۱۔ جافنا کے مسلمانوں کا تامل ٹائیگرز لبریشن کے ہاتھوں سنگینوں کی نوک پر گھر بدری بیسویں صدی کی آخری دہائی کا ایک بڑا اور المناک واقعہ ہے۔
۲۔ بدھ دنیا کا مقدس ترین دانت طلسم بھری کہانیوں سے مالا مال ہے۔
۳۔ کینڈی جزیرے کا حسین ترین شہر اور لنکاa land like no other کی بہترین عکاسی ہے۔
۴۔ دنیا کا ہر انسان اپنا برش اپنی رُوح میں ڈبوتا ہے اور اپنی ہی فطرت اپنی ہی تصویروں کی شکل میں پینٹ کرتا ہے۔
صبح سویرے آنکھ کھل گئی۔باہرآئی۔کیسی صبح تھی نشے سے بھری ہوئی،ہلکے سے نیلگوں غبار میں لپٹی سی۔ نیچے سڑک پر سرخ رنگ کی پھچھڑ سی بس چلی جارہی تھی۔جی چاہا تھا دوڑتی ہوئی اتروں اور جاکر بس میں بیٹھ جاؤں اور شہر کی صبح کو دیکھوں کہ انگڑائیاں لے لے کر بیدار ہورہی ہے یا ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی ہے۔پر اِس خواہش کو عملی جامہ پہنانا کتنا مشکل تھا کہ لعن طعن سے دل گبھرانے لگا تھا۔ظاہر ہے نئے منظروں نے کہیں جھپّی ڈال لینی تھی۔کہیں انوکھا سا منظر راستہ روک سکتا تھا۔بھولنے کا بھی چانس تھا تو پھر فضیحتا تو لازمی تھا۔اب دل مسوسنے والی بات ہی تھی نا۔
‘‘ناشتہ کیسا تھا؟بس گزارہ۔چلو سوچا دفع کرو اب اس پر کیا تبصرہ کرنا؟’’
گاڑی جب سڑکوں پر دوڑنے لگی تو دیکھا کہ یہاں وہاں فطرت کے منظروں میں انسانوں کے انواع و اقسام کے رنگ گھل گھل کر ماحول کی رنگینی بڑھا رہے ہیں۔بدھ بھکشو اور ان کے چیلے چانٹوں کے زعفرانی چوغے، سبز رنگوں میں نگینوں کی طرح لشکارے مارتے تھے۔معلوم ہوا تھا کہ پھرنے پھرانے کا یہ سلسلہ صُبح کے کھانے کی تلا ش ہے۔بھکشوؤں کے کچھ ٹولے جھیل کنارے درختوں کی چھاؤں اور کہیں بڑی بڑی چھتریوں کی چھتر چھاؤں میں بیٹھے اپنی اپنی عبادت و ریاضت میں مگن تھے۔
ہمارے گائیڈ جسٹنن نے ہمیں اس چمکتی صُبح کو سب سے پہلے کینڈی کی اہم جگہ ڈالڈا ملیگاوا Dalada Maligawa The یعنی مقدس دانت گھر ہی لے کر جانا تھا۔سو اب اس کی طرف جاتے تھے تو تھوڑا سا کینڈی کے ماضی کا حال احوال بھی سُنتے تھے۔
سنہالیوں کا گڑھ، ان کی راج دھانی، انکی تہذیب و تمدن کا نمائندہ جس کا آخری مہاراجہ سری وکرم مارا جا سنگھی Sri Wickrama Rajasighe برطا نوی فوجوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔گرفتاری سنہالی امرا ء اور معززین کے تعاون سے ہوئی جو شاید اُس کے بہت سے اقدامات سے ناخوش تھے۔
سچی بات ہے اب اِن راجے مہاراجوں کے ظالمانہ رویوں کی بھی تو انتہا ہی تھی نا کہ کہیں بھپرے ہوئے ہاتھیوں کے آگے لٹا کر انکو کچلوا دیا جاتا۔راجہ سری وکرم نے سو سے زیادہ اپنے بہترین مشیروں کے جسموں میں کیلیں ٹھنکوا کر انہیں مروا دیا تھا کہ انہوں نے پیڈی فیلڈ کے ایک ریزو بند کے بارے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ پیڈی فیلڈ کو جھیل میں تبدیل کرنا مناسب نہ ہوگا۔مگر بادشاہ زمینی خوبصورتی کا بہت دلدادہ تھا اُس نے پیڈی فیلڈ کو موجودہ جھیل میں تبدیل کرکے چھوڑا۔
‘‘ہائے شہر کو تو حسین بنا دیا نا۔پر ساتھیوں کو ایسی اذیت ناک موت کاہے کو مارا۔اور دیکھو خود بھی کیسے المناک انجام سے دوچار ہوا۔گورے ٹامیوں نے اٹھا کر ماریشس کے جنگلوں میں پھینک دیا۔
کینڈی کو جزیرے کا حسین ترین شہر کہا جاتا ہے۔ تو اس میں شک بھی کیا ہے۔ یوں سری لنکا کے لوگ سری لنکا کو بھی a land like no other کہتے ہیں تو یہ بھی سولہ آنے کیا سو پیسے سچ بات ہے۔
شہر ہوں،ملک ہوں اپنے اندر تاریخ کا کیسا خزانہ سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔تیرھویں اور چودھویں صدی میں مذہبی مرکز بنا۔پھر سیاسی گڑھ بنا۔پرتگیزوں نے قبضہ جمالیا۔انگریزوں کی رال ٹپکی انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے اسے چھین لیا۔خیر سے دوسری جنگ عظیم میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا ہیڈکواٹر تھا۔
جھیل کے کنارے ایک عظیم الشان، انتہا درجے کی خوبصورت ،آنکھوں کو جکڑنے والی موتیا رنگی سُرخی اور خاکستری رنگوں کی آمیزش سے سجی عمارت تعمیری شاہکار کی صورت سامنے موجود تھی۔یہیں وہ مقدس دانت ہے جو بدھا کی نعش سوزی کے بعد کنول کے پتے پر رکھا گیا اور جسے مقدس ترین ٹھہرایا گیا۔زمانوں تو یہ ہندوستان میں رہا۔شہر کا نام Danta puraتھایعنی دانت کا شہر ۔آج کل کا نام اڑیسہ صوبہ ہے۔
ہاں جزیرے پر کیسے آیا؟یہ بھی عقیدتوں اورمحبتوں میں گندھی کہانی ہے۔جیالی سی بدھا کی محبت میں مرنے والی ایک شہزادی اپنے گھنے بالوں میں چُھپا کر لائی۔پہلے انورادھا پورہ میں رکھا گیا۔بادشاہ سری میگھاوانا کازمانہ یہی کوئی 313کا تھا۔کیسی کیسی خوفناک لڑائیوں کی داستانیں جڑی ہیں اِس سے۔یہ تو جلد ہی شاہی اقدار کا محافظ بن گیا۔عقیدتوں کا مرکز شمار ہونے لگا۔ کِسی حملہ آور کی کیا مجال اس کے ہوتے ہوئے شہر پر قابض ہوجائے۔
کوئی دسویں صدی میں جب انورادھا پورہ کا سقوط ہوا اِسے کینڈی لایا گیا۔ بادشاہ وملادرما سوریااوّل Vimmaladharma Suriya I نے اِسے عقیدتوں اور محبتوں کے ہزار رنگوں سے محل بنا کر رکھا۔بعد میں اس کے جانشینوں وکراما راجہ سنگھاWickrama Raja Singha نے موجودہ عمارت بنائی اور اسے یہاں سجا دیا۔انہوں نے بھی اپنے اپنے حساب سے اس میں رنگ بھرے ۔
داخلہ ایک کھائی کے راستے سے ہوا۔پتھر کی سیڑھیاں زائرین کو ایک سرنگ سے گزارتے ہوئے آگے صحن میں لے جاتی ہیں۔عین سامنے دو منزلہ عمارت جس کی اوپر کی منزل پر مقدس دانت محفوظ ہے۔چیکنگ کے مرحلے خاصے سخت تھے ۔معلوم ہوا تھا کہ اسکارف پہنے والی کسی خاتون کو اندر جانے نہیں دیا جاتا۔
یہ وطیرہ تامل ٹائیگرز کے دہشت پسندوں کی طرف سے تھا یا القاعدہ والوں کی طرف سے کہ سُننے میں آیا تھا کہ دونوں تنظیموں کی آپس میں کافی پیار و محبت ہے۔لین دین اور صلاح مشورے بھی ہوتے رہتے ہیں۔
ٹیرس،راہداریاں، بڑے بڑے ہال،چھوٹے کمرے ہائے کیا نقاشی تھی؟ چھتوں کی، دیواروں کی،ستونوں کی ،ان کے بڑھاوں کی ،ریلنگوں کی،چوبی کندہ کاری،چوبی ڈیزائن کاری ہائے کِسے دیکھیں اور کِسے چھوڑیں۔لوگوں کے پُرے عقیدتوں کے سنگ جھلملاتی آنکھیں اور چہرے ۔
یہاں ہال میں بُدھا کا زرو سیم میں اُلجھاہوا بدن۔اب بھلا ایسے میں وہ خوبصورت شاعرہ منصورہ احمد بھلا کیسے نہ یاد آتی۔وہ آئی اور میں نے نظم گنگنائی۔
سُنو گو تم
تمہیں تو یاد ہوگی وہ گھنی تاریک شب
جب سیم و زر کی نرم خوئی چھوڑ کر
تم آگ اور بیراگ کے رستوں پے نکلے تھے
پھر اس کے بعد تم تھے
اور کانٹوں سے بھری اک راجدھانی تھی
تمہارے خاکدان کی روشنی میں
کوئی بھی تار سونے کا نہیں تھا
مگر پھر کیا ہوا گوتم
تمہارے چاہنے والوں نے
تم کو اور تمہاری عظمتوں کو
تمہارے چشم کی سب سلوٹوں کو
پھر سے سونے کی سلوں میں قید کرڈالا
یہ کیا اسرار ہے گوتم
محبت زر کے پیمانوں سے باہر کیوں نہیں آتی
بے تکی خواہشوں اور سوچوں پر کون سے پہرے اور کون سی پابندیاں ہوتی ہیں جو اپنی حدود میں رہیں۔
ہائے کیسے میرا جی چاہا تھا کہ کہیں اگر مجھ جیسی عام سی عورت کیلئے وہ کمرہ کھل جائے جہاں صدیوں پرانی خالص چاندی کے بھاری بھرکم بڑے سے صندوق میں سات صندوقچیاں ہیں جنہیں سنہالی زبان میں (Karandawa) کارندوا کہتے ہیں۔یہ سب ایک دوسرے میں گُھسی ہوئی ہیں۔روسی گڑیوں کی طرح کہ ایک کے اندر سے دوسری اور دوسری کے اندر سے تیسری نکلتی آئے۔یہ صندوقچیاں ہیرے جواہرات سے سجی لشکارے مارتی ہیں۔
ہائے اندر سے پھر ہوک اٹھی تھی۔
کہیں کمرہ کھل جائے۔اندر گُھس جاؤں اور صدیوں پُرانی وہ تاریخی چیزیں دیکھوں۔آنکھوں میں مچلتی پیاس بجھاؤں۔
میں اپنی اِس بچگانہ سی خواہش پر ہنس پڑی تھی۔
واہ کیسی انوکھی لاڈو بی بی ہے۔کھیلن کو چاند مانگے ہے۔
پھر خود کو ایک شاندار قسم کی لتاڑ دی۔
‘‘ اُلّو کی پٹھی۔سوچیں دیکھوذرا اس کی۔بغیر پروں کے اڑانیں بھرنا چاہتی ہے۔وہاں جانا چاہتی ہے جہاں پرندہ پر نہ مار سکے۔ سات تالوں میں چُھپا جسے چرانے کی ،اُڑانے کی ہزار کوششیں بادشاہوں نے کیں۔آخر طاقت اور غلبے کے منبع کو کون قابو کرنا نہیں چاہے گا۔برما(حالیہ میانمار) کاشاہ تو اِس معاملے میں خاصی خراب شہرت رکھتا تھا کہ بار بار اِسے اڑانے کی ہڑک اُسے نچلا نہیں بیٹھنے دیتی تھی۔
اورہاں ذرا دیکھو تو محبتوں اور عقیدتوں کے رنگ کیسے کیسے انسانوں کو متاثر کرتے ہیں۔
شہنشاہTihatura نے اپنی بیوی کے بالوں سے جھاڑو بنایا اس کی مٹھ کو ہیرے جواہرات سے سجایا اور اُسے صفائی کیلئے مخصوص کیا۔ہائے صدقے محبتوں کے رنگ۔
بدھ دنیا کا یہ مقدس دانت طلسم بھرا تو ہے ہی پر ساتھ میں منسوب کہانیاں تو اور بھی طلسم زدہ ہیں۔پہلا اسرار تو اس کی جسامت بارے ہے کہ یہ بائیں طرف کا تیز نوکیلا سامنے والا دانت ہے۔ڈھائی سینٹی میٹر چوڑا اور ایک سینٹی میٹر موٹا۔یار لوگوں کے اعتراض پر جواب یہی ہے کہ بھئی بُدھا صدیوں پہلے کا انسان جس کی ہر چیز غیر معمولی تھی۔قرین قیاس اور دل کو لگنے والی بات۔
یہ جب ہندوستان میں تھا تب بھی بڑی کٹھنائیوں سے گزرا تھا۔دوسرے مذاہب کے پیروکار وں کو اس کی ہردل عزیزی بڑی کِھلتی تھی۔
کہیں گوا کے بشپ نے حکم دیا کہ اِسے پیس کر سفوف بنا دو اور سمندر بُرد کردو۔حکم شاہی بڑا سخت تھا۔مگر پجاری بھی جان پر کھیلنے والے تھے۔ چالا ک سنہالیوں نے ایک دوسرا دانت پیش کردیا تھا۔
اب سوالوں کی بھی لام ڈور ۔دانت واقعی مہاتما گوتم بُدھا کا ہی ہے۔جو ہندوستان سے لایا گیاہے۔اس کی کوئی شہادت بھی مےّسرہے یا نہیں اور کیا اِسے کبھی کسی نے دیکھا بھی ہے؟سارے جوابات نفی میں ہیں۔
اور جب میں بدھا کے اِس مقدس چیمبر میں کارپٹ پر بیٹھی سوالوں کی گھمن گھیریوں میں اُلجھی ہوئی تھی جو اپنی تسلی و تشفی کیلئے ایک دوسرے پر چڑھائیاں کررہے تھے۔
ذہن تو ہمیشہ سے ہی اُلٹے سیدھے سوالوں کی گُھمن گھیریوں میں اُلجھا رہتا ہے۔سب کچھ جانتے بُوجھتے بھی خدا کی حاکمیت کے انداز کی تجدید چاہتا ہے۔شاید کہیں اندر اُلٹے سیدھے جذبوں کی بھی تشفی کے قائل ہونے کا متمنی رہتا ہے۔اُس لمحے کی سوچ بھی کچھ ایسی ہی تھی۔
بھئی یہ سب خدائی کام ہی ہیں کہ وہ اپنی اِس عظیم سلطنت کے مذہب سے لے کر اس کے حصّے بخروں،ٹوٹوں اور عروج و زوال کے المیوں میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ایک مذہب کا پجاری خاص طور پر بادشاہ یا مبلغ کسی دوسرے مذہب ،نظرئیے یا عقیدے میں داخل ہو کر نئے مذہب کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔شہنشاہ وملا درما اولWimm aladharma Suriya I جوعیسائی کیتھولک تھا اور نام نامی Juan d. Autriche ۔جانے جی میں کیا آئی۔بدھ مت کا پیرو کار بن گیا۔کچھ ایسا ویسا۔بہت سرگرم اور جوشیلا۔سب سے بڑا محافظ اور خیرخواہ۔
یہ حقیقت تھی کہ یہاں لوگوں کی ہزار رنگی اور اُن کے چہروں پر پھیلے جذبات و احساسات کی ہفت رنگی سب چاہتے تھے کہ کچھ مزید وقت یہاں گزارا جائے۔ مگر جب گائیڈ جیسی جونک ساتھ چمٹی ہو تو مہار اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ہماری نکیل کی رسّی بھی مسٹر جسٹنن کے ہاتھوں میں تھی۔
گاڑی دائیں بائیں موڑ کاٹتی ہندوکلچرل سنٹر کی عمارت کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔بتا یا گیا کہ یہاں سری لنکا کے مایہ ناز آرٹسٹ مالیوی کی تصویری نمائش ہورہی ہے۔مسٹر جسٹنن کے آرٹسٹ کا پورا نام ایک ہی سانس میں لینے کی وجہ سے بس ہمیں تو مالیوی ہی یاد رہ گیا۔
سری لنکا کا بہت بڑا فخر جو کہتا ہے کہ دنیا کا ہر انسان اپنا برش اپنی ہی روح میں ڈبوتا ہے اور اپنی ہی فطرت اپنی ہی تصویروں کی شکل میں پینٹ کرتا ہے۔ایک سٹینڈ پر لکھی ہوئی اُس کی یہ بات کتنی صیح تھی۔
یہ تجریدی آرٹسٹ مسٹر جسٹنن کے مطابق اپنے وطن کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔اس کی ہزاروں سالوں کی پرانی تہذیب پر نازاں ، اسکی خوبصورتیوں پر فریفتہ اِسے دنیا بھر میں ممتاز کرنے کی دھن میں لگا ہوا ہے۔
میں جب اُن شاہکاروں کو دیکھتی تھی خدا گواہ ہے اِسے آپ میری تجریدی آرٹ فہمی کی نالائقی شمار کرسکتے ہیں۔مجھے خاک سمجھ نہیں آرہی تھی۔انسانی اشکال ضرور کہیں کہیں واضح ہوتی تھیں پر پیغام کیا تھا۔یہ سمجھنا ناممکن تھا اور کچھ ایسا ہی حال قدرتی مناظر کا تھا۔
چیختے چنگاڑتے رنگوں کی برسات ضرور تھی۔ہاں اگر کچھ تھوڑا بہت پلّے پڑا تو وہ پویلین تھا جہاں اُسنے سری لنکا کا ایک گاؤں اپنی چھوٹی بڑی جزئیات کے ساتھ پیش کیا تھا۔غریب کا جھونپڑا ،باہر تاروں پر سوکھتے کپڑے ،ہل اور ہل چلاتا سانڈ،بازار۔مندر۔دیہی زندگی کی کون سی چیز ایسی تھی جو یہاں پیش نہ کی گئی ہو۔بہت عمدہ کاوش۔
اب نیشنل میوزیم میں گُھس گئے۔پانچ صدیوں کا اثاثہ یہاں موجود تھا۔بُدھا کے کینڈی دور کے مجسموں کی یہاں بھرمار ہوئی پڑی تھی۔سر پر دھرے شعلے اور تن پر لہرئیے دار عمدہ چُغہ پہنے ہوئے صحت مند بُدھا۔
کوئی پوچھے کہ ہم جس بُدھا کا حال احوال زمانوں سے پڑھتے چلے آئے ہیں وہ تو ککھو ہولا تھا۔یہ کس کی نمائندگی ہے؟
قدیم نواب عمائدین سلطنت ان کے تاج،آرائشی سامان۔ سب سے دلچسپ حصّہ چوبی کندہ کاری کا تھا۔کیاخوبصورتی اور حُسن تھااِن چیزوں کی کندہ کاری میں۔ یہ سب گمپولا اور کینڈین ادوار کی نمائندہ تھیں۔کینڈی شہنشایت کے پہلے بادشاہ سیناوکرما بھاہاSena Wiekrama bahu 1473 سے بیسویں صدی تک۔
رائل پیلس آف کینڈی دیکھا۔پھر ڈاؤن ٹاؤن میں آگئے۔کہیں اِسکی دو اور کہیں سہ منزلہ عمارتوں کی چھتیں خفیف سی پگوڈا سٹائل کی تھیں۔کہیں عمارتیں محرابی برآمدوں اور بالکونیوں والی تھیں۔
انسانوں کے ہجوم سے بھرا پُرا۔گاڑیوں کی پی پی سے بولتا،گونجتا،بھاگتا، دوڑتا،آوازیں دیتا اور بُلاتا یہ پرانا اور قدیمی کینڈی ۔اگر ایک طرف ناریل کے پہاڑ کھڑے ہیں تو دوسری طرف انگلی بھر لمبے کیلوں کے لٹکتے گُچھے حیرت زدہ کرتے تھے۔اننا س کی میٹھی سی خوشبوئیں معطّر کئیے دیتی تھیں۔بھاری جسامتوں والے ہرے کچورآم۔سونگھا تو خوشبو نام کو نہ تھی۔ہمارے ہاں کے آم واہ کیا بات تھی اُن کی بھی سچے اور سُچے عاشقوں جیسی خوشبو رکھنے والے جس کمرے میں ہوں پورے گھر کو خبرکرتے ہیں۔ عشق اور مشک کی طرح چھپائے نہیں چُھپتے۔اپنے ہونے کا اظہار ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔
اور یہاں گھومتے پھرتے میری باتھ روم کی حاجت نے زور پکڑ لیا۔یہ حاجت مجھے گذشتہ گھنٹے سے محسوس ہورہی تھی جسکی ناکا بندی میں نے کسی موزوں جگہ کی دستیابی تک کیلئے کررکھی تھی۔مگر اب حالات زیادہ سنجیدہ ہوگئے تھے۔
مہرانساء جم کی ایک دکان میں گُھسی ہوئی تھی اور میں لاہور کے مال روڈ پر برٹش دور کی یادگار عمارتوں جیسی ہی ایک مارکیٹ میں گھومتی پھرتی نظاروں سے لُطف اندوز ہورہی تھی۔
اب میں خود سے کہتی تھی” اللہ کہاں جاؤں؟”چند لوگوں سے پُوچھا بھی مگر کسی نے مناسب رہنمائی ہی نہ کی۔مجبوراً میں نے قریبی دکان کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔پریشانی اور اضطراب یقینا میرے چہرے پر پھیلا ہوگا۔صورت پر مسکینی سی برس رہی ہوگی۔
دروازے کے پاس سے ہی کِسی نے وجہ پوچھی۔مدعابتایا۔ اس نے رہنمائی کی۔
سکھ اور سکون کا بڑا لمبا سانس تھا۔خود سے کلام بھی تھا کہ بندہ معلوم نہیں کِس پر اتراتا پھرتا ہے۔اوقات تو بس اتنی سی ہے کہ اندر گیا ہوا آدھ لیٹر پانی اگر باہر نہ نکلے تو ہارون الرشید جیسے خلیفہ آدھی سلطنت دے ڈالنے پر تل جاتے ہیں اور ہم جیسے غریبڑے اپنی پوری کائنات۔
اب اطمینان بھری نظر ماحول پر ڈالی۔یہ سُناروں کی دکان تھی۔شو کیسوں میں جلوے تھے۔قطار میں تھوڑے تھوڑے سے فاصلے پر موٹی گدیوں پر بیٹھے چار مرد تھے۔دو تین اِدھر اُدھر گھومتے تھے۔پتہ چلا کہ مسلمان ہیں۔پاکستان کا سن کر انکی آنکھیں بھی چمکیں۔
اب سُننے کو ایک کہانی تھی۔
لنکا کے خوبصورت شمالی شہر جافنا Jaffnaمیں مسلمان پچاس فیصد سے زیادہ کی تعداد کے شہری تھے۔اکثریت فشنگکے کاروبار سے وابستہ اور کاروباری ساکھ کے اعتبار سے بہت مظبوط تھے۔شہر میں بدھ ، ہندو،مسلمان اور عیسائی مل جُل کر پر امن انداز میں رہتے تھے۔جب تامل ٹائیگر ز لبریشن جیسی تنظیم کا شور اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ماردھاڑ جیسی کاروائیوں نے شہریوں میں بے چینی اور اضطراب پیدا کردیا۔
آغاز میں تو تاملوں کے حقوق کی بات تھی۔اُنکی محرومیوں کا رونا تھا۔جافنا کا مئیر ایلفرڈ دور جو ایک صُلح جو،امن و آتشی کا پرچار کرنے والا، سبھی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہمدردانہ جذبات رکھنے والے انسان کا قتل ہوا تو گویا مسلمانوں کیلئے ایک سنگین ترین صورت نے جنم لے لیا۔
‘‘بہت جلدی ہمیں اُس عذاب سے گزرنا پڑا۔جس میں صرف دوگھنٹے کے نوٹس پر بندوقوں کی نوک پر پورے جافنا کے مسلمانوں کو شہر خالی کردینے کا کہا گیا۔
بڑی دکھ بھری آہ تھی جو اُس اُدھیڑ عمر مرد کے ہونٹوں سے نکلی تھی جو سانوس نفیل تھا اور مجھے یہ سب سُنا رہا تھا۔
گھر سے بے گھری کیسا المناک اور غم انگیز تجربہ ہے کوئی ہم سے پوچھے۔کیسے ہم ریوڑوں کی طرح بھوکے پیاسے تین کپڑوں میں کیمپوں میں پناہ گزین ہوئے؟ہماری مسلم کیمونٹی نے دل کھول کر ہماری مدد کی۔گورنمنٹ نے سیٹ ہونے میں ہاتھ بٹایا۔
یہ محض اتفاق ہی تھا کہ اس وقت دکان میں گاہک نہیں تھے۔سانوس سے یہ سب سُنتے ہوئے ساتھ بیٹھے ساتھی بھی ملول سے تھے۔یقینا سب متاثرین تھے۔پرانے زخم تازہ ہوگئے تھے۔
آخر اِس تنظیم نے مسلمانوں کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا؟میں حقیقت کے اندر اُترنے کی خواہش مند تھی۔
مسلمان طبقے کا بااثر ہونا اُنہیں کِھلتا تھا۔اُنہیں وسطی اور جنوبی حصّوں میں دھکیل کر وہ پورے سری لنکا میں اشتعال انگیز صورت پیدا کرکے حکومت کیلئے مسائل پیدا کرنے اور مسلمانوں کو بقیہ فرقوں سے لڑانا چاہتے تھے تاکہ انہیں بالکل بے اثر کیا جاسکے۔دوسرے لوٹ مار کرنا بھی مقصود تھا کہ ایسے ہی حربوں سے تو وہ تنظیم کیلئے پیسہ اکٹھا کرتے تھے۔
چائے اور بسکٹ آگئے تھے۔چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے سوچیں کہاں کہاں اڑائے لئیے جاتی تھیں۔دل تو بے اختیار ہی کہیں اُس شعر میں اُلجھنے لگا تھا جو اپنی پوری صحت کے ساتھ یاد نہیں آرہا تھا۔اِس کی اُمت پر وقت بھی تو اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ پڑا تھا۔بیلنے میں ٹھنسے گنے کی طرح نچوڑ کر پھوک بنا ڈالا تھا۔
پھر ایک درخواست آئی کہ اگر آپ آج رات کو غریب خانے پر تشریف لائیں تو میری بہن سے اِس ضمن میں آپ کو بہت کچھ سُننے کو ملے گا۔وہ بہت عرصہ عرب امارات میں رہی ہے اور بہت اچھی انگریزی بولتی ہے۔اس کی ہمسائی اور مسلمان دوست کا بیٹا اِس تنظیم میں پھنس گیا تھا۔وہ آپ کو تفصیلی کہانی بھی سنائیں گی اور آپ رات کا کھانا بھی ہمارے ساتھ کھائیے۔
کہانی ،کھانے کی دعوت،گھریلو زندگی کے بہت سے رُخ۔پیشکش تو بہت کمال کی تھی۔بھلا لکھاری سیاح کو کیا چاہیے تھا۔پر ساتھ چمٹے دو بندے۔مہرانساء اور مسٹر جسٹنن ۔ ‘‘میں شکرگزار ہوں آپ کی۔میرے ساتھ میری دوست اور گائیڈ بھی ہیں۔’’میں نے بتایا۔‘‘تو انہیں بھی خوش آمدید۔’’سانوس نفیل خوشدلی سے بولے۔سچی بات ہے میں تو نہال ہوگئی تھی۔
‘‘منالوں گی دونوں کو۔’’میں خود سے کہتے ہوئے باہر نکلی۔
گاڑی تک پہنچی مسٹر جسٹنن اپنی سیٹ پر بیٹھے اخبار کے مطالعے میں گم تھے۔مہرانساء نیم دراز اُونگھ رہی تھی۔
میں نے بیٹھنے کے ساتھ اخبار سے متعلق پُوچھا اور دیکھنا بھی چاہا۔نامDivaina تھا۔سنہالی میں تھا۔رسم الخط تو مجھے بڑا آرٹسٹک سا لگا۔یہ دائروں اور نیم دائروں میں اُلجھا ہوا سا۔ہندی سے تو ہماری نظری شناسائی خاصی ہے۔اُس سے تو مجھے کوئی مماثلت نہ لگی۔ہوگی بھی تو کسی دور پار کے رشتے والی قربت کا سا تعلق ہوگا۔مسٹر جسٹنن بتاتے تھے کہ سنکرت سے قرابت داری ہے۔ہونی بھی چاہیے ماں توبرصغیر کی وہی ہے۔
مہرانساء جاگ گئی اور حسب معمول میری کلاس شروع ہوگئی تھی۔
‘‘توکھا ناکیا ہے؟’’میں نے اُس کی شکایتوں سے لبالب بھرے سوالوں کی لام ڈور کو بیچ میں سے ہی توڑتے ہوئے کہا۔
‘‘آج کینڈی کا سپیشل کھانا کری چاول کھاتے ہیں۔’’ مسٹر جسٹنن نے کہا۔
وہیں قریب ہی ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں جا گُھسے۔ ناک ناک تک آیا ہواتھا۔ بڑے سے ہال میں صرف ایک یا دو کرسیاں کہیں خالی ہونگی۔
مہرانساء باہر نکلتے ہوئے بولی۔
‘‘کوئی فاسٹ فوڈ ٹائپ چیز لے لو۔یہاں تو حشر ہوا پڑا ہے۔’’
مگر جسٹنن پریرا نے ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور تین پلیٹیں ٹرے میں رکھوا کر لے آئے۔یہ موٹے اُبلے ہوئے چاولوں ،پرانزPrawns اورسلاد کے ساتھ سجی ہوئی ڈش تھی۔
‘‘اللہ کرے ذائقہ بھی اچھا ہو۔’’میں نے کہا اور ہاتھوں کو بسم اللہ کہتے ہوئے پلیٹ میں ڈال دیا۔چلو شکر کھانا اچھا ہی تھا۔پیٹ پوجا تو ہوئی۔
یہ بہرحال مسٹر جسٹنن کی نوازش تھی کہ ساری سہ پہر اور شام انہوں نے ہمیں گاڑی میں گھمایا۔بدھسٹ پبلیکیشنز سوسائٹی کے ہیڈ کواٹرمیں لے کر گئے۔یہ وہیں جھیل کے پاس ہی ہے ۔ اتنی بڑی لائبریری اور اس میں ہرنوع کے جدید آلات اور مزے کی بات تیز گام جیسی انگریزی بولنے والے بدھ بھکشو۔یہ بھی دلچسپ بات تھی کہ کونے میں یورپی لوگوں کا ایک ٹولہ عقیدتوں کے رنگوں میں ڈوبا اُن کے ساتھ محو گفتگو تھا۔
ہم نے سری لنکا کا سفر کرنے سے پہلے ایک غلطی ضرور کی کہ تہواروں کا خیال نہیں رکھا۔وگرنہ اِس ملک کا وہ خاص الخاص تہوار جو پیراحراPerahera ہے اور جولائی کے آخر اور اگست کے پہلے ہفتے منایا جاتا ہے۔دیکھتے تو سہی ۔اب تو بات سننے تک محدود تھی۔
اس تہوار کی بھی کیا بات ہے۔ماضی کی کِسی حسین ترین طِلسماتی کہانی جیسا جس کی ہر رگ ،ہر وریدمیں سے رنگ اور سُر پھوٹیں۔ پہلے پانچ دن تو شان و شوکت کا عمومی اظہار ہوتا ہے مگر چھٹی رات اور وہ بھی چودھویں کی رات جب چاند درختوں کی چوٹیوں سے جھانکتا ہے اور بدھ بھکشوؤں کے ہاتھوں میں پکڑے جھنڈے کینڈی کی لطیف سی ہواؤں میں پھڑ پھڑاتے ہیں۔مقدس دانت گھر کی عمارت جھیل کے پانیوں میں ہلکورے کھاتی نظر آتی ہے۔اور زرد روشنیاں ایک نئے منظر کا دروازہ کھولتی ہیں۔کہیں دور سے کوڑے برسنے کی آوازیں ،راستے کھلے کرنے کیلئے آوازوں کی گھن گرج،رقص کرنے والوں کا رقص،ڈرم بجانے والوں کی ڈرمنگ ،فلیوٹ بجانے والوں کا فلیوٹ اور پہیوں پر جلتی آگ اور سونڈیں ہلاتے جُھومتے زرق برق غلافوں میں لپٹے ہاتھی۔رنگوں کی اِس برسات ،روشنیوں کے اِس طوفان ،موسیقی کے اِس شور اور آوازوں کے غل غپاڑے میں وہ خاص الخاص ہاتھی کیسا سجا سنورا جگمگاتا جس کی پشت پر دھری طلسمی سی پالکی میں وہ صندوقچہ رکھا ہوا نظرآتا ہے جس میں اس مقدس دانت کی علامتی نقل موجود ہے۔تو ایسے تہوار کو دیکھنا کیسا پُرمسرت ہوتا۔جس کے منہ زبانی قصے سن کر میری آنکھوں سے مسرتوں کی رال ٹپکنے لگی تھی۔
اور جب شام ڈھل رہی تھی۔بلندوبالا عمارتوں کی چوٹیاں سنہرے رنگ میں نہارہی تھیں۔درختوں کے جھنڈوں میں اندھیرے اور اداسی نے پاؤں پسار لئیے تھے اور ہم واپس آرہے تھے۔مسٹر جسٹنن سے درخواست کی تھی اور مقام شکر تھا کہ انہوں نے کچھ کہے بغیر ہاں کہہ دی تھی۔ساڑھے سات بجے ہم ہوٹل سے نکلے ۔پتہ کی چٹ میں نے جسٹنن کو پکڑا دی تھی۔گھر ٹاؤن ہال کے پاس ہی تھا۔دو گلیاں چھوڑ کر تیسری گلی میں۔خوبصورت گھر کشادہ دومنزلہ،چھوٹا سا لان ناریل اور پپیتے کے بوٹوں سے سجا ۔
پوراخاندان برآمدے میں آکھڑا ہوا تھا۔ہائے جی خوش ہوگیا۔
سانوس کی بیگم،دو بیٹیاں،تین بہویں ،ان کی بہن ۔ماشاء اللہ سے لڑکیاں اور پھوپھی سب انگریزی میں طاق تھیں دونوں بیٹیاں انگلینڈ میں رہتی تھیں۔رزق،علم ،شائستگی اور محبت کی فراوانی محسوس ہوئی تھی اُس گھر میں۔انتہائی لذیز کھانا ۔روسٹ فش اور چکن۔اُبلے چاول،دال،سلاد،میٹھے میں سری لنکا کی خاص مٹھائی جو صورتاً گڑ سے بہت ملتی جلتی تھی۔البتہ رنگت میں چٹی دودھ جیسی۔پُھل دوشی جگریPhul Doshi Juggryشہد اس کی اجزائے ترکیبی کا اہم جز ہے۔بھئی مزے کی چیز ہے۔
ہم بھی اچھے کھانے کیلئے دنوں سے ترسے ہوئے تھے۔خوب ڈٹ کر کھایا۔وضاحت بھی کی۔اور پھر رفیدہ سے وہ کہانی سُننے کو ملی جو ہمیں یہاں لائی تھی۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں