا۔ پورے ڈنمارک اور بالخصوص کوپن ہیگن میں ہرروز ہزاروں مردوخواتین سائیکل پر اپنے کام کاج کے لیے جاتے ہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹی کے پروفیسرز، ہسپتالوں کے ڈاکٹرز، وکیل، جج، تاجر، دفتروں کے کلرک، افسر، طالب علم، گھریلوخواتین حتیٰ کہ پنشنزز تک سائیکل کے ذریعے سفر کرتے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈنمارک کے لوگ ماحولیاتی آلودگی کی کمی پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں سائیکل کو ایک ماحول دوست سواری سمجھتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ پورے ملک میں ہر سڑک کے ساتھ سائیکل ٹریک بنے ہوئے ہیں جہاں نہ تو کوئی پیدل چل سکتا ہے اور نہ ہی کوئی گاڑی پارک کی جاسکتی ہے۔ ان ٹریکس پر ہر وقت سائیکلیں رواں دواں نظر آتی ہیں۔ ان سائیکلوں پر شاپنگ کا سامان رکھنے کے لیے بڑی بڑی ٹوکریاں اور بچوں کو بٹھانے کے لیے خصوصی نشستیں لگی ہوئی ہوتی ہیں۔ سائیکل ٹریکس پر طرح طرح کی جدید سائیکلوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ کس قدر سہولت والی سواری ہے اور ڈنمارک کی معاشرتی زندگی کا کتنا اہم جزو ہے۔ ڈنمارک اور ہالینڈ یورپ کے اُن ملکوں میں سر فہرست ہے جہاں سائیکل سواری بہت عام اور معاشرتی ضرورت ہے۔ یہاں کے لوگوں کی اکثریت قیمتی کاریں خریدنے اور انہیں چلانے کے وسائل رکھنے کے باوجود سائیکل سواری کو ترجیح دیتی ہے۔ کار یا قیمتی کار یہاں ”سٹیٹس سمبل“ نہیں ہے۔ پورے ڈنمارک میں دفتروں، شاپنگ سنٹرز اور سٹیشنز کے بارہ سائیکل سٹینڈز پر سیکڑوں سائیکلیں قطار در قطارکھڑی نظر آتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک زمانے میں پاکستان کے سینما گھروں میں سائیکل سٹینڈز سائیکلوں سے بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ ڈینش قوم کے خوش رہنے کی ایک وجہ سائیکل کی سواری بھی ہے۔ وہ سائیکل سواری سے لطف اندوز ہوتی ہے اور اس ضمن میں کسی قسم کے نفسیاتی مسئلے کا شکار نہیں۔ ڈینش لوگوں کے خوش رہنے کی دوسری بڑی وجہ اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔ وہ دوسروں کی ٹوہ میں نہیں رہتے۔ دکھاوے اور نمود و نمائش سے گریز اور آخری عمر تک کارآمد اورمتحرک رہنے کی جستجو انہیں زندگی بھر سرشار رکھتی ہے۔ شادی کے جھنجھٹ سے آزاد رہنا اور اگر شادی کرلیں تو زیادہ سے زیادہ دو بچوں پر قناعت کرنا بھی ان کے خوش رہنے کے دیگر اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے۔ ڈنمارک میں خواندگی کی شرح سو فیصد اور بے روزگاری کی شرح مشکل سے دو فیصد ہے۔43ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل اس ملک کی آبادی 57 لاکھ یعنی5.7 ملین ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ اس ملک کے لوگ سائیکل چلا کر بھی خوش اور مطمئن رہتے ہیں جبکہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں لوگوں کی اکثریت قیمتی گاڑیاں اور موٹر سائیکل چلا کر بھی ناخوش رہتی ہے یعنی خوش رہنے کے لیے وسائل سے زیادہ اطمینان بہت ضروری ہے۔ بہرحال سائیکل کے ذریعے کوپن ہیگن گھومنے کا پروگرام پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا کیونکہ ہمارے ہوٹل میں سیر سپاٹے کے لیے کوئی سائیکل دستیاب نہ تھی اور جب ہم ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر پہنچے اور سائیکل کرائے پر لینے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہاں بھی تمام سائیکلیں سیاحوں کو کرائے پر دی جا چکی تھیں چنانچہ ہم بس کے ذریعے ٹوالی(Tivali) پہنچے جو کہ شہر کے مرکزمیں ڈزنی لینڈ کی طرز کا ایک بہت بڑا پارک ہے جہاں طرح طرح کی رائیڈز یعنی جھولوں اور کھیل تماشوں کا اہتمام اور سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا ہے جو بچوں اور بڑوں کے لیے دلچسپی اور کشش کا باعث ہوتا ہے۔ بلندی سے خوف کھانے والوں اور کمزور دل لوگوں کو ان رائیڈز میں نہ بیٹھنے کی ہدایت جگہ جگہ آویزاں تھی۔ میں اور نسیم صاحب ایک ٹرین رائیڈ میں جا بیٹھے۔ یہ تیز رفتار ٹرین بہت بلندی سے ایک دم نیچے آتی اور تاریک سرنگوں سے گزرتی ہے تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ چند منٹ کی یہ رائیڈ ہمارا حوصلہ آزمانے کے لیے کافی تھی جب میں نے ایک اور رائیڈ میں بیٹھنے کے لیے استقبالیہ کاؤنٹر کی طرف جانا چاہا تو نسیم صاحب نے کہا آج کے لیے ایک رائیڈ ہی کافی ہے چنانچہ باقی وقت ہم نے ٹوالی میں گھومتے پھرتے، جھیل کے کنارے مچھلیوں کو خوراک ڈالتے اور لوگوں کو کھیل تماشوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھ کر گزارا۔ ایک جگہ بہت شاندار فوارے لگائے گئے تھے جہاں وقفے وقفے سے موسیقی کی دھنوں کے ساتھ ان فواروں کو چلایا جاتا ہے تو لوگ چلتے چلتے رُک جاتے ہیں اور ماحول پرایک خاص طرح کا سحر طاری ہوجاتا ہے۔ ان فواروں کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا ریستوران تھا جہاں مالٹے کے تازہ رس کے ساتھ فش اینڈ چپس کھا کر ہم تازہ دم ہوئے اور ٹوالی سے نکل کر چہل قدمی کرتے ہوئے بس سٹاپ تک گئے اور وہاں سے کوپن ہیگن کے اس مشہور مقام پر پہنچے جہاں نہر کے کنارے رنگ برنگے گھرو ں کے باہر چھوٹے چھوٹے کافی بار اور ریستوران بنے ہوئے ہیں۔ایک جگہ میز خالی دیکھ کر ہم نے بھی نشستیں سنبھال لیں۔ موسم بہت خوشگوار اور دھوپ کی وجہ سے دن بہت روشن تھا۔ یہاں بیٹھ کر کریم کافی پینے کا لطف آگیا۔ آج یہاں سیاحوں کا بہت رش تھا۔ ہمارے دائیں بائیں کئی ملکوں کی خوبصورت سیاح لڑکیاں اور لڑکے خوش گپیوں میں مصروف تھے اور نظریں ملتے ہی یہ لڑکیاں اجنبی سیاحوں کو بھی ہلکی سی مسکراہٹ اور تبسم سے نواز دیتی تھیں۔ اگر ہم روایتی قسم کے سفر نامہ نویس ہوتے تو زیب داستاں کے لیے شاید بات آگے بڑھ بھی جاتی۔ ہمارے بہت سے سفر نامہ نگار تو لڑکیوں کے معاملے میں اس حدتک مبالغے سے کام لیتے ہیں کہ پڑھنے والوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بہت سے سفر نامے لکھنے والے تو یورپ کے ساحل سمندر پر غسل آفتابی کرنے والی دوشیزاؤں کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ بہت سے کمزور دل دیسی قارئین کے نہ صرف وضو ٹوٹ جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان پر غسل بھی واجب ہوجاتا ہے
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں