یاری کے نام/نبیل انتھونی

یاری کے عُقدے ہر کسی پر کب کھلتے ہیں یہ ظرف والوں کی میراث ہے اور اُنہی کو عطا ہوتی ہے۔
عصرِ حاضر میں َ فیس بک اور دیگر ڈیجٹیل رابطوں کی بدولت کئی تعلق استوار ہوئے ہیں۔ تعلق رشتے اور رابطے رزق ہوتے ہیں۔ ایاز مورس میرے لئے ڈیجٹیل رابطوں سے کمایا ہوا رزق ہے۔ ہماری ملاقات فیس بُک سے شروع ہوئی تھی اور پھر فیس ٹو فیس بھی ہو گئی۔

ایاز مورس لاہور تشریف لائے ہوئے تھے۔ ایاز نے  ایک  انٹرویوز کرنا تھا مجھے بھی بتایا گیا اور گلشن اقبال پارک میں انٹرویو تھا۔ گلشن اقبال پارک بالکل میرے آفس کے قریب ترین تھا، خیر میری پہلی مُلاقات یوں ہوئی تھی۔اور ایک گہری دوستی کا سفر شروع ہوا۔

بھئی میں َ لاہور آ گیا ہوں اور ہوٹل ون میں َ رُکا ہوں جو گلبرگ حُسین چوک الفتح سے تھوڑا آگے ہے۔دسمبر کا مہینہ ہے، تم نے گرم جیکٹ پہن کر آنی ہے۔میرے کمرے کا درجہ حرارت اِتنا ہے کہ ہم کمبل کے بغیر کرسیوں پر بیٹھ کر بھی بہت وقت تک باتیں کرسکتے ہیں، یوحنا جان راستے میں َ ہے۔ اور تیرے پہنچنے سے پہلے وہ پہنچ جائے گا، ہم پہلے کسی ڈھابے سے پکی چائے پی کر آئیں گے پھر کمرے میں وقفے وقفے سے تعویز والی چائے پیتے رہیں گے جیسے جیسے موسم مجبور کرے گا۔

میری کل کی ورکشاپ صبح دس بجے شروع ہونی ہے، ڈھیر وقت ہے، ہم دیر تک باتیں کر کے اچھا خاصا سو بھی سکتے ہیں۔ یہ فون مجھے پچھلے چند سالوں سے سال میں تین چار بار آتا ہے اور اِس فون سے اب بہت یارانے کے انداز جُڑے ہیں، جن کو الفاظ میں اُتارنا مشکل ہے۔ ایاز مورس کراچی سے سال میں تین چار چکر لگاتا ہے۔ چونکہ وہ اسپیکر،میڈیا ٹرینر، موٹیوشنل اسپیکر، میڈیا میں مسیحیوں کی روشن اور کامیاب مثال ہیں، اسی سلسلے میں اُسکے چکر لگ ہی جاتے ہیں۔

ایاز مورس کا انداز زندہ جاوید جوشیلے یار سا ہے۔ اُس پر ایک یقین انتہا کی حد تک پختہ ہے کہ وہ ساری زندگی بوڑھا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ لمحہ لمحہ جیتا ہے۔ اُس کے ساتھ ایک چھت کے نیچے رہیں، کھائیں، گفتگو کریں تو اندازہ ہو گا زندگی کو زندگی سے کیسے ملایا جا سکتا ہے۔ میں ہوٹل پر پہنچا تو ایاز بھائی   مکھنی ہانڈی کو روم ٹیبل پر رکھے میرا اور یوحنا جان کا انتظار کر رہے تھے۔ میں نے کھانا کھایا تھا اور یوحنا نے بھی لیکن پھر بھی ہم نے مل کر کھانا کھایا جتنی ہم دونوں میں َ کھانے کی گنجائش تھی۔

پھر ہم ڈھابے کے لئے نکلے اور چائے پی کر واپس ہوٹل آئے۔ ہر موضوع پر ہم نے تین بجے تک باتیں کیں۔ میں چونکہ سیاست میں عمران خان اور عمران خان کے نظریہ کو مانتا ہوں تو بات شروع ہوئی۔ پھر ہم نے یونیورسٹی اور طالب علموں پر سیر حاصل گفتگو کی۔ آخر میں َ ہم نے منٹو کو واہ واہ کرتے ڈسکس کیا اور نیند جب بڑھ گئی تو سو گئے۔ صبح ہوئی ورکشاپ لی اور ایاز مورس نے اپنی مہارت ورکشاپ لینے والوں سے بانٹی اور پھر قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن روانہ ہو گئے، شاہ صاحب سے انٹرویو کے لئے۔ یہ ہماری دوسری مُلاقات تھی۔ میں کراچی کے بارے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کراچی شہر کا اندرون بے حد ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہو چکا ہے لیکن وہاں کے  باسی کراچی کو ویران ہونے سے بچائے ہوئے ہیں، ایاز مورس باقاعدہ کراچی سے تو نہیں ہے لیکن اُسکے کرانچو  ی ہونے سے کراچی کو فرق پڑتا ہے اور پڑتا رہے گا۔

ہماری دوستی مستحکم ہو گئی تھی، ہم تینوں ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے اور ایک دوسرے کی سر گرمیاں جانتے حوصلہ افزائی کرتے۔ یوحنا جان بھی لکھتے ہیں اور میرا تعلق بھی اِسی دیوار سے جس میں َ یہ دونوں ٹکریں مار رہے ہیں۔ آپ میری بات پر  قہقہے میں َ  لگائیں   اور بد تہذیبی کا بہتان لگائیں، معاشرتی اصلاح سُست طرزِ عمل یہ ثابت کر چکا ہے کہ یہاں سوشلسٹ، جرنلسٹ، ادیب اور معاشرتی ڈویلپمنٹ کے فکر مند صرف ٹکریں مار رہے ہیں۔ جس کا ابھی تک فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ یہ ٹُکر اپنا نشان تو چھوڑ رہی ہے۔ میں َ حوصلہ شکنی کے لئے نہیں کہہ رہا لیکن حوصلہ افزائی کے لئے کہنا چاہا رہا ہوں۔

سال گزرتے گئے ہماری دوستی بڑھتی گئی اور ہم ایک دوسرے کی فکر ایک گھر کے فرد کی طرح کرنے لگے۔ قاسم علی شاہ سے سُنا تھا کہ نظرئیے کی طاقت سب سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ ہماری آخری مُلاقات اسی ہفتے مری میں  ہوئی اور اچانک ہوئی۔ محبت کا اصل مبلغ ایاز مورس ہے اور وہ محبت کی تبلیغ کے لئے پاکستان بھر میں  جاتا ہے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ وہ صاف ستھرے طریقے سے اپنا کام سر انجام دے رہا ہے اور لوگ ایاز بھائی کے کام کو پسند بھی کر رہے ہیں۔ دُعا ہے خُدائے قادر ہمیشہ اُنکے کئے گئے کام کو سرفراز کرے۔ (آمین)

Advertisements
julia rana solicitors

یاری کے عُقدے ہر کسی پر کب کھلتے ہیں یہ ظرف والوں کی میراث ہے اور اُنہی کو عطا ہوتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply