• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ڈنمارک؛لوگوں کے خوش رہنے کا رازکیا ہے؟ (2،آخری حصّہ)- فیضان عارف

ڈنمارک؛لوگوں کے خوش رہنے کا رازکیا ہے؟ (2،آخری حصّہ)- فیضان عارف

کافی ختم کر کے ہم نہر کے پُل پر پہنچے جس کی جالیوں پر جگہ جگہ وہ تالے لگے ہوئے تھے جن کا ذکر میں نے پہلے کیا ہے۔ پُل کے دوسری طرف بڑی بڑی موٹر بوٹس کے ٹکٹ گھر بنے ہوئے تھے جہاں سے ٹکٹ خرید کر ہم ایک کشتی میں جا بیٹھے۔ یہ کشتی ہمیں نہر کے راستے سے کھلے سمندرمیں لے گئی۔ تاحد نظر نیلا پانی، آسمان پر تیرتے ہوئے روئی کے گالوں جیسے سفید بادل، فضا میں اڑتے آبی پرندے اور گیت گاتی سمندری ہَوا نے موٹر بوٹ میں بیٹھے تمام سیاحوں کے مزاج میں سرشاری کی لہر بیدار کردی۔ ڈیڑھ گھنٹے کی سیر کے بعد موٹر بوٹ سمندر کے کنارے بنی رہائشی عمارتوں اوربلند کمرشل بلڈنگز سے ہو کر واپس نہری راستوں سے گزرتی ہوئی ہمیں اس مقام پر لے آئی جہاں سے اس نے ہمیں لیا تھا۔ واپسی کے تمام راستوں پر جگہ جگہ طرح طرح کی کشتیاں لنگر انداز تھیں بڑی، چھوٹی،نئی پرانی، رنگ برنگی کشتیاں، بادبانی کشتیاں، چپو سے چلنے والی کشتیاں، پٹرول انجن والی کشتیاں، سمندری سیر سپاٹے کے لئے استعمال ہونے والی کشتیاں، رہائشی کشتیاں، پارٹی اور تقریبات کے لئے استعمال ہونے والی کشتیاں۔ سمندر کے کنارے او ر نہروں میں کشتیاں اس طرح لنگر انداز تھیں جس طرح سڑک کے کنارے گاڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ پارک کی جاتی ہیں۔

بوٹ سے اتر کر ہم نے کوپن ہیگن کی فوڈ مارکیٹ کا رخ کیا، سیاحتی نقشے کی مدد سے ہم اس مارکیٹ میں پہنچے تو اس قدر صاف ستھری اور ہر طرح کے کھانوں سے مزین یہ جگہ دیکھ کر ہم حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس مارکیٹ میں کوئی ریستوران نہیں تھا بلکہ پھلوں، سبزیوں، خشک میوؤں اور تیا رغذا کی جگمگاتی دکانیں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی تھیں۔ ایک دکان پر تازہ پھلوں اور سبزیوں سے بنا ہُوا درجنوں طرح کا سلاد فروخت ہو رہا تھا اس کے ساتھ ہی مچھلی، جھینگوں اور دیگر سمندری جانداروں سے بنی ہوئی مزیدار ڈشز خریدنے والوں کا رش لگا ہوا تھا۔ ایک دکان پر مربے اور زیتون کھانے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا اس مارکیٹ میں جو کچھ بھی فروخت ہو رہا تھا اس کی سجاوٹ، حسن ترتیب اور ورائٹی واقعی قابل ستائش تھی۔ ہم نے اس مارکیٹ سے سلاد کھانے پر ہی اکتفا کیا۔ اس شاندار فوڈ مارکیٹ سے نکل کر ہم نے بس پکڑی اور اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔

دوپہر ڈھل چکی تھی اس لئے ہم نے کچھ دیر ہوٹل میں آرام کیا کیونکہ رات کو کوپن ہیگن کی رونقیں دیکھنے کے لئے ہمیں شہر کے مرکز میں جانا اور مشہور ریستوران سے شوارما کھانا تھا۔ ہوٹل کے استقبالیہ سے جب ہمیں فون کر کے جگایا گیا تو اس وقت رات اپنا دامن پھیلا رہی تھی، فواد کرامت اور کامران اقبال اعظم ہوٹل کی استقبالیہ لابی میں ہمارا انتظار کررہے تھے۔ یہ ہفتے کی رات تھی یعنی ویک اینڈ تھا جمعے اور ہفتے کی رات کو ویک اینڈ منانے کے لئے پورے یورپ اور بالخصوص خوشحال ملکوں کے دارلحکومتوں میں رونقیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں نائٹ کلبوں کا رخ کرتے ہیں ڈانس پارٹیز کا اہتمام ہوتا ہے ریستورانوں میں ڈنر کے پروگرام بنائے جاتے ہیں، مال دار لوگ کیسینوز یعنی جوئے خانوں کی رونقیں دوبالا کرتے ہیں، پب یعنی شراب خانے مے نوشوں سے بھرے رہتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ محض ویک اینڈ کو انجوائے کرنے کے لئے باقی پانچ دن خوب انہماک سے کام کرتے ہیں جن جگہوں پر ویک اینڈ یعنی جمعہ اور ہفتہ کی رات تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی وہاں باقی دنوں میں اکا دکا لوگ ہی نظر آتے ہیں۔

ہم جب شہر کے مرکز میں پہنچے تو ہر طرف روشنیوں کی جگمگاہٹ سے ہر آنے جانے والے کا چہرہ دمک رہاتھا۔ خوشگوار موسم کی وجہ سے کوپن ہیگن میں ہر طرف سیاحوں کی بھرمار تھی۔ ہر نائٹ کلب کے باہر نوجوان لڑکے لڑکیوں کی قطاریں لگی ہوئیں تھیں۔ ایک کلب کے باہر روشنی کی جگمگاہٹ آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ میں نے فواد کرامت سے استفسار کیا کہ یہ کون سا کلب ہے اور یہاں اس قدر لمبی قطار کیوں لگی ہوئی ہے فواد نے بتایا کہ یہ اپنی نوعیت کا بالکل منفرد کلب ہے یہاں بے مثال حسین و جمیل نوجوان لڑکیاں قدرتی لباس میں رقص کرتی ہیں۔ غلام قوموں کے لوگ زنجیر پہن کر رقص کرتے ہیں جبکہ آزاد قوموں کی حسینائیں لباس سے بھی بے نیاز ہو کر اپنے رقص کے جادو جگاتی ہیں۔

اس سے پہلے کہ فواد مزید وضاحت کرتا میں نے کہا کہ شوارما کھانے کی طلب ہو رہی ہے باقی دوستوں نے بھی میری تائید کی اور ہم مٹر گشت کرتے ہوئے ریستوران پہنچ گئے۔ شوارما واقعی بہت لذیز تھا اور یہاں گاہکوں کا رش لگا ہوا تھا۔ شوارما کھا کر جب ہم باہرنکلے تو نصف رات گزر چکی تھی لیکن کوپن ہیگن کا مرکز جاگ رہا تھا رونق میلہ اور ہلا گلا جاری تھا ہم خوش گپیاں کرتے ہوئے کار پارک کی طرف جا رہے تھے کہ دو نوجوان لڑکھڑاتی ہوئی لڑکیاں آنے جانے والے پر جملے چست کرنے کے لئے فٹ پاتھ کے درمیان کھڑی ہوئیں تھیں۔ ڈینش زبان سے ناواقفیت ہمارے آڑے آئی چنانچہ فواد کرامت نے اُن سے بات چیت شروع کی تو معلوم ہوا یہ کٹی پتنگیں گنجائش سے زیادہ پی کر اپنے ہوش کھو چکی ہیں۔ ہم نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی اورکار میں سوار ہو کر ہوٹل کی راہ لی۔

ہوٹل پہنچے تو دن کے آغاز کا اُجالا نمودار ہونے کے آثار بیدار ہو رہے تھے۔ یہ جولائی کا مہینہ تھا۔ پورے سکینڈے نیویا یعنی ڈنمارک، سویڈن، فن لینڈ، ناروے اور آئس لینڈ میں موسم گرما میں 20 گھنٹے کا دن ہوتا ہے اور اسی طرح سردیوں میں 18سے 20 گھنٹے رات کا اندھیرا طاری رہتا ہے بالخصوص ناروے کے شمال میں ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں 21 جون کو ایک طرف سے سورج غروب اور دوسری طرف سے طلوع ہونے کے منظر کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ وہاں جاتے ہیں۔ سکینڈے نیویا کے ممالک کی تاریخ عجیب و غریب واقعات سے بھری ہوئی ہے یہ ممالک تاریخ کے المناک سانحوں سے گزر کر الگ ہوئے اور اب اچھے ہمسایہ مماک کی طرح اپنے اپنے لوگوں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ یہاں یہ لکھنا بڑا عجیب لگتا ہے کہ معلوم نہیں ہندوستان، افغانستان، پاکستان اور دیگر ممالک سکینڈے نیویا کے ممالک کی ہمسائیگی سے کب سبق حاصل کریں گے؟

بہرحال اگلے روز کا پروگرام کامران اعظم نے طے کر رکھا تھا ،اتوار کا دن تھا اور کامران کو کام سے چھٹی اور فراغت تھی اس نے ناشتے کے بعد ہمیں ہوٹل سے لیا اور بتایا کہ آج ہماری منزل ہیلسنگورہے جو کوپن ہیگن سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ایک ساحلی شہر ہے راستہ انتہائی خوبصورت ہے اس شہر کی سب سے بڑی کشش کرون بورگ یا کون بورگ (Kronborg) کا وہ تاریخی قلعہ ہے جس کے چاروں طرف ایک گہری خندق ہے جس میں اب بھی سمندر کا پانی بھرا رہتا ہے اور اس میں بطخیں، مرغابیاں اور مچھلیاں تیرتی رہتی ہیں۔ یونیسکو کے ورلڈ ہیریٹج میں شامل یہ پروقار قلعہ کنگ ایرک VII نے 1402 میں تعمیر کروایا تھا۔ جب ہم اپنی گاڑی پارک کر کے اس قلعے کی طرف جا رہے تھے تو راستہ ہماری طرح کے سیاحوں سے بھرا ہوا تھا۔ موسم بہت خوشگوار تھا قلعے کے داخلی دروازے سے پہلے کچھ نئی تعمیرات کا کام جاری تھا۔ قلعے کی خندق عبور کرنے سے پہلے ایک بڑی جگہ پر پورے قلعے کا ماڈل سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتا ہے، یہ ماڈل دھات کا بنا ہوا ہے اور انتہائی مہارت سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ قلعہ جس جزیرے میں بنایا گیا ہے اُسے ذی لینڈ کہا جاتا ہے قلعے کے گرد اونچی فصیلیں ہیں 1785 میں یہاں ڈنمارک کا شاہی خاندان مقیم ہوا تو اس کی حفاظت پر فوج معمور کی گئی۔ 1923 میں فوج اور شاہی خاندان یہاں سے رخصت ہواتو اس تاریخی مقام کو عوام کے لئے کھول دیا گیا اب اس قلعے کے اندر شاہی خاندان کی یادگاریں سیاحوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں قلعے کی فصیل کے اندر ولیم شیکسپئر کا مجسمہ کندہ کیا گیا ہے اس قلعے میں شیکسپئر کا مشہور زمانہ کھیل ہملیٹ پہلی بار سٹیج کیا گیا تھا جس میں فوجیوں نے حصہ لیااس نسبت سے اس قلعے کو فورٹ آف ہیملٹ بھی کہتے ہیں۔ ا س مقام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اگر آپ قلعے کی فصیل اور خندق کو عبور کر کے پتھریلے ساحل سمندر پر جائیں تو دوسری طرف سویڈن دکھائی دیتا ہے۔ یہاں سے ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان سمندری فاصلہ بمشکل ڈھائی میل ہے، یہ بالٹیک سی کی پتلی گزرگاہ ہے۔

ہم یعنی میں، نسیم صاحب اور کامران اعظم جب اس پتھریلے ساحل پر پہنچے تو 24ڈگری سنٹی گریڈ درجہ حرارت اور سمندری ہواؤں کے باعث بادلوں اور سورج کے درمیان آنکھ مچولی، لہروں کا شور، نیلا سمندر، سویڈن کی طرف رواں دواں بحری جہاز اور پس منظر میں تاریخی قلعہ، ان سب چیزوں نے ماحول اور منظر کو ناقابل فراموش بنا دیا، سمندر کی شفاف لہریں ساحل کے باریک باریک پتھروں سے ٹکرا کر واپس جا رہی تھیں ہم سے کچھ فاصلے پر چند شکاری مچھلیاں پکڑنے کے لئے ڈور سمندر میں پھینک کر نادان مچھلیوں کے پھنسنے کا انتظار کر رہے تھے۔ معلوم نہیں کیوں مجھے اس موقع پر اسلم کولسری کا یہ شعر یاد آیا ؎مچھلی ہوں ایک میں جسے کوئی ستم ظریفبوتل میں بند کر کے سمندر میں پھینک دےتارکین وطن کے لئے اس شعر میں ایک خاص ملال اور کیفیت ہے۔

بہرحال ہم ساحل سے سمندر میں آنے جانے والے بحری جہازوں کو دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ ٹیکنالوجی نے ہوائی اور زمینی سفر کی طرح بحری سفر میں بھی کتنی آسانیوں اور سہولتوں کی راہ ہموار کر دی ہے۔ ڈنمارک میں ہم نے ایسے بحری جہاز بھی لنگر انداز دیکھے جس میں پرُآسائش رہائش کے سیکڑوں کمرے، ریستوران، شاپنگ سنٹر، سوئمنگ پول، سینما اور معلوم نہیں کیا کیا کچھ تھا، ایسے بحری جہاز مسافروں کو ملک ملک لے کر گھومتے ہیں۔ ساحلی ہوا اور خوشگوار دھوپ نے نسیم احمد پر غنودگی طاری کر دی اور وہ موسم کا لطف اُٹھانے کے لئے ساحل کے باریک باریک پتھروں پر آنکھیں بند کر کے سستانے لگے۔ میں اس دوران مچھلیوں کے شکاریوں کی طرف جا نکلا جو لمبی سانپ کی شکل کی چمکیلی مچھلیاں پکڑ کر اپنے تھیلے میں جمع کر رہے تھے۔ ساحل سمندر پر گزرنے والے ایک گھنٹے نے طبیعت کو ہشاش بشاش کر دیا اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی واپس ہو لئے اور قلعے کی فصیل کے باہر ایک چھوٹے سے کافی بار میں جا بیٹھے۔ کافی پی کر واپس کوپن ہیگن کا رُخ کیا۔

راستے میں ہم نے اپنے اگلے دن کا پروگرام ترتیب دے لیا۔ ہمارا اگلا پڑاؤ سویڈن کا شہر مالمو تھا۔ دراصل نسیم صاحب ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان وہ منفرد پُل یعنی برج دیکھنا چاہتے تھے جو تقریباً 8 کلومیٹر طویل ہے اور یسنڈ (Oresund) نام کے اس پُل کا منصوبہ 1936 میں بنایا گیا لیکن دوسری جنگ عظیم کے باعث اس کی تعمیر کا آغاز نہ ہو سکا اس سمندری راہداری کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے آدھے راستے پر شاندار پل ہے جبکہ باقی آدھا راستہ سمند ر میں ٹنل یعنی سرنگ کے اندر ہے جب آپ کوپن ہیگن اور مالمو کے درمیان اس راہداری سے گزرتے ہیں تو آدھا راستہ سمندر کے اوپر اور آدھا راستہ سمندر کے اندر طے کرتے ہیں۔ اس سمندری را ستے میں پائیدار موٹر وے کے علاوہ ریلوے ٹریکس بھی ہیں یعنی اس راستے سے نہ صرف کوچز، بڑے ٹرک اور کاریں گزرتی ہیں بلکہ ریل گاڑیوں کی آمد و رفت بھی دونوں ملکوں کے درمیان جاری رہتی ہے۔

اگلے دن ناشتے کے بعد ہم ٹہلتے ہوئے بس سٹاپ تک پہنچے جہاں سے شہر کے مرکز یعنی ٹوالی کے بالکل سامنے جا اُترے اور ٹورسٹس انفارمیشن سنٹر سے مالمو جانے والی کوچ کے بارے میں معلومات اور ٹکٹیں لے کر کوچ کے سٹاپ کی طرف چل دیئے۔ تھوڑی دیر بعد کوچ آ گئی اور ہم اس میں سوار ہو کر سویڈن کی طرف محو سفر ہو گئے۔ سمندری سرنگ میں داخل ہونے سے پہلے کوچ کے تمام مسافروں کے پاسپورٹس چیک کئے گئے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان سفر کرنے والوں کے ساتھ یہ تکلف نہیں برتا جاتا تھا مگر یورپی یونین میں کئی ممالک کی شمولیت کے بعد سفری دستاویزات کی پڑتال ضرور کی جاتی ہے، ہماری کوچ پہلے سمندر کے اندر سرنگ میں سفر کرتی رہی اور پھر عین سمندر کے بیچ ٹنل سے نکل کر پُل پر آگئی اور ہمیں دور دور تک سمندر اور اس میں موجود چھوٹے چھوٹے جزیرے دکھائی دینے لگے اس پل کے ایک طرف ڈنمارک اور دوسری طرف سویڈن ہے اور یہاں سرحد پر کسی قسم کی کوئی فوج تعینات نہیں ہے۔ یہ پل ساڑھے 23 میٹر چوڑا ہے اور اسے یکم جولائی 2000 میں پہلی بار آمدورفت کے لئے کھولا گیا تھا اور اس عظیم الشان پل کا افتتاح کسی سیاستدان نے نہیں کیا۔ اس پر 2.6 بلین یورو کے اخراجات ہوئے اسی لئے یہاں سے ہر روز گزرنے والی 20 ہزار گاڑیوں سے ٹول ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔

مالمو پہنچے تو ایک دم تبدیلی کا احساس ہونے لگا۔ سویڈن کا یہ ساحلی اور سرحدی شہر بہت گنجان آباد ہے یہاں تارکین وطن کی کثرت ہے کوپن ہیگن کے مقابلے میں یہاں کا ماحول مختلف اور افراتفری کی کیفیت نظر آئی سیاحوں کے لئے یہاں دیکھنے کو کچھ خاص نہیں تھا اور ہمارے پاس سویڈش کرنسی بھی نہیں تھی اس لئے ہم اگلی کوچ سے ہی کُوچ کر کے واپس کوپن ہیگن کی طرف روانہ ہو گئے۔ مالمو آنے کا مقصد صرف سمندر کا پل اور سرنگ کو عبور کرنا تھا اور یہ ہمارے لئے واقعی ایک خوشگوار تجربہ تھا سویڈن یا ڈنمارک آکر اس پل کو نہ دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے آپ پیرس جائیں اور ایفل ٹاور دیکھے بغیر واپس آ جائیں یا لندن آ کر بھی بگ بین کے دیدار سے محروم رہیں۔ ہم جس سرشاری کی کیفیت کے ساتھ یہ پل عبور کر کے مالمو گئے تھے اسی طرح کی کیفیت لئے واپس کوپن ہیگن آ گئے اور ہوٹل پہنچنے سے پہلے فواد کرامت کا فون آ گیا کہ ہم ہوٹل کی لابی میں تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ ہماری لندن واپسی کی فلائیٹ میں کئی گھنٹے تھے اس لئے دوستوں کے ساتھ ہوٹل میں ہی کافی پینے اور گپ لگانے کا موقع میسر آ گیا۔ اقبال اختر، فواد کرامت اور کامران اعظم کوپن ہیگن کی ادبی سرگرمیوں کے روح رواں ہیں تینوں بہت اچھے شاعر ہیں اقبال اختر کا شمار ڈنمارک میں اردو کے سینئر شاعر کے طور پر ہوتا ہے انہوں نے اس اجنبی ملک میں اردو شعر و ادب کا چراغ اس وقت روشن کیا جب یہاں اردو سمجھنے اور بولنے والوں کی تعداد بہت محدود تھی اب تو خیر سے کوپن ہیگن اور ڈنمارک کے دیگر شہروں میں کم و بیش 20 ہزار سے زیادہ پاکستانی آباد ہیں۔

نسیم احمد صاحب کی فرمائش تھی کہ تینوں دوستوں سے اُن کی منتخب شاعری ضرورسنی جائے۔ تینوں دوستوں نے اپنے اپنے چند منتخب اشعار سنائے۔ نسیم احمد صاحب یہ شاعری سن کر بہت متاثر اور خوش ہوئے کہ ان دوستوں سے ملاقات کا موقع میسر آیا۔ ان دوستوں نے ہمیں ڈنمارک کے پاکستانیوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں بہت سے حقائق سے آگاہ کیا جس کی تفصیل آئندہ کسی موقع پر سپرد قلم ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سیر و سیاحت کے لئے ڈنمارک ایک دلچسپ اور خوبصورت ملک ہے جو 443چھوٹے چھوٹے سمندری جزیروں میں گھرا ہوا ہے اس کا پرچم دنیا کا قدیم ترین پرچم ہے جو 1219 سے اب تک ایک ہی ڈیزائن میں ہے اس ملک کے رہنے والوں کو ایک سے زیادہ بار دنیا کی سب سے زیادہ خوش اور مطمئن قوم قرار دیا جا چکا ہے یہاں کے صرف 3 فیصد لوگ عبادت کے لئے چرچ جاتے ہیں اور 28 فیصد کو خدا پر یقین ہے۔ 2008 میں ڈنمارک کو دنیا کا سب سے زیادہ جمہوری اور دیانتدار ملک ہونے کا اعزاز دیا گیا تھا یعنی کرپٹ ترین ممالک میں ڈنمارک سب سے آخری نمبر پر تھا۔ اس ملک میں 80 ہزار کلب ہیں اور ملک کی اکثریتی آبادی کسی نہ کسی کلب کی رکن ہے۔ 2002ء کے اعداد و شمار کے مطابق ڈنمارک کی عورتوں کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے دنیا کی چست ترین خواتین قرار دیا گیا۔ ڈنمارک یورپ کے اُن ممالک میں سرفہرست ہے جہاں کاروبار کرنا سب سے آسان ہے۔ مشہور کھلونے لیگو (Lego) کا تعلق بھی ڈنمارک سے ہے۔ 1397 سے 1524 تک سکینڈے نیویا کے تمام ممالک (سویڈن، ناروے، فن لینڈ اور آئس لینڈ) ڈنمارک کے زیر حکمرانی تھے۔ اس ملک میں درجنوں میوزیم ہیں اور یہاں کا چڑیا گھر بھی سیاحوں کے لئے کشش کاباعث ہے جبکہ حال ہی میں یہاں سمندر کے کنارے ایک بہت بڑا ایکوریم یعنی مچھلی گھر بنایا گیا ہے جس میں ہزاروں اقسام کے آبی جانور، نباتات او ردیگر اشیا کو ایک چھت کے نیچے یکجا کیا گیا ہے۔یوں تو ڈنمارک میں دیکھنے کے لئے بہت کچھ تھا لیکن چار پانچ دن کی سیر و سیاحت اور مشاہدات کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ کچھ مقامات آئندہ دورے کے لئے موقوف کر دینے چاہئیں۔ ہم جتنے دن دنیا کی اس مسرور ترین قوم کے درمیان رہے خوش باش رہے، مطمئن رہے، پبلک ٹرنسپورٹ میں گھومتے پھرتے اور لوگوں کو خوشی خوشی سائیکلیں چلاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ یہاں کی سادہ زندگی اور نفسیاتی مسائل سے آزاد طرزِ فکر ڈینش لوگوں کے خوش رہنے کا بنیادی سبب ہے۔ بظاہر یہ دونوں چیزیں بہت آسان اور قابل عمل لگتی ہیں لیکن سادگی اختیار کرنا اور نفسیاتی مسائل سے آزاد ہونا اتنا بھی آسان نہیں۔۔آپ کوشش کر کے تو دیکھیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply