“وقت کی قید میں” از قلم “خالد فتح محمد”، نو افسانوں پر مشتمل مختصر کتاب ہے۔
مجموعی طور پر یہ کہانیاں قاری پر جو تاثرات قائم کرتی ہیں اُن میں سر فہرست انسانی نفسیات، نفسانی خواہشات کی پیچیدگیاں، معاشرتی و سماجی نظام میں جنسی استحصال اور بے راہ روی کا المیہ شامل ہے۔
ان افسانوں کی چند مشترکہ خصوصیات میں کرداروں کے مابین جاندار مکالمہ، ماحول کے مطابق منظر نگاری، ہر کردار کی زندگی سے تحقیق کی حد تک مکمل تفصیلات قابلِ ذکر ہیں، پھر چاہے وہ کردار زندہ انسان یا مردہ ہو، جانور ہو یا پرندہ ہو۔
آغاز اپنی پسندیدہ تین کہانیوں سے کرنا چاہوں گی جو میرے مطابق غیر معمولی فکشن میں شمار ہوتی ہیں: “کراہ”، “موت کی سرنگ” اور “نیا ذائقہ”۔
“کراہ”
اچھوتے خیال پر مبنی یہ کہانی اُلجھنوں اور محرومیوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے پُراسرار حد تک دلچسپ ہے۔
اس کہانی کی ساخت ایسی ہے جو پرت در پرت ظاہر ہوتی ہے۔
اجمالی طور پر یہ ‘تلاش’ اور ‘خوف’ کی منتقلی کا بیانیہ ہے۔ بیٹے کو باپ کی تلاش اور پھر ماں کو شوہر کی تلاش۔ اسی طرح تیسرے فرد کی موجودگی کا وہم، جو خوف میں بدل کر آگے منتقل ہو جاتا ہے اور کہانی میں تجسّس پیدا کرتا ہے۔
“موت کی سرنگ”
ایسے انسان کی خود نوشت جس کے اندر جینے کی خواہش کو مار دیا جائے۔ اسکا ظاہری وجود باقی رہے مگر زندگی بے معنی ہو جائے۔ وہ اپنے قریبی لوگوں کے زیرِ مصرف رہا، خود سے سوال کرتا اور خود کو جُھٹلاتا رہا، آخر کار اسکے چاہنے والوں نے باطن کے ساتھ ظاہر بھی اپنی ضروریات کے لیے استعمال کر لیا۔ یعنی جن پر ہم تکیہ کرتے ہیں وہی ہمارا فائدہ لے جاتے ہیں۔
یہ افسانہ حسن بلاسم کے افسانوی مجموعے “لاش کی نمائش اور دیگر عراقی کہانیاں” کی یاد دلاتا ہے۔
کہانی کا پلاٹ، اسلوب، کردار کی خود نوشت گفتگو حیرت انگیز ہے۔
“نیا ذائقہ”
ہر معاملے کی مکمل تفصیلات کے ساتھ یہ بھی ایک منفرد افسانہ ہے۔
بظاہر اس افسانے میں ارتقاء ہے، یہ انسانوں یا کتوں کے جدید دور میں ارتقائی سفر کی مہمیز مثال ہے۔ کہانی میں مرکزی کردار (کُتوں) کو بطورِ استعارہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
اسے انسان کے لیے سوچا جائے یا حیوان کے لیے، مگر بڑھتی ہوئی محرومیوں کے ساتھ معاشرے میں بھوک اور نفرت بڑھتی جاتی ہے۔ اس بھوک کو مٹانے کے لیے سب اپنے طور پر نئے حربے استعمال کرتے ہوئے ہر حد سے گزر جاتے ہیں کہ ‘زندہ رہنا زندگی کی شرط ہے’۔
“بادِ واپسیں”
ظاہری طور پر یہ کربناکی کے اسلوب پر مبنی ہے۔ ایک لڑکے کی تلاش ان سوالوں کے بارے میں جن سوالوں کے ہوتے ہوئے اُسکی زندگی الجھنوں کا شکار رہی۔
معاشرے میں اب بھی ایسی پیچیدہ نفسانی خواہشات کے غلام پائے جاتے ہیں، جن کو بنیاد بنا کر اس کہانی کا پلاٹ رکھا گیا ہے۔
“لال دوپٹہ”
تذبذب کے شکار انسانوں کی کہانی ہے جو کسی بے زاری کے سبب روایات کی مخالف سمت جانا چاہتے ہیں۔ مرد اور عورت ہونے کے بیچ ایک کے چناؤ کے لئے باطنی طور پر تیار ہیں مگر ان کا ظاہر اس کے مخالف پر عمل پیرا ہے۔
“پیر دلگیر”
عارضی لذت سے چھٹکارے کی ناکام کوشش یا جنس کے بھینٹ چڑھی تصوف کی کتھا معلوم ہوتی ہے۔
“وقت کی قید میں”
جنسی استحصال اور اس سے جڑی بدنامی کے خوف کی ایک مختصر کہانی ہے۔
“دہلیز”
ازدواجی زندگی میں سمجھوتے کی بنیاد پر چلنے والے رشتوں پر مبنی افسانہ۔
“چُپ گلی کا اندھا شور”
یک سطری رائے ‘لا حاصل کی کھوج اور حاصل کی نا قدری۔’
📌اقتباسات:
“میں مر چکا ہوں پھر بھی اداس ہوں حالانکہ اداسی بھی ایک طرح کی موت ہی ہے۔
مجھے قتل کرنا مقصد نہیں تھا، صرف مجھے یہ بتانا تھا کہ میں غیر اہم ہوں۔ مجھے قتل کر دیا گیا۔ کوئی ہتھیار استعمال نہیں ہوا۔ بس میرے اندر زندہ رہنے کی خواہش ختم کر دی گئی جو آکاس بیل بنی اور میں مر گیا۔”
افسانہ “موت کی سرنگ” سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“جہاں میں ماں کے پَروں کے نیچے محفوظ اور منظم تھا وہاں میرے اندر کم اعتمادی جنم لینے لگی تھی۔ میں بیرونی دنیا کی ہر شے ماں کی آنکھ سے دیکھتا اور پرکھتا تھا۔
میرے پاس گفتگو کے موضوع نہیں تھے۔ مجھے ماں کے دفتر کی ترتیب کے بارے میں علم تھا۔ میں دنیا کو یہیں تک جانتا اور سمجھتا تھا اور اپنے چند ہم جماعتوں کو جب آپس میں لڑکیوں، کھیلوں، کتابوں اور ہوٹلوں کے بارے میں باتیں کرتے سنتا تو حیرت سے انھیں دیکھتا کہ یہ سب لوگ کسی دوسرے کُرے سے یہاں آئے تھے یا پھر میں یہاں کا نہیں تھا۔”
افسانہ “کراہ” سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“جسے دیکھا نہ ہو وہ ہمیشہ پُر کشش لگتا ہے۔ ہم بھی ویسی وادیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔”
“صبح میرے نر کو اپنی بچھڑی ہوئی مادہ مل گئی۔ وہ دونوں کسی اور ٹھکانے کی طرف چلے گئے ہیں۔ تم اتفاق اور حقیقت کے فرق کو سمجھو اور حقیقت کو اپناؤ۔”
افسانہ “چپ گلی کا اندھا شور” سے اقتباسات۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں