ہم کسان تھے، بیج بوتے اور فصل کھڑی کرتے، ہم دہقان تھے، زمینیں جوتتے اور روٹی پیدا کرتے، ہم ماہی گیر تھے، جال ڈالتے اور پیٹ کا مذہب پانی سے اکھیڑتے تھے، ہم بھٹیاں روشن کرتے اور اینٹیں پکاتے تھے، ہم پہلوان تھے، مٹی جسموں پر ملتے اور دھول پھانکتے تھے، ہماری عورتیں کروشیا بنتیں اور ہمارے بچے سلیٹ کی تختیوں پر گارے ملتے تھے، ہمارے بوڑھے فیصلے کرتے اور ہم اپاہجوں کی ذمے داری اٹھاتے تھے
پھر ہمارہ بستی میں میلہ لگا، ہم نے جھولے دیکھے، ہم نے بونے دیکھے اور ٹاٹری سے بنے کھٹے لوازمات چکھے، ہم نے لاٹریاں دیکھیں اور گھات لگائے نشانے باز دیکھے، ہم نے غبارے دیکھے اور ان میں بھری سانسیں سونگیں
جب ہماری بستی میں تارکول کی سڑکیں بنیں تو ہمارے پاس پہلا قصہ گو اترا، ہم نے پہلی بار وہ سنا جو ہم کرتے تھے، ہمارے کانوں میں وہ اترا جو ہم روز جیتے تھے، جب ہم نے کہانیاں سنیں تو ہم نے سپنے دیکھنے شروع کئے، ہمارے بوڑھے قصہ خوانی کو تعظیم سے دیکھتے تھے، جب کہانی گو چلا جاتا تو ہم نہر کنارے الاؤ جلاتے اور رباب کے بعد قصے بناتے، ہم بہت سارے لوگ مل کر ایک کہانی پوری کرتے اور ایک لڑکے کو چن کر دوسری بستی روانہ کرتے، ہم اس کے جھولے میں دعائیں ڈالتے اور اس کے چولے پر جلی حروف سے “قصہ گو” لکھتے تھے
ہم نے اپنی زمین سے دوسرے شہروں، دیہاتوں اور ملکوں کے لئے قصہ گو بنائے اور انہیں روانہ کیا، وہ ہمیں خطوط لکھتے اور ہم ہی خطوط کے موجد تھے
زمانہ بدل گیا تو ہم زمانے کے ساتھ چلے
ہم نے کاغذ بنایا اور جریدے نکالے، جب ہم نے دیکھا کہ لوگوں کو معاش اور مسائل گھیر رہے ہیں تب ہم نے ایسی تحریکیں پیش کیں جس سے قصہ گو سفر کی ہار سے تھکنا رک گئے، ہم نے ایک اسٹیشن بنایا اور وہاں ریل گاڑیوں سے اتر کر آنے والے نت نئے قلم کاروں کا پلیٹ فارم تیار کیا، ہمارے پاس نسل نسل کے، پات پات کے کہانی کار، قلم کار، مضمون نویس اور گفت و شنید کے لوگ جمع ہوگئے، ہم نے سب کو یکجا کیا اور ان سے کہا بات کرو
جب وہ بولے تو ہم نے اس کا نام “مکالمہ” رکھ دیا
ہم زمینوں پر پھیلے ہوئے ہیں، ہم ہر گلی ہر شہر ہر بستی میں ہیں، ہم ہر زبان اور ہر مکان کے ساتھ ساتھ ہر زمان کے ہیں، ہم خیالات کی ترسیل کا کام کرتے ہیں، ہم اب بھٹیوں میں اینٹیں نہیں خیالات روشن کرتے ہیں، ہم حقائق پکاتے ہیں اور جدید دنیا کے پیش نظر انہیں ہر مقام تک رسائی دیتے ہیں، بظاہر ہمیں آٹھ برس گزرے ہیں مگر ہماری محنت آٹھ ہزار صدیوں پر محیط ہے، ہم آباد ہیں، ہم زندہ باد ہیں!
آج ہم مسکرا رہے ہیں کیونکہ ہم آج “مکالمہ” کے ہمراہ نویں برس میں قدم رکھ رہے ہیں، آج ہمارا جنم دن ہے اور ہم ایک دوسرے کو “خوشی مبارک” کہ رہے ہیں
“مکالمہ” کو 8ویں سالگرہ مبارک
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں