چوتھا اعتراض:
جمہوریت پر ایک اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ لوگوں کی رائے سے قانون سازی کرنا بدعت ہے۔
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ تشریع یا بدعت کا اصل مفہوم کیا ہے(سابقہ صفحات میں بیان کیا جاچکا ہے کہ بدعت کا مطلب ہے دین میں کسی چیز کو اس نیت سے داخل کرنا کہ وہ دین کا حصہ قرار پائے۔ مترجم)
ہم یہ بھی بیان کرچکے ہیں کہ آئینی جمہوری نظام کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ دراصل جمہوریت میں کوئی نیا دینی حکم ایجاد نہیں کیا جاتا۔ بلکہ مختلف احکام میں ٹکراو کی صورت میں کسی ایک حکم کی ترجیح کے لئے قانون سازی کی جاتی ہے۔
اور ٹکراؤ کی صورت میں شاذ (1) کی بجائے اکثریت کی رائے پر عمل کرنا ان مرجحات نوعیہ (2) میں سے ایک ہے جس کی عقل بھی تائید کرتی ہے۔
اس کے علاؤہ مقبولہ عمر ابن حنظلہ میں مذکور تعلیل بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے (3) کہ اگر کسی مسئلہ میں فقہاء کی آراء مختلف ہوں، جو مشروعیت کے لحاظ سے برابر ہوں، تو حفظ نظام کی خاطر اکثریت آراء پر عمل کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ حضرت محمد ختمی مرتبت (ص) نے بھی کئی مواقع پر اصحاب سے مشورہ کیا اور اکثریت کی رائے پر عمل کیا۔
بالخصوص غزوہ احد کے موقع پر تو آپ کی مشاورت کو فریقین (شیعہ و سنی) نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح غزوہ خندق کے موقع پر جب کھجوروں کے بدلے میں صلح کی پیشکش ہوئی تھی تو آپ نے اصحاب سے مشاورت فرمائی اور اکثریت کی رائے پر عمل فرمایا۔ (4)
اسی طرح جنگ صفین کے موقع پر جب لشکر شام کی طرف سے قرآن کو نیزوں پر بلند کیا گیا تو حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (ع) کے اکثر ساتھیوں نے تحکیم (5) کی حمایت کی۔ اس موقع پر اگرچہ حضرت سید الاولیاء کی ذاتی رائے جنگ کو جاری رکھنے کی تھی، لیکن اکثریت کی رائے کا احترام کیا اور حکمیت کو قبول کیا۔ بعد میں جب ان لوگوں کو پچھتاوا ہوا اور بالخصوص خوارج نے حکمیت کو گمراہی قرار دیا، تو امام نے فرمایا یہ رائے کی غلطی تھی نہ کہ گمراہی۔
اس کے علاؤہ بےشمار واقعات ہیں جن کو شمار کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں۔ لیکن ان واقعات کا تذکرہ مذکورہ دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی و شافی ہے۔
اور چونکہ آئینی جمہوریت پر مخالفین کی طرف سے یہ سب سے اہم اور بڑا اعتراض تھا اس لئے اس کا جواب بھی ضروری تھا اور جمہوریت کے مخالفین کی نیت کو آشکار کرنا بھی ضروری تھا۔
اس جواب سے باقی اعتراضات کا جواب بھی سمجھا جاسکتا ہے۔
بہتر ہے کہ اس مقام پر ہم وہ الفاظ بھی نقل کردیں جو ترکی کے شیخ الاسلام نے ایران کے متعلق کہے تھے۔ اور جو استنبول میں مقیم کچھ ایرانیوں کی زبانی نجف کے مرجع آیت اللہ علامہ آخوند خراسانی (6) تک پہنچے تھے۔
حضرت شیخ الاسلام کے بیانات مفصل تھے۔ ان بیانات میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ “مغربی تمدن کا یہ سیلاب عظیم جو مغرب سے اسلامی ممالک کی طرف جاری ہے، اگر اس کا مقابلہ ہم نے نہ کیا اور اسلامی تمدن کو معاشرے میں نافذ نہ کیا تو اسلام کی بنیادیں ہل جائیں گی اور آہستہ آہستہ اسلامی تمدن برباد ہو جائے گا”۔
دیکھو! ذرا غور کرو کتنا فرق ہے اس عظیم دانشور کی باتوں اور آمریت پسندوں کی باتوں میں
“ببین تفاوت رہ از کجا ست تا بہ کجا”(7)
یہ مرد بزرگ کتنی گہری سوچ رکھتا ہے۔ حالانکہ ابھی ترکی میں خودمختار عثمانی خلافت (8) قائم اور محفوظ ہے۔ پھر بھی حضرت شیخ الاسلام مستقبل کے خطرات سے آگاہ ہیں اور اسلامی تمدن کو محفوظ کرنے کے لئے آئینی جمہوریت کو بہترین راستہ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہ جمہوریت قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔لیکن ایران کے آمریت پسند اگرچہ خود کو شیعہ اثنا عشری قرار دیتے ہیں لیکن دین کے تقاضوں، قرآن و سنت کے احکام اور سیرت پیغمبر خاتم (ص) و آئمہ اطہار علیہم السلام سے بے خبر ہیں۔
حالانکہ ہمارے مذہب کی بنیاد آمروں کو غاصب جاننے پر قائم ہے۔ اور ہم اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اس آمریت کو مشروط و محدود کیا جائے ۔
کیا زمانے تھے وہ جب ہم دنیا کی قوموں میں ممتاز مقام کے حامل تھے۔ لیکن اس آمریت نے اور خواہشات کے مارے مطلق العنان بادشاہوں نے ہمیں تباہی کے گڑھے کی طرف دھکیلا ہے۔
اس سب کے باوجود آمریت پسند اپنی زندگی کے چند باقی ماندہ ایام کی خاطر فراعنہ امت اور ملک و ملت کو برباد کر دینے والے، انسانی خون کی حرمت سے نا آشنا اور عزتوں کے لٹیرے وقت کے طاغوتوں کے ساتھی بن گئے ہیں تاکہ ان کے مفادات محفوظ رہیں ۔
صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے بیرونی حملہ آور سامراجیوں کا ساتھ دینا بھی قبول کر لیا۔
چونکہ آئینی جمہوریت ہی مطلق العنان بادشاہوں اور سامراجیوں کا راستہ روک سکتی ہے اسی لئے آمریت پسند اس کے مخالف ہیں۔ وہ ملک میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ اور جمہوریت کی بربادی کے لئے ہر روز ایک نئی واردات ڈالتے ہیں۔
پہلے انہوں نے یہ کہا کہ درجہ اول کے مجتہدین کی ایک کونسل قائم ہونی چاہئے جو پارلیمنٹ پر نظارت رکھتی ہو، جبکہ آج تک اس بات پہ اتفاق نہیں ہوسکا کہ اس کونسل کا حصہ کون کون سے مجتہدین ہونگے۔ اس کے باوجود یہ مطالبہ تسلیم کرلیا گیا۔ تو انہوں نے پارلیمنٹ کی حیثیت پر سوال اٹھانے کے لئے یہ کہنا شروع کردیا کہ مجتہدین کی کونسل پارلیمنٹ کا حصہ کیوں نہیں؟ اور اس کے مصوبات قانون کا حصہ کیوں نہیں؟ (9)
حالانکہ آئین (10) میں ترمیم کے بعد یہ شق آئین کا حصہ بن چکی ہے کہ پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے تمام قوانین پر مجتہدین کی کونسل کی نظارت ہو گی اور یہ کونسل ہر اس قانون کو رد کر سکتی ہے جو شریعت اسلام کے خلاف جاتا ہو (11) اور یہ کہ مجتہدین کی کونسل کی بات ہی حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔
اس کے باوجود سادہ لوح عوام کو فریب دینے اور اپنے ساتھ ملانے کے لئے معترضین نے یہ بے بنیاد اعتراض کر دیا کہ اگر مجتہدین پارلیمنٹ کا حصہ ہونگے تو ان کی رائے دوسرے ممبران کے برابر شمار ہو گی اور اس صورت میں انہیں اکثریت کی پیروی کرنی پڑے گی!
لیکن چونکہ ہر ذی شعور اس اعتراض کے بے بنیاد ہونے سے واقف تھا، اس لیے کسی نے بھی ان کے اعتراض کی طرف توجہ نہیں دی۔
اب انہوں نے آئینی جمہوری انقلاب کو گرانے کے لئے اس کی بنیادوں پر ایک اور اعتراض کر دیا کہ اسلام میں مشروطیت(آئینی جمہوریت) کا کوئی وجود نہیں، اسلامی حکومت شرعی (12) ہونی چاہیے۔
ان سارے ہنگاموں میں ظاہراً تو شریعت اور دین کا نام استعمال ہو رہا تھا لیکن اس کا پس پردہ مقصد یہ تھا کہ آئین کے ذریعے آمریت پر لگائی جانے والی قدغنوں کو ختم کیا جائے۔
خلاصہ کلام یہ کہ آمر بادشاہوں کو اپنے اختیارات پر قدغن منظور نہیں تھی۔ اس لئے انہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے آئینی جمہوریت کے خاتمے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے انہوں نے ملک کے اندر بھی اور سرحدوں پر بھی ہنگامے شروع کروائے اور ہر وہ طریقہ اختیار کیا جس کے ذریعے آئین اور پارلیمنٹ کو ختم کیا جا سکے۔
جہاں آمر بادشاہ نے یہ کام کیا وہیں آمریت پسندوں نے بھی بڑھ چڑھ کر شاہی آمریت کے مفاد میں مختلف حیلے اور بہانے ڈھونڈنے شروع کر دیئے۔ اور ایسے ایسے حیلے تراشے کہ عرب کے مشہور و معروف عیار بلکہ پوری دنیا کے عیار ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں اور اپنی چالاکیوں کو ان سے کمتر سمجھتے ہیں۔
لیکن جب دونوں کو اس مقصد کے حصول میں ناکامی ہوئی اور عمرو عیار جیسی مشہور زمانہ چالاکیاں بھی کام نہ آئیں، تو آمروں نے اب چنگیزی حیلے شروع کر دیئے اور ملت کی جان و مال اور عزت و ناموس پر حملے شروع کر دیئے۔ دوسری طرف آمریت پسندوں نے بھی شاہی نظام کے اسلام مخالف اقدامات کا جواز پیش کرنا شروع کر دیا۔ اور صرف اسی پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر اس شخص کو دائرہ مسلمانی سے خارج کرنے لگے جس نے بھی کہا کہ بلا چون و چرا اطاعت صرف خدا کے لئے مخصوص ہے۔
اس طرح آمریت پسندوں نے ان کے ظالمانہ اقدامات کو دینی لباس پہنایا۔
اور اپنے اس عمل کے ذریعے دین اسلام کا چہرہ دنیا کی نظر میں خراب کرنے کی کوشش کی۔ ان کے ایسے اعمال کی وجہ سے دنیا کی اقوام کے سامنے شیعہ اثنا عشری کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔
جی ہاں! جو شخص علم کی وادی میں اس لئے اترے کہ وہ علم دین کے ذریعے دنیا اور مال و دولت چاہتا ہو، اس سے یہی توقع کی جاسکتی ہے۔
سچ کہا گیا کہ پست فطرت کو علم سکھانا، شراب کے نشے میں دھت زنگی کے ہاتھ میں تلوار پکڑانے سے بدتر ہے۔ (13)
حواشی و حوالے:
1: عرض مترجم : شاذ یعنی ایسا قول جو مشہور کے خلاف ہو۔
اسی طرح وہ روایت جس پر مشہور فقہاء نے عمل نہ کیا ہو وہ بھی شاذ کہلاتی ہے۔
2:عرض مترجم: جب دو قسم کی روایات کے درمیان ٹکراؤ ہو جائے تو اس صورت میں اصول فقہ کے ماہرین نے کچھ اصول مقرر کئے ہیں جن کی مدد سے ان میں سے کسی ایک روایت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ انہیں مرجحات نوعیہ کہا جاتا ہے۔
انہی مرجحات میں سے ایک مشہور پر عمل کرنا ہے۔ یعنی جس روایت یا حکم پر فقہاء کی اکثریت عمل کرتی ہو اس کو ترجیح دی جائے گی۔ علامہ نائینی اس عمل کو بھی جمہوریت سمجھتے ہیں۔ علامہ کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کرتے ہوئے بھی یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
3: عرض مترجم: مقبولہ عمر بن حنظلہ ایک مشہور روایت جس کے راوی عمر بن حنظلہ ہیں۔ اس روایت کے راوی یعنی عمر بن حنظلہ کے بارے میں ابتدائی رجالی علماء نے کوئی موقف نہیں دیا۔ لیکن چونکہ یہ روایت مشایخ ثلاثہ یعنی شیخ کلینی، شیخ طوسی اور شیخ صدوق نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہے، اور عموما فقہاء نے اس روایت پر عمل کیا ہے، اس لئے اس کو مقبولہ کہا جاتا ہے۔
اس روایت کے پہلے حصے میں طاغوتی حکمرانوں کے پاس اپنے فیصلے لے جانے سے منع کیا گیا ہے۔
جبکہ دوسرے حصے میں روایات یا احکام کے ٹکراؤ کی صورت میں ترجیح کے اصول بتائے گئے ہیں۔ جنہیں مرجحات کہا جاتا ہے۔
اس روایت میں راوی امام جعفر صادق (ع) سے پوچھتا ہے کہ اگر حکم شرعی بیان کرنے والے علماء میں اختلاف ہو جائے تو کیا کیا جائے؟
امام(ع) نے جواب میں فرمایا کہ جو عالم، زیادہ سچا ہو، فقہ میں زیادہ ماہر ہو اور عدل کے لحاظ سے بڑا عادل ہو تو اس کی بات پر عمل کیا جائے ۔
راوی نے پوچھا کہ اگر صادق الاول ہونے میں اور علم و عدل میں دونوں برابر ہوں تب کیا کیا جائے؟
تو امام (ع) نے جواب دیا کہ اس صورت میں جس کی بات پر دوسرے علماء بھی اتفاق رکھتے ہوں، اس پر عمل کیا جائے اور شاذ حکم/ روایت کو ترک کردیا جائے۔ کیونکہ مجمع علیہ(متفق علیہ) میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہوتا۔
علامہ نائینی کا اشارہ اس روایت کے اسی جملے کی طرف ہے۔ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ فقہ میں بھی اس بات کو اختیار کرنا درست ہے جس پر سب کا یا کم از کم اکثریت کا اتفاق ہو۔
اس سے جمہوریت کے اصول کی تائید ہوتی ہے۔ کیونکہ جمہوریت میں بھی اکثریت کی رائے پر عمل کیا جاتا ہے۔
4: عرض مترجم: سیرت ابن ہشام نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے کہ جنگ خندق کے موقع پر جب مشرکین کا محاصرہ شدید ہوگیا اور مسلمان بہت تنگ ہوئے تو آخر حضور (ص) نے قبیلہ غطفان کے سردار عیینہ بن حصن اور حارث بن عوف کو پیغام بھیجا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ اور مدینہ کی کجھوروں کی پیداوار سے ایک تہائی لے لو۔ اس بات پر فریقین راضی ہو گئے اور عہد نامہ لکھا گیا مگر دستخطوں اور گواہیوں کے ذریعے ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ حضور (ص) نے اوس و خزرج کے سرداروں، سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ، کو بلا کر مشورہ کیا۔ ان دونوں نے حضور(ص) سے پوچھا کہ کیا یہ خدا کا حکم ہے یا آپ کی اپنی رائے ہے؟
حضور نے فرمایا کہ خدا نے مجھے اس مسئلے میں کوئی حکم نہیں دیا۔ میں نے آپ لوگوں کی تنگی دیکھ کر یہ سوچا ہے۔ تب سعد بن معاذ نے عرض کہ “یا رسول اللہ (ص) پہلے ہم لوگ بھی ان کی طرح مشرک تھے اور بتوں کو پوجتے تھے۔ اس وقت تو عرب کو ہماری ایک کھجور لینے کے بھی جرات نہیں تھی۔ سوائے اس کے ہم سے خریدیں یا مہمان کے طور پر گھر میں آئیں۔ اور اب جو خدا نے حضور (ص) کی بدولت ہم کو ہدایت کی، ہم نے اسلام قبول کیا اور خدا نے آپ کے ساتھ ہم کو عزت دی، اب ہم ان سے دب کر کس طرح اپنا مال ان کو دے دیں۔ قسم ہے خدا کی، ہم کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم بجز تلوار کے اور ان کو کچھ نہ دیں گے۔ خدا جب چاہے گا ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔”
حضور (ص)نے فرمایا اچھا تم کو اختیار ہے اور سعد سے تحریر لیکر اس کو مٹا دیا۔
سیرت ابن ہشام، اردو ترجمہ، مولانا امجد میلسوی، جلد دوم صفحہ 343، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور۔
اس طرح سعد کا مشورہ قبول کیا گیا۔ اگرچہ سعد بن معاذ ایک آدمی تھا لیکن چونکہ وہ قبیلہ اوس کا سردار تھا۔ اس لئے اس کی رائے پورے قبیلے کی رائے شمار ہوتی تھی۔
5: جنگ صفین حضرت علی (ع) اور امیر شام کے درمیان ہوئی تھی۔ ایک موقع پر جبکہ لشکر شام کی شکست کے آثار واضح ہو چکے تھے۔ شامیوں نے قرآن نیزوں پر بلند کرلئے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان اب قرآن فیصلہ کرے گا۔ اس کے بعد دونوں طرف سے ایک ایک فرد حکمیت کے لئے مقرر کیا گیا۔ اس واقعہ کو ” واقعہ تحکیم یا واقعہ حکمیت ” کہا جاتا ہے۔
6: عرض مترجم: آخوند خراسانی، یعنی علامہ آیت اللہ محمد کاظم خراسانی، نجف کے مرجع تھے۔ وہ علامہ نائینی کے بھی استاد تھے۔ تحریک مشروطہ یعنی آئینی جمہوری تحریک میں آخوند خراسانی کا کردار قائدانہ تھا۔
7: عرض مترجم: یہ مصرعہ جو ضرب المثل کی صورت اختیار کر چکا ہے دراصل حافظ شیرازی کی ایک مشہور غزل کے مطلع کا دوسرا مصرعہ ہے۔ پورا شعر یوں ہے؛
صلاح کار کجا و من خراب کجا
ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بہ کجا
ترجمہ : نیک کام کہاں؟ اور میں رند کہاں؟
دیکھ راستے کا فرق کہاں سے کہاں تک ہے؟
8: عرض مترجم: علامہ نائینی نے جس وقت یہ کتاب لکھی اس وقت ترکی کی آمرانہ خلافت قائم تھی۔ یہ کتاب پہلی بار 1909ء میں طبع و نشر ہوئی تھی۔ جبکہ ترکی میں خلافت کا خاتمہ 1922ء میں ہوا۔
9: عرض مترجم : پاکستان میں یہی سوالات اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں اٹھائے جاتے ہیں کہ اس کونسل کے مصوبات کیوں قانونی حیثیت نہیں رکھتے؟
10:عرض مترجم: یہاں آئین سے مراد انقلاب مشروطہ (آئینی جمہوری انقلاب) کا آئین ہے۔ فارسی لٹریچر میں آئین کو قانونِ اساسی کہا جاتا ہے۔
11: عرض مترجم: شیخ فضل اللہ نوری وغیرہ کے دباؤ میں آ کر انقلاب مشروطہ کے آئین میں ترمیم کر کے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ درجہ اول کے بیس (20) علماء و مجتہدین کی ایک کونسل قائم ہوگی جو قانون سازی پر نظارت کرے گی۔ یہ کونسل اپنے درمیان میں سے پانچ مجتہدین کا انتخاب کرے گی، جو پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے۔ اور قانون سازی کے مراحل میں ان مجتہدین کی بات ماننا ضروری ہو گا۔ اس کے باوجود آئینی جمہوری انقلاب کے مخالفین اس پر اعتراض کرتے تھے۔ علامہ نائینی نے انہی معترضین کی طرف اشارہ کیا جو جمہوریت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔
12: عرض مترجم: شیخ فضل اللہ نوری اور ان کے ہم فکر یہ کہتے تھے کہ مشروطہ نہیں بلکہ مشروعہ چاہئے۔ آئینی جمہوری کی بجائے اسلامی شرعی حکومت قائم ہونی چاہئے۔
13: سعدی شیرازی نے بھی کہا تھا
سعدیا شیرازیا سبق مدہ کم ذات را
کم ذات چون عاقل شود گردن زند استاد را۔
اس کا مقصد صرف یہ کہ جس شخص کی نیت میں خرابی ہو وہ پڑھ لکھ کر بھی معاشرے میں خرابی کا سبب بنتا ہے۔
البتہ اس کا یہ مطلب نہیں لینا چاہئے کہ کچھ انسانوں کی فطرت خراب ہوتی ہے۔ کیونکہ جدید نفسیات اس کی نفی کرتی ہے۔ تعلیم و تربیت سے سوچ میں وسعت اور اخلاق میں بہتری لائی جاسکتی جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص دنیا کے لالچ میں علم حاصل کرتا ہے۔ تو اس کے علم سے معاشرے کو فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں