ویل للعرب (تباہی ہے عرب کیلئے)-زید محسن حفید سلطان

اپنے پڑوسیوں کا یہ خوب ہے کہ جہاں دال نہ گلے وہاں فلم بنا لو ، وہ کون سا کام ہے جو پڑوسیوں نے فلموں میں نہیں کیا ، اب باری آئی بے چارے عربوں کی ، اسی لئے کہتے ہیں کہ کسی کو سر پر زیادہ نہیں چڑھانا چاہیے ، دیکھیے کہ عربوں نے انہیں روزگار فراہم کیا اور انہوں نے اس سے ایک نیا دھندا بُن لیا ، اور اُنہی  کے خلاف فلم بنا ڈالی ، اور اپنے لوگ تو ہیں ہی سیدھے سادے ،جو بتا دیا ،مان لیا۔ ۔آمَنَّا وَصَدَّقْنَا ، بلکہ کچھ لوگوں کی تو سورس آف انفارمیشن (منبعِ معلومات) ہی پڑوسیوں کی فلمیں ہوتی ہیں تو ان کا کیا کہیے ۔

لیکن ایک بات ہے کہ پڑوسی اگر ہمارے خلاف فلم بنا لیں ، سر پر ہری ٹوپی ، آنکھوں میں پختہ سرما ، گلے میں رومال ، ہاتھ میں تسبیح اور آداب ، آداب کرتا ہوا درزی یا قصائی دکھا دیں تو ہم اسے سراسر جھٹلا دیتے ہیں ، لیکن اب جب بات عربوں کی آئی ہے تو ہم نے آنکھیں بند کیں اور ایمان لے آئے کہ واقعی کفیل سسٹم ایسا ہی ہے۔

ارے چھوڑیے نا کہ کفیل کیا کرتے ہیں ، ابھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیے ،بھئی آپ خود ہی کہیے اپنے ہاں کوئی سسٹم نہیں ہے تو ہم کیا نتیجہ بھگت رہے ہیں؟

مہاجرین کو رج کر پناہیں دی تھیں اور اب ان مہاجرین کے آگے ہاتھ پھیلائے نکلنے کی التجائیں کر رہے ہیں ، بصورتِ دیگر گرفتاریاں ، پکڑ دھکڑ اور پتا نہیں کیا کیا ، پیسہ بھی ضائع ، وقت بھی برباد اور مہاجرین بھی پریشان ، خود ہی کہیے کہ اگر ہم بھی کسی سسٹم کے تحت ان کو لاتے تو کتنے منظم انداز سے اور سکون سے نا  صرف ہم بلکہ وہ ہمارے بھائی بھی سکون سے زندگیاں بسر کر رہے ہوتے۔۔ ۔لیکن چھوڑیے آپ فلم پر ایمان لے آئے ہیں تو یہ سب باتیں بے اثر ہیں۔

اب ایک بات اور سمجھیے کہ عرب کہتے کس کو ہیں ، آپ ایک کام کیجیے تاریخ اٹھائیے ، انگریزی ، فرانسیسی یا سنسکرت یا کوئی بھی بعد از اسلام اور قبل از سلطنت ترکی کی تاریخ ، یا بعد کی بھی ایسی تاریخ جس میں مسلمانوں کے کارناموں کا تذکرہ ہو ، جس میں اسلامی فتوحات ، اسلامی سپاہ کے کارنامے ، مسلمانوں کے سنہری دور کا تذکرہ ہو ، اٹھائیے اور پڑھتے جائیے ، شاید آپ حیران ہو جائیں گے کہ کسی بھی اسلامی کارنامے کو “عرب کے کارنامے” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، ہندوستان کے دریاؤں کو پار کرنے کا معاملہ ہو ، افریقہ کے صحراؤں کی داستانیں ہوں ، اندلس کے پہاڑی سلسلوں کی بازگشت ہو ، ترکی کے سرد و گرم کا تذکرہ ہو اکثر غیر مسلم یا مستشرق مؤرخین یہی کہیں گے کہ “عرب نے ایسا کیا اور عرب ایسے تھے”۔۔

یعنی یہ سمجھ لیجیے کہ فرزندانِ اسلام کا دوسرا نام “عرب” تھا ، چاہے ان کارناموں میں غیر عرب کا کتنا ہی اہم کردار رہا ہو ، اسی لئے یورپ کو عرب کے نام سے بھی بڑی چِڑ ہے کیونکہ ان کو بھی اسلام کی عمارت کے اولین معمار یہی نظر آتے ہیں ، پھر توسیع کرنے والے اور حفاظت کرنے والے بھی ، لیکن یہ سب باتیں آپ کو اس لئے نہیں سمجھ آئیں گی کیونکہ آپ کے ذہن میں صرف: “ویل للعرب” – (تباہی ہے عرب کیلئے) کے نقارے ہی بجائے گئے ہیں  ، اور تاریخ کو خوفناک بنا دیا گیا ہے کہ قریب بھی نہ بھٹکنا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی عرب دشمنی کا نتیجہ ہم ہر سال اس دن دیکھتے ہیں جو راجہ داہر کی ہلاکت کا دن تھا ، اب ہم تو بحیثیت مسلم اس دن کو خوش کُن گردانتے ہیں کہ اسلام اس خطے میں داخل ہوا لیکن کچھ قوم پرست ہیں جو اس کو سندھ اور ہند کیلئے یومِ رسوائی سمجھتے ہیں ، اب یہی سوچیے  کہ ایک مسلمان کی قومیت اگر اس قدر تعصب سے لبریز ہے کہ اس کو ڈاہر سے محبت کا آج بھی بھرم ہے تو جس کے دھرم کی مٹی پلید کی گئی ، یعنی جو ہندو ہے اس کا خبثِ باطن کس درجے کا ہوگا ، اب اگر اس کی ذرا سی جھلک ایک فلم میں دکھا دی تو پریشان نہ ہوئیے ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاریسیک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply