یہ مسائل کیسے حل ہوں گے ؟- سعید الرحمن علوی

ملک جس قسم کی صورتحال کا شکار ہے اس کے اظہار کی ضرورت نہیں۔ جس بھی شخص کو اللہ تعالیٰ نے ذرا سا بھی عقل و فہم اور شعور بخشا ہے وہ خوب واقف ہے کہ ہمارا حال کیا ہے؟ لگ بھگ 5مہینے  بعد ہماری قومی عمر47برس ہو جائے گی جو ایک بڑی معقول عمر ہے۔اس عرصہ کا حساب کیا جائے تو نقصان کا پلڑا نفع کے مقابلہ میں بھاری ہو گا، پھر نقصان کسی ایک شعبہ میں نہیں ہر شعبہ میں نظر آتا ہے۔ ہمارے نزدیک سب سے بڑا نقصان اخلاقی ہے کہ اس اعتبار سے ہم بہت ہی پستی میں جا چکے ہیں اور ابھی تک بھی زیاں کاری کا احساس نہیں ہونے پا رہا۔ مشرق و مغرب کے جملہ مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ اخلاقی زوال اگر کسی قوم میں سرائیت کر جائے تو اس قوم کا زندہ بچنا مشکل ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ زندگی زمین پر چلنے، پھرنے اور کھانے پینے کا نام نہیں،اس قسم کی زندگی تو جانوروں کو بھی حاصل ہے،انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کی زندگی کا نام ہے اعلیٰ  و ارفع اقداروروایات کے ساتھ دنیا میں باوقار وقت گزارنا اور اس طرح رہنا کہ وہ رشکِ ملائکہ بن جائے اور کائنات کی ہر چیز اس کی مٹھی میں ہو،پر افسوس کہ آج دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کو اس قسم کی زندگی میسر نہیں اوربطور خاص وطن عزیز پاکستان کا حال تو بہت ہی پتلا ہے،اس وطن کو بڑے ارمانوں سے بنایا گیااور سادہ لوح مسلمانوں سے کہا گیا کہ یہ ایسا ملک ہو گا جس میں سیاسی استحکام ہو گا،معاشی خوشحالی ہو گی،ظلم نام کو نہ ہو گا اور ہر شخص سکون کی زندگی بسر کرے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام جیسے ہمہ گیر دین کا بول بالا ہو گا اور اسلامی روایات کی پاسداری ہو گی۔ مسلمانوں نے آنکھیں بند کر کے نعرہ بازی شروع کردی اور حصولِ مقصد کے لئے مارنے مرنے  پہ  تُل گئے۔

تاریخ کے طالبعلموں کو خوب معلوم ہے کہ اس وطن کے حصول کے لئے کس قدر جانی و مالی قربانی دی گئی،لیکن وطن بننے کے بعد وطن کے ناخداؤں نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا،سب سے بڑی مصیبت جس نے اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لیاوہ باہمی جنگ و جدل کی مصیبت تھی،متعدد عنوانات کے حوالہ سے باہمی سرپھٹول کا بازار گرم ہوا اور اب تک وہ سلسلہ جاری ہے اور پاکستانی ایک دوسرے کے دشمن بن کر دنیا کو تماشا  دکھا رہے ہیں۔

لڑائی کے مختلف النوع عنوانات میں ایک عنوان مذہبی سر پھٹول کا ہے اور ہم آج کی صحبت میں اس حوالہ سے کچھ گذارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ان گذارشات کا باعث پچھلے دنوں وقوع پذیر ہونے والے بعض واقعات ہیں مثلاً لاہور میں دو قادیانی نوجوانوں کا قتل جن میں سے ایک معروف قادیانی رہنما چودھری ظفراللہ خان کے قریبی عزیز تھے تو دوسرا ایک مذہبی رہنما کا فرزند،شہر سلطان نامی قصبہ میں نماز کے دوران اہلِ تشیع کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا تو کبیر والا قنبر علی خان میں اہلِ سنت کی مساجد پر اور حال ہی میں لاہور کے ایک معروف چوک میں سپاہ صحابہ کے دو نوجوانوں پر ہوٹل کے باہر حملہ کر کے انہیں زخمی کیا گیاجن میں سے ایک بعد میں دم توڑ گیا۔ مرنے والے نوجوان کے جنازہ کو لاہور کی معروف شاہراہ مال روڈ پر پانچ گھنٹے رکھ کراحتجاج کیا گیاجس کے نتیجہ میں نظامِ زندگی بری طرح متاثر ہوا،ٹریفک جام ہو کر رہ گئی اور مسافروں اور راہ گیروں کو شدید اذیت برداشت کرنا پڑی،جنازہ کے موقع پر سپاہ صحابہ کے رہنماؤں نے خود انتقام لینے اور اپنے احباب کو ہتھیار اٹھا لینے کی دعوت دی جبکہ کراچی میں ٹیلیفون کے ذریعہ خطاب پر جناب الطاف حسین نے اپنے پیروکاروں کو سندھ کی تقسیم کا واضح نعرہ دیا۔ الطاف صاحب کے نعرے بیگم نصرت بھٹو اور ان کے زندہ اکلوتے فرزند مرتضیٰ بھٹو،ممتاز بھٹو،پگاڑا،ولی خان اور نواز شریف کے بیانات عزائم اور ہنگاموں پر گفتگواس وقت ممکن نہیں،اس وقت محض قادیانی اور شیعہ مسئلہ پر ایک سنجیدہ گفتگو مقصود ہے، کیونکہ ان مسائل کو حل نہ کیا گیا تو ملک بھسم ہو کر رہ جائے گا۔

قادیانی تحریک کے متعلق ہر ذی شعور جانتا ہے کہ تاریخ کے ایک نازک موڑ پر اس تحریک کی  بات اٹھائی گئی اور اس کے لئے پنجاب کے ایک ایسے خاندان کے ایک فرزند کا انتخاب کیا گیا جس خاندان کی انگریز دوستی ہر شک و شبہ سے بالا تر تھی۔ ہمارے آج کے قادیانی دوست علامہ اقبال اور بعض دوسرے معروف رہنماؤں کی انگریز دوستی کے واقعات جو اب آں غزل کے طور پر بیان کرتے ہیں جو محض کٹ حجتی ہے۔ انگریز دوستی کا رویہ اگر کسی دوسرے نے اختیار اور یقیناًبہت سوں نے کیا تو وہ بہر حال غلط تھا۔ مرزا صاحب اور ان کے خاندان کی انگریز دوستی کے لئے کسی دوسرے کی انگریز دوستی وجہ جواز نہیں بن سکتی، پھر مرزا صاحب کی تحریک کے واضح مقاصد تھے اور مرزا صاحب نے ظلم یہ کیا کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے روائے نبوّت پر ہاتھ ڈالا،ختمِ نبوّت جیسے بنیادی اور اساسی عقیدہ کو مجروح کیااور اللہ تعالیٰ کے معصوم نبیوں سمیت بہت سے اکابر کے خلاف ایسی زبان استعمال کی جس سے ان کے مخالفین کا مشتعل ہونا ایک قدرتی بات تھی۔ انگریز کے دور نامسعود میں قادیانی حضرات پوری طرح سرگرمِ عمل رہے،انگریز کی انہیں بھرپور سرپرستی حاصل تھی جس طرح انگریز راج میں عیسائی مبلّغین کو تحفظ کے لئے سرکاری عملہ فراہم کیا جاتاجس کا ماتم مرحوم سرسیّد احمد خان نے ‘‘اسبابِ بغاوتِ ہند’’ میں کیا ہے اسی طرح مرزائی حضرات کو بھرپور تحفظ فراہم کیا گیا۔ قادیانی حضرات نے انگریز کی چھتری تلے جو گل کھلائے ان کی تفصیل کا موقع نہیں مختصراًیہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایسی فضا قائم کی  جو ایک عام مسلمان کے دل میں ان کی طرف سے شدید نفرت پیدا  کی گئی ،حتیٰ کہ علّامہ اقبال جیسے جدید تعلیم یافتہ حضرات بھی قادیانیت کا تعاقب کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انگریزی دور میں ہی قادیانیوں نے اپنی سوچ کے طور پر یا کسی مخفی اشارہ کی بناء پر مسلمانوں کی قومی جماعت مسلم لیگ میں گھس کر وہاں اپنی لابی قائم کر لی اور چودھری ظفراللہ خان نے مسلم لیگ کے حلقہ میں نمایاں مقام حاصل کر لیا،قادیانی جماعت کے رہنما مرزابشیرالدین محمود کے لیگی رہنماؤں سے گہرے تعلقات قائم ہو گئے،جس کا فائدہ قادیانی حضرات نے تقسیمِ ملک کے بعد بھرپور طریقہ سے اٹھایا۔

یہ حقیقت ہے کہ قادیانی تقسیمِ ملک کے بعد مختلف منصوبوں پر سرگرمِ عمل رہے تاکہ اپنی جڑیں مضبوط کر سکیں۔ بلوچستان کو ایک قادیانی صوبہ بنانا،سول اور فوجی سروسز میں منصوبہ بندی کے تحت اپنی لابیاں بنانا اور ایسے ہی بہت سے منصوبے اُن کے یہاں چلتے رہے۔ چند سال میں اس نو زائیدہ مملکت میں انہوں نے جو مقام حاصل کر لیا تھا اس کا اندازہ 1952-53 کے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پوری ملّت کے ایک جائز اور متفقّہ مطالبہ کو مسلم لیگ سرکار نے بزور کچل دیا۔اس حادثہ کے بعد قادیانیوں کے نخرے بہت بڑھ گئے اور اس کے بعد ملک میں جو بھی آئینی،سیاسی یا مالی بحران پیدا ہوا، اس میں اہلِ نظر نے قادیانی ہاتھ کو حرکت کرتا ہوا محسوس کیا،انتہا یہ ہے کہ 1965ء کی جنگ میں انہوں نے سرگودھا جیسے اہم فضائی اڈے کے قریب اپنے مستقر ربوہ میں بلیک آؤٹ کی خلاف ورزی کھل کر کی اور حکومت کی ہر وارننگ کو نظر انداز کیا۔ یہ حرکت ملک کی قسمت سے کھیلنے کے مترادف تھی۔

بعد ازاں 1971ء مشرقی پاکستان کے بحران میں قادیانی جماعت کے اہم رہنما مسٹر ایم ایم احمد کے کردار کا تذکرہ بہت سے ذمّہ دار لوگوں نے حمود کمیشن کے سامنے کیا۔ مشرقی پاکستان میں اپنا کھیل مکمل کرنے کے بعد قادیانیوں کے حوصلے اتنے بلند ہو گئے کہ 1973ء میں پاک فضائیہ کے قادیانی سربراہ ظفر چودھری نے پاکستان ائیر فورس کے جہازوں سے ربوہ میں مرزا ناصر احمد کو سلامی دی،یہی وہ موڑ تھا جس پر مولانا غلام غوث ہزاروی اور آغا شورش کاشمیری مرحوم نے مسٹر بھٹو سے اپنے تعلقات سے کام لے کر اسے اس طرف متوجہ کیا اور قادیانیوں کو دستوری طور پر اقلیتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ اگر حکومت اور اس وقت کی مجلسِ عمل اس دستوری ترمیم کے عملی تقاضوں کے پورا کرنے کا اسی وقت انتظام کر دیتی توجنرل ضیاء الحق کے اقدامات کا موقع  ہی نہیں آتا۔ جنرل صاحب نے دستور 1973ء کے ساتھ جو سلوک کیا اس کے نتیجہ میں کئی سال قادیانی، پھر سے منظر پر چھائے  رہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام سمیت بہت سے قادیانی عمائدین کی جنرل صاحب نے بہت ہی پذیرائی کی،انہی حالات کا ردّعمل تھا کہ مولانا خان محمد نقشبندی کی قیادت میں مجلسِ عمل  پھر متحرک ہوئی اور جنرل صاحب کو مجبور کیا  کہ وہ اپنے رویّہ پر نظر ثانی کریں۔ بعض ضروری اور اہم مطالبے تو جنرل صاحب نے پورے نہ کئے، بلکہ ایک موقع  پر جھنجھلاہٹ میں مجلسِ عمل کے عمائدین نے کہا کہ میں قادیانیوں کو سمندر میں نہیں پھینک سکتا۔ سمندر میں پھینکنے کا کسی کا بھی مطالبہ نہ تھا،مطالبہ تو بس اتنا تھا کہ دستوری ترمیم کا احترام کیا جائے اور جو نہ کرے اسے دستور شکنی کے جرم کی سزا دی جائے۔

جنرل صاحب نے بعض ثانوی درجے کے کام کرکے قادیانیوں کی پکڑ دھکڑ شروع کرا دی تو ساتھ ہی مسلم قادیانی باہمی سر پھٹول کا راستہ ہموار کر دیا۔ اسی زمانہ میں سکھر اور ساہیوال میں بعض افسوسناک واقعات پیش آئے جن کا جنرل صاحب کی حکومت نے کوئی مداوا نہ کیا۔ انہی حالات کا ردّعمل تھا کہ قادیانی عمائدین اپنے سرپرستوں کی زمین پر جا بسے۔ وہاں انہوں نے اپنا مرکز بنا لیااور دنیا بھر میں پروپیگنڈا مہم شروع کر دی کہ پاکستان میں ان پر ظلم ہو رہا ہے،اس پروپیگنڈے کا توڑ حکومتِ پاکستان اور اس کے سفارتی نمائندوں کی ذمّہ داری تھی لیکن افسوس کہ جنرل ضیاء سے آج تک کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہ دی،ہمارے اکثروبیشتر حکمران اور سفارتکار ایسے ہیں جنہیں اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس تو کیا ہو گا اسلام کی بنیادی تعلیمات تک کا انہیں پتہ نہیں۔ ادھر قادیانی حضرات نے اپنی منظّم جماعت اور جماعتی ارکان کے جذبہء ایثار سے کام لے کر الیکٹرانک میڈیا کا بھرپور استعمال شروع کر دیا ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے چپہ چپہ پر اب وہ اپنی تحریک کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کا توڑ صحیح انداز سے نہ حکومت کر رہی ہے اور نہ وہ ادارے جو قادیانی تحریک کے تعاقب کو اپنی ذمّہ داری سمجھتے ہیں۔ یہ ادارے اور جماعتیں الیکٹرانک میڈیا اور بطور خاص ڈش انٹینا پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں جو ظاہر ہے پورا نہیں ہو سکتا،جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ وہ خود انہی ہتھیاروں سے اپنے آپ کومسلح کر کے حالات کا سامنا کریں۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ذمّہ دار مذہبی قائدین کی اپروچ بڑی محدود ہے،روح عصر کے تقاضوں سے ناواقف ہیں اور جو کرنا چاہیے وہ نہیں کر رہے۔

اس قسم کے حالات میں معاشرہ میں باہمی سر پھٹول کی فضا پیدا ہوجانا قدرتی بات ہے۔ جس سے وقتی طور پر بعض لوگوں کے جذبات کی تسکین تو ہو جاتی ہے لیکن انجام بڑا خوفناک ہوتا ہے،چاہیے تو یہ تھا کہ قادیانی احباب سیدھا سادا راستہ اختیار کر تے  ،لیکن اگر ایسا ان کے لئے ممکن نہیں اور وہ اپنی راہ پر خوش ہیں تو، پھر اپنے دستوری مقام کو پہچان کر اس کا احترام کریں اور اپنے دائرہ کار میں شرافت کی زندگی اس طرح گزاریں کہ کسی کو ان سے شکایت پیدا نہ ہو۔ لاہور میں دو قادیانی نوجوانوں کا قتل ایک المیہ ہے اس کی اس طرح تحقیق ہونی چاہیے کہ ہر چیز نکھر کر سامنے آجائے اگر یہ قتل کسی خاندانی تنازع  یا کسی ایسے ہی سبب سے پیش آئے تو قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور اگر اللہ نہ کرے کسی مذہبی جنونی نے یہ حرکت کی ہے تو اسے بھی اس کے کئے کی سزا ملنی چاہیے، کیونکہ اسلام کسی بھی اقلیت کے معاملے میں اس طرح کے جنون کی اجازت نہیں دیتا۔ ہماری حکومت سے جہاں یہ استدعا ہے کہ وہ ملک میں قانون کی بالا دستی کو رواج دے وہاں اپنے قابلِ احترام مذہبی رہنماؤں سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے متبعین،کارکنوں اور رضا کاروں کو یہ بات سمجھائیں کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ اسلام کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتااور نہ ہی مذہبی اختلاف کی بنیاد پر خون ریزی جائز و درست ہے،امید ہے کہ ہماری اس گزارش کا کوئی بھی صاحب برا منائے بغیر اس کی روح پر غور کریں گے۔

جہاں تک شیعہ سنی نزاع کا تعلق ہے ملک کے قیام سے اب تک اس حوالہ سے کتنے ہی فسادات ہوئے اور کتنے ہی لوگ موت کے منہ میں چلے گئے،مشکل یہ ہے کہ ہم اس موضوع پر کھل کر کہنے کی پوزیشن میں نہیں،نہ اخبارات شاید اس قسم کی تحریروں  کے متحمل ہوں گے،لیکن اتنی بات ہم ضرور کریں گے کہ سنی اور شیعہ دو ایسے متوازی اسکول ہیں جن کی تاریخ اتنی ہی لمبی ہے جتنی اسلام کی تاریخ،اس بات کا اعتراف کرنے میں کسی کو گریز نہیں کرنا چاہیے اور مان لینا چاہیے کہ مذہبی حوالہ سے دونوں طبقات میں بعدُالمشرقین ہے ۔ اتنے بڑے بُعد سیاسی اغراض کی خاطر تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے تو پھر عام لوگ زبان کے بجائے ہتھیار اٹھا لیتے ہیں اور جس معاشرے میں عام لوگ ہتھیار اٹھا لیں وہ معاشرہ درہم برہم ہو جاتا ہے،تتر بتر ہو جاتا ہے اور اس معاشرہ کے بکھرنے میں دیر نہیں لگتی۔ اگر فریقین کے ذمہ دار لوگ آمنے سامنے بیٹھ کر کوئی ضابطہء  اخلاق مرتب کر لیں اور  پھر اس پر عملدرآمد کی ذمہ داری لیں تو خوں ریزی سے انسانیت کو نجات مل سکتی ہے۔ سپاہ صحابہ کے جناب ضیاء الرحمٰن فاروقی نے مولانا عبدالستار نیازی کے دورِ وزارت کے کسی ضابطہء اخلاق کی بات پریس میں کی ہے اور کہنا ہے کہ اس پر عمل سے ہی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ مولانا نیازی نواز شرف دور کے وزیر تھے،وہ خود ایک مذہبی رہنما ہیں اور اس قسم کے مسائل کی پیچیدگیوں سے واقف ہیں،انہوں نے اپنے دورِ وزارت میں کوئی ایسا کارنامہ انجام دیا جس کے نتیجہ میں خوں ریزی بند ہو سکتی ہے تو اسکی تحسین لازم ہے۔ مولانا اپنے دورِ وزارت میں اس معاملہ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا جاتے توان کا احسان ہوتا لیکن اگر وہ کسی وجہ سے ایسا نہیں کر سکے تو اپنی بھرپور شخصیت سے کام لے کر سبھی لوگوں کو رضاکارانہ بنیادوں پر اس بات پر متحد کرنے کی سعی کریں،ان کے دورِ وزارت میں جن لوگوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور ان کے ساتھ میز پر بیٹھ کر کچھ اصول وضع کئے وہ اب بھی ان کی بزرگی اور عمر کا احترام کریں گے اور جب سب لوگ مل کر رضاکارانہ بنیادوں پر کسی ڈرافٹ پر دستخط کر دیں گے تو حکومتِ وقت اسے قانونی شکل دینے پر مجبور ہو جائے گی اور یوں ملک میں امن و آشتی کی فضا قائم ہو سکے گی۔

ہماری مولانا نیازی اور ان کی قائم کردہ کمیٹی کے ارکان سے درد مندانہ استدعا ہے کہ وہ اس پہلو پر توجہ کریں اور بعجلت تمام اس مسئلہ کا حل نکالیں ورنہ روز عبادت گاہوں اور سڑکوں پر خوں ریزی ہوتی رہے گی،جس کا دائرہ بہت دور تک پھیل سکتا ہے، بلکہ ہم مولانا کوثر نیازی کو توجہ دلائیں جو مولانا عبدالستارنیازی کے ہم ضلع اور ہم قبیلہ ہیں کہ وہ مولانا عبدالستار سے رابطہ کر کے ان سے وہ ڈرافٹ حاصل کریں اور اس کمیٹی کے ارکان کو اکٹھا کر کے ان سے وہ ڈرافٹ حاصل کریں اور اس کمیٹی کے ارکان کو اکٹھا کر کے اس مسئلہ کو حل کرنے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کریں،اسی طرح مولانا کوثر نیازی 1974 ء کی آئینی ترمیم کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کی تدبیر کریں تاکہ ملک بھسم ہونے سے بچ سکے اور یہاں کے بسنے والے شرافت،مروت اور مودت سے زندگی کزار سکیں۔ دیوبند کے معروف محدث مولانا سید انور شاہؒ کی بات ہم سب کو پلے باندھ لینی چاہیے کہ دو مذہبوں کے دو شریف انسان آپس میں مل کر زندگی گزار سکتے ہیں،لیکن ایک مذہب کے دو کمینے بھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے اس وطن کے لوگوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ شریف ہیں یا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ؛یہ کالم آزادیء اظہار  رائے کے طور پر شائع کیا جارہا ہے،مصنف کے خیالات سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ۔کوئی لکھاری  تحریر میں اٹھائے گئے مدعا پر کوئی جوابی تحریر لکھنا چاہے تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply